خطوط نگاری انسانی تہذیب کی معراج سمجھی جاتی ہے۔ انسان نے جب تحریر کو اپنی تہذیبی روایت کا حصہ بنایا تو اسے اپنے بہترین خیالات کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔ تاریخِ انسانی میں خطوط وارداتِ قلبی و ذاتی کا سب سے اعلیٰ اظہار رہے ہیں۔ بڑی بڑی شخصیات جن میں فقرا، حاکم، شعرا، صوفیہ اور دانش ور شامل رہے، سب نے خطوط کو اپنے احکامات، وارداتِ روحانی اور شراکتِ قلبی کے لیے منتخب کیا۔ خطوط نگاری الگ سے ایک شعبہ رہا ہے، بلکہ کچھ خطوط ہی بڑی بڑی شخصیات کے علمی مقام و مرتبے کا تعین کرتے ہیں۔
ادبی خطوط میں مرزا غالب کی ادبی حیثیت کو کون نہیں مانتا! اسی طرح سیاسی سطح پر اقبال اور جناح کے خطوط، مذہبی و علمی مناقشوں میں مولانا مودودی کے خطوط بلند پایہ تہذیبی سرمایہ ہیں۔
حال ہی میں ڈاکٹر زاہد منیر عامر کا، خطوط کا ایک مجموعہ ’’خطوں میں خوابیدہ دن‘‘ شائع ہوا، یہ توشہ خاص کئی حوالوں سے اہم ہے۔
ڈاکٹر سکندر حیات میکن ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی مکتوب نگاری کے حوالے سے لکھتے ہیں:
”ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی مکتوب نگاری کا آغاز اُس وقت ہوا جب وہ ابھی اسکول کے طالب علم تھے۔ اسکول کے طالب علم کی حیثیت سے مختار مسعود کی کتاب ”آواز دوست“ ان کے ہاتھ لگی اور انہوں نے اس کتاب کے مطالعے سے ابھرنے والے سوالات اور اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے استفسارات، اپنے اسکول کے پتے سے ایک خط لکھ کر اس کے مصنف کو بھجوا دیے۔ مصنف اُس وقت آر سی ڈی کے جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے تہران میں مقیم تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لاہور کے پتے پر بھیجا گیا گورنمنٹ ہائی اسکول نمبر ایک سرگودھا کی دسویں جماعت کے طالب علم کا یہ خط ”آوازِ دوست“ کے مصف کے پاس تہران تک پہنچ گیا۔ مختار مسعود جو خط کتابت سے زیادہ تعلق نہیں رکھتے تھے ایک نوخیز طالب علم کا خط پڑھ کر متاثر ہوئے اور انہوں نے اپنے قلم سے اس خط کا جواب لکھا:
’’آپ کی سوچ اور سمجھ ماہ و سال کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے، آپ اس صلاحیت کی حفاظت کریں تاکہ اس نعمت کے بخشنے والے کا شکر ادا ہوسکے‘‘۔
مولانا سیدابوالحسن علی ندویؒ کو لکھتے ہیں:
”میری حیثیت ایک طالب علم سے بڑھ کر نہیں۔ مجھے اپ سے صرف یہ دریافت کرنا ہے کہ اس کتاب میں بحث تو کی گئی ہے صرف مولانا مودویؒ مرحوم کے نظریات متعلقہ قرآن کی چار بنیادی اصطلاحوں پر، اور کتاب کی تفصیل میں بھی صرف چار بنیادی اصطلاحوں کا ہی تذکرہ و تجزیہ ہے اور اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ مولانا مرحوم کے نظریات پر بحث ہے، گویا یہ کتاب مولانا مودودی کے افکار کا علمی و تحقیقی تجزیہ ہے اور اس پر ایک مستقل تبصرہ ہے، اس لحاظ سے اس کا نام بھی اسی اعتبار سے ہونا چاہیے تھا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کتاب قرآن کی چار بنیادی اصطلاحوں کی حقیقت اور اس حوالے سے مولانا مودودیؒ کے نظریات پر بحث کرتی ہے مگر اس کا عنوان رکھا گیا ہے ”عصر حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح“۔ اس عنوان سے جو تصور اس کتاب کے متعلق ذہن میں اترتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کتاب میں دورِ حاضر کی تمام اسلامی تحاریک اور ان کے نظریات و افعال پر بحث کی گئی ہے، مگر حقیقت میں یہ کتاب صرف تحریک کے نظریات پر بحث کرتی ہے۔“
اپنے بیٹے بلال کو لکھتے ہیں:
”ابھی نمازِ مغرب پڑھ کر آپ لوگوں کے لیے دعا کررہا تھا کہ میرے دل میں موجزن جذبات آنسو بن کر چھلک اٹھے اور وہی الفاظ ہونٹوں سے پھوٹنے لگے جن میں ہمیشہ آپ کے لیے دعا کرتا ہوں۔ میں آپ کو ایسی شخصیت کے روپ میں دیکھنا چاہتا ہوں جو اپنے وطن ہی کے لیے ہی نہیں پوری بنی نوع کے لیے فخر کا باعث بن جائے۔
آپ کو تو معلوم ہے کہ عالم عرب میں تین سال گزارنے کے بعد میرے دل میں اپنے وطن کی محبت میں اضافہ ہوگیا تھا، یورپ کے اس سفر نے بھی میرے دل میں موجود حُبِ وطن کے جذبے کو جوان تر کردیا ہے۔ مغربی معاشروں سے متعارف ہوکر مشرق کی خوبیاں روشن تر ہوگئی ہیں۔ جرمنی، سوئٹزر لینڈ، فرانس اور اسپین کے سفر نے مجھے مزید مشرقی اور پاکستانی بنادیا ہے۔ مغرب کی یہ چمک دار دنیا ہم مشرق والوں سے بڑھ کر پیاسی ہے۔ ہمارے پاس اُن کی پیاس کی تسکین کا سامان ہے لیکن افسوس کہ جس نعمت کی ہم نے خود قدر نہیں کی ہے کسی دوسرے کو پیش کرتے ہوئے شرم نہ آئے تو اور کیا ہو…! جی چاہتا ہے کہ میرے بچے مشرق اور مغرب کے علوم پر اتنی دسترس حاصل کرلیں کہ بیک وقت ان دنیائوں کو اپنے علم و عمل کی روشنی سے منور کرسکیں، اس کے لیے بہترین وقت یہی ہے کہ جو اِن دنوں گزر رہا ہے، اس وقت آپ اسے جیسا بنانا چاہیں بناسکتے ہیں۔ یہ وقت گزر جانے کے بعد آپ خود اپنی شخصیت کی حدود کے اسیر ہوجاتے ہیں۔ مغربی قوموں کی ترقی کے پیچھے جدید علوم کے ساتھ ان کے لیے پناہ تعلق، سائنس اور ٹیکنالوجی میں کمال کا حصول اور صبرو تحمل جیسی خوبیاں شامل ہیں۔ فرانس میں ٹریفک میں اگر گھنٹوں بھی پھنسے رہیں تو لوگ ہارن نہیں بجاتے، جرمن نہایت عمدگی سے پیش آتے ہیں، اسپین کے لوگ آپ کے سوال کا جواب اتنے خلوص سے دیتے ہیں کہ گہرے تعلق کا گمان ہونے لگتا ہے۔ یہ خوب صورت لوگ ہیں۔ اسلام ہم سے جن صفات کا مطالبہ کرتا ہے ان میں سے اکثر صفات ان میں موجود ہیں۔ ایمان کی دولت سے اس لیے محروم ہیں کہ ہم نے ایمان کا کوئی اچھا نمونہ پیش نہیں کیا، ورنہ جدید طرز زندگی کی معاشی مجبوریوں نے انہیں جکڑ رکھا ہے۔ اس میں انہیں اسلام جیسی راہِ نجات اس کے صحیح روپ میں مل جائے تو ان کے لیے اس سے بڑا کوئی تحفہ نہیں۔ لیکن اسلام کا تحفہ انہیں کون پیش کرے، وہ جنہوں نے اسلام کا حلیہ بگاڑ رکھا ہے؟
کل جہاں مسلمان اپنی دولت، طاقت و اقتدار کے بے مثال نمونے تخلیق کررہے تھے آج وہاں ان نمونوں میں نماز پڑھنے سے بھی محروم ہیں۔ میں نے مسجد قرطبہ میں نماز شروع کی تو ایک سپاہی نے آکر مجھے روک دیا۔ میں ایک رکعت پڑھ چکا تھا، اس کی کھینچاتانی پر سلام پھیرا، اسے اپنے نبیؐ کا اسوہ یاد دلایا کہ کس طرح انہوں نے مسجد نبوی میں عیسائیوں کو اپنے طریقے سے عبادت کرنے کی اجازت دی تھی۔ اس نے میری باتوں کو غور سے سنا اور سراہا لیکن وہ اپنی حکومت کے حکم کا پابند تھا، اس نے کہا کہ اگر آپ نماز پڑھنا چاہتے ہیں تو باہر فلاں مسجد ہے وہاں پڑھ سکتے ہیں۔ یہ کیتھڈرل ہے۔ حالانکہ یہ کیتھڈرل نہیں، ساری دنیا جانتی ہے کہ مسجد ہے جسے گردشِ دوراں نے کیتھڈرل بنادیا ہے۔
آپ اپنی زندگی کی عمارت کو ایسا بنائو کہ ہر آن ایک نئی مسجد قرطبہ تخلیق کرسکو، ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان۔ جب زندگی موقع دے تو آپ بھی قرطبہ، اشبیلیہ، غرناطہ اور مدینۃ الزہرہ میں واقع مسلم عروج کے ان آثار کو دیکھنا، ہوسکتا ہے آنے والے کل میں اس سے برتر مستقبل تعمیر کرسکو… میں فرانس میں تھا، مجھے آپ کی ای میل ملی جس میں آپ نے الیکٹرک گٹار لانے کا مطالبہ کیا تھا، مجھے بے ساختہ اپنے محبوب شاعر اقبال کی نظم یاد آگئی جو انہوں نے اپنے فرزند کے ایسے مطالبے کے جواب میں لکھی تھی جب انہیں لندن میں اُس کے ہاتھ کا لکھا ہوا خط ملا تھا جس میں گراموفون باجا لانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ میں اپنے پیارے بیٹے کے بالکل ویسے ہی مطالبے کا وہی جواب دے رہا ہوں جو اقبال نے اپنے بیٹے کو دیا تھا:
دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکوتِ لالہ و گل سے کلام پیدا کر
اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں
سفال ’’پاک‘‘ سے مینا و جام پیدا کر
میں شاخِ تاک ہوں میری غزل ہے میرا ثمر
میرے ثمر سے مئے لالہ فام پیدا کر
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
آپ سے پیار کرنے والا آپ کا ابو“
”خطوں میں خوابیدہ دن“ ڈاکٹر زاہد منیر عامر کے مختلف علمی و ادبی شخصیات کے نام لکھے گئے خطوط کا پہلا باقاعدہ مجموعہ ہے۔ ڈاکٹر زاہد منیر عامر کے اس مجموعہ مکاتیب میں 1980ء میں لکھے گئے خطوط سے لے کر زمانہ حال تک خطوط شامل ہیں۔
اس مجموعہ مکاتیب میں ڈاکٹر زاہد منیر عامر کے ڈیڑھ سو شخصیات کے نام خطوط شامل ہیں۔ بنیادی طور پر یہ اردو خطوط کا لاجواب مجموعہ ہے، نمونے کے طور پر اس میں ڈاکٹر صاحب کے عربی، فارسی اور ترکی خطوط بھی شامل کرلیے گئے ہیں۔ انگریزی خطوط شامل نہیں کیے گئے، اس کے علاوہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات پر رائے دیتے ہوئے جو خطوط لکھے گئے ہیں وہ اگرچہ گراں قدر علمی و تحقیقی مباحث اور نکات سے پُر ہیں لیکن اس کی ضخامت بہت زیادہ ہوجانے کے باعث انہیں بھی شامل نہیں کیا گیا۔ ان کے زیادہ تر شخصیات کے نام دو دو، چار چار خطوط شامل ہیں مگر خورشید رضوی صاحب کے نام سب سے زیادہ خطوط شامل ہیں جن کی تعداد چونتیس ہے۔ اسی طرح پروفیسر اصغر عباس، ڈاکٹر جاوید اقبال، ڈاکٹر جمیل جالبی، جمیل یوسف، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، محمد سہیل عمر، پروفیسر ڈاکٹر سویاما نے یاسر، مشفق خواجہ اور پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل کے نام خطوط کی تعداد نمایاں طور پر زیادہ ہے۔ ان خطوں میں خوابیدہ باتیں اور خوابیدہ دن قارئین کو نظر نواز ہوں گے۔ علمی و ادبی شخصیات کے خطوط کی اشاعت ایک صحت مند سرگرمی ہے جس کی تاریخ میں خود ڈاکٹر زاہد منیر عامر صاحب کا نمایاں حصہ ہے۔ اب خود ان کے خطوط قارئین تک پہنچ رہے ہیںجو کسی علمی تحفے سے کم نہیں۔
امید کی جاتی ہے کہ ڈاکٹر زاہد منیر عامر کے یہ روشن ادب پارے اردو ادب میں خطوں کی روایت اور مختلف علمی و ادبی حوالوں سے معلومات کا مستند اور مفید ذریعہ ثابت ہوں گے، جس پر وہ بلاشبہ مبارک باد کے مستحق بھی ہیں۔
ڈاکٹر سکندر حیات نے اپنے استادِ محترم کے خطوط کی جس محنتِ شاقہ کے ساتھ جمع آوری میں نمایاں کردار ادا کیا ہے اس پر وہ انتہائی مبارک باد کے مستحق ٹھیرتے ہیں اور انہوں نے نہایت ہی بے مثال روایت قائم کی ہے، اس پر ان کا جتنا شکریہ ادا کیا جائے کم ہے۔
خوب صورت سرورق کے ساتھ بہترین کاغذ اور اعلیٰ حروف خوانی کے ساتھ کتاب نہایت ہی شاندار پیش کش ہے۔ کتاب اعلیٰ پیمانے پر طبع ہوئی ہے۔ بلاشبہ نگارشات ناشران نے اعلیٰ ذوق و شوق کے ساتھ اسے شائع کیا ہے۔