قصۂ یک درویش! والد صاحب اور بچپن

دسویں قسط

ہمارے گائوں اور اس کے آس پاس کے کچھ علاقے میں پھل دار درختوں میں نہ تو آم ہوتا تھا اور نہ ہی انار، مالٹا اور کیلا وغیرہ ۔ آم، انار اور مالٹے کے ایک آدھ درخت کہیں کہیں کسی بستی میں اور وہ بھی کسی چار دیواری کے اندر ہی پائے جاتے تھے۔ عام کھیتوں میں یہ ناپید تھے۔ جامن، شہتوت، لسوڑے، بیر، پیلو اور انجیر کے پھل دار درخت ہی ہوتے تھے۔ انجیر کے تو صرف ایک دو پودے ہی ہمارے گائوں کے قبرستان میں شمالی باڑ کے ساتھ لگے ہوئے تھے۔ باقی سب پھل دار درخت بڑی تعداد میں ہمارے کھیتوں میں اور قبرستان میں بھی ہوتے تھے۔ کہیں کہیں کھجور کے درخت بھی ہوتے تھے۔ سب سے اچھا اور اعلیٰ کوالٹی کا پھل دیسی بیر ہوتے تھے۔ یہ ذائقے دار، میٹھے اور گری والے بیر وافر مقدار میں دستیاب ہوتے تھے۔ ایک مخصوص پھل جو بیری کی قسم کی چھوٹی کانٹے دار جھاڑیوں پر لگتا تھا، عموماً کھٹا ہوتا تھا۔ یہ چھوٹے سائز کا گول مٹول پھل تھا جسے ہماری زبان میں کوکنی کہتے تھے۔ قلیل تعداد میں بعض جھاڑیوں کا پھل میٹھا ہوتا تھا اور اس کی مٹھاس بے مثال ہوتی تھی۔

انجیر کے درخت پر جو پھل لگتا تھا وہ لڑکے بالے کچا ہی اتار کر ضائع کردیا کرتے تھے۔ اسی طرح کھجوریں بھی تقریباً کچی ہی درختوں سے گر جایا کرتی تھیں، مگر بہت ذائقے دار ہوتی تھیں۔ انھیں ڈوکے کہا جاتا تھا۔ ہمارے کھیتوں میں خربوزہ اور تربوز بہت اچھی کوالٹی کے اور بہت بڑی مقدار میں پیدا ہوتے تھے۔ ان جیسی مٹھاس اور ذائقہ آج کل کے خربوزوں اور تربوز میں ناپید ہے۔ ممکن ہے اس کی وجہ نئے ترقی یافتہ بیج ہوں، نیز مغربی انداز کی جدید کھادوں اور کیمیکلز نے بھی ہر فصل کی پیداوار بڑھانے کے ساتھ اس کی کوالٹی کو خراب کردیا ہے۔

ہمارے کھیتوں میں گنا بہت اچھا ہوتا تھا اور اس سے اعلیٰ کوالٹی کا گڑ بنایا جاتا تھا۔ گڑ بنانے کی مشینری تو اب بھی ہماری حویلی میں کہیں کونے کھدرے میں پڑی ہے، مگر گڑ بنانے کا عمل کئی سال سے معطل ہے۔ آج کل مویشیوںکے چارے کے لیے جو گنا کاشت کیا جاتا ہے اسے بانسی کماد کہا جاتا ہے جو بہت سخت ہوتا ہے اور چوسنے میں بڑی مشکل پیش آتی ہے۔ اس سے قبل ہمارے ہاں جو گنا ہوتا تھا وہ انتہائی نرم، شیریں اور مزیدار ہوتا تھا۔ اسے گاجری کماد کہا جاتا تھا اور وہ رس سے بھرپور ہوتا تھا۔ اس سے بنا ہوا گڑ، شکر اور دیسی چینی بہت مزیدار ہوتی تھی۔

عام کسانوں کے برعکس ہمارے والد صاحب کا مزاج خاصا مختلف تھا۔ آپ اگرچہ طبعاً غصیلے اور جلالی مزاج کے مالک تھے مگر بعض معاملات میں بہت نرم خو تھے۔ آپ کے حکم سے ہمارے کھیتوں سے چوسنے کے لیے کوئی بھی شخص ایک گنا توڑ لیتا تو اسے اس کی مکمل اجازت تھی، ہمارے والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ یہ چوری نہیں بلکہ کسان کا صدقہ ہے، البتہ ایک سے زائد توڑنا جرم شمار ہوتا تھا اور جرم پر والد صاحب کا رویہ سخت ہوتا تھا۔ اس لیے لوگ اپنی آزادی کے استعمال میں محتاط ہوتے تھے۔ اسی طرح کھیتوں سے ساگ یا چنے کی فصل سے چھولیا کھانے یا پکانے کے لیے کوئی خاتون لے جاتی تو اسے ممانعت نہیں تھی۔ اس موقع پر بھی والد صاحب ہمیشہ فرماتے: ’’اس سے پیداوار میں کمی نہیں، اضافہ ہی ہوتا ہے۔‘‘ یہ سب بچپن کی حسین یادیں ہیں۔

بچپن میں کھیل کود کی سرگرمیوں اور پڑھائی کے ساتھ مسجد میں حاضری اور نماز کی ادائیگی کا بھی اہتمام ضروری ہوتا تھا۔ ہمارے گائوں میں چھوٹی عمر ہی سے مسجد کے ساتھ اکثر بچوں کی وابستگی روزمرہ معمولات کا حصہ بن جاتی تھی۔ ہماری مسجد میں نماز جمعہ اُس دور میں شروع ہوئی تھی جب ہمارے تایا جان میری پیدائش سے کئی سال قبل 1937-38ء میں دینی اداروں سے فارغ التحصیل ہوکر باقاعدہ عالم دین بن کر آئے۔ آپ بہت بڑے صاحبِ علم اور نہایت اچھے مقرر تھے۔ میں نے اپنی صحت میں بہتری آنے کے بعد پانچ چھے سال کی عمر سے مسجد جانا اور نمازوں میں شرکت شروع کردی تھی۔ سات آٹھ سال کی عمر میں اللہ کے فضل سے تایا جی کا خطاب بزبان پنجابی اچھی طرح سمجھ لیتا تھا۔ آپ دھیمے لہجے اور علمی انداز میں تقریر فرمایا کرتے تھے۔ خطاب میں سیرت انبیا ؑ، سیرتِ رسولِ رحمتؐ اور سیرتِ صحابہؓ کے واقعات تو ناموں کے ساتھ مجھے یاد ہوجاتے تھے۔

جب میں بارہ تیرہ سال کا ہوا تو تایا جان مجھے کبھی کبھار حکم دیتے کہ میں ان کی تقریر سے قبل دس بارہ منٹ کے لیے کسی موضوع پر خطاب کروں۔ مجھے شروع میں تو یہ بات عجیب لگی کہ میں ان کے سامنے کیا تقریر کروں گا! خیر پہلے دن میں حکم کی تعمیل میں کھڑا ہوا تو یاد نہیں حمد و ثنا کے بعد کون سی آیت پڑھی۔ البتہ یہ یاد ہے کہ اس میں حضرت مصعب بن عمیرؓ ، حضرت بلالؓ اور حضرت سمیّہؓ کی سیرت ہائے مبارکہ سے کچھ واقعات پیش کیے جس میں بتایا کہ صحابہ و صحابیات نے کس طرح سخت آزمائشوں کے باوجود اپنے دین پر ثابت قدمی دکھائی اور اللہ نے ان کو دنیا اور آخرت کی کامیابیوں سے نوازا۔ میرا خطاب آٹھ نو منٹ سے زیادہ نہیں تھا۔

قصہ مختصر یہ کہ اس ناتراشیدہ کی اس گفتگو کی تحسین کی گئی۔ غالباً یہ حوصلہ افزائی کے لیے پیٹھ ٹھونکنے والا معاملہ تھا۔ حکمت کا ہمیشہ یہ تقاضا ہوتا ہے کہ کسی بھی میدان کے مبتدی کی دل شکنی کے بجائے حوصلہ افزائی کی جائے۔ آہستہ آہستہ یہ سلسلہ آگے بڑھتا چلا گیا اور میں نے اسلامی کتب کا مطالعہ بھی زیادہ ذوق و شوق سے شروع کردیا۔ اسکول میں تو میں چوتھی جماعت سے اسمبلی میں تلاوت اور کبھی کبھی اردو میں آٹھ دس منٹ کی تقریر بھی کیا کرتا تھا۔ تایا جان کی موجودگی میں کچھ کہنا بہت بڑا امتحان تھا۔ آپ کا علمی مقام و مرتبہ ایسا تھا جس کی مثال اسکول کے اساتذہ کرام کے اندر نہیں ملتی تھی، اگرچہ وہ سب بھی میرے لیے انتہائی محترم تھے۔ ایک ڈیڑھ سال کے بعد ایک روز تایا جان نے کہا ’’ادریس! آج جمعہ کا پورا خطاب تمہی کو کرنا ہے۔‘‘ اب تک کچھ کچی پکی مہارت ہوگئی تھی، مگر یہ کام آسان نہ تھا۔ بہرحال میں نے اس میدان میں اترنے کے لیے ذہن تیار کرلیا۔

اللہ کا نام لے کر حمد و ثنا اور درود و سلام کے بعد کچھ آیات از سورۂ یوسفؑ کی تلاوت کیں اور تقریر شروع کردی۔ اس خطاب میں مَیں نے قصۂ حضرت یوسف علیہ السلام کی روشنی میں گفتگو کی اور حضرت یوسفؑ کی سیرت کے ساتھ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ اور اخلاقِ عالیہ خصوصاً برموقع فتح مکہ سے مماثلت بیان کی۔ میں بزرگوں کی طرف بھی دیکھتا تھا اور عام نمازیوں کے تاثرات بھی نوٹ کرتا تھا۔ الحمدللہ! آج کی آدھے گھنٹے کی تقریر سے میرے سبھی بزرگان اور مسجدکے نمازی بہت خوش ہوئے۔ تایا جان نے فرمایا ’’عربی خطبہ بھی تم کو ہی پڑھنا ہے۔‘‘ تایا جان اور حافظ شیر علی صاحب کی زبانی ہر جمعہ کے روز عربی خطبہ سن سن کر مجھے یہ لفظ بہ لفظ یاد ہوچکا تھا۔ میں نے آسانی سے خطبہ پڑھ دیا۔ نماز حافظ شیر علی صاحب نے پڑھائی۔

ایک خاص بات اپنے قارئین سے شیئر کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ کہ تایا جان محترم حافظ غلام محی الدین مرحوم تقریر وغیرہ سے اب کنی کترایا کرتے تھے۔ شاید تھک چکے تھے یا حکمت کے تحت میری تربیت کرنا چاہتے تھے۔ میرا خیال ہے دونوں ہی عوامل تھے۔ ماہِ رمضان میں ہر روز تو نہیں کبھی کبھار تایا جان نماز تراویح کے بعد خلاصۂ آیات بیان فرمایا کرتے تھے جسے سن کر بڑا لطف آتا تھا۔ پھر کچھ سالوں کے بعد آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں یہ کام بھی کیا کروں۔ حکم کی تعمیل میں یہ کام بھی شروع کردیا۔ تفہیم القرآن سے متعلقہ منزل کے مضامین و تشریح سمجھنے کی کوشش کرتا اور جو سمجھ میں آتا، بیان کردیتا۔ اُس دور میں تفہیم القرآن کی چوتھی جلد نئی نئی آئی تھی۔ آخری پانچ پارے یعنی جلد پنجم اور ششم ابھی نہیں چھپے تھے۔ ان کی تشریح دیگر اردو تفاسیر جو تایا جان کی لائبریری میں دستیاب تھیں، کے مطالعے سے مفہوم سمجھ کر نذرِ سامعین کی گئی۔

بعد کے زمانے میں جب کبھی گائوں کی جامع مسجد میں قرآن مجید سناتا تو تلخیصِ مضامینِ قرآن کی یہ ذمہ داری اداکرتا۔ جب کہیں کسی اور مقام، کالج، یونیورسٹی، جیل وغیرہ میں سناتا تو وہاں بھی اس معمول کو جاری رکھتا۔ میری کتاب ’’تحفہ رمضان‘‘ خلاصہ مضامین قرآن انہی خلاصہ جات کی تحریری شکل ہے جو احباب کے اصرارپر کیسٹس سے اتاری گئیں اور پھر میں نے ان کی ایڈیٹنگ کر کے اسے کتابی صورت دی۔ کینیا میں بارہ سالہ قیام اور پھر تین سالہ سہ ماہی دوروں کے دوران وہاں کے احباب ہر روز نمازِ تراویح کے بعد خلاصہ باقاعدگی سے پوری جزرسی کے ساتھ ٹیپ کرتے تھے، مگر وہاں کی ریکارڈنگ میرے پاس محفوظ نہیں تھی۔ پاکستان میں ریکارڈنگ کے جو حصے دستیاب ہوسکے، ان کی مدد اور مزید تحریر کے ذریعے یہ کام پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ یہ کتاب بہت مقبول ہوئی۔ ادارہ معارف اسلامی لاہور کے زیر اہتمام اس کا پہلا ایڈیشن 2008ء میں چھپا اور گیارہواں 2023ء میں طبع ہوا۔

بچپن میں اردو اخبارات میں مضامین وغیرہ پڑھنا تو بہت پہلے سے معمول تھا مگر چھٹی جماعت سے مطالعہ ٔ کتب کا شوق پروان چڑھا۔ اس سے قبل گھر میں آنے والے اخبارات و رسائل اور مولانا مودودیؒ کے چھوٹے کتابچے ’’حقیقت اسلام‘‘، ’’حقیقت صوم و صلوٰۃ‘‘، ’’سلامتی کا راستہ‘‘ وغیرہ پڑھنے کا تو اسکول جانے کی ابتدا ہی سے شوق تھا۔ مولانا کی تحریروں میں سے اس دور میں بہت کم حصے ہی سمجھ میں آتے تھے، مگر پھر بھی ان سے عشق و محبت کا رشتہ قائم تھا۔ ہمارے ہاں روزنامہ تسنیم، ماہنامہ ترجمان القرآن، ہفت روزہ کوثر، ہفت روزہ شہاب اور بعد میں ہفت روزہ ایشیا اور ماہنامہ تجلی(انڈیا) باقاعدگی سے آتے تھے۔ ماہنامہ تجلی میں میرا پسندیدہ کالم ’’مسجد سے میخانے تک‘‘ تھا، جس میں عامر عثمانی مرحوم مزاحیہ انداز میں بہت اچھے مضامین لکھا کرتے تھے۔

اسی دور میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنے کا شوق پیدا ہوا اور ’’رحمۃ للعالمین‘‘ از قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری کی پہلی جلد ایک سے زیادہ مرتبہ پڑھ لی۔ پھر مزید کتابیں تلاش کرنے اور مطالعہ کرنے میں دلچسپی بڑھی تو اسکول کی لائبریری میں سے مختلف کتابیں جاری کروا کے پڑھتا رہا۔ ان میں افسانوں اور ناولوں کی کتابیں بھی ہوتی تھیں اور سیرت ِ نبویؐ، سیرتِ صحابہؓ و صحابیاتؓ اور تاریخ کی تصانیف بھی۔ اسکول لائبریری کا پورا نقشہ، کتابوں کی الماریاں اور کتب کی ترتیب اب تک ذہن میں محفوظ ہے۔ اس کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کا باقاعدہ اہتمام کرنے کا شرف بھی حاصل رہا۔

1956ء میں ایک دلچسپ واقعہ جوڑا اسکول کے دورِ تعلیم میں میرے ساتھ پیش آیا۔ ہوا یوں کہ نہر سویز کا جھگڑا مصر اور غیر مسلم ممالک فرانس و برطانیہ اور اسرائیل کے درمیان پیدا ہوا تو اسکول اسمبلی میں مَیں نے اپنے خیال کے مطابق مغربی طاقتوں کے خلاف زوردارتقریر کی۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان اور دیگر اسلامی ملکوں کی بے حسی پر بھی سخت الفاظ میں تنقید کی۔ میری عمر اُس وقت تقریباً گیارہ بارہ سال تھی۔ ہیڈماسٹر میر برکت علی صاحب نے حکومت پر تنقید کو پسند نہ کیا اور کچھ عرصے کے لیے میری تقاریر پر پابندی لگادی۔ عجیب بات یہ ہوئی کہ اس پابندی کی وجہ سے میری شہرت میں کمی کے بجائے اسکول کے اندر اور مقامی آبادیوں میں بھی خاصا اضافہ ہوا۔

اسکول کے طلبہ نے اس معمولی سے واقعے کو یوں پھیلایا جیسے کوئی بڑا حادثہ ہوگیا ہو۔ جب پابندی ہٹائی گئی تو میں نے اور زیادہ کھل کر روزنامہ ’’تسنیم‘‘ کے مضامین اور اداریوں کی روشنی میں حکمرانوں کو نشانۂ تنقید بنانا شروع کردیا۔ نائب ہیڈ ماسٹر سید مبارک علی شاہ صاحب (رکن جماعت اسلامی) میرے خطابات پر بہت خوش ہوتے اور بعد میں میری تحسین فرمانے کے ساتھ کوئی غلطی ہوتی تو اس کی تصحیح بھی فرماتے۔ جب ایوب خاں کا مارشل لا لگا تو شاہ صاحب نے ناصحانہ انداز میں فرمایا ’’اب ذرا محتاط انداز میں بات کیا کرو۔‘‘ حق مغفرت کرے کیا عظیم مربّیانہ شخصیت تھی۔ قافلۂ مودودیؒ کے ان ابتدائی مسافروں کو دیکھ کر سلفِ صالحین کی یادیں تازہ ہوجاتی تھیں۔

ایک تصحیح: قارئین سے معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ قسط نمبر 9 میں علامہ اقبال کا ایک بہت معروف شعر غلط چھپ گیا۔ نہ تو میں نے چیک کیا اور نہ ہی کمپوزر نے خیال کیا۔ برادرم محمد رفیق دانش یار صاحب جو بہت جزرس ادیب ہیں، نے توجہ دلائی۔ اصل شعر یوں ہے:

اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و سازِ رومیؔ کبھی پیچ و تابِ رازیؔ
(جاری ہے)