غزہ کی مزاحمت: اسرائیلی فوج اور حماس کا مقابلہ؟

(پندرھویں قسط)

ہارورڈ یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر ایلن ڈرشووِز نے مزید دعویٰ کیا کہ حماس کے رہنماؤں نے بڑھک ماری تھی کہ اُنہوں نے مساجد میں اسلحہ اور گولہ بارود چھپا رکھا ہے۔ اس سلسلے میں بھی اُنہوں نے، حسبِِ معمول، کوئی ثبوت پیش کرنے کی زحمت گوارا نہ کی۔ اسرائیلی فوج نے جو وضاحتیں پیش کیں اُن سے یہ ثابت نہ ہوسکا کہ مساجد میں حماس کے جاں بازوں نے پناہ لی ہوگی، کیونکہ مینار بہت پتلے تھے اور اُن میں اِتنی گنجائش بھی نہ تھی کہ اسلحہ چھپایا جاسکتا۔ ڈیوگرڈ رپورٹ میں یہ نکتہ بھی درج تھا کہ مسجد کی عمارت اور میناروں کو صرف اس لیے نشانہ بنایا گیا کہ وہ اسلام کی علامت تھے۔

اسرائیلی فوجیوں نے آپریشن کاسٹ لیڈ کے بعد جو گواہیاں ریکارڈ کروائیں اُن سے ثابت ہوتا ہے کہ مساجد کو کسی جواز کے بغیر، بلا امتیاز نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیلی فوج نے خفت مٹانے کے لیے یہ بھی کہا کہ حماس کے کارکنوں نے تعلیمی اداروں کو بھی اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا اور اُن میں پناہ لینے کے ساتھ ساتھ اسلحہ بھی چھپایا۔ جب اس سلسلے میں کوئی ثبوت فراہم کرنے کو کہا گیا تو اسرائیلی فوج نے صرف ایک تصویر پیش کی جو 2007ء کی تھی۔ غزہ کی اسلامک یونیورسٹی کو نشانہ بنانے کا جواز پیش کرنے کے لیے اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ یہ حماس کا ہتھیاروں سے متعلق تحقیقی مرکز تھا اور یہاں بڑے پیمانے پر اسلحہ ذخیرہ بھی کیا جاتا تھا۔ مزید یہ کہ اس عمارت کو حملوں کی منصوبہ سازی کے مرکز کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ دعویٰ بھی یکسر بے بنیاد تھا کیونکہ غزہ کی اسلامک یونیورسٹی ایک نمایاں چیز تھی جس میں حماس کی سرگرمیوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اگر حماس نے ایسی کسی عمارت کو اپنی سرگرمیوں کو مرکز بنایا ہوتا تو اسرائیلی انٹیلی جنس کے لیے اُس کا سراغ لگانا کون سا مشکل کام ہوتا؟

اگر یہ مان لیا جائے کہ اسرائیل نے اسلامک یونیورسٹی کو اس لیے نشانہ بنایا کہ یہ حماس کی سرگرمیوں کا مرکز تھی تو پھر غزہ میں دیگر جامعات اور چھوٹے تعلیمی اداروں کو پہنچنے والا نقصان کس کھاتے میں رکھا جائے گا؟ گولڈ اسٹون رپورٹ کے مرتبین کو تعلیمی اداروں میں حماس کی سرگرمیوں کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ اسرائیلی فوج نے بتایا کہ حماس کے ایک جنگجو نے تفتیش کے دوران اعتراف کیا کہ حماس کے کارکنوں نے کئی اسکولوں کی عمارتوں سے راکٹ داغے کیونکہ اُنہیں یقین تھا کہ اسرائیلی طیارے اسکولوں کی عمارتوں کو نشانہ نہیں بنائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ جب اسرائیلی فوج نے متعدد اسکولوں کو بار بار نشانہ بنایا تو پھر حماس کے جنگجو کو کیا پڑی تھی کہ اسکولوں میں سرگرمیاں جاری رکھنے کا اعتراف کرتا؟

اسرائیل نے ایک طرف تو یہ دعویٰ کیا کہ اس کا خفیہ معلومات جمع کرنے کا نظام بہت شاندار ہے اور اس کے ذریعے صرف حقیقی معلومات جمع ہوتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اسرائیل کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ اس کے پاس جو نقشے ہیں ان کے ذریعے اہداف کا تعین پوری قطعیت کے ساتھ کیا گیا ہے، اور دوسری طرف جو ہتھیار اسرائیلی فوج کے پاس ہیں وہ بھی اہداف کو پوری قطعیت کے ساتھ تباہ کرتے ہیں تو پھر غزہ میں اِتنے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان کیونکر ہوا؟ اس سے تو یہ اندازہ بہت آسانی سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیلی فوج نے غزہ میں وسیع البنیاد تباہی کی بہت پہلے سے تیاری کررکھی تھی۔ جو کچھ بھی غزہ میں رونما ہوا اُسے دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ منصوبہ سازی غیر معمولی اور وسیع البنیاد تھی۔ چین آف کمانڈ بھی تھی اور تمام مطلوب وسائل بھی۔ غزہ میں جتنی بھی کارروائیاں کی گئیں وہ سوچ سمجھ کر، پوری تیاری اور قطعیت کے ساتھ کی گئیں۔ کسی بھی مرحلے پر یہ اندازہ نہ ہوسکا کہ اسرائیلی فوج کچھ بھی محض الل ٹپ کررہی ہے۔ اگر اسرائیل کا یہ دعویٰ بالکل درست مان لیا جائے کہ جو کچھ بھی ہوا وہ پہلے سے طے تھا اور پوری منصوبہ سازی و تیاری کے ساتھ کیا گیا تو پھر اِتنے بڑے پیمانے کی تباہی دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ چین آف کمانڈ میں مختلف مراحل میں فاش غلطیاں اور کوتاہیاں ہوئیں اور اس معاملے میں اعلیٰ فوجی قیادت کا محاسبہ ہونا چاہیے۔ غزہ میں جو کچھ ہوا وہ ہر اعتبار سے طے شدہ تھا۔ سپاہیوں نے اعلیٰ افسران کے احکامات پر عمل کیا۔ فوج کے اعلیٰ حکام نے وہی کیا جو سیاسی قیادت نے کرنے کو کہا۔ ماننا پڑے گا کہ غزہ کے باشندوں پر ڈھائی جانے والی قیامت اسرائیلی سیاست دانوں کی طرف سے تھی۔ یہ گواہی کسی اور نے نہیں، بنیادی حقوق کی سب سے بڑی علَم بردار تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے دی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا کہ جو کچھ غزہ میں ہوا وہ کسی بھی مرحلے میں ایک جامع منصوبے سے الگ نہیں تھا۔

غزہ کو اسرائیلی فوج کے ہاتھوں جس تباہی اور بربادی کا سامنا کرنا پڑا اُس کے حوالے سے اپنی جان چھڑانے کے لیے اسرائیل کو جھوٹ پر جھوٹ کا سہارا لینا پڑا۔ کارڈزمین رپورٹ میں بتایا گیا کہ حماس نے بہت بڑے پیمانے پر اسلحہ اور گولہ بارود جمع کر رکھا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ ایران نے بہت بڑے پیمانے پر ایسے راکٹ فراہم کیے جو جنوبی اسرائیل میں دور تک مار کرنے کی اہلیت رکھتے تھے۔ اور یہ بھی کہ حماس نے متعدد مقامات پر ایسا نیٹ ورک قائم کر رکھا تھا جس کی مدد سے کسی بھی وقت اسرائیل پر حملہ کرکے پسپائی اختیار کرلی جاتی تھی۔ کارڈزمین نے دعویٰ کیا کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان یہ لڑائی بھی 1967ء، 1973ء اور 2006ء کی جنگوں جیسی تھی جبکہ درحقیقت ایسا کچھ نہیں تھا۔ کارڈزمین کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ اسرائیل نے اپنا پورا منصوبہ انتہائی خفیہ رکھا۔ حماس اور اُس کی ہم خیال تنظیموں کو ہوا تک نہیں لگنے دی اور دیکھتے ہی دیکھتے حماس کا پورا نیٹ ورک انتہائی نقصان سے دوچار ہوا۔ اسرائیلی فوج اور اُس کے ذرائع نے بھی دعویٰ کیا کہ حماس کے تربیت یافتہ جنگجوؤں کی تعداد 10 ہزار سے زیادہ تھی۔ کارڈزمین نے یہ تعداد 6 سے 10 ہزار کے درمیان بتائی تھی۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ حماس کے جنگجوؤں کو ایران اور شام سے سپلائیز ملتی ہیں۔ ایران زیادہ آگے رہا ہے۔ اسرائیلی فوج اور اُس کے طرف دار اداروں کی رپورٹس میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ حماس نے صرف ہتھیار حاصل کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ تحقیق کے ذریعے خود بھی ہتھیار تیار کیے اور اسرائیل کو زیادہ سے زیادہ نشانہ بنانے کی صلاحیت پروان چڑھانے پر توجہ دی۔

کارڈزمین کو تمام تر جانب داری کے باوجود یہ تسلیم کرنا پڑا کہ یہ کسی بھی اعتبار سے جنگ نہیں تھی کیونکہ طاقت کے معاملے میں اسرائیلی فوج سے حماس کا کوئی مقابلہ ہی نہ تھا۔ اسرائیلی فوج کے پاس جدید ترین ہتھیار اور متعلقہ ساز و سامان تھا۔ وہ کسی بھی طرح کی صورتِ حال میں لڑائی جاری رکھنے کی صلاحیت سے بہرہ مند تھی۔ حماس ایک خاص علاقے تک محدود تھی جبکہ اسرائیلی فوج کے لیے کسی بھی طرح اور کسی بھی سطح تک متحرک ہونے کی پوری گنجائش تھی۔ اسرائیلی فوج نے زمینی لڑائی سے گریز کیا۔ وہ جانی نقصان سے بچنا چاہتی تھی۔ بمباری پر زور تھا۔ اسرائیلی فوج نے بیشتر کارروائیاں رات کے وقت کیں کیونکہ اُس کے پاس رات کے وقت حملے کرنے میں مدد دینے والی ٹیکنالوجیز تھیں۔ حماس کے پاس یہ ٹیکنالوجیز نہیں تھیں اس لیے اُس کے جنگجو رات کے اوقات میں حملوں سے گریز کرتے تھے۔ کارڈزمین نے انتہائی بے شرمی سے بھرے پُرے شہری علاقوں میں بمباری سے متعلق اسرائیلی فوج کی مہارت کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ کارڈزمین کے دعووں اور ’’ثبوتوں‘‘ کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کے لیے یہ سب کچھ کسی بھی حیثیت میں جنگ نہ تھی۔ حماس کو خود اسرائیلی تجزیہ کاروں نے ایک نان اسٹیٹ ایکٹر قرار دیا ہے۔ یہ لڑائی ایسی ہی تھی جیسے کسی ٹب میں چند مچھلیاں چھوڑ کر اُن کا شکار کیا جائے۔

اسرائیلی فوجی افسروں نے بڑھکیں ماریں کہ بیشتر علاقوں میں بمباری سے کام لیا گیا اور بعض علاقوں میں مجموعی طور پر تین ہزار اسرائیلی فوجی اتارے گئے تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اسرائیلی فوج کے بعض افسران نے زمینی لڑائی کے دعوے بھی کیے، تاہم ان دعووں میں حقیقت برائے نام تھی۔ حماس کے جنگجوؤں سے اسرائیلی فوجیوں کا سامنا شاذ و نادر ہی ہوا۔ کبھی کبھی اگر اسرائیلی فوجی حماس کے جنگجوؤں کے سامنے آئے بھی تو اُس وقت جب حماس کے جنگجوئوں میں وہ پھنس کر، گِھر کر رہ گئے۔

ایسا نہیں ہے کہ اسرائیل میں سبھی نے ایک ایسی جنگ میں فتح کا جشن منایا جو درحقیقت جنگ تھی ہی نہیں۔ ایک سینئر سیاسی تجزیہ کار نے کہا کہ اسرائیلی فوج کے لیے ایک ایسی جنگ میں فتح کا جشن منانا انتہائی خطرناک ہے جس میں اُس کے مقابل کوئی تھا ہی نہیں۔ جب جنگ، جنگ ہی نہیں تھی تو اُس میں فتح کیسی اور فتح کا جشن کیسا؟ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ 22 دن کی لڑائی میں کسی ایک معرکے میں بھی حقیقی مقابلہ تو ہوا ہی نہیں۔ کرائسز گروپ نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ حماس نے اسرائیلی فوج سے براہِ راست مقابلے یا تصادم سے گریز کیا اور چھپ چھپ کر حملے کرنے کو ترجیح دی۔ یہی سبب ہے کہ حماس کا جانی نقصان بہت کم ہوا۔ متعدد اسرائیلی فوجی افسران اور سپاہیوں نے اپنے بیانات میں کہا کہ ہم جہاں بھی گئے، ویران بستیوں نے ہمارا خیرمقدم کیا۔ انسان تو نہ ملے، ہاں تھوڑے بہت مویشی ضرور دکھائی دیے۔ متعدد فوجی افسران نے بتایا کہ حماس کے جنگجو سامنے آنے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ وہ تعداد میں کم ہیں۔ اُن کے لیے جانی نقصان بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اسرائیلی سپاہیوں کو فائرنگ کا بھی کم ہی سامنا کرنا پڑا کیونکہ حماس کو ایسا کرنے کی صورت میں جوابی کارروائیوں میں غیر معمولی جانی نقصان کا اندیشہ تھا۔ اسرائیلی فوج کے سپاہیوں نے اس اعتراف میں بخل کا مظاہرہ نہیں کیا کہ اُنہیں مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ بعض مکانات سے اِکا دُکا دھماکے سنائی دیے تاہم مزاحمت پھر بھی نظر نہیں آئی۔ اسرائیلی سپاہیوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ کبھی کبھی تو ہمیں ایک ہفتے تک کوئی ذی رُوح دکھائی نہ دیتا تھا۔ اِسی نوعیت کی باتیں دیگر غیر جانب دار رپورٹس میں بھی درج ہیں۔ گولڈ اسٹون رپورٹ میں درج ہے کہ اسرائیلی فوجیوں کا خیال تھا کہ غزہ میں داخل ہوتے وقت زیادہ مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، تاہم حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی درجے میں مزاحمت ہوئی ہی نہیں۔ اسرائیلی سپاہیوں کو بھی اس پر بہت حیرت ہوئی۔

مقبوضہ بیت المقدس کی ہبریو یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے ایک اسرائیلی فوجی سے گفتگو کے بعد بتایا کہ غزہ میں اسرائیلی فوجیوں کے لیے سب سے بڑی آزمائش یہ نہیں تھی کہ فلسطینیوں میں سے کسے جنگجو سمجھیں، بلکہ یہ تھی کہ حماس کے کسی جنگجو کو کہاں تلاش کریں۔ اسرائیلی فوجیوں کا اگر کہیں ٹاکرا ہوا بھی تو عام شہریوں سے، جن کا لڑائی سے کسی طرح کا کوئی تعلق نہ تھا۔ اسرائیلی فوجیوں کے لیے پریشان کن بات یہی تھی کہ کہیں کسی بھی طرح کی مزاحمت تھی ہی نہیں اور اُنہیں کسی جنگجو نے نشانہ بنانے کو ترجیح ہی نہیں دی۔ اس کے باوجود اتنے بڑے پیمانے پر کی جانے والی بمباری اور تباہی انتہائی حیرت انگیز ہی نہیں، شرم ناک بھی ہے۔ کہیں بھی جنگ کی گرمی نہ تھی، نہ لڑائی کے نتیجے میں پیدا ہونے والا دھواں۔

غزہ میں جو تباہی ہوئی وہ حماس کا دہشت گردی کا نیٹ ورک ختم کرنے کے اسرائیلی دعوے یا فلسطینی علاقوں کا بنیادی ڈھانچہ تباہ کرنے کے ارادوں سے کہیں بڑھ کر تھی۔ یہ تو فلسطینیوں کو اجتماعی طور پر سزا دینے کی باتوں سے بھی بڑھ کر کچھ تھا۔ اسرائیلی فوج نے غزہ کا بنیادی ڈھانچہ ہی تباہ کردیا۔ اسکول، اسپتال، مساجد، پُل، سڑکیں کچھ بھی نہیں بچا۔ ایسے میں یہ سوال تو بنتا ہی ہے کہ آخر اسرائیلی قیادت اس آپریشن سے حاصل کیا کرنا چاہتی تھی؟ کارڈزمین نے اپنی رپورٹ میں صاف لکھا ہے کہ غزہ میں شدید جانی و مالی نقصان کے ذریعے اسرائیلی قیادت یہ ثابت کرنا چاہتی تھی کہ لبنان، شام، ایران اور عراق یہ سمجھ لیں کہ اُس کے پاس غیر معمولی ردِجارحیت ہے، کوئی اُس سے ٹکرانے کے بارے میں نہ سوچے۔ (جاری ہے)