پچھلی حکومتوں کی طرح کئی بدعنوان چہرے اس حکومت میں بھی شامل ہیں
بلوچستان کی نئی حکومت بعض سطحی اقدامات میں لگی ہوئی ہے جیسے شہر کی صفائی، اسپتالوں کے اچانک دورے۔ اس طرح کی نمائشی اچھل کود کا سلسلہ چل رہا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ صوبے میں کوئی بھی سرکاری محکمہ راہِ راست پر نہیں ہے۔ خرابیاں اور برائیاں اوپر سے نیچے تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اس بربادی میں تمام حکومتیں شامل رہی ہیں۔ اب جو نئے چہرے متعارف کرائے گئے ہیں وہ بھی کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ شہر کوئٹہ کا مسئلہ محض صفائی نہیں۔ یہاں شہریوں کو گوناگوں مسائل کا سامنا ہے، اور شہر کی بربادی ہر سو دکھائی دیتی ہے۔ بہتری کے مشن دینے والے بھی خرابیوں کی بڑی وجہ ہیں۔ امن کی صورتِ حال پہلے کی طرح اب بھی بڑا مسئلہ ہے۔ 20 مارچ کو گوادر میں گوادر ڈویلپمنٹ پورٹ اتھارٹی کے کمپلیکس میں کالعدم بی ایل اے کے 8 مسلح جنگجوئوں کا گھسنا، مرتے دم تک لڑنا، نتیجے میں 2 اہلکاروں کا جاں بحق ہونا، اور اس کے محض چند دن بعد تربت میں نیول بیس پر پھر اسی کالعدم گروہ کے مسلح افراد کا حملہ، نوشکی میں حساس ادارے کے دفتر پر دستی بم سے حملہ، اور 31مارچ کو گوادر میں آرمی کے بم ڈسپوزل اسکواڈ کے 2 اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ… یہ سب واقعات خراب حالات کا پتا دے رہے ہیں، جبکہ سرکار کانفرنسوں کے ذریعے امن کا راگ الاپ رہی ہے اور روایتی حربوں میں لگی ہے۔ وقتاً فوقتاً گلزار امام اور اس کے ساتھ ایک اضافہ سرفراز بنگلزئی کا بھی ہوچکا ہے جنہیں شریک کرایا جاتا ہے، تقاریر کرائی جاتی ہیں۔ یہ دونوں کالعدم مسلح گروہ بلوچستان نیشنلسٹ آرمی سے تھے۔ گلزار امام سربراہ تھے، سرفراز بنگلزئی سرکردہ کمانڈر تھے، اب یہ دونوں خصوصی نگرانی میں ہیں۔
پچھلی حکومتوں کی طرح یہ حکومت بھی بدعنوانی اور اقربا پروری کی نئی مثالیں قائم کرے گی۔ کئی بدعنوان پرانے چہرے اس حکومت میں بھی شامل ہیں۔ یہ اتنی بے اختیار حکومت ہے کہ اب تک اپنی مرضی اور ترجیحات کے تحت کابینہ تشکیل نہیں دے سکی ہے۔ کابینہ اُن کی منشا کے مطابق قائم کی جائے گی جو ان کو کامیاب کرانے والے ہیں۔
الیکشن میں دھاندلیوں کے خلاف متعدد ناکام امیدوار عدالتوں سے رجوع کرچکے ہیں، مگر انصاف کی توقع عبث ہے۔ اب تو انصاف کے گھروں میں بھی لینڈ مافیا، نوکریوں اور ترقیاتی بجٹ سے حصہ لینے والے آکر بیٹھ گئے ہیں جنہوں نے اپنے ایجنٹ چھوڑ رکھے ہیں، ان کے ذریعے آئینی درخواستیں لگوائی جاتی ہیں جس پر اسٹے دے کر مطلب براری کی جاتی ہے۔ بلوچستان کے اندر آرمی کے کوٹے پر آنے والے سول و انتظامی افسران بڑے مکرم ٹھیرائے گئے ہیں۔ یہ کئی کئی سال تک تعینات رہتے ہیں، باقی بیچارے بمشکل ایک جگہ سال ڈیڑھ سال ہی تعینات رہ پاتے ہیں۔ ان کے تبادلے مذاق بن چکے ہیں۔ یہ وزراء، اراکین اسمبلی اور اسٹیبلشمنٹ کے دستِ نگر بن چکے ہیں۔ بلوچستان میں صوبے کی تمام 11 سینیٹ نشستوں پر مقررہ دن سے پہلے بلامقابلہ انتخاب بھی ہدایت کے تحت ہوا ہے۔ نون لیگ، پیپلز پارٹی اور باپ پارٹی مکمل طور پر تابع ہیں۔ وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی اور ان تین جماعتوں سے وابستہ اراکینِ اسمبلی سینیٹ کے بلامقابلہ انتخاب کو بڑا کارنامہ کہتے اور اپنی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے، حالاں کہ ایسا کرنے کا انہیں حکم ملا ہے۔ فائدہ نیشنل پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور جے یو آئی کو ملا ہے۔ جے یو آئی البتہ اوپر والوں کی ترکیب میں شریک تھی۔ جے یو آئی نے معروف ٹھیکیدار سابق سینیٹر احمد خان کو ٹکٹ دے کر اگرچہ خرچہ بھی برابر کیا ہے۔ واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ اوپر والوں کی منشا بھی یہی تھی۔ اسی طرح صوبائی امیر مولانا عبدالواسع نے خود کو ٹیکنوکریٹ کی نشست پر کامیاب کرایا۔ نیشنل پارٹی کے جان بلیدی اس درمیان منتخب ہوگئے۔ انوارالحق کاکڑ آزاد امیدوار تھے، باپ پارٹی کے پانچ اراکین اسمبلی یعنی سارے اُن کے ووٹر تھے۔ انوار کاکڑ جنرل نشست پر کامیاب ہوئے ہیں۔ اگر انتخابات ہوتے تو انہیں فارمولے کے تحت باقی ووٹ جے یو آئی سے ملنے تھے۔ بہت سارے اراکین اسمبلی یقینا اس بلامقابلہ انتخاب پر دل گرفتہ ہوں گے۔ وہ اس لیے کہ بلوچستان میں انتخابات کے لیے تائید اور تجویز کے لیے رکن پچاس لاکھ سے ایک کروڑ روپے تک لیتے ہیں۔ اِس بار فی ووٹ پندرہ کروڑ روپے قیمت کی باتیں ہورہی تھیں۔ بہرحال مسلم لیگ (ن) سے جنرل نشست پر آغا شاہ زیب درانی اور سیدال ناصر اور خواتین پر راحت فائق جمالی سینیٹر منتخب ہوئی ہیں۔ شاہ زیب درانی دوسری بار سینیٹر بنے ہیں جو سابق وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کے برادر نسبتی ہیں، 2017ء میں اپنے بھائی شہباز درانی کی وفات کے بعد پہلی بار سینیٹر بنے تھے۔ سیدال ناصر البتہ پارٹی کے دیرینہ کارکن ہیں، طویل عرصے سے ان کی وابستگی ہے، مشکل حالات میں پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے۔ راحت جمالی کا تعلق معروف جمالی خاندان سے ہے۔ سابق صوبائی وزیر فائق جمالی کی اہلیہ اور سابق اسپیکر جان جمالی کی بہن ہیں۔ 2013ء میں بلوچستان اسمبلی کی رکن اور صوبائی وزیر رہ چکی ہیں، حالیہ انتخابات میں انہیں جماعت اسلامی کے عبدالمجید بادینی کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ پیپلز پارٹی سے جنرل نشست پر سردار محمد عمر گورگیج،ٹیکنوکریٹ پر بلال احمد مندوخیل اور خواتین کی نشست پر حسنہ بی بی منتخب ہوئی ہیں۔ حسنہ بی بی آصف علی زرداری کے کارندۂ خاص علی حسن زہری کی بہن ہیں۔ علی حسن زہری نے پی بی21حب سے الیکشن لڑا ہے۔ مقابلے میں سردار صالح بھوتانی تھے جو جیت گئے، لیکن ووٹوں کی دوبارہ گنتی پر تنازع کی وجہ سے نتیجہ التوا میں ہے۔ علی حسن زہری کی بیوی ثمینہ ممتاز 2021ء کے سینیٹ انتخابات میں ’باپ‘ پارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئیں۔نو منتخب سینیٹر سردار عمر گورگیج سابق وفاقی وزیر ہیں۔ ان کے بیٹے اور دو دیگر رشتے دار بلوچستان اور قومی اسمبلی کے ارکان ہیں۔ نو منتخب سینیٹر بلال مندوخیل سپریم کورٹ کے جسٹس جمال مندوخیل کے بھائی،نون لیگ کے رہنما سابق سینیٹر سعیدالحسن مندوخیل اور نون لیگ کے صوبائی صدر جعفر مندوخیل کے قریبی رشتے دار ہیں۔ جمعیت علماء اسلام کی جنرل نشست پر احمد خان خلجی، ٹیکنوکریٹ پر مولانا عبدالواسع، اور نیشنل پارٹی کے صرف جان بلیدی جنرل نشست پر کامیاب ہوئے ہیں۔ نیشنل پارٹی کے بلوچستان میں 5 ارکان ہیں۔ کمال یہ ہوا کہ عوامی نیشنل پارٹی کے ایمل ولی خان بھی بلوچستان سے سینیٹر منتخب ہوئے ہیں۔ ایمل ولی کو پیپلز پارٹی کی حمایت حاصل تھی۔ عام انتخابات میں شکست کے بعد ایمل ولی خان نے روایتی تنقید شروع کردی تھی، چناں چہ سینیٹر منتخب کراکر اُن کا منہ بند کرنے کی کوشش ہوئی ہے۔ مرضی شامل نہ ہوتی تو پیپلزپارٹی کی کیا مجال کہ وہ ایمل ولی کو ووٹ دینے کا فیصلہ کرتی۔ ایمل ولی نے انتخابات سے چند روز قبل اپنا پتا خیبر پختون خوا سے کوئٹہ میں اپنے پارٹی رہنما سینیٹر ارباب فاروق کاسی کے گھر کا لکھوادیا ہے۔ بلوچستان کی نمائندگی قومی اسمبلی میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس بنا پر ایوانِ بالا میں تمام صوبوں کے ارکان کی تعداد برابر ہے، مقصد یکساں نمائندگی ہے۔ مگر جب دوسرے صوبوں سے لوگ آکر سینیٹر منتخب ہوں گے، تو وہ کس طرح صوبے کے نمائندے تصور ہوں گے! پیپلز پارٹی بلوچستان کے لوگوں کی جیت فارم 47کے ذریعے ہوئی ہے۔ گویا جن کی جیت کسی کی مرہونِ منت ہو وہ بھلا کیسے حکم عدولی کرسکتے ہیں؟