مسلم لیگ (ن) کے سربراہ، وفاقی حکومت کے سرپرستِ اعلیٰ میاں نوازشریف نے خاموشی کا روزہ رمضان المبارک کے مقدس ماہ میں توڑتے ہوئے معاشی تباہی کا گھنٹال بجا دیا۔ کہتے ہیں ’’آئی ایم ایف کے کہنے پر بجلی، گیس مزید کتنی مہنگی ہوگی؟ عوام کے صبر کو کب تک آزمایا جائے گا؟ کاشت کار کو اُس کی محنت کا پورا صلہ کب ملے گا؟ آڑھتی اور ملوں والوں کے استحصال سے کاشت کار کو بچایا جائے۔‘‘ ایک جانب بڑے میاں صاحب آئی ایم ایف کے ہاتھوں عوام کی چھترول پر نالاں ہیں اور دوسری جانب آئی ایم ایف کے ساتھ انتہائی سخت شرائط کے ساتھ چھوٹے میاں صاحب کی نومنتخب حکومت ڈیل کے لیے پُرامید ہے۔ پاکستان میں غربت کا شکار افراد کی تعداد 12 کروڑ 66 لاکھ سے زائد ہے۔
میاں نوازشریف کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر بجلی، گیس مزید کتنی مہنگی ہوگی، تو دوسری جانب انہی کی حکومت آئی ایم ایف کو رام کررہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ پاکستان معاشی طور پر تباہ ہے، قرضوں میں جکڑے ملک کو آئی ایم ایف کی بھیک کا سہارا درکار ہے۔ عرصۂ دراز سے ملک آئی ایم ایف کی بھیک سے چل رہا ہے۔ تجارتی خسارہ گزشتہ نو ماہ کے دوران 22 ارب 90 کروڑ روپے ہے جب کہ مہنگائی میں بھی 48 فیصد سے زائد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ مہنگائی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔
300 ارب روپے سرکاری افسران کے شاہانہ طرزِ زندگی پر خرچ ہورہے ہیں۔ آئی ایم ایف سے ڈیل تو ٹھنڈے کمروں میں بیٹھنے والے اور لمبی گاڑیوں میں سفر کرنے والے کرتے ہیں لیکن خون غریب عوام کا چوسا جاتا ہے۔ کاش حکمرانوں کے طرزِ زندگی اور عیاشیوں میں کمی آتی۔ دوسری جانب آئی ایم ایف نے ایک مرتبہ پھر بجلی کے بل بڑھانے کی تجویز دی ہے تاکہ آئی ایم ایف کی تمام اقساط مع سود وقت پر ادا ہوسکیں۔ نومنتخب حکومت نے پوری طرح یقین دہانی کروائی ہے کہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط کو من و عن قبول کرتے ہوئے غریبوں کی گردنوں پر پائوں رکھا جائے گا۔ رمضان المبارک میں عوام کو مہنگائی کے ایسے سپرد کیا گیا ہے جیسے بھوکے شیر کے سامنے کمزور، لاچار بکری ڈال دی جائے۔ سبزیاں، پھل، دالیں اور گوشت… ہر چیز کو پر لگ چکے ہیں۔ مڈل کلاس طبقہ اور غریب جتنا اِس دور میں پریشان ہے شاید ہی ایسی قیامت خیز پریشانی عوام کو کبھی لاحق ہوئی ہو۔
عوام کو نومنتخب حکومت سے ابھی بھی توقعات ہیں کہ بجلی کے یونٹ کی قیمت میں کمی ہوگی، پیٹرول سستا ہوگا اور سوئی گیس کی قیمتوں میں نمایاں کمی ہوگی جس کے وعدے مریم نواز، بلاول بھٹو اور علیم خان نے کیے تھے۔ اب یہ تینوں شخصیات برسراقتدار ہیں۔ چند ہفتے قبل مریم نواز، بلاول اور علیم خان نے کہا تھا کہ بجلی کے یونٹ 200 سے 300 فری کردیں گے۔ عوام پوچھ رہے ہیں کہ وہ وقت کب آئے گا جب یہ وعدے وفا ہوں گے، یا یہ وعدے بھی عمران خان کے پچاس لاکھ گھروں اور ایک کروڑ نوکریوں کی طرح زبانی جمع خرچ تھے؟ یا ان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کوئی پلاننگ اور روڈمیپ نہیں بنایا گیا تھا؟ اس کا فیصلہ بھی بہت جلد ہوجائے گا۔ عوام چیخ چیخ کر دُہائی دے رہے ہیں کہ ہمیں جینے دو، ہمیں وائی فائی نہیں سستا آٹا، گھی، چینی، بجلی، گیس اور پیٹرول چاہیے۔ اگر آئی ایم ایف کے ساتھ نئی ڈیل کے نتیجے میں بجلی پھر مہنگی ہوتی ہے تو نومنتخب حکومت کے خلاف عوامی نفرت بڑھے گی۔ جو توقعات شہبازشریف اور مریم نواز سے ہیں وہ بھی چکنا چور ہوجائیں گی۔ مسلم لیگ (ن) کی رہی سہی ساکھ بھی بہت متاثر ہوگی۔ عوامی نفرت سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے، وہ ہے مہنگائی میں کمی۔
میاں نوازشریف نے آئی ایم ایف کے ہاتھوں مہنگائی کے طوفان کی جانب اشارہ ضرور کیا لیکن اس سے چھٹکارے کا حل نہیں بتایا۔ یہ نہیں بتایا کہ کس طرح وفاق اور صوبے اپنے خرچ کم کرکے ملکی خزانے کو تباہی سے بچا سکتے ہیں، جو 300 ارب روپیہ افسر شاہی کی عیاشیوں پر خرچ کردیا جاتا ہے اس کو کیسے ضائع ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ قیادت کا کام روڈمیپ دینا ہوتا ہے نہ کہ اپوزیشن کی طرح بیانات دینا۔ اگر حکومت کا سرپرستِ اعلیٰ اپوزیشن لیڈر کی طرح بیانات دے کر عوام میں مقبول ہونا چاہے تو اسے اُس کی بے بسی اور لاچاری ہی کہا جاسکتا ہے۔
آئی ایم ایف کی شرائط کے ساتھ حکومت اور پاکستان کو چلانا ناممکن ہوچکا ہے، عوام کی قوتِ خرید میں زبردست کمی آئی ہے۔ گھر گھر بجلی کا بل 25 سے 30 ہزار روپے آرہا ہے۔ متوسط طبقہ گھر چلائے یا بجلی کے بل ادا کرے! حکمرانوں کی مجرمانہ پالیسیوں کی بدولت غریب زندہ درگور ہوچکا ہے، اور جو بچ گئے ہیں وہ خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ غریب اور بالخصوص مڈل کلاس طبقے کی دادرسی کی جائے کیونکہ سفید پوش طبقہ جو نہ بھیک مانگتا ہے اور نہ کسی سے سوال کرتا ہے، سب سے زیادہ متاثر ہے اور سب سے زیادہ پس رہا ہے۔ اگر فی الوقت مہنگائی کم کرنا ممکن نہیں تو کم از کم اسے بڑھنے سے روکا جائے۔ اگر مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند نہ کیا گیا تو انتشار کا خطرہ مزید بڑھے گا، جس سے ملک عدم استحکام کا شکار ہوسکتا ہے۔
مہنگائی کم ہوگی تو نومنتخب حکومت کا گراف بلند ہوگا، کیونکہ شیخ سعدیؒ کے بقول خالی پیٹ انسان کو کفر تک لے جاتا ہے۔ جب ملک میں غربت ہوگی تو انارکی، چوری، ڈکیتی اور کرائم ریٹ بڑھے گا۔ سب سے زیادہ مایوسی کا شکار نوجوان ہیں جن کے پاس ڈگریاں تو ہیں لیکن نوکری نہیں۔ آگے بڑھنے کے لیے راستہ نہیں۔ نوجوانوں کی کثیر تعداد یورپ اور دوسرے امیر ممالک جانے کی خواہاں ہیں۔ یورپی ممالک کے سفارت خانوں کے باہر رش اس بات کا غماز ہے کہ نوجوان مایوس ہوچکے ہیں اور بہتر روزگار کے لیے خوشحال ممالک جانا چاہتے ہیں تاکہ ان کی معاشی بدحالی کا مداوا ممکن ہوسکے۔ کب تک ان کو لیپ ٹاپ اور وائی فائی کا بھاشن دے کر چپ کرایا جائے گا؟ آج کا نوجوان باشعور ہے، اس کو معلوم ہے کہ موجودہ تعلیم اس کے روشن مستقبل کی ضامن نہیں ہے۔ ایسی تعلیم دی جائے جس کا تعلق ہنر سے بھی ہو تاکہ نوجوان تعلیم کے بعد بے روزگار نہ نظر آئے۔ لاکھوں روپے دے کر ڈگری لینے کے بعد نوجوان ذہنی اذیت کا شکار ہیں کیونکہ گھر کے خرچے پورے نہیں ہورہے۔ والدین کو پریشان دیکھ کر نوجوان جب آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نہیں دیکھ پاتے تو وہ شارٹ کٹ تلاش کرتے ہیں۔ اکثر یہ شارٹ کٹ نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ لاتعداد نوجوانوں نے یورپی ممالک کے لیے ویزے کی درخواستیں دے رکھی ہیں، تاکہ روزگار میسر ہوسکے۔ یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ پاکستان میں کچھ نہیں رکھا، باہر جائو تاکہ مستقبل روشن ہو۔ نومنتخب حکمرانوں کو سوچنا ہوگا کہ پانچ سال کے لیے وہ جیسے تیسے منتخب ہوگئے۔ انہیں عوام کو کیا ریلیف دینا ہے، معاشی بدحالی کے شکار ملک کو کس طرح مہنگائی کے چنگل سے نکالنا ہے، مڈل کلاس طبقے کو کس طرح سہارا دینا ہے، اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں استحکام کس طرح لانا ہے۔ زبانی جمع خرچ کے بجائے اب عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ حکمران غریب کو نچوڑنے کے بجائے اپنی عیاشیاں کم کریں، اپنی شاہ خرچیوں کو ختم کریں، سیکورٹی کے نام پر اشرافیہ اور وزراء کو جو پروٹوکول میسر ہے اسے ختم کیا جائے، روزانہ لاکھوں لیٹر پیٹرول جو سرکاری گاڑیوں میں جاتا ہے اس کو ختم کرکے قومی خزانے کو تباہی سے بچایا جائے، بجلی اور گیس سستی کی جائے تاکہ مہنگائی کم ہو۔ ملک کو آئی ایم ایف کی بھیک کے بجائے سادگی سے چلایا جائے تاکہ غریب کا چولہا بھی جلے اور آئی ایم ایف کی غلامی سے آزادی کا خواب پورا ہو۔ یقین کرے پوری قوم اُس دن کی منتظر ہے جب چیف جسٹس فیصلہ قرآن کو سامنے رکھ کر کریں۔