صاف پانی اگر دستیاب ہو تو آدھی بیماریوں سے بچ جائیں،ڈاکٹر ٹیپو سلطان کا انٹرویو

سادہ کھانا کھائیں، زندگی اصولوں کے تحت گزاریں ہر حال میں خوش رہیں، غصہ نہ کریں

ڈاکٹر ٹیپو سلطان کراچی کے سول اسپتال میں اینستھیزیالوجی کے سربراہ کے ساتھ ساتھ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ آپ ڈاؤ میڈیکل کالج کے پرنسپل اور کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز میں اینستھیزیالوجی کی فیکلٹی کے ڈین بھی رہ چکے ہیں۔ انسان دوستی، سماجی بہبود، فنونِ لطیفہ اور ثقافت سے وسیع وابستگی کے علاوہ بین الاقوامی اعزازات بھی رکھتے ہیں۔ آپ سے معاشرے میں پھیلنے والی بیماریوں خاص طور پر کینسر کی وجوہات پر تبادلہ خیال ہوا جس کی روداد نذرِ قارئین ہے۔

فرائیڈے اسپیشل: ڈاکٹر صاحب! وقت کے ساتھ ساتھ بیماریوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، ہمیں ذرا یہ بتائیے کہ لوگ صحت مند رہنے کے لیے کیا کریں؟ صحت مند زندگی کیسے گزاری جاسکتی ہے؟

پروفیسر ڈاکٹر ٹیپو سلطان: لوگ اپنی صحت، یا صحت مند رہنے کے لیے پہلے نمبر پر صاف پانی اگر دستیاب ہو تو استعمال کریں، اس طرح آدھی بیماریوں سے بچ جائیں گے۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ہے، اس لیے بہت ساری بیماریاں اس کی وجہ سے ہورہی ہیں۔ ہم لوگ لیاری اور ملیر میں بھی پانی ابال کر پیتے تھے حالانکہ نل میں پانی آتا تھا، اور نل سے بھی پانی پیتے تھے۔

آج سے چالیس سال پہلے میں نل کا پانی لیاری میں بھی پیتا تھا اور ملیر میں بھی پیتا تھا، مگر آج نہیں پی سکتا، کیونکہ وہ گندا ہوگیا ہے۔ اُس زمانے میں بھی جب کچھ وبا پھیلتی تھی تو ہم پانی ابال کر پیتے تھے۔ اماں تو پڑھتی تھیں، میرا کام ہوتا تھا کہ میں پتیلے میں پانی ابال کر ٹھنڈا کرکے صراحی میں ڈالتا تھا۔ اُس زمانے میں صراحی ہوا کرتی تھی، ہمارا گھر میں فریج وغیرہ تھا بھی نہیں۔ آج اگر ابال کر پانی پینے کی بات کرو تو ایسے شکل دیکھتے ہیں کہ پتا نہیں کیا مصیبت آگئی! اور فوراً بوتل کے چکر میں رہتے ہیں۔ اب پانی کی بوتل مہنگی ہے۔ یہ بھی کاروبار بن گیا ہے۔ پانی کی طرح سیوریج کا نظام بھی درست نہیں، ہر جگہ سے لائنیں لیک ہورہی ہیں۔

اگر یہ دو چیزیں ٹھیک ہوجائیں تو معاشرے کی آدھی بیماریاں ختم ہوسکتی ہیں۔ ایک عام آدمی اگر صفائی ستھرائی کا خیال رکھے تو معاملہ درست ہوسکتا ہے۔ بیماریوں کی تیسری وجہ ملاوٹ والی خوراک کا استعمال ہے۔ ہماری تقریباً تمام ہی خوراک میں ملاوٹ ہے۔ صفائی ستھرائی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ملاوٹ بھی دو قسم کی ہے۔ ایک کیمیکل ملاوٹ جو کہ مصالحے اور رنگ وغیرہ کی شکل میں ہوتی ہے، اور دوسری ملاوٹ بیکٹیریا اور گندگی کی ہے۔ اس کا بیچارے بیچنے والے کو بھی پتا نہیں ہوتا کیونکہ وہ صفائی ستھرائی کا خیال نہیں رکھتا۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اگر آپ سنگاپور اور ملائشیا جائیں تو وہاں بھی ٹھیلے پر سامان وغیرہ مل رہا ہے، وہاں بھی پکوڑے اور اسنیک بیچے جارہے ہیں، مگر صفائی ستھرائی نظر آتی ہے۔ ان کے کھانے کے بعد ضمانتہے کہ پیٹ خراب نہیں ہوگا کیونکہ صفائی ستھرائی کا وہ خود بھی خیال رکھتے ہیں اور قانون بھی بہت سخت ہے۔ ہمارے ہاں اس کا خیال نہ بیچنے والا کرتا ہے اور نہ ہی قانون ہے۔ تو پیٹ کی بیماریاں، ہیپاٹائٹس اے، بی، سی… یہ سب الٹے سیدھے کھانوں سے ہوتی ہیں، بلکہ بہت سارے کینسر ایسے ہیں جو کھانوں کو مزیدار بنانے کے چکر میں کیمیکل کے استعمال سے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے ہاں گولا گنڈا ہے جس میں مختلف رنگ استعمال ہوتے ہیں، یہ تمام فیکٹریوں میں استعمال ہونے والے رنگ ہیں۔ کھانے کا رنگ ہمارے ہاں امپورٹ ہی نہیں ہوتا، اگر بہت ہی ہائی فائی کمپنی کا ہوگا تو بہت مہنگا ہوتا ہے۔ تو گولے گنڈے والا جو تین رنگ چھڑک رہا ہے یہ سب فیکٹری میں کپڑا رنگنے والے رنگ ہیں۔ اس میں پانی ملا کر اُس نے چلادیا۔ یہ کیمیکل کینسر کا موجب ہے۔ جو روز گولا گنڈا کھاتا ہے وہ کینسر خرید رہا ہے کیونکہ وہ ڈائی کا رنگ استعمال کررہا ہے جو کپڑوں کو رنگنے کے کام آتا ہے، اور بیچنے والا کینسر بیچ رہا ہے،خریدنے والے خریدرہے ہیں۔ اس لیے کہ ایڈایبل رنگ بہت مہنگا ہوگیا ہے جو صرف کچھ فوڈ انڈسٹریز ہی امپورٹ کرتی ہیں اور مہنگا بیچتی ہیں۔ اسی طرح سے ایچ آئی وی بڑھتا جارہا ہے، یہ دادو میں بھرا پڑا ہے۔ ہیپاٹائٹس بھی دادو میں بھرا پڑا ہے اس لیے کہ وہاں گندگی ہے۔ جتنے بھی پیمانے ہیں صحت اور صفائی کو جانچنے کے، ان سب میں ہماری صورتِ حال خراب ہے، خاص طور پر کراچی اور اندرونِ سندھ میں، اس لیے کہ یہ ہمارے اپنے کرتوت ہیں۔

صورتِ حال بہتر ہوسکتی ہے مگر صرف کوالٹی کنٹرول کرنے سے… صاف پانی، سیوریج سسٹم کی درستی، ملاوٹ سے پاک صاف خوراک کے استعمال سے۔ ہمارے ہاں جعلی دوائیں بھی بہت ہیں، اس لیے چھوٹی موٹی دکان سے آپ دوا کبھی نہ خریدیں۔ کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ جتنی بھی ہماری ریگولیٹری باڈیز ہیں سب کرپٹ ہوگئی ہیں۔ سب پیسہ لے کر لائسنس جاری کررہے ہیں۔ ریگولیٹری باڈی ہوتی ہے ریگولیٹ کرنے کے لیے کہ کوئی گھپلا نہ ہو، جبکہ ہمارے ہاں ریگولیٹری باڈی پیسہ لے کر کہتی ہے جو مرضی چاہے کرو۔ مثال ہے سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن، مثال ہے پی ایم ڈی سی، مثال ہے دیگر ریگولیٹری اتھارٹیز، انوائرمنٹل پروٹیکشن یعنی ماحول کے تحفظ کی باڈیز وغیرہ۔

تیسری دنیا کے دوسرے ممالک اتنے گندے نہیں جتنے ہم ہیں۔ بنگلہ دیش میں ریگولیٹری باڈی فعال ہے۔ انڈیا میں بہت زیادہ فعال ہے۔ وہاں بھی غربت ہے، وہ بھی ہماری طرح کے لوگ ہیں، مگر سب سے زیادہ ”فنکار“ پاکستان میں ہیں۔

فرائیڈے اسپیشل:کینسر بہت تیزی سے پھیل رہا ہے، اس کی کیا وجوہات ہیں؟

پروفیسر ڈاکٹر ٹیپو سلطان: یہی کیمیکلز کا استعمال اور صفائی ستھرائی کا فقدان۔ کینسر تو بری طرح سے پھیل رہا ہے۔ پہلے بھی تھا مگر ہمیں پتا نہیں تھا، مگر اب سی ٹی اسکین، ایم آر آئی اور ایکسریز کی سہولیات دستیاب ہیں جس کی وجہ سے تشخیص ہوجاتی ہے اور ہمیں کینسر کا پتا چل جاتا ہے۔ باقی دنیا میں اتنا نہیں پایا جاتا جتنا یہاں ہے۔

فرائیڈے اسپیشل: ایک عام آدمی کینسر جیسی خوفناک بیماری سے خود کیسے بچ سکتا ہے یا اپنے اہلِ خانہ کو، اپنے پیاروں کو کیسے بچا سکتا ہے؟

پروفیسر ڈاکٹر ٹیپو سلطان: کینسر سے بچائو کے لیے موٹے موٹے دوچار اصول ہیں جن پر عمل ضروری ہے۔ ایک تو یہ کہ آپ کے بدن میں جو بھی چیز جارہی ہے اسے جتنا ممکن ہو صاف ستھرا کریں۔ مثلاً پینے کا پانی، کیونکہ آدھی بیماریاں گندے پانی کے استعمال سے ہی ہوتی ہیں جن میں سرفہرست ہیپاٹائٹس اے، بی،سی،ای وغیرہ ہیں۔ تو پانی کے معاملے میں بہت زیادہ محتاط رہیں اور اپنا صاف پانی ساتھ رکھیں۔ آج کل تو بوتلوں میں ملنے والا پانی بھی غیر محفوظ ہے، لہٰذا بہتر ہے کہ ابلا ہوا پانی استعمال کیا جائے۔

فرائیڈے اسپیشل: نل میں آنے والے پانی کو ابال کر استعمال کیا جاسکتا ہے؟

پروفیسر ڈاکٹر ٹیپو سلطان: یہ بہترین ہے۔ میٹل وغیرہ کے برتنوں میں پانی ابالنے پر سفید سفید نشان بن جاتے ہیں، یہ سب کیمیکل ہوتے ہیں۔ جس پتیلی میں پانی ابالیں اُس کے گرد سفیدی ظاہر ہوجائے تو سمجھ لیں کہ پانی بہت ہی خراب تھا، اور جس میں نہ ہو تو سمجھ لیں کہ بہتر پانی تھا۔

فرائیڈے اسپیشل: عام بازار میں ملنے والے منرل واٹر کو بھی ابال لیا جائے؟

پروفیسر ڈاکٹر ٹیپو سلطان: ہاں ابال لیں۔ نل کا پانی بھی ٹھیک ہے اگر ابال کر استعمال کیا جائے۔ مثال آپ کو دے دوں کہ چین اور ہانگ کانگ میں ہر آدمی اپنا پانی لے کر پھرتا ہے اور میں نے یہ نظام 1969ء میں وہاں دیکھا تھا۔ میں تعلیم کے سلسلے میں کچھ مہینوں کے لیے انگلینڈ جانے سے پہلے ہانگ کانگ اور سنگاپور گیا تو وہاں دیکھا کہ ہر آدمی شیشے کی بوتل میں پانی لے کر گھوم رہا ہے۔ معلوم ہوا کہ چیئرمینوں نے حکم دیا ہے سب کو کہ اپنا پانی خود پیو۔ اس سے پیٹ کی تمام بیماریوں سے بچائو ہوتا ہے۔ ہر آدمی اپنا پانی خود پیتا ہے اور اس میں ذرا سا پتا ڈال دیتا ہے تاکہ کلر ہوجائے۔ چار پانچ دفعہ جانا ہوا اور یہ کچھ دیکھا۔ جس دن وہ آرڈر آیا، اس کے کچھ مہینوں بعد پیٹ کی بیماری چین سے ختم ہوگئی۔ رکشہ والا بھی اپنا پانی لے کر گھومتا تھا۔ تو روزمرہ زندگی میں پانی یہاں، وہاں سے نہ پئیں۔ بوتل کا پانی پئیں۔ دوسرا یہ کہ باہر کا جو بھی کھانا ہے اس سے اجتناب کریں، کیوں کہ اس میں بڑی بڑی خرابیاں ہیں۔ پریزرو فوڈ بڑی خرابی ہے، ان سب میں کیمیکل شامل ہوتا ہے اور ہمارے ہاں کسی قسم کا کنٹرول نہیں ہے۔ مغربی دنیا میں پریزرو فوڈ ہوتا ہے مگر نگرانی بڑی سخت ہے اس بندے کی طرف سے بھی اور سرکار کا آرڈر بھی ہے، چیکنگ بھی ہے۔ پوری مغربی دنیا میں، جنوب مشرقی ایشیا کے بہت سے ملکوں میں کانفرنسوں کے سلسلے میں گھومتا رہتا ہوں۔ میڈیکل کانفرنسوں میں لیکچر دینے جاتا ہوں۔ جدید علوم سے روشناس ہونے کے لیے ان میں شرکت کرتا ہوں۔ اس بہانے گھوم بھی لیتا ہوں، اور میں آدھی سے زیادہ دنیا گھوم چکا ہوں۔ تو پوری دنیا میں بہت سخت قانون ہے اور کسی قسم کی الٹی سیدھی چیزیں کھانے کے لیے نہیں ملتیں۔ ہمارے ہاں نظام زیرو پر کھڑا ہے۔ دوسرا ہمارے ہاں بے ہنگم سے اوقات ہیں۔ یعنی رات گیارہ بجے کھانا کھاتے ہیں۔ ساڑھے بارہ بجے ولیمہ کھاتے ہیں۔ بارہ ساڑھے بارہ بجے سوجاتے ہیں۔ اس سے خوفناک چیز دنیا میں نہیں ہوسکتی۔ سونے اور کھانے کے درمیان کم از کم تین گھنٹے کا وقفہ ہونا چاہیے، ورنہ آپ کے اندر کا تمام سسٹم تباہ اور برباد ہوجائے گا۔ اب آپ سوچیے کہ بھاگے بھاگے آپ نو بجے شادی ہال میں پہنچے، کارڈ پر لکھا تھا آٹھ بجے۔ دس ساڑھے دس بجے ڈھول بجا۔ کھانا کھایا اور بھاگے بھاگے گھر چلے گئے اور صبح پھر اٹھے۔ تو دو مسئلے ہیں، ایک تو فیڈ ڈی پرپریشن، اور دوسرا سلیپ ڈی پرپریشن۔ اگر آپ کی نیند آٹھ گھنٹے کی ہے تو آٹھ گھنٹے ضرور سوئیں۔ جسم کو چارج کرنے کے لیے یہ ضروری ہے۔ مغرب کے بعد کھانے کی عادت ڈال لیں تو بہت سی بیماریوں سے بچ جائیں گے۔ زندگی کے اصول بنائیں، سادہ کھانا کھائیں، زندگی اصولوں کے تحت گزاریں۔ دل کے دورے اور دماغی بیماریوں سمیت ساری بیماریوں کی جڑ یہ بھی ہے۔ پاکستان میں ہر چوتھا آدمی بقول ہارون صاحب کے، دماغی بیماری کا شکار ہے۔ اس لیے کہ وہ بلاوجہ کی دوڑ میں لگا ہوا ہے، پیسے اور عہدے کی ہوس بڑھ گئی ہے۔

فرائیڈے اسپیشل: خوشگوار زندگی کیسے گزاری جاسکتی ہے؟

پروفیسر ڈاکٹر ٹیپو سلطان: ہر حال میں خوش رہیے، غصہ نہ کریں۔ زیادہ فکر و تردد سے مسئلے حل نہیں ہوتے۔ بہت زیادہ پیسوں کی فکر نہ کریں۔ آج لوگوں کو پیسے کمانے کی جلدی بہت ہے۔ محفلوں میں پیسہ، پلاٹ کے سوا کوئی موضوع نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کی جو نعمت ہے اس پر شکر ادا کریں۔ میں بہت مذہبی نہیں لیکن اللہ کی تعلیم ہے کہ رزق ہر شخص کو ملنا ہی ملنا ہے۔ ہر آدمی اپنا رزق کھاتا ہے۔ ہم کسی کو دیتے ہیں تو اپنی جیب سے نہیں دیتے، اللہ کا جو دیا ہے اسی میں سے دیتے ہیں۔ خدمتِ خلق کو ترجیح دیں۔ رومی کی کہاوت ہے: اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے بہت سے طریقے ہیں، ان میں سب سے آسان طریقہ مخلوق کی خدمت کرنا ہے، اور وہ اس پر سب سے زیادہ خوش ہوتے ہیں۔ ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کریں۔ اپنے اردگرد رشتے داروں، جاننے والوں کا خیال رکھیں۔