اسلام کے لیے نئے امکانات
نصف سے زائد مسلم آبادی برطانیہ میں پیدا ہوئی جو برطانوی حکومت کو چیلنج کررہی ہے
برطانیہ میں شدت پسندی کی نئی تعریف کے بعد کیا کچھ تبدیل ہوگا اس کی صرف ایک جھلک دیکھنے کے لیے ہم کو ماضی میں جانا چاہیے کہ جب گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد امریکہ نے طاقت کا بے دریغ استعمال کرکے ایک جانب افغانستان کو تہہ تیغ کردیا اور دوسری طرف اس کو چھپانے کے لیے انتہا پسندی کو اسلام سے جوڑ دیا اور دہشت گردی کی نئی تعریف میں اسلام، مسلمان اور دہشت گردی کو لازم و ملزوم کردیا۔ یہ صورتِ حال اس حوالے سے بھی خوفناک نتائج لے کر آئی کہ ایک ایسے ملک پر حملہ کردیا گیا جس نے براہِ راست امریکہ پر کوئی حملہ نہیں کیا صرف الزام تھا کہ امریکہ پر حملے کرنے کا ماسٹرمائنڈافغانستان میں موجود ہے۔ اس ضمن میں اگر پورے منظرنامے کو یاد کیا جائے تو امریکہ نے کسی ایک موقع پر بھی یہ الزام عائد نہیں کہ یہ حملہ افغانستان کی حکومت کی جانب سے کیا گیا ہے، بلکہ کہا یہ گیا کہ اسامہ بن لادن اس حملے کا ماسٹر مائنڈ ہے اور وہ اس وقت افغانستان میں موجود ہے، اسے امریکہ کے حوالے کیا جائے۔ افغان حکومت نے جواب دیا کہ اسامہ بن لادن کے اس سازش میں ملوث ہونے کے اگر شواہد ہیں تو پیش کیے جائیں۔ اس پر جھوٹ اور میڈیا پروپیگنڈے کے سوا کوئی بھی ٹھوس ثبوت پیش نہیں جاسکا، اس کے جواب میں افغان حکومت نے اسامہ بن لادن کی امریکہ حوالگی کا مطالبہ مسترد کردیا اور مؤقف اختیار کیا کہ اسامہ بن لادن کے خلاف کوئی بھی ٹھوس ثبوت و دستاویزات پیش کرنے میں امریکہ ناکام رہا ہے، لہٰذا اگر اسامہ بن لادن خود افغانستان چھوڑ کر جانا چاہیں تو افغان حکومت کو کوئی اعتراض نہیں، لیکن وہ اپنے ایک مہمان کو امریکہ کے بے جا مطالبے پر اُس کے حوالے نہیں کریں گے۔
یہ وہ تناظر تھا جس میں افغانستان پر جنگ مسلط کی گئی اور 20 سال تک افغانستان کو اس آگ میں جھونک دیا گیا۔
اس کی یاددہانی اس لیے ضروری ہے کہ آج دنیا پھر وہیں کھڑی ہے اور مطالبہ کررہی ہے کہ دہشت گردی اور شدت پسندی کی نئی تعریف متعین کی جائے۔ شدت پسندی کے حوالے سے حکومتِ برطانیہ کا منظور کردہ نیا قانون اس حوالے سے اہم ہے کہ اس کو پیش کرنے والے وزیر داخلہ یعنی ہوم سیکرٹری نہیں تھے بلکہ وزیر کمیونٹی مائیکل گوو تھے۔ یعنی یہ قانون بطور نئے سماجی ضابطے کے دیکھا و پرکھا جائے گا اور اِس قانون میں شدت پسندی کی تعریف میں ہر وہ فرد شامل ہوگا جو برٹش ویلیوز کے خلاف کام کرتا، یا اس کے خلاف کام کرنے والوں کے ساتھ کسی طور پر منسلک ہوگا۔ اب ہر وہ فرد، جماعت یا گروہ اس دائرے میں آئے گا جو پارلیمانی جمہوریت، بنیادی حقوق اور آزادی کے خلاف کام کرے گا،یا نفرت، اشتعال اور عدم برداشت کے رویوں کو پروان چڑھانے کا براہِ راست یا بالواسطہ سبب بنے گا۔ اس طور پر دیکھا جائے تو ہر وہ بات نفرت، عدم برداشت یا اشتعال کے زمرے میں داخل کی جائے گی جس کو حکومت اس کا مرتکب قرار دے، اور اس کے لیے باقاعدہ طور پر حکومت سول سرونٹس کے لیے سینٹر آف ایکسی لنس بنانے جارہی ہے جہاں ایسے تمام گروہ اور افراد کے بارے میں انٹیلی جنس معلومات جمع کی جائیں گی۔ شدت پسندی کی تعریف کی دستاویز کے مطابق:
Most extremist materials and activities are not illegal and do not meet a terrorism or national security threshold. Islamist and Neo-Nazi groups in Britain, some of which have not been proscribed, are operating lawfully but are seeking to replace our democracy with an Islamist and Nazi society respectively. They are actively radicalising others and are openly advocating for the erosion of our fundamental democratic rights. Their aim is to subvert our democracy۔
(ترجمہ) ’’شدت پسندی پر مبنی مواد اور بہت سی سرگرمیاں ایسی ہیں جو غیر قانونی نہیں ہیں اور نہ ہی دہشت گردی کے زمرے میں آتی ہیں۔ اسلامی اور نیونازی گروہ جو کہ ممنوع گروہ میں شامل نہیں وہ آزادانہ طور پر کام کررہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہماری جمہوریت کو اسلامی اور نازی سوسائٹی سے تبدیل کردیا جائے۔ وہ بنیادی جمہوری حقوق کو ختم کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں جس کا مقصد ہماری جمہوریت کا خاتمہ ہے۔‘‘
اور اگر شدت پسندی کی اس تعریف پر مبنی دستاویز اور وزیر مائیکل گوو کو ایک ساتھ دیکھا جائے تو صورت یہ بنتی نظر آتی ہے جیسا کہ وزیر موصوف نے برطانوی پارلیمان میں اپنے خطاب مورخہ 14 مارچ 2024ء کو اسلام اور اسلام ازم کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ
’’اسلام ایک اچھا اور امن کا مذہب ہے جوکہ خیرات، صدقات، روحانی ارتقاء اور دوسروں سے بھلائی پر مبنی ہے، تاہم اسلام ازم ایک اجتماعی نظریہ ہے کہ جو اسلامی ریاست کے قیام پر زور دیتا ہے جہاں شریعت کی حکمرانی ہو۔ یہ چاہتا ہے کہ لبرل جمہوری اقدار کو ختم کردیا جائے، اور اس سوچ کے خالقوں میں اخوان المسلمون کے بانی امام حسن البناء، جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی اور اخوان المسلمون کے سید قطب شامل ہیں، جبکہ اخوان المسلمون کی فلسطینی شاخ حماس ہی ہے۔‘‘
اس کے بعد وزیر موصوف نے تین برطانوی اسلامی تنظیموں کو ان تمام الزامات کا مرتکب ٹھیرا دیا جن میں سرفہرست مسلم کونسل آف بریٹن ہے۔ اب اگر مغربی جمہوری اقدار کے تحت ان کا جائزہ لیا جائے تو یہ تنظیمیں مغرب کے جمہوری اصولوں کی بنیاد پر کام کرتی ہیں کہ جہاں اراکین ان کے سربراہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ دلچسپ ترین بات یہ کہ مغرب کی جمہوریت اور حقوقِ نسواں کے عین مطابق اس وقت مسلم کونسل آف بریٹن کی سربراہ نوجوان مسلم خاتون زارا یوسف ہیں، اور کونسل کے چار کلیدی عہدوں یعنی سیکریٹری، خازن، ڈپٹی جنرل سیکریٹری اور اسسٹنٹ جنرل سیکریٹری کے عہدوں میں سے دو پر خواتین ہی فائز ہیں۔ اس پوری صورتِ حال میں اگر مسلم کونسل آف بریٹن کو بھی وزیر موصوف حکومتی ایما پر الزام دے رہے ہیں تو وہ اصل میں یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ مغرب کا اصولِ جمہوریت وہی ہوگا جو ہم بتائیں گے اور اس میں وقتاً فوقتاً ترمیم کی جاتی رہے گی تاکہ کسی کو اس میں داخل ہی نہ ہونے دیا جائے۔ وزیر موصوف نے حماس کو اخوان المسلمین کی شاخ قرار دیا اور اس کو اسی تعریف سے جوڑنے کی کوشش کی، لیکن وہ یہ بتانا بھول گئے کہ حماس نے مغرب کے ان ہی جمہوری اصولوں کی بنیاد پر فلسطین میں منعقدہ انتخابات 25 جنوری 2006ء کو 44.5 فیصد ووٹ اور 132 میں سے 74 نشستیں جیت کر کامیابی حاصل کی اور پارلیمان کی سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھری، لیکن ایک جمہوری طور پر منتخب وزیراعظم اسماعیل ہنیہ کو کام کرنے نہیں دیا گیا اور ان کی حکومت کو غیر جمہوری طور پر برخاست کردیا گیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ وزیر صاحب یہ بھی گول کرگئے کہ اخوان المسلمون کو مصر میں پابندی کا سامنا ڈکٹیٹر کی جانب سے تھا، اس کے باوجود بھی عرب اسپرنگ کے بعد فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے نام سے حصہ لینے والی اخوان المسلمون ان ہی جمہوری اصولوں کے مطابق 37.5 فیصد ووٹ اور 508 میں سے 235 نشستوں پر کامیاب ہوئی اور حکومت بنائی، لیکن اخوان المسلمون کی فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کی اتحادی حکومت کے صدر مرسی کو ایک آمر فوجی جرنیل نے برطرف کردیا تو اُس وقت بھی مغرب کی جمہوری اقدار کی خلاف ورزی پر کوئی آواز مغرب کی جانب سے نہیں آئی۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ اسلام کی غلط تعبیر و تشریح حکومت کی جانب سے کی جارہی ہے۔ اسلام امن پسند مذہب ہونے کے ساتھ جمہوری اقدار کا حامل دین ہے جس کا مقصد عوام کی بہترین فلاح ہے، اور اس فلاح کا دائرہ محض دنیا تک نہیں بلکہ اس کے بعد کی دنیا جس کو آخرت کہا جاتا ہے، تک محیط ہے۔ برطانوی حکومت اسلام کی تفریق کی کوشش کررہی ہے، اس ضمن میں اگر وہ اسلام کو بطور پُرتشدد دین پیش کرتی ہے تو آج کے دور میں کوئی ایک ایسی مثال وہ پیش کرنے میں ناکام ہے کہ جہاں اسلام تلوار یا تشدد سے کسی ریاست میں پھیلایا گیا ہو۔ اس کے برعکس مغربی جمہوریت کے عین مطابق اگر اسلام پسند کہیں کامیاب ہوگئے تو ان کو بلڈوز کرنے کے لیے مغرب نے خوب تعاون کیا اور اپنی ہی جمہوری اقدار کی مکمل نفی کی۔ مغرب کے مطابق حقوقِ نسواں، حقوقِ اطفال اور عدم تشدد کے تمام تر پیمانوں پر تولنے کے باوجود مغرب خود اپنے ہاں اسلام کو ترقی کرتے ہوئے مذہب کے طور پر روکنے میں مکمل ناکام رہا ہے۔ خود برطانیہ میں صورتِ حال یہ ہے کہ ایک بڑی تعداد عیسائی مذہب کو چھوڑ چکی ہے اور اب نصف سے بھی کم آبادی مذہب کے خانے میں عیسائی لکھتی ہے، جبکہ عمل کا اس سے دور دور تک تعلق نہیں ہے۔ اس کے برعکس جس مذہب کو وہ بطور کامل دین کے پیش کرتے ہیں اُس کے ماننے والوں کی عددی اکثریت میں روزافزوں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ صرف مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ نہیں بلکہ تقریباً پانچ ہزار غیر مسلم سالانہ صرف برطانیہ میں اسلام قبول کرتے ہیں اور ان میں اکثریت خواتین کی ہے۔ اب اس کے دوسرے پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر ایسا کیا ہوگیا کہ برطانوی حکومت خود بوکھلاہٹ کا شکار ہے؟ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ 70 سال کے اس عرصے میں حالات بڑی حد تک تبدیل ہوچکے ہیں۔ مسلمانوں کی پہلی اور دوسری نسل مہاجرین پر مشتمل تھی جو یہاں روزگار و تعلیم کی غرض سے آئے تھے اور نسبتاً دوسرے و تیسرے درجے کے شہری بن کر رہے۔ ان مہاجرین نے ایک بہت اہم کام کیا جس کو گیم چینجر کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے مذہب سے وابستگی کو برقرار رکھا اور اپنے بچوں کو مذہب سے وابستہ کیا۔ اس کے مظاہر اب تیسری اور چوتھی نسل میں ظاہر ہورہے ہیں۔ اس سے اختلاف ممکن ہے کہ کیا ہونا چاہیے تھا اور کیا نہ ہوسکا، لیکن اصل بات یہ ہے کہ مذہب کا حوالہ چاہے وہ کمزور ہی کیوں نہ ہو، اب7 اکتوبر کو عمل انگیز بن گیا ہے۔
برطانیہ کی مسلم آبادی کا نصف سے زائد اب برطانیہ میں پیدا ہونے والے باشندوں پر مشتمل ہے کہ جو خود مہاجر نہیں ہیں، لہٰذا وہ اب برطانوی سماج میں نفوذ کررہے ہیں اور مغرب کے سوالات کے جواب اُن کے ہی پیرائے اور زبان میں دے رہے ہیں۔ چاہے وہ لندن کے میئر صادق خان ہوں یا اسکاٹ لینڈ کے فرسٹ منسٹر حمزہ یوسف، یا کسی بھی شعبے میں کام کرنے والے مسلمان… اب وہ مغرب کو اُن کے ہی پیمانوں پر چیلنج کررہے ہیں، اور ان کی دلیل سے ایک زمانہ متاثر ہورہا ہے۔ یہ محض کوئی حادثہ نہیں کہ غزہ کی صورتِ حال پر تاریخ کی اتنی بڑی مزاحمت خود برطانیہ میں کھڑی ہوگئی۔ اس کے پیچھے نہ نظر آنے والے کئی کردار ہیں۔ اس کے پیچھے 70 سال کی طویل جدوجہد ہے چاہے وہ تاریخ و مذہب سے جوڑنے کے لیے کی گئی ہو یا پھر اپنے بچوں کو اعلیٰ ترین تعلیم دلوانے کے لیے۔ اس پورے منظرنامے میں جب مغرب نہ صرف معاشی بحران کا شکار ہے بلکہ عوام خود حکومت سے یوکرین اور غزہ کے حوالے سے ظالم و مظلوم کی تشریح کا سوال کرتے ہیں تو اس سے مغرب کا دہرا معیار سامنے آتا ہے۔ یہی کچھ اب میڈیا میں بھی ہے کہ جہاں مغرب کے اصولِ ابلاغ پر ہی مغرب کو ہر روز چیلنج کیا جارہا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیر موصوف کو قانونی طور پر کام کرنے والی مسلم تنظیموں کے نام لینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ تو اس کا سبب صرف یہ ہے کہ ان سے جڑنے والوں کو متنبہ کیا جائے، ان کو ڈرایا، دھمکایا جائے اور مغرب کے جمہوری اصولوں کی بنیاد پر جدوجہد کو روکا جائے۔ برطانیہ خود ایک جمہوری ملک ہے لیکن اس کے باوجود یہ جمہوریت محض حکومت تک موجود ہے، ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سربراہِ حکومت وزیراعظم تو ووٹ کی طاقت سے منتخب کیا جاسکتا ہے لیکن سربراہِ ریاست یعنی ملکہ یا بادشاہ تاحال ووٹ کی طاقت سے منتخب نہیں کیا جاسکتا۔ اور یہ عہدے دراصل عیسائیت کی نیابت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بادشاہ و ملکہ کی تاج پوشی کسی ٹاؤن ہال یا پارلیمنٹ میں نہیں بلکہ ویسٹ منسٹر ایبے یعنی ایک گرجا گھر میں ہوتی ہے۔ اور اگر یہی بات سید مودودیؒ، حسن البناءؒ اور سید قطبؒ کریں اور کہیں کہ اقتدارِ اعلیٰ صرف اللہ کے پاس ہے اور سربراہِ مملکت اس کا نائب ہے تو اس میں اسلام توبطور نظریہ مائیکل گوو کو نظر آتا ہے لیکن اپنی بادشاہت کو اسی اصول سے قائم رکھنے والے، اور اس بادشاہ کی حکومت کے ایک وزیر مائیکل گوو اور پوری حکومت یکایک اس کو اسلام ازم کا نام دے دیتے ہیں۔ اگر مغرب میں عیسائیت کی بنیاد پر قائم ریاست میں جمہوری حکومت قائم ہوسکتی ہے، اور اگر جمہوری اصول کے مطابق ریاست کا نصف عیسائیت کا حامل نہیں تو پھر کون سی حکومت قائم ہونی چاہیے؟
یہ سوال اب مغرب کے جمہوری اصولوں کا سب سے بڑا سوال ہے۔ مغرب کی جمہوریت میں اگر کسی وقت اکثریت کسی مذہب کے مطابق اپنے قوانین کو ڈھالنے کی بات کرے گی تو مروجہ جمہوری اصولوں کے مطابق ان کو اس کی مکمل آزادی ملنی چاہیے۔ اسلام کبھی زور زبردستی سے خود کو نافذ نہیں کرتا بلکہ اس کے لیے ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیتا ہے جہاں اکثریت اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکے، اور قانون اس کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔
مغرب میں موجود اسلام پسندوں اور اسلام کے نام پر قائم تنظیموں کو اس معاملے میں شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبانے سے کوئی ریلیف نہیں ملے گا۔ اس نئی دستاویز اور اس کے نتیجے میں بننے والے سینٹر آف ایکسی لنس و قوانین کو ہر سطح پر قانون و دلیل پر چیلنج کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسی بودی دلیلوں اور اسلام کی من پسند تعریف و تشریح سے اسلام کو بطور دین گمراہ نہیں کیا جاسکتا۔ تاریخ کا دھارا تبدیل ہوچکا ہے، اب یہ اقدامات لوگوں کو اسلام سے مزید قریب کرنے کا سبب بنیں گے۔
مغرب میں اسلام کا بڑھتا نفوذ ایک نئی دنیا کا آغاز ہے۔ غزہ کا معاملہ پوری دنیا میں اسلام کو بطور مثال پیش کررہا ہے کہ کون سی ایسی چیز ہے جس نے دنیا کی سب سے بڑی قوت کے آگے چند نہتے لوگوں کو تاحال سرینڈر نہیں ہونے دیا، اور یہی دلچسپی مغرب کے عوام کو اسلام سے جوڑ رہی ہے۔
برطانیہ و امریکہ میں اسلام کی اس نئی لہر میں اسلام پسندوں کے لیے امکانات کا ایک جہاں آباد ہے، کاش کہ ہم کچھ کرسکیں۔