لاقانونیت کی حکمرانی

اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 جج صاحبان کا خط اِن دنوں ہر شعبۂ زندگی اور قومی سطح کی سیاست کو پوری طرح اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے

فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ چینی انجینئرز پر دہشت گرد حملہ ایک بڑا واقعہ ہے یا 6 جج صاحبان کا خط؟ تاہم دونوں کا تعلق لاقانونیت سے ہے۔ اگر ملک میں حکومت کی عمل داری اور قانون کی حکمرانی ہوتی تو یہ واقعات کبھی نہ ہوتے۔ دونوں واقعات نہایت حساس ہیں جو قومی زندگی پر گہرے اثرات چھوڑنے اور حالات کو اپنی گرفت میں لینے کی مکمل قوت رکھتے ہیں، انہیں کسی بھی قیمت پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت اگر دہشت گردی ختم کرنے کے لیے بنائے گئے قانون ’نیکٹا‘ پر عمل درآمد کرلیتی تو چینی انجینئرز کے ساتھ یہ حادثہ نہ ہوتا، اور اگر جسٹس منیر کے نظریۂ ضرورت کے فیصلے کے خلاف اُس وقت رائے عامہ منظم ہوجاتی تو ہماری ملکی عدلیہ کبھی کسی دبائو میں نہ آتی۔ مگر ہمارے ملک میں کسی کو ’’سسیلین مافیا‘‘ اور کسی کو ’’گڈ ٹو سی یو‘‘ کہنے کے غیر منصفانہ کھیل نے عدلیہ کو اس حال تک پہنچا دیا ہے۔

غیر آئینی پی سی او عدلیہ کے غیر منصفانہ فیصلوں نے ملک میں لاقانونیت کی بنیاد رکھی، اور غیر جمہوری ادوار اور کرپٹ جمہوری حکمرانوں نے ملک کو آئی ایم ایف کی دہلیز پر لاکھڑا کیا ہے، اور ہم اپنی معیشت چلانے کے لیے آئی ایم ایف سے امدادی رقوم کے حصول کی خاطر ایڑیاں رگڑتے پاکستان کو معاشی استحکام کی جانب بڑھانے کی کوشش میں ہیں۔ بشام میں چینی انجینئرز پر حملے کی خبر نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ایک بار پھر سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں یا کوئی متبادل راہ تلاش کریں؟ اس حملے سے دنیا کو یہ پیغام گیا کہ پاکستان میں ہمالیہ سے بلند اور شہد سے میٹھے دوست چین کی سرمایہ کاری بھی محفوظ نہیں۔ 6 جج صاحبان کے خط نے بھی کوئی اچھے اثرات مرتب نہیں کیے۔ غیر ملکی سرمایہ کار سوچے گا کہ جس ملک میں عدلیہ دبائو میں ہے وہاں کوئی کیسے آزادانہ قانون کے سہارے کاروبار کر سکے گا!

رہی سہی کسر اب 6 جج صاحبان کے خط کی تحقیقات کے لیے بنائے جانے والے کمیشن پر وکلاء اور سیاسی جماعتوں کے عدم اعتماد نے پوری کردی ہے۔ حکومت نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے چیف جسٹس(ر) تصدق حسین جیلانی کا نام پیش کیا تھا۔ جسٹس جیلانی کی رضامندی کے بعد کمیشن کے قیام کا نوٹیفکیشن بھی جاری ہوگیا، تاہم وکلاء کے عدم اعتماد کے ایک دن بعد ہی انہوںنے اس ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے سے معذرت کرلی۔ جسٹس(ر) جیلانی کی معذرت کے باوجود یہ سوال بھی گردش کرتا رہے گا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 عزت مآب ججوں کی جانب سے لکھے گئے خط میں بیان کی گئی سچائی کس درجے کی ہے۔ ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ جن جج صاحبان نے خط لکھا، وہ ضرور اس بات کی بھی وضاحت فرما دیں گے کہ گزشتہ سال ڈیڑھ سال میں انہوں نے جن مقدمات میں فیصلے دیے، ان فیصلوں سے ایک سیاسی جماعت کی لیڈرشپ کس قدر مستفید ہوتی رہی ہے۔ اگر حقائق یہی ہیں تو پھر دبائو کیسا؟ اس کے باوجود حقائق سامنے لانے ضروری ہیں کہ جج صاحبان خط لکھنے پر مجبور کیوں ہوئے؟

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھے جج صاحبان کی جانب سے ملک کے خفیہ اداروں کی عدالتی امور میں مداخلت کے الزامات پر مشتمل چیف جسٹس سپریم کورٹ کو لکھے گئے خط کی شکل میں ایسا دھماکہ خیز واقعہ ہوا جس نے قومی سطح پر بھونچال کی سی کیفیت پیدا کردی اور ہمارے نظامِ عدل پر کئی اعتبار پر سنگین شکوک و شبہات کا راستہ کھول دیا ہے، تاہم چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فوری نوٹس لیتے ہوئے سپریم کورٹ کا فل کورٹ اجلاس طلب کیا جس کے فیصلے کے تحت چیف جسٹس اور وزیراعظم کی مشاورت کے بعد وفاقی کابینہ کی منظوری سے انکوائری کمیشن کے قیام کا اعلان کیا گیا تاکہ حقائق کی چھان بین کی راہ ہموار ہوسکے، لیکن جسٹس(ر) جیلانی کے انکار کے بعد صورتِ حال ایک بار پھر بگڑ گئی ہے۔ گمان یہی تھا کہ غیر متنازع سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس تصدق حسین جیلانی پر مشتمل تحقیقاتی کمیشن کے قیام کے بعد اس معاملے کی بے لاگ چھان پھٹک ہوگی، جہاں بھی آئین اور قانون کی حدود سے تجاوز پایا گیا، اس کی نشاندہی کی جائے گی، جس کے بعد یہ معاملات عدالت میں جائیں گے اور ذمے داروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ لیکن انکوائری کمیشن ہی دم توڑ گیا۔ جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی نے کہا تھا کہ انہوں نے کمیشن کی شرائطِ کار کا بغور جائزہ لینے کے بعد ذمے داری قبول کی ہے، لیکن ایک روز بعد ہی معذرت کرکے بحران گہرا کردیا، جس کے بعد صورتِ حال یہ بنی ہوئی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھے جج صاحبان کا خط اِن دنوں ہر شعبۂ زندگی اور قومی سطح کی سیاست کو پوری طرح اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔ پاکستان کی سیاست میں اس طرح کے واقعات کوئی نئے نہیں ہیں، یہ واقعات وقفے وقفے سے کسی نہ کسی شکل میں سامنے آتے رہتے ہیں۔ یہ تو ابھی کل کی بات ہے کہ ہم نے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو سپریم کورٹ سے سپریم کورٹ کے 5 جج صاحبان کے فیصلے کے نتیجے میں ہی برطرف ہوتے دیکھا۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس ملک قیوم کی برطرفی بھی یاد ہے۔ چیف جسٹس افتخار چودھری کی عدالت کے فیصلے پر ایک سو پی سی او ججوں کی برطرفی بھی ابھی کل کی بات معلوم ہوتی ہے۔ چیف جسٹس افتخار چودھری کی برطرفی اور پھر بحالی، اور بحالی کے بعد اُن کا رویہ سب کو یاد ہے۔ اُس وقت بھی یہی کہا گیا تھا کہ چیف جسٹس بحال ہوگا مگر ملک میں جسٹس بحال نہیں ہوگا، مگر پوری قوم انہیں بحال کرانے پر تلی ہوئی تھی۔ عدلیہ بحالی کی تحریک دراصل پرویزمشرف کو ہدف بناکر اٹھائی گئی تھی۔ جسٹس منیر سے لے کر جسٹس افتخار چودھری کی بحالی تک کے سارے واقعات ہماری عدالتی تاریخ کا حصہ ہیں۔ ابھی حال ہی میں سپریم کورٹ نے ایک ریفرنس میں رائے دی ہے کہ بھٹو کا کیس انصاف کے تقاضوں کے مطابق نہیں چلا یاگیا۔ عدالتی تاریخ کی ہلکی سی جھلک کے پس منظر میں حالیہ خط بھی ماضی کے واقعات کا ہی ایک تسلسل ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف، چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور عدالتِ عظمیٰ کے سب سے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ کی ملاقات میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھے فاضل ججوں کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو مشترکہ طور پر بھجوائے گئے مراسلے کا مفصل جائزہ لینے کے بعد انکوائری کمیشن تشکیل دینے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ کی سربراہی میں عدالتِ عظمیٰ کی فل کورٹ میں بھی مراسلے پر دو روز تک غور کیا گیا اور فل کورٹ نے اس معاملے میں چیف جسٹس کی وزیراعظم سے ملاقات پر اتفاق کیا۔ چنانچہ عدالتِ عظمیٰ میں وزیراعظم اور چیف جسٹس کے مابین ملاقات ہوئی۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل منصور عثمان بھی اس ملاقات میں شریک ہوئے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے معاملے کی سنگینی کی بنیاد پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے متعلقہ فاضل ججوں کو بھی فل کورٹ میں فرداً فرداً مدعو کیا۔

اب اس معاملے کے دو پہلو ہیں۔ پہلا یہ کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فاضل جج صاحبان خط لکھ کر مس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے یا نہیں؟ یہ فیصلہ بھی انکوائری کمیشن پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ اب صورتِ حال بدل گئی ہے، انکوائری کمیشن کے قیام کے بعد سب کو اس کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے تھا، لیکن بدقسمتی سے یہ نہیں ہوسکا۔فاضل ججوں کے مراسلے کا آئینی اور قانونی پہلو یہ ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل صرف کسی حاضر سروس جج کا معاملہ ہی دیکھ سکتی ہے،عدالتی امور میں کسی کی مداخلت کے الزام کی انکوائری کرنا سپریم جوڈیشل کونسل کے دائرۂ اختیار میں ہی نہیں آتا۔ لیکن تحقیقاتی کمیشن ضرور اس بارے میں کوئی بہتر راستہ نکال کر کام کرے گا، بہتر یہی ہے کہ اس کمیشن کو کام کرنے دیا جائے۔ لیکن سیاسی جماعتوں کی جانب سے ابھی سے تحفظات ظاہر کیے جانے لگے ہیں۔ یہ انداز مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ کو سینئر وکلا اور ریٹائرڈ ججوں سے بھی اس نکتے پر رائے حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، ان کی پختہ رائے ہی تحقیقاتی کمیشن کے لیے مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ ایسے ہی بیان برائے بیان اور ہوا میں تیر چلانے کا کوئی فائدہ نہیں، الٹا نقصان ہوگا۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ ذرا متحرک ہو اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرے اور سوشل میڈیا پر کیے جانے والے بے بنیاد تجزیوں اور تبصروں کی راہ روکے۔ یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے، بلکہ فرائیڈے اسپیشل کے صفحات گواہ ہیں کہ یہاں زور دے کر یہ بات کی جاتی رہی ہے کہ اگر تمام ریاستی ادارے آئین میں متعین کردہ اپنی ذمہ داریوں اور حدود وقیود کے فریم ورک میں رہ کر فرائض سرانجام دیں تو سسٹم میں کسی بگاڑ کی نوبت ہی نہ آئے، اگر ادارہ جاتی سطح پر اب بھی صفیں درست کرلی جائیں اورآئین و قانون کی حکمرانی تسلیم کرلی جائے تو اس سے ملک میں جمہوریت مستحکم ہوسکتی ہے۔

اب جب کہ کمیشن ختم ہوچکا ہے، اس کے بعد سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کی کارروائی شروع کردی ہے اور رواں ہفتے اس خط کے بارے میں سب پتا چل جائے گا کہ ہوا کس نے دی اور جلتی پر تیل کا کام کس نے کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چھے ججوں کے خط کو ججوں کے حقوق کے تحفظ اور حقوق کا مسئلہ نہیں سمجھا گیا۔ انصاف کی بالادستی، عدلیہ کی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ بھی نہیں سمجھا گیا۔ بس ’’مردہ جلدی دفنانے‘‘ والا ماحول بنایا گیا ہے کہ مٹی پاؤ۔ یہ اس لیے کہ پارلیمان کی حالیہ ایک قانون سازی کے نتیجے میں سپریم کورٹ کے تین سینئر جج حضرات کو فوقیت اور فضیلت دی گئی تھی۔ ان میں سے تیسرے سینئر ترین فاضل جج صاحب وزیراعظم شہبازشریف کے ساتھ ملاقات میں بھی موجود نہیں تھے۔ گویا اس معاملے میں انہیں شریکِ مشاورت کرنا ضروری نہیں سمجھا گیا کہ کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔ لیکن یہ مسئلہ تب ہوگا جب جج حضرات میں سے کوئی ایک، یا چھے کے چھے کہہ دیں کہ ہمیں شنوائی نہیں ملی یا سنا ہی نہیں گیا۔ یہ بات نہایت قابل غور ہے کہ عدالتِ عالیہ کے چھے ججوں کی طرف سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ ایک پٹیشن کو ناقابلِ سماعت قرار دینے والے جج پر حساس ادارے کے اہلکاروں نے دوستوں اور رشتے داروں کے ذریعے دباؤ ڈالا، وہ شدید ذہنی دباؤ کے باعث ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہوکر اسپتال پہنچ گئے، یہ معاملہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اور چیف جسٹس پاکستان کے علم میں لایا گیا جس کے بعد بتایا گیا کہ متعلقہ ادارے کے سربراہ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اُن کے ادارے کا کوئی آفیشل ہائی کورٹ کے کسی جج کو ’’اپروچ‘‘ نہیں کرے گا، تاہم اِس کے باوجود مداخلت جاری رہی۔ اِس خط میں سیشن کورٹ کے ایک جج کی شکایت کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے کہ جج صاحب نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے سامنے حساس ادارے کے اہلکاروں کی شکایت لگائی جس کے بعد اُنہیں او ایس ڈی بنادیا گیا۔ خط میں جج صاحبان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو انٹیلی جنس ادارے کی مداخلت پر عہدے سے برطرف کیے جانے کے معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا۔ ججوں کی طرف سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ مئی 2023ء میں ہائی کورٹ کے ایک جج کے برادر نسبتی کو مسلح افراد نے اغوا کیا اور 24 گھنٹے بعد چھوڑا، جج کے بیٹے اور فیملی کے لوگوں کی سرویلنس کی گئی، حراست کے دوران الیکٹرک شاک لگائے گئے اور ویڈیو بیان ریکارڈ کرنے پر مجبور کیا گیا۔ خط میں لکھا گیا ہے کہ ہائی کورٹ کے ایک جج پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا، جبکہ ایک جج کے بارے میں لکھا ہے کہ جب وہ سرکاری گھر میں شفٹ ہوئے تو اُن کے ڈرائنگ روم اور ماسٹر بیڈ روم میں کیمرے نصب تھے جو آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ کسی جگہ ٹرانسمٹ کررہے تھے۔ خط میں مزید کہا گیا کہ عدلیہ کی آزادی میں اگر مداخلت ہورہی تھی تو عدلیہ کی آزادی’’انڈرمائین‘‘ کرنے والے کون تھے؟ اور اُن کی معاونت کس نے کی؟ ایسے تمام افراد سے جواب لیا جائے تاکہ کبھی دوبارہ ایسا نہ ہو۔ ججوں کے کوڈ آف کنڈکٹ میں بھی کوئی رہنمائی نہیں ہے کہ ایسی صورت حال کو کیسے رپورٹ کریں۔ خط میں حال میں جاری مداخلت کا پتا چلانے کے لیے تحقیقات کا دائرہ وسیع کرنے کے ساتھ ساتھ ایسی انکوائری کا مطالبہ بھی کیا گیاہے جس سے پتا چل سکے کہ کہیں سیاسی مقدمات میں عدالتی کارروائی پر اثرانداز ہونا ریاستی پالیسی تو نہیں، یا پھر کہیں حساس اداروں کے ذریعے ججوں کو دھمکا کر اِس پالیسی کا نفاذ تو نہیں کیا جارہا۔ خط میں کہا گیا ہے کہ فروری 2024ء میں پانچ ججوں نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو فل کورٹ میٹنگ بلانے کے لیے لکھا تاہم نہیں بلائی گئی۔

ہائی کورٹ کے ججوں کی طرف سے لکھے گئے اِس خط کے منظرِعام پر آتے ہی چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق اور چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک مذموم مہم شروع کردی گئی جس کا کوئی جواز نہیں تھا، اس سے سوشل میڈیا پر براجمان سماج دشمن عناصر کو کھل کھیلنے کا موقع ملا ہے۔ بہتر ہوتا کہ یہ معاملہ محفوظ چینل کے ذریعے اٹھایا جاتا۔ خط کے مندرجات کی روشنی میں فی الفور دو کارروائیاںعمل میں لائی گئیں، پہلے چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے افطار کے بعد سے لے کر رات آٹھ بجے تک جاری رہنے والے فل کورٹ اجلاس میں تمام ججوں کے تحفظات انفرادی طور پر سنے۔ اٹارنی جنرل، وفاقی وزیر قانون اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر بھی چیف جسٹس سے ملے اور اگلے ہی روز وزیراعظم شہبازشریف کی چیف جسٹس سے ملاقات ہوئی جو ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہی۔ یہ ملاقات خط کا معاملہ وفاقی کابینہ کے اجلاس کے توسط سے اچھی ساکھ کے مالک کسی سابق سینئر جج پر مشتمل یک رکنی کمیشن سے تحقیقات کرانے کے متفقہ فیصلے پرمنتج ہوئی۔ لیکن بدقسمتی سے یہ معاملہ منطقی انجام تک پہنچے بغیر راستے میں ہی دم توڑ گیا۔ وزیراعظم شہبازشریف اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے درمیان ملاقات میں طے کیے جانے والے یک رکنی عدالتی کمیشن کے قیام کے فیصلے کی جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں توثیق کردی گئی تھی۔ وزیراعظم نے یقین دلایا کہ وہ آزاد عدلیہ کو یقینی بنانے کے لیے مزید مناسب اقدامات کریں گے، لیکن پی ٹی آئی کور کمیٹی کے اجلاس نے یک رکنی کمیشن مسترد کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کے مطالبے کی روشنی میںجوڈیشل کانفرنس منعقد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ بہتر ہوتا اگرکمیشن کو فیکٹ فائنڈنگ تک پہنچنے کا ٹاسک دیا جاتا اور اس کی رپورٹ کی روشنی میں ذمہ داران کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کیا جاتا۔ خط سے پیدا شدہ صورت حال کو طول دینا مناسب نہیں کیونکہ سماج دشمن عناصر اداروں میں ٹکرائو کا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے معاشرے میں افراتفری ہی پھیلے گی۔وزیراعظم نے کمیشن بنانے کا جو فیصلہ کیا تھا اس کی رپورٹ کا انتظار کیا جانا چاہیے تھا۔