ہمارا آنے والا برس بھی معاشی بحران کے گرد ہی گھومے گا۔ لوگوں کو ریلیف کیسے ملے گا اورکون ان کو ریلیف دے گا؟
پاکستان کا ایک بنیادی مسئلہ حکمرانی کا بحران یا گورننس سے جڑے معاملات ہیں۔ اس بحران نے پورے ریاستی، حکومتی اور ادارہ جاتی نظام کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام آدمی سمیت بالائی طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ہم مجموعی طور پر ایک بری سیاسی حکمرانی کے دور سے گزر رہے ہیں۔ اس بحران نے عام آدمی اور ریاستی و حکومتی نظام کے درمیان بڑی واضح خلیج بھی پیدا کی ہے، اور اس سے ریاست اور شہریوں کے درمیان بداعتمادی کا ماحول بھی غالب ہے۔ سیاسی حکومت ہو یا فوجی حکومت… کسی بھی دور میں حکمران طبقات نے گورننس کے بحران کو حل کرنے کی اوّل تو کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی، اور اگر کسی جگہ یہ دعویٰ موجود ہو کہ ہم نے کوششیں کی ہیں تو پھر یہ کوششیں ہمیں روایتی اور فرسودہ یا پرانے خیالات کے گرد ہی گھومتی نظر آتی ہیں۔ مجموعی طور پر حکومتی سطح پر گورننس کے جو ماڈل نظر آتے ہیں ان میں بنیادی نوعیت کی خرابیاں موجود ہیں، ان خرابیوں کی موجودگی میں بہتر نتائج کے حصول کو محض ایک خواہش ہی کے طور پر دیکھا جانا چاہیے،کیونکہ عملی طور پر گورننس کے تناظر میں ہمارے سیاسی حقائق دعووں کے مقابلے میں بہت زیادہ مختلف ہیں۔
اِس وقت ہمارا جو سیاسی نظام ہے اس کی سربراہی عملی طور پر وزیراعظم کے ہاتھ میں ہوتی ہے، لیکن لگتا ایسا ہے کہ ہم نے یہ طے کرلیا ہے کہ جو بھی سیاسی و جمہوری نظام چلایا جائے گا اُس کا ریموٹ کنٹرول سیاسی حکومت یا سیاسی لوگوں کے بجائے غیر سیاسی لوگوں کے ہاتھوں میں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ سیاسی حکومت کو بھی پسِ پردہ قوتوں کی آلۂ کار کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ جس انداز سے یہ نئی حکومت بنی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں عوامی نمائندگی اور ووٹوں کی بنیاد پر حکومت بنانے کا عمل بہت حد تک کمزوری کا شکار ہے۔ اس لیے جو موجودہ حکومتی ماڈل ہے وہ عملی طور پر اسٹیبلشمنٹ کا ہی ماڈل ہے اور اُن ہی کی حمایت سے تشکیل دیا گیا ہے۔ اس لیے اگر گورننس کا نظام درست نہیں چل رہا تو اس کی ذمہ داری محض سیاسی حکومتوں پر نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ پر بھی عائد ہوگی اور اُن کو اس ناکامی کی ذمہ داری بھی قبول کرنی چاہیے۔ اس وقت حکومتی فیصلوں کو دیکھیں تو ان پر حکومت کا کنٹرول کم اور اسٹیبلشمنٹ کا زیادہ ہوگیا ہے جو یقینی طور پر سیاست اورجمہوریت کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔سیاست دانوں پر تنقید کرنا بہت آسان ہوتا ہے، مگر ہم اپنی تنقید میں اُن تمام کرداروں کو بھول جاتے ہیں جو اس ملک کی اصل اور حقیقی طاقت ہیں۔
سیاسی جماعتوں پر بھی ضرور تنقید ہونی چاہیے کیونکہ وہ بھی مختلف ادوار میں اقتدار کے باوجود کوئی اچھا، مضبوط، مربوط اور شفاف حکمرانی کا عملی نظام قائم نہیں کرسکیں۔ پیپلزپارٹی سندھ میں مسلسل چوتھی بار حکومت کا حصہ بن رہی ہے یعنی 15برس پر مشتمل مسلسل حکمرانی اور چوتھی حکومت کا آغاز، پنجاب میں 10 سال تک مسلسل شہباز شریف کی حکمرانی اور اب ایک بار پھر اُن کی بھتیجی مریم نواز کی حکمرانی، جبکہ ماضی میں نوازشریف بھی کئی بار وزیر اعلیٰ پنجاب رہے ہیں۔ خیبرپختون خوا میں مسلسل 8 برس سے زائد پی ٹی آئی کی حکومت اوراب اسی صوبے میں اس کی تیسری حکومت ہے، جبکہ بلوچستان میں اسٹیبلشمنٹ کے تیار کردہ حکومتی ماڈل کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ کا براہِ راست حکومت پر کنٹرول… یہ دونوں ماڈل حکمرانی کا اچھا نظام قائم نہیں کرسکے ہیں۔2010ء میں جب ملک میں 18 ویں ترمیم کی گئی تو کہا گیا کہ اب ملک میں عملاً حکمرانی کا مضبوط اور شفاف نیا ماڈل سامنے آئے گاکیونکہ وفاق نے اپنے اختیارات صوبوں کو منتقل کردیے ہیں تاکہ صوبائی حکومتیں اپنی اپنی صوبائی سطح پر حکمرانی کے اچھے ماڈل قائم کرسکیں۔ وفاق نے اگر اپنے اختیارات صوبوں کو منتقل کیے تو صوبائی حکومتوں نے وہ اختیارات صوبوں سے ضلعوں میں منتقل کرنے کے بجائے صوبائی سطح تک محدود کرکے حکمرانی کے نظام کو مفلوج کیا ہے۔ حالانکہ آئین کی شق 140-Aتمام صوبائی حکومتوں کو پابند کرتی ہے کہ وہ اپنے اپنے صوبے میں ایک مضبوط اور خودمختار مقامی حکومتوں کے نظام کو یقینی بناکر اُن کو سیاسی، آئینی، انتظامی اورمالی اختیارات کی تقسیم کو یقینی بنائیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارا حکمرانی کا مجموعی نظام عدم مرکزیت کے مقابلے میں مرکزیت کی بنیاد پر کھڑا ہے اورہم اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس کا ایک عملی نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ملک میں حکمرانی کا بحران کم نہیں ہورہا، بلکہ مزید بڑھ رہا ہے۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے حکمران طبقات حقیقی تبدیلی کے بجائے مصنوعی تبدیلی کے حامی ہیں اور کسی بھی قسم کی سخت اصلاحات جو عملی طور پر حکمرانی کے نظام کی شفافیت کے لیے درکار ہیں، اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس وقت حکمرانی کا مجموعی نظام خیراتی منصوبوں کی بنیاد پر چل رہا ہے جس کامقصد ملک کے لوگوں کو ہاتھ پھیلانے پر مجبور کرنا یا اُن کو بھکاری کے طور پر پیش کرنا ہے۔ حکومتی سطح پر مختلف طرز کے کارڈ دے کر لوگوں کو بھکاری بنانے کا عمل ان کی معاشی حیثیت کو مضبوط نہیں بلکہ کمزور کررہا ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ اپنی حکمرانی کے نظام میں ذاتی تشہیر کا شکار ہوگیا ہے۔ راشن کے تھیلوں پر یا مختلف نوعیت کے کارڈز کے اجرا پر سیاست دانوں کی تصاویر، سوشل میڈیا پر ذاتی تشہیر، اخبارات اور ٹی وی پر بڑے بڑے اشتہارات، بینرز، بل بورڈز کا استعمال کرکے سرکاری وسائل کو ذاتی جاگیر سمجھ کربرباد کیا جارہا ہے۔جبکہ تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ حکومتی سطح پر مسائل کی درست نشاندہی اور مسائل کے حل میں درست ترجیحات کے تعین کا فقدان بہت زیادہ غالب نظر آتا ہے۔ پہلے سے موجود نظام کو درست کرنے کے بجائے نئے نظام یا نئے ادارو ں کی تشکیل کرکے ریاست پر مزید بوجھ ڈالا جارہا ہے، یعنی ایک ادارے کے مقابلے میں متبادل اداروں کا قیام بھی بری حکمرانی کے پہلوئوں کو اجاگر کرتا ہے۔ حکومتی توجہ کا مرکز میگا منصوبے اوران میں کھایا جانے والا کمیشن ہے جس نے پورے ملک میں حکمرانی کے نام پر بدعنوانی، کرپشن اور اقرباپروری کو اس نہج پر پہنچادیا ہے کہ مسائل حل ہونے کے بجائے اور زیادہ بگاڑ کا شکار ہوگئے ہیں۔یہی حال معیشت کا ہے اور ہم معیشت کا علاج بھی قومی سطح پر ایک جذباتی کیفیت کے ساتھ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایک طرف حکومت ہے تو دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ۔ معلوم نہیں معیشت کا علاج حکومت کو کرنا ہے یا اسٹیبلشمنٹ کو؟ کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ معاشی فیصلوں کا اختیار حکومت کے بجائے عملی طور پر اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت نے اگرچہ اسحاق ڈار کو وزیر خارجہ کے طور پر ذمہ داری دی ہے، مگر لگتا ہے کہ اُن کی توجہ کا مرکز وزارتِ خارجہ نہیں بلکہ معیشت ہے، اور وہ معیشت کے معاملات میں نہ صرف دلچسپی لے رہے ہیں بلکہ مختلف معاشی کمیٹیوں میں اُن کی شمولیت نے وزیر خزانہ کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے معاشی کنٹرول بھی اپنے ہاتھ میں لیا ہوا ہے اور حکومت مفلوج نظر آتی ہے۔ وزیر دفاع جن کا کام دفاعی معاملات پر توجہ دینا ہے وہ قوم کو بتا رہے ہیں کہ ملک ڈیفالٹ ہونے جارہا ہے۔ ایسی باتیں یقینی طور پر حکومت کے اپنے اندر داخلی تضادات یا الجھائو کو نمایاں کرتی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ معاشی امور پر خود حکومت کے اندر یکسوئی نہیں ہے۔ دوسری طرف عام آدمی پر معاشی بوجھ بڑھتا جارہا ہے اور مسلسل مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کی تشویش میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، اُن کو لگتا ہے کہ ان کی زندگیوں میں حکومت آسانیاں پیدا کرنے کے بجائے ان کے لیے مزید مشکلات پیدا کررہی ہے۔ وزیر دفاع نے پھر کہا ہے کہ عام آدمی کو ریلیف دینا ہماری حکومت کے بس میں نہیں اور کم ازکم دو برس تک ہمیں سنگین معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سوال یہ ہے کہ جب خود حکومت اعتراف کررہی ہے کہ اس کو نہ صرف معاشی بحران کا سامنا ہے بلکہ وہ ریلیف بھی دینے کی پوزیشن میں نہیں تواس کا مطلب واضح ہے کہ ہمارا آنے والا برس بھی معاشی بحران کے گرد ہی گھومے گا۔ لوگوں کو ریلیف کیسے ملے گا اورکون ان کو ریلیف دے گا؟ اس کا کوئی جواب پورے ریاستی یا حکومتی نظام کے پاس نہیں ہے، اور یہی اس ملک کا اصل اور حقیقی بحران بھی ہے۔ دیکھنا ہے کہ آئی ایم ایف سے نئے معاہدے کی صورت میں مہنگائی کا جو نیا طوفان آئے گا اس سے حکومت خود کو کیسے محفوظ کرسکے گی۔ کیونکہ بظاہر لگتا ہے کہ آئی ایم ایف کی سنگین یا سخت شرائط سے حکومت کو خاصے دبائو کا سانا ہے، اور معاہدے پر عمل درآمد کی صورت میں عوام پر مزید معاشی بوجھ پڑے گا۔ اصل میں حکومت بڑے لوگوں پر معاشی بوجھ ڈالنے کے لیے تیار نہیں، اور سارا بوجھ عام آدمی پر نئے ٹیکسوں کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔
ملک میں ایک طرف بری حکمرانی کا بحران ہے تو دوسری طرف مسلسل دہشت گردی کا نیا دور بھی دیکھنے کو مل رہا ہے اور افغانستان کا بحران ہمارے لیے مسلسل نئی مشکلات پیدا کررہا ہے۔ ٹی ٹی پی کا بحران بڑھ رہا ہے اور اس تناظر میں ہمیں افغان حکومت کی جو حمایت درکار ہے اس سے ہم محروم نظر آتے ہیں۔ چینی باشندوں پر دہشت گرد حملے بھی ظاہر کرتے ہیں کہ حالات ہمارے کنٹرول سے باہر ہوتے جارہے ہیں، اور اگر دہشت گردی کی اس لہر کو نہ روکا گیا اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوتا رہا تو ایسے میں حکمرانی کے بحرا ن سمیت معاشی معاملات میں بہتر ی کے امکانات بھی کمزور ہوجائیں گے۔اس پورے کھیل میں پیپلزپارٹی حکومت کے ساتھ کھڑی ہے، مگر عملی طور پر دیکھیں تو ا ن تمام معاملات پر وہ خاموش بھی ہے۔ حکومت کی تشکیل کے بعد پراسرار طور پر یا کسی منصوبے کے تحت بلاول بھٹو خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اسی بنیاد پر پنجاب اور خیبر پختون خوا میں نئے گورنرز کی تقرری کا معاملہ بھی لٹکا ہوا ہے اور معاہدے کے تحت ان دونوں صوبوں میں پیپلزپارٹی کے گورنر لگنے ہیں، لیکن لگتا ہے اس معاملے میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی میں ناموں پر اتفاق نظر نہیں آرہا۔ حکومت کو مجموعی طور پر اس بات پر اطمینان ہے کہ خط ڈپلومیسی کے تحت امریکی صدر نے نئے وزیراعظم کو مبارک باد کا خط بھیجا ہے اور مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اس پر حکومتی حلقوں میں خاصی خوشی بھی ہے اور کہا جارہا ہے کہ امریکی صدر کے خط کے پیچھے ہماری فوج اور ڈونلڈ بلوم کا کردار زیادہ اہم ہے۔ لیکن حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ امریکی صدر کا خط اپنی جگہ، پاکستان کو اِس وقت داخلی بحران کا سامنا ہے، اور جب تک حکومت اپنی گورننس کی مدد سے حالات کو بہتری کی طرف نہیں لے کر جائے گی، ملک کے حالات میں بہتری کا کوئی امکان نہیں ہے۔
اب ایک نیا کھیلاسلام آباد ہائی کورٹ کے چھے ججوں کی جانب سے سپریم کورٹ کو لکھے گئے خط کی صورت میں سامنے آیا جس میں کہا گیا کہ ہم پر ملکی ایجنسیوں کا بہت دبائو ہے اورہمیں آزادانہ بنیادوں پر کام نہیں کرنے دیا جارہا۔ ان ججوں کا مطالبہ تھا کہ اس اہم مسئلے پر سپریم کورٹ ہماری راہنمائی کرے۔ لیکن سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور وزیراعظم کے درمیان ہونے والی ملاقات جو فل کورٹ کے بعد ہوئی، اس میں فیصلہ کرکے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی کی سربراہی میں ایک رکنی عدالتی کمیشن بنادیا گیا، لیکن اب نئی خبر کے مطابق جو کمیشن بنایا گیا تھا اُس کی سربراہی سے کمیشن کے سربراہ نے معذرت کرلی، جبکہ دوسری طرف سپریم کورٹ پر جو دبائو ہے اس کے نتیجے میں اب سپریم کورٹ نے لارجر بینچ بنادیا ہے جو چھے ججوں کے لکھے ہوئے خط کی تحقیقات کرے گا۔ اس مسئلے پر ہم فل کورٹ بھی بنتا دیکھ سکتے ہیں۔ بعض ججوں کا اعتراض ہے کہ چیف جسٹس اور وزیراعظم کے درمیان ملاقات پر بھی بہت تنقید ہورہی ہے اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ سپریم کورٹ نے اس مسئلے کو داخلی سطح پر حل کرنے کے بجائے کیوں عدالتی کمیشن کی طرف پیش رفت کی؟ کہا جارہا ہے کہ جو چھے جج ہیں اُن کو بھی کمیشن بنانے پر اعتراض تھا اور بعض وکلا تنظیموں نے بھی کمیشن بننے کے فیصلے پراعتراض کیا تھا، اور اسی دبائو کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو سوموٹو لینا پڑا ہے، اور اب اُن پر سخت دبائو ہے کہ وہ اس مسئلے کو پس پشت ڈالنے کے بجائے اس پر مؤثر کردار کو یقینی بنائیں تاکہ ججوں میں موجود تحفظات کو ختم کیا جاسکے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو اب عدالتی محاذ پر بھی سخت بحران یا ٹکرائو کا سامنا ہے، اور جس انداز سے حکومت چلائی جارہی ہے اور جس طریقے سے اہم فیصلوں پر اسٹیبلشمنٹ اثرانداز ہورہی ہے اس سے یقینی طور پر عدالتوں میں سخت تحفظات پائے جاتے ہیں اور بعض ججوں سمیت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو بھی بہت سے محاذوں پر تنقید کا سامنا ہے، اور یہ دبائو آنے والے دنوں میں کم نہیں ہوگا بلکہ مزید بڑھے گا۔