اعلیٰ عدلیہ کے معاملات میں مداخلت

حقائق جس طرح طشت ازبام ہورہے ہیں، حالات جس انداز میں منظرعام پر آرہے ہیں، واقعات کی کڑیاں جوں جوں باہم مل رہی ہیں اور معاملات کے پسِ پردہ ہاتھ جس تیزی سے آشکار ہورہے ہیں وہ اس امر کا بیّن ثبوت ہیں کہ وطنِ عزیز میں جاری نظام مکمل طور پر گل سڑ چکا ہے، نظام کی تباہی سوال و جواب کی حدود سے گزرکر اس مقام پر آپہنچی ہے کہ ہر طلوع ہوتے سورج کے ساتھ ایک نیا آئینی و سیاسی اور معاشی و معاشرتی بحران اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دروازے پر دستک دے رہا ہوتا ہے۔ ہمارے نام نہاد نظام کے تمام ستون خستگی کے شکار اور ایک دوسرے کی دل شکستگی و انتشار کا سبب بن رہے ہیں۔ یہ اگر کوئی نظام ہے تو اس کی بنیادیں اس قدر کھوکھلی ہوچکی ہیں کہ ایک معمولی جھٹکے سے سب کچھ تہہ و بالا ہوسکتا ہے۔ حقیقت بہرحال یہی ہے کہ ہمارے نظام کا ڈھانچہ ’’ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے‘‘ کی کیفیت سے دوچار ہے، اور حالات پورے نظامِ ریاست و مملکت کی ازسرنو تشکیل کا تقاضا کررہے ہیں، مگر ہم بحیثیت قوم، خصوصاً اربابِ اختیار و اقتدار کی سطح پر ہرگز اس کے لیے آمادہ و تیار نہیں ہیں۔ ہم اس کیفیت سے دوچار ہیں جس کی نشاندہی کرتے ہوئے علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا کہ:

آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

وفاقی دارالحکومت سے منسوب عدالتِ عالیہ اسلام آباد کے آٹھ میں سے چھے ججوں نے گزشتہ ہفتے ایک مشترکہ خط سپریم جوڈیشل کونسل اور اس کے سربراہ منصفِ اعلیٰ پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو تحریر کیا، جس کے بعد سے ایک بھونچال آیا ہوا ہے۔ اس ضمن میں خود عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں وضاحت کی گئی ہے کہ چھے ججوں کا خط 25 مارچ کو منصفِ اعلیٰ قاضی فائز عیسیٰ کو موصول ہوا جس کے بعد انہوں نے خط لکھنے والے تمام ججوں کو بلا کر فرداً فرداً ملاقات کی اور ان کے تحفظات سنے۔ خط میں لگائے گئے الزامات کی شدت کو مدنظر رکھتے ہوئے 26 مارچ کو منصفِ اعلیٰ نے اپنی رہائش گاہ پر افطار کے بعد اجلاس بلایا جس میں عدالتِ عالیہ اسلام آباد کے تمام جج شریک ہوئے۔ اس کے بعد منصفِ اعلیٰ نے اٹارنی جنرل، وزیر قانون و انصاف، عدالتِ عظمیٰ کے سینئر جج اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وفد سے بھی ملاقات کی۔ منصفِ اعلیٰ نے اگلے روز وزیراعظم سے بھی ملاقات کی۔ وزیراعظم سے منصفِ اعلیٰ کی ملاقات سے قبل اور بعد عدالتِ عظمیٰ کے تمام ججوں کے فل کورٹ اجلاس بھی منعقد ہوئے۔ ان تمام اجلاسوں اور ملاقاتوں میں عدالت ِ عالیہ اسلام آباد کے 6معزز جج صاحبان کے خط میں انتظامیہ اور خفیہ اداروں کی عدالتی امور میں مداخلت کے الزام کا جائزہ لیا گیا اور معاملے کی انکوائری کرانے پر اتفاق کیا گیا، اس مقصد کے لیے سابق منصفِ اعلیٰ جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں یک رکنی تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل کا اعلان بھی کردیا گیا، مگر اس اعلان کے اگلے ہی روز جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی نے وزیراعظم کے نام اپنے خط میں کمیشن کی سربراہی کے لیے اپنی ذات پر اعتماد پر اظہارِ تشکر کرتے ہوئے اس ذمہ داری کی ادائیگی سے معذرت کرلی۔ انہوں نے اپنے خط میں رائے دی کہ کمیشن خط کے مندرجات کی تحقیقات کا مناسب فورم نہیں، ججوں نے اپنے خط میں سپریم جوڈیشل کونسل کو مخاطب کیا تھا، اس لیے یہ معاملہ جوڈیشل کونسل اور سپریم کورٹ کو خود طے کرنا چاہیے اور منصفِ اعلیٰ قاضی فائز عیسیٰ عدالتِ عظمیٰ اور کونسل کے سربراہ کی حیثیت سے ادارہ جاتی سطح پر اسے خود دیکھیں۔ جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی نے کمیشن کے قواعد اور دائرۂ کار پر بھی تحفظات کا اظہار کیا کہ خط میں جو الزامات لگائے گئے ہیں اُن کا اِن قواعد میں ذکر ہی نہیں اور یہ خط پیرا میٹر 209 کے دائرۂ کار میں آتا ہی نہیں۔ جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی کے اس خط اور معذرت کے بعد عدالتِ عظمیٰ نے اس معاملے میں ازخود نوٹس لیتے ہوئے منصفِ اعلیٰ کی سربراہی میں وسیع تر 7 رکنی بینچ تشکیل دے دیا ہے جس نے معاملے کی سماعت کا آغاز کردیا ہے۔ دیکھیں اب اداروں کی باہمی چپقلش اور مبینہ مداخلت کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

آئینی اداروں میں باہم ٹکرائو کسی طرح بھی ملک و قوم کے مفاد میں نہیں، اس لیے لازم ہے کہ تمام ادارے اس سے ہر صورت بچنے کی کوشش کریں۔ آئین عدلیہ کی آزادی کی ضمانت مہیا کرتا ہے جسے یقینی بنانا تمام اداروں کی ذمہ داری ہے۔ عدلیہ کی آزادی وہ بنیادی ستون ہے جس کے ذریعے آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کو استحکام حاصل ہوتا ہے۔ تاہم عدالتِ عالیہ اسلام آباد کے 6 ججوں اور اس سے قبل جسٹس (ر) شوکت صدیقی کے معاملے کے علاوہ عدالت ِعالیہ لاہور کے جسٹس شاہد جمیل کے استعفے میں جو الزامات عائد کیے گئے ہیں وہ ہمارے عدالتی نظام کی ساکھ کے لیے نہایت تباہ کن ہیں۔ اگر اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے ساتھ اس طرح کا شرمناک سلوک روا رکھا جا سکتا ہے تو ماتحت عدلیہ میں کیا کچھ نہیں ہوتا ہو گا؟ یا جن سیاست دانوں کی جانب سے کچھ روز غائب رہنے کے بعد سیاست سے علیحدگی کے جو اعلانات کیے جاتے رہے ہیں، یا اب الیکشن کمیشن کے فارم 45 کے بجائے فارم 47 کے من پسند انتخابی نتائج کے معاملات کے پسِ پردہ عوامل سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس ساری صورتِ حال میں یہ امر حیران کن ہے جسے ایک لحاظ سے مثبت بھی قرار دیا جاسکتا ہے کہ جس اہم اور ملک کے منظم ترین ادارے پر عدالتی امور میں مداخلت اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں پر دبائو کے لیے ناقابلِ قبول حربے اختیار کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں، اُس کی جانب سے تاحال اپنی صفائی میں ایک لفظ تک نہیں کہا گیا جسے بعض حلقوں کی طرف سے ’’خاموشی نیم رضا‘‘ یا اعتراف کے معانی بھی پہنائے جا رہے ہیں، کیونکہ ماضی میں یہ منظم ادارہ اپنی صفائی کے معاملے میں اس طرح کی تاخیر کا روا دار کم ہی رہا ہے۔ اب جب کہ ازخود نوٹس کے ذریعے معاملہ عدالت ِعظمیٰ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے تو واضح فیصلہ آنا ضروری ہے، کیونکہ دنیا میں قانون کی حکمرانی کی درجہ بندی میں ہم پہلے ہی خاصے نیچے آتے ہیں۔ اسی طرح مجلسِ شوریٰ کو بھی ایسی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے قانون سازی کی ذمہ داری بلاتاخیر پوری کرنا چاگیے تاکہ ملک میں آئین و قانون کی بالادستی اور جمہوریت کے استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔ (حامد ریاض ڈوگر)