”پورا معاشرہ توحید کی بنیاد پر قائم ہوجائے اور اس میں اخلاق، تمدن، تہذیب، تعلیم،
مذہب، قانون، رسم و رواج، سیاست، معیشت، غرض ہر شعبۂ زندگی کے لیے وہ اصول اعتقاداً مان لیے جائیں اور عملاً رائج ہوجائیں، جو خداوند ِ عالم نے اپنی کتاب اور رسولؐ کے ذریعے سے دیے ہیں۔
خدا کا دین جس کو گناہ کہتا ہے، قانون اسی کو جرم قرار دے، حکومت کی انتظامی مشین اسی کو مٹانے کی کوشش کرے، تعلیم و تربیت اسی سے بچنے کے لیے ذہن اور کردار تیار کرے،
منبر و محراب سے اسی کے خلاف آواز بلند ہو، معاشرہ اسی کو معیوب ٹھیرائے اور معیشت کے ہر کاروبار میں وہ ممنوع ہوجائے۔ اسی طرح خدا کا دین جس چیز کو بھلائی اور نیکی قرار دے،
قانون اس کی حمایت کرے، انتظام کی طاقتیں اسے پروان چڑھانے میں لگ جائیں، تعلیم و تربیت کا پورا نظام ذہنوں میں اس کو بٹھانے اور سیرتوں میں اسے رچا دینے کی کوشش کرے،
منبر و محراب اسی کی تلقین کریں، معاشرہ اسی کی تعریف کرے اور اپنے عملی رسم و رواج اُس پر قائم کردے،
اور کاروبارِ معیشت بھی اسی کے مطابق چلے…
یہ وہ صورت ہے جس میں انسان کو کامل داخلی و خارجی اطمینان میسر آجاتا ہے اور مادّی و روحانی ترقی کے تمام دروازے اس کے لیے کھل جاتے ہیں،
کیونکہ اس میں بندگئ ربّ اور بندگی ٔ غیر کے تقاضوں کا تصادم قریب قریب ختم ہوجاتا ہے۔“
(تفہیم القرآن، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد61، عدد4، جنوری 1964ء، ص 24-25)