پچھلے کالم میں، نہ جانے کس جھونک میں آکر اور لغات سے سند لیے بغیر، ہم لکھ گئے کہ
’’ تعیُّن عربی لفظ ہے، تَعیین فارسی لفظ ہے اور تعینات یا تعیناتی خالص اُردو اصطلاح ہے‘‘۔
یہاں غلطی یہ ہوئی کہ ہم نے تعیین کو صرف فارسی لفظ قرار دیا ہے، جب کہ خود فارسی کا تعیین بھی عربی ہی سے آیا ہے۔ یعنی یہ لفظ عربی الاصل ہے۔ اب یہ الگ بات،کہ فارسی والوں نے تعیین کا ایک ’ی‘ حذف کرکے اپنے تعیین میں تخفیف کرڈالی۔ وہ تعیین کو بر وزنِ یقین برتنے لگے۔ جیسا کہ ملا طغراؔ مشہدی نے تعیین کے ساتھ یہ برتاؤ کرکے دکھادیا۔ فرماتے ہیں:
تعِیں گشت ساعاتِ بزم و طرب
خوشی یافت از حکمِ او روز و شب
گزشتہ کالم کا اصل موضوع تو لفظ’ تعینات‘ اور اس کا تلفظ تھا کہ ہمارے ذرائع ابلاغ پر اس لفظ کو تواتر سے تعیُّنات بولاجارہا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اُردو والوں نے پہلے اسی مفرس لفظ تعِین (بروزنِ امین)کی جمع عربی قاعدے کے مطابق تعِینات (تلفظ: تِعی نات) بنائی، پھر اسے مفرد کے طور پر استعمال کرنے لگے۔ تلفظ بھی ’تَعے نات‘ کرلیا۔ اب اُردو میں یہی تلفظ درست مانا جاتا ہے۔ بقول صاحبِ نوراللغات مولوی نورالحسن نیر مرحوم ’’اس کوتوال کی تَعیناتی رکاب گنج میں ہوئی ہے‘‘ نہ کہ تعیُّناتی، مگر کس کوتوال کی؟ یہ مت پوچھیے!
متعدد اہلِ علم نے تعیین کے تعیُّن میں ہمارے تسامح کی نشان دہی کی۔ ہم فرداً فرداً سب کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور ملتمس ہیں کہ آیندہ بھی رہنمائی فرماتے رہیں۔ اِنھیں اہلِ علم میں مولانا صدر الدین اصلاحی رحمہٗ اللہ کے فرزندِ دل بند محترم رضوان احمد فلاحی حفظہٗ اللہ بھی شامل ہیں۔ مولانا رضوان احمد فلاحی طول اللہ عمرہٗ، جوجامعۃ الفلاح، بلریا گنج، ضلع اعظم گڑھ سے فارغ التحصیل ہیں، اپنے نام کے ساتھ مولانا لکھنے سے سختی سے منع فرماتے ہیں۔ حتیٰ کہ اگر کسی کتاب پر ان کے نام کے ساتھ مولانا چھپ جائے تو کتاب کو عام کرنے سے پہلے لفظ ’مولانا‘ پر موٹے کاغذ کی چیپی لگوانا ضروری سمجھتے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ تعیینِ مراتب کی اس دنیا میں ایسے ایسے مولانا بھی موجود ہیں۔
’تعیین‘ کے محض فارسی ہونے کا تاثر ملنے پر اہلِ علم اور اہلِ لغت کے اعتراضات بالکل بجا، برمحل اور سر آنکھوں پر۔ مگر صاحب! ذرا کی ذرا ہمارے پچھلے کالم بعنوان ’’بھرتی کہاں کروں دلِ خانہ خراب کی‘‘ پر اہلِ قرأت میں سے ایک صاحب کا تعریفی و توصیفی مراسلہ بھی پڑھ لیجے، تاکہ توصیف و تصحیح دونوں کو مساوی موقع یعنی ‘Level Playing Field’مل سکے اور مزید کوئی اعتراض باقی نہ رہے۔ جناب محمد طاہر عزیز اوسلو (ناروے) سے لکھتے ہیں:
’’ماشاء اللہ، حسب معمول شان دار اور جان دار… بلاشبہ منتظر کالم… چند سال قبل ہمارے یہاں (اوسلو میں) مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمٰن صاحب مدظلہ تشریف فرما ہوئے، ایک نجی مجلس میں بچوں کی اُردو سے عدم توجہ کا موضوع زیر بحث تھا تو اس کالم کی طرف اشارہ فرمایا۔ تب سے اب تک اس کالم کو الحمدللہ مستقل پڑھتا ہوں۔ اُردو میں نظم و نثر کی معلومات کے حوالے سے تو اس کی افادیت مسلم ہے ہی، مگر اصلاح کے معاملے میں یہ کالم ایک عظیم، مصلح اور مدبر استاذ سے کم درجہ نہیں رکھتا… آپ نے اس تسلسل کو قائم رکھا اور قاری کو اپنے ساتھ جڑے رہنے پر مجبور کردیا… اللہ کریم آپ کو تادیر سلامت باکرامت رکھے۔ آپ کی اس سعی کو مشکور اور قبولِ عام عطا فرمائے آمین‘‘۔ ثم آمین۔ اب مفتی صاحب مدظلہ العالی کا مکتوب بھی ملاحظہ فرما لیجے:
’’محترم جناب ابونثر احمد حاطب صدیقی صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔آپ نے رواں شمارے میں لکھا ہے ’’تعیُّن‘‘ عربی لفظ ہے اور’’ تعیین‘‘ فارسی ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں عربی الفاظ ہیں۔’’ع، ی، ن‘‘ مادّے سے بابِ تَفَعُُل کے وزن پر تَعَیُّن ہے ’’المنجد‘‘ میں اس کے معانی یہ ہیں:’’تَعَیَّنَ الشَّیَٔ‘‘ دیکھنا، ’’تَعَیَّنَ الرَّجُلَ‘‘ یقینی طور پر دیکھنا۔’’تَعَیَّنَ عَلَیْہِ الشَّیُٔ‘‘مقرر شے کا لازم ہونا وغیرہ۔ بابِ تفعیل سے تعیین ہے۔’’تاج العروس‘‘ میں اس کے من جملہ معانی میں سے ہے: ’’عَیَّنَ الشَّجَرُتَعْیِیْناً‘‘ درخت کا سرسبز ہونا، شگوفہ دار ہونا، ’’عَیَّنَ التآَاجِرُ تَعْیِیْناً وَ عِیْنَۃً‘‘ سامان کو ایک مقررہ مدت کے وعدے پر فروخت کرنا اور پھر پہلی قیمت سے کم قیمت میں دوبارہ خرید لینا۔ اس کو حدیث و فقہ کی اصطلاح میں’’بیعِ عِیْنَہ‘‘ کہتے ہیں۔ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے ناپسند فرمایا ہے، لہٰذا اکثر فقہا نے اسے مکروہ قرار دیا ہے۔’’تَعیِیْنُ الشَّیٔ‘‘کسی چیز کو خاص کرنا، علیحدہ کرنا، وغیرہ۔ آپ کے ادبی شہ پاروں سے استفادہ کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ عافیت میں رکھے‘‘۔ مفتی منیب الرحمٰن۔ 24 مارچ 2024ء
آمین ثم آمین۔ دیکھیے! مفتی صاحب محترم اصلاحِ زبان کے ساتھ ساتھ اصلاحِ اعمال بھی فرماتے جاتے ہیں۔ آپ کے مکتوب سے جہاں الفاظ کے معانی معلوم ہوئے، وہیں یہ بھی معلوم ہوگیا کہ ’بیع عِینہ‘ فقہا کے نزدیک مکروہ ہے، اور اس کا سبب یہ ہے کہ آقائے دوجہاں، معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلّم نے بیچی ہوئی چیز پہلی قیمت سے کم قیمت میں خریدنے کے عمل پر کراہت کا اظہار فرمایا ہے۔
فقہی اصطلاحات ہی میں نہیں، غیر فقہی بول چال میں بھی ایک ترکیب استعمال ہوتی ہے ’بیع و شِرا‘۔ اس کا مطلب ہے خرید و فروخت۔ مگر ترتیب اس ترکیب میں اُلٹی ہے۔ بیع کا مطلب فروخت ہے اور شِرا کا مطلب خرید۔ بیع کی بہتیری اقسام ہیں۔ ایک قسم کا ذکر تو مفتی صاحب حفظہٗ اللہ نے کردیا۔ ایک اور قِسم ’’بیع سُلطانی‘‘کہلاتی ہے۔ سلطانِ معظم کسی کا مال اپنی ہی مقرر کردہ قیمت پر خرید فرمالیں، یا سلطان کے حکم سے کسی کی جائداد کی قُرقی اور نیلامی ہوجائے تو یہ ’بیع سلطانی‘ ہے۔ ہمارے شہری ادارے اجتماعی مصالح کے تحت اگر کسی کی زمین یا جائداد بحقِ سرکار حاصل کرنا چاہیں تو ہمارے یہ جدید سلطان بالعموم اپنی ’بیع سلطانی‘ میں عوامی ملکیت کی قیمت بازار سے کم تر مقرر کرتے ہیں۔ جب کہ سلاطینِ سلف ایسے موقعے پر رعایا کو رائج الوقت قیمت سے کئی گنا زیادہ قیمت ادا کیا کرتے تھے۔ ایک بیع اور ہوتی ہے جو ’بیع بالوفا‘ کہی جاتی ہے۔ یہ مشروط بیع ہوتی ہے۔ مثلاً ایک مقررہ مدت میں رقم ادا کرنے کا وعدہ کیا جاتا ہے۔ میعادِ مقررہ میں رقم ادا کردی گئی تو وعدہ وفا ہوگیا اور’بیع بالوفا‘ ہوگئی۔ مقررہ وقت پر رقم ادا کرنے میں بے وفائی کی گئی تو چیز بھی آئی گئی ہوگئی۔ ’بیع شرطی‘ بھی ایک بیع ہے جو کسی شرط کے پورا ہونے پر موقوف ہوتی ہے۔ شرط پوری ہوجائے تب ’بیع قطعی‘ کی جاتی ہے۔ خرید و فروخت لکھ کر کریں تو لکھی جانے والی دستاویز ’بیع نامہ‘ کہلاتی ہے۔ ’بیعانہ‘ سے تو سب ہی واقف ہیں۔ قیمت طے ہوجائے تو مکمل رقم دینے سے قبل کچھ رقم دے کر بیع پکی کرلی جاتی ہے۔ یعنی یہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ اس قیمت پر بات طے ہوگئی ہے۔ یہ رقم کُل قیمت ادا کرتے وقت وضع کرلی جاتی ہے۔ ’بیعت‘ بھی ایک طرح سے اپنے آپ کو فروخت کرکے کسی کی اطاعت و فرماں برداری قبول کرلینا ہے۔ مگر اس بیع کا تعلق دل کی رضا سے ہے۔ افتخار عارف کہتے ہیں:
اب بھی توہینِ اطاعت نہیں ہو گی ہم سے
دل نہیں ہو گا تو بیعت نہیں ہو گی ہم سے
’شِرا‘ خریداری کا عمل ہے تو خریدار کو مُشتری کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں بار بار اس سے ’’ہُشیار باش‘‘ کہا جاتا ہے، مگر ہر بار یہ غریب کسی نئے جال میں پھنس جاتا ہے۔ کالم میں ’’رمضان کا ٹچ‘‘ دینے کو عرض ہے کہ خریداری کے لیے اِشتریٰ کا لفظ قرآن مجید میں باربار آیا ہے۔ اللہ نے مسلمانوں کے جان و مال جنت کے بدلے خرید لینے کا وعدہ کیا ہے۔ مثلاً سورہ توبہ کی آیت نمبر 111 کا آغاز اس طرح ہوتا ہے:
’’بے شک اللہ نے اہلِ ایمان سے ان کے جان و مال جنت کے عوض خرید لیے ہیں…‘‘