پاکستان اور اٹلی دوستی کے گہرے رشتے میں منسلک ہیں۔ جغرافیائی فاصلوں کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان بہت سی چیزیں مشترک ہیں۔ اگرچہ اس پہلو کی طرف پہلے زیادہ توجہ نہیں دی گئی تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ اٹلی یورپ کا پہلا ملک ہے جس میں اردو زبان و ادب کی اہمیت کو پہچانتے ہوئے اس کا اعتراف کیا گیا اور یہاں اٹھارہویں صدی میں اردو کی تدریس شروع ہوئی۔ اس سلسلے میں اردو کے نامور اساتذہ یہاں جاتے رہے ہیں اور اٹلی ریڈیو اردو میں نشریات پیش کرتا رہا ہے۔ خوش گوار حیرت کی بات یہ ہے کہ کچھ اطالوی باشندے اردو میں شاعری بھی کرتے رہے ہیں۔
سفرنامہ کسی بھی ملک کا ہو، قارئین اس کے مطالعے سے متعلقہ ملک کی تہذیب و ثقافت، سیاست اور علم و ادب کے حوالوں سے جاری سرگرمیوں سے آگاہی حاصل کرسکتے ہیں۔ نیز یہ کتاب اٹلی اور پاکستان میں قائم دوستی میں مزید استحکام کا باعث ہوسکتی ہے۔
اٹلی کے اس سفرنامے کے جتنے باب ہیں مصنف نے سب میں نثر کے ساتھ ساتھ مناسب جگہوں پر اشعار کا استعمال بہت بہتر انداز میں کیا ہے۔ کشورِ اطالیہ کی بہار اٹلی اور پاکستان کی دو معروف جامعات نیپلز یونیورسٹی اٹلی اور پنجاب یونیورسٹی لاہور کے مابین ایک معاہدے کے نتیجے میں منصہ شہود پر آئی ہے۔
یہ کتاب بنیادی طور پر ایک محقق، نقاد، اسکالر اور شاعر کا سفرنامہ ہے جنہوں نے اٹلی کی تاریخ اور تہذیب کو تحقیق، تجسس اور احترام کی نگاہ سے دیکھا اور پاکستانی قارئین کو اٹلی کی تاریخ و تہذیب کے نادریافت گوشوں سے واقف کرایا ہے۔ یہ کتاب اٹلی کی تاریخ کے بعض واقعات، فن پاروں اور حقائق کو اتنی حیران کن تفصیل کے ساتھ بیان کرتی ہے کہ شاید وہ اٹلی کے قارئین کو بھی نئے محسوس ہونے لگیں۔ انہوں نے اٹلی کے بعض شہروں پر نظمیں بھی لکھی ہیں۔ اطالوی قارئین بھی ان نظموں کو پڑھیں گے تاکہ انہیں معلوم ہو کہ کشادہ نظر ایشیائی، اٹلی کی تاریخ و تہذیب سے کتنی گہری دلچسپی رکھتا ہے۔ دراصل ایسے ہی اسکالرز اور مصنّفین ہوتے ہیں جو قوموں کے غیر سرکاری سفیر بن جاتے ہیں، جن کی کوششیں قوموں اور تہذیبوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع فراہم کرتی اور ان کے درمیان فاصلوں کو کم کرتی ہیں۔ یہ کتاب دونوں قوموں اور نتیجتاً دونوں تہذیبوں کے درمیان باہمی تعاون کی نئی راہیں کھولے گی۔
نیپلز یونیورسٹی جس نے اردو قواعد اور گرائمر کی کتابیں شائع کیں، تین شان دار جلدوں میں قلندر بخش جرأت کا اردو کلیات شائع کیا، اور ناشر کے طور پر ’’استی توتو اونیور رستیاریو اور پٹینتالے نیپلز، اطالیہ‘‘ کے الفاظ اردو اور پاکستان کے لیے اطالیہ میں پائے جانے والے روشن امکانات کی نشاندہی کرتے ہیں۔
ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے ایک بہت اہم سنگِ میل طے کیا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی اور نیپلز یونیورسٹی باہم تعاون کے ایک معاہدے کے تحت ایک دوسرے سے منسلک ہوگئے ہیں، یہ سب ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ اس باہمی ربط و ضبط اور دوستانہ تعلق کا قومی سطح پر فائدہ ہوگا جس کے لیے ڈاکٹر زاہد منیر عامر مبارک باد کے مستحق ہیں۔
اٹلی کے سفر کے بعد مصنف مختصر دورے پر نیدرلینڈ بھی گئے تھے، یہ ہرچند کہ اٹلی کا سیاحت نامہ ہے، اس کے آخر میں نیدرلینڈ کے قیام کی روداد بھی درج کردی گئی ہے۔
ممتاز خطاط جناب عرفان قریشی جنہوں نے عنوانِ کتاب کی خطاطی کی، سورۂ روم کی ابتدائی آیات کی نہایت عمدہ صورت گری فرمائی جو آغازِ کتاب کی زینت ہے۔
اس کتاب میں جہاں مصنف نے اٹلی اور سلطنت ِروما کا تعلق واضح کیا ہے وہیں سلطنت ِروما کا تاریخِ عالم میں کردار بھی واضح کیا ہے۔ یہ کتاب اٹلی کے تاریخی آثار اور یادگاروں سے ہمیں متعارف کرواتی ہے۔ ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے اٹلی کے ادبی شہ پاروں، اس ملک کے حسن و جمال، تاریخ اور کلچر سے متعارف کروایا ہے۔ ہمیں اس کتاب سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ اٹلی میں پاکستان اور اردو سے متعلق کچھ کتابیں بھی شائع ہوئی ہیں اور روم، میلان اور نیپلز میں اردو کی تدریس پر زور دیا گیا ہے، خاص طور پر نیپلز یونیورسٹی، جہاں اٹھارہویں صدی سے اردو پڑھائی جارہی ہے۔
یہ کتاب ظاہر کرتی ہے کہ ایک مصنف کس طرح دو ملکوں اور دو تہذیبوں کو ایک دوسرے کے قریب لاسکتا ہے۔ ڈاکٹر زاہد منیر عامر جو کہ پاکستان کے مسلمہ اسکالر اور شاعر ہیں اس شاندار کتاب پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ یہ کتاب اشاعتِ ادب کے ذریعے دونوں ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کرے گی اور بین الاقوامی ثقافتی ہم آہنگی کو فروغ دے گی جس سے عالمی برادری کے درمیان دوستانہ تعلقات کی راہ ہموار ہوسکے گی۔
کتاب خوب صورت سرورق کے ساتھ اعلیٰ سفید کاغذ پر بہت معیاری شائع ہوئی ہے۔