شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال ؒایک عظیم شاعر ہی نہیں، کائنات کے اسرار و رموز پر غور کرنے، قوموں کے عروج و زوال کا مطالعہ کرنے، اور سب سے بڑھ کر فلسفۂ حیات و ممات کی گتھیاں سلجھانے والے ایک عظیم فلسفی بھی تھے۔ قیامِ یورپ کے زمانے میں جب اقبال نے فلسفہ ٔ عجم پر اپنا علمی مقالہ لکھا اور اس ضمن میں فارسی ادب اور تصوف کا گہرا مطالعہ کیا تو انھوں نے محسوس کیا کہ دنیا میں مسلمانوں کی کمزوری اور انحطاط کا ایک بڑا سبب عجمی تصوف یعنی ٔخودی کا وہ تصور ہے جو انسانی وجود کو موہوم سمجھتا ہے اور یاس و قنوطیت کی تعلیم دیتا ہے۔ علامہ اقبال کا کہنا تھا کہ نفیِ خودی کا اصول مغلوب اور مفتوح قوموں کا ایجاد کیا ہوا ہے۔ یہ مفتوح قومیں چاہتی ہیں کہ غالب اور فاتح قوموں کو بھی کمزور کردیں، تاکہ ان کے ظلم و ستم سے نجات پائیں، اس لیے وہ بے خودی اور فنائیت کے مسلک کا پرچار کرتی ہیں۔ جبکہ علامہ اقبال منکرِ خودی کو منکرِ خدا سے بڑھ کر کافر سمجھتے تھے:
منکرِ حق نزدِ مُلا کافر است
منکرِ خود نزدِ من کافر تر است
علامہ اقبال نے مسلمانوں کے دماغ سے احساسِ کمتری کو دور کرنے کی کوشش کی، اور یہی ان کی مشہور مثنوی ”اسرارِ خودی“ کا مرکزی موضوع ہے۔ مثنوی اسرارِ خودی اقبال کا فارسی زبان میں پہلا شعری مجموعہ ہے۔ عجمی تصوف کے مطالعے کے دوران اقبال نے مثنوی مولانا روم کا بھی نہایت گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا تھا اور شاید یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی تصنیف مثنوی اسرارِ خودی کی بنیاد بھی مثنوی ٔ معنوی ہی کی طرز پر رکھی۔ اور اس میں وہی تمثیلی اور حکایتی طرز اختیار کیا جو مثنوی ٔمعنوی کا طرہ ٔامتیاز ہے۔ جب کہ ”رموزِ بے خودی“ (دوسری فارسی تصنیف) میں اقبال نے بین الاقوامی اسلام کا مقدمہ پیش کیا ہے۔ جس زمانے میں یہ کتاب لکھی گئی، اقبال ایسی خلافت کے احیا کے بارے میں شدت سے سوچ رہے تھے، جو دنیا بھر کے تیس کروڑ مسلمانوں کو ایک ہی مذہبی ریاست کے ماتحت لے آئے۔
ممتاز محقق اور دانشور پروفیسر ڈاکٹر خالد ندیم (صدر شعبہ اردو، سرگودھا یونیورسٹی) کی پیشِ نظر کتاب ”مطالعاتِ اسرار و رموز“ ان مباحث کا ایک اہم علمی و تحقیقی مجموعہ ہے جو ”اسرارِ خودی“ اور ”رموزِ بے خودی“ کے نتیجے میں عمل میں آئے۔ ان مباحث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کو مثنوی اسرارِ خودی لکھنے سے قبل اور مابعد کن ذہنی و فکری مراحل سے گزرنا پڑا۔
مثنوی اسرارِ خودی کے نتیجے میں جو معرکہ بپا ہوا اس کے بارے میں فاضل مرتب و محقق رقم طراز ہیں:
”یہ معرکہ اقبال کے لیے کچھ ایسا ضرر رساں نہیں رہا، بلکہ اس کی وجہ سے انھیں بعض عمدہ مضامین اور دوسری مثنوی رموزِ بے خودی لکھنے کا موقع ملا۔ اس کا ایک بڑا نتیجہ یہ بھی نکلا کہ بڑی بڑی شخصیات کے اوصافٗ ظاہر ہوگئے اور ان کی علمی حیثیات کا اندازہ بھی ہوگیا۔ اسرارِ خودی کی اشاعت پر اقبال کے بعض نظریات کی شدید مخالفت ہوئی۔ حیرت اس بات پر ہے کہ اقبال کے یہ نظریات بہت پہلے سے ظاہر ہورہے تھے، لیکن کسی نے اس طرف توجہ نہیں دی، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اقبال پہلے شخص نہیں تھے جو تصوف سے متعلق ان خیالات کا اظہار کررہے تھے، بلکہ ان سے پہلے بھی اس سلسلے میں اہلِ علم کے ہاں گفتگو ہوتی رہی۔“
مثنوی اسرارِ خودی پر اوّلین ردِعمل اکبر کی طرف سے اس خط میں نظر آتا ہے جو انھوں نے 18مارچ 1915ء کو عبدالماجد دریا بادی کے نام لکھا تھا اور دو نئی تصانیف (معارج الدین اور اسرارِ خودی) موصول ہونے کی اطلاع دی تھی۔ اکبر نے یہ لکھ کر ”مثنوی کی نسبت تو کچھ زیادہ نہ کہنا چاہیے، کیونکہ وہ مذہبی اور قومی جوش پر مبنی ہے، اشعار نہایت اچھے ہیں، یہ خود ہی مستی اور تصوف ہے۔ دیباچے میں پولیٹکل دانش مندی بھی ہے“،یہ بتایا کہ ”البتہ معارج الدین بہت غور کے لائق ہے“۔ مثنوی پر اکبر کا یہ پہلا تاثر (جو اُن کا آخری بھی ثابت ہوا) نہایت اہم ہے۔ ابتدا میں انھوں نے مثنوی میں ”مذہبی اور قومی جوش“ اور ”دیباچے میں پولیٹکل دانش مندی“ کے سبب اسے دوسری تصنیف کے مقابلے میں نظرانداز کیا تو بعد میں خواجہ حسن نظامی سے تعلق نے اس تاثر کو اصرار میں بدل دیا۔
اس تنازع کا ایک تکلیف دہ پہلو خواجہ حسن نظامی کا رویہ ہے۔ اقبال، حسن نظامی کے اعتراضات کا جواب دینا چاہتے تھے اور دیے، لیکن حسن نظامی اعتراض کرنے کے بجائے ایسے سوالات اٹھاتے تھے، جن کا مثنوی سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں۔ دیباچے، پیشکش اور خواجہ حافظ پر اقبال کے اشعار پر انھیں اعتراض تھا۔جب کہ اقبال چاہتے تھے کہ خواجہ صاحب مثنوی سے متعلق اپنے خیالات قلم بند کریں، جن کا جواب دیا جائے۔
بعد ازاں خواجہ حسن نظامی نے اپنے خیالات سے رجوع کرلیا اور یہ قضیہ اپنے انجام کو پہنچا، لیکن اس دوران جو تحریریں منصۂ شہود پر آئیں، وہ اس علمی مباحثے کا سرمایہ ہیں۔ گزشتہ ایک صدی میں اس حوالے سے بعض تحریریں وقت کی گرد میں دب چکی تھیں، خدشہ تھا کہ اگر انھیں اب بھی محفوظ نہ کیا جاتا تو آئندہ نسلیں اس تمام علمی بحث اور اس کے اسباب و نتائج سے لاعلم رہ جاتیں۔
ڈاکٹر خالد ندیم نے کوشش کی ہے کہ وہ تمام ضروری دستاویزات اس مجموعے میں شامل کرلی جائیں، جن سے اسرارِ خودی اور رموزِ بے خودی سے متعلق مباحث کا احاطہ ہوسکے۔ ان تحریروں کو زمانی ترتیب سے پیش کیا گیا ہے، تاکہ قارئین ان مباحث و مطالعات کی ابتدا، عروج اور نتیجے سے بخوبی آشنا ہوجائیں اور معلوم ہوجائے کہ اقبال کے فکر و نظر کی استقامت اور اسلوب کی شائستگی سے معاملہ اس حد تک سلجھ گیا کہ اس معرکے کے اوّلین اور نمایاں محرک خواجہ حسن نظامی نے بالآخر اقبال کے نقطہ ٔنظر کو درست تسلیم کرلیا۔
فاضل مرتب ترتیب و تدوین کا عمدہ سلیقہ رکھتے ہیں۔ کتاب بھی بڑے سلیقے سے شائع ہوئی ہے۔