نویں قسط
میں نے ذاکر علی شاہ صاحب کی باتیں سنیں، مگر انھیں زیادہ اہمیت نہ دی، نہ ہی کبھی اپنے عزیز و اقارب اور مسجد کے نمازیوں سے اس کا تذکرہ کیا۔ آج پہلی بار ان کو صفحہ قرطاس پر منتقل کررہا ہوں۔ مجھے تو یاد نہیں مگر میری والدہ مرحومہ اور پھوپھی جان بتایا کرتی تھیں کہ جب میں بالکل چھوٹا تھا تو ہمارے ہاں ایک بزرگ آئے اور انھوں نے جنات کی باتیں اور خوف ناک وارداتیں بیان کیں۔ امی جی اور پھوپھی جان کے بقول میں نے کہا کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں، میں نے ان سب کو چوپال کے کمرے میں بند کرکے باہر سے تالا لگا دیا ہے اور چابی مسجد کے کنویں میں پھینک دی ہے۔ یہ سن کر سب لوگ خوب ہنسے اور سبھی نے مجھ سے پیار کیا۔ اللہ سید ذاکر علی شاہ مرحوم کے درجات بلندفرمائے۔ مجھے افسوس ہے کہ اُن سے قریبی تعلقات ہونے کے باوجود اُن کی رحلت پر مرحوم کی زندگی کے حالات نہ لکھ سکا۔
میں یہاں ایک مختصر بات کا اضافہ کرنا چاہتا ہوں۔ ہماری پرانی مسجد میں مجھے تنہا دومرتبہ رمضان المبارک میں اعتکاف کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ میری عمر اُس وقت زیادہ نہیں تھی۔ مسجد میں دن رات مجھے بہت اطمینان اور سکون ملتا تھا۔ والد صاحب اگرچہ اپنی زندگی کے آخری سالوں میں اعتکاف میں باقاعدہ بیٹھتے تھے، مگر اُن سالوں میں اعتکاف میں نہیں بیٹھا کرتے تھے۔ البتہ رات کے وقت وہ بھی میرے ساتھ مسجد میں قیام پذیر ہوتے۔ ان کی خوش الحان آواز میں تلاوتِ قرآن رات کے کسی حصے میں میرے کانوں میں رس گھول رہی ہوتی اور میں خاموشی سے اسے سن کر بہت سکون محسوس کرتا۔ بعد کے زمانے میں رمضان کے آخری عشرے میں قیام اللّیل کا اہتمام ہوتا تو اس میں میرے علاوہ کئی حفاظ نوافل پڑھاتے۔ تین راتوں میں اور بعض اوقات دو راتوں میں مکمل قرآن پاک سنایا جاتا۔ وہ راتیں بھی بڑی یادگار تھیں اور آج تک ہیں۔
میں معذرت خواہ ہوں کہ اسکول میں داخلے کا تذکرہ کررہا تھا مگر بات کہیں اور نکل گئی۔ دراصل میرے ذہن میں جو خیالات آتے جاتے ہیں ان کو سینۂ قرطاس پر منتقل کردیتا ہوں کہ بعد میں بھول نہ جائوں۔ اس طرح یہ زمانی ترتیب کے لحاظ سے کوئی تاریخ نہیں بلکہ بکھرے بکھرے واقعات ہیں۔ درویش کی ساری زندگی بھی یوں ہی گزری ہے کہ کبھی یہاں، کبھی وہاں۔ علامہ اقبالؒ کا یہ شعر اس موقع پر تو شاید زیادہ برمحل نہ محسوس ہو مگر مجموعی طور پر میری زندگی کی عکاسی کرتا ہے ؎
اسی پیچ و تاب میں گزریں میری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و سازِ رومی، کبھی پیچ و تابِ رازی!
اسکول کا زمانہ بڑا یادگار تھا۔ کلاس میں تقریباً چالیس بچے تھے جن میں سے چھے ہمارے گائوں کے تھے، باقی جوڑا اور گردونواح کے پانچ دیہات کے تھے۔ اللہ کا شکر ہے کہ میں نے پہلے ایک آدھ دن ہی میں کچھ نہ کچھ تختی پر الٹا سیدھا لکھ لیا اور ہندسوں کو بھی کسی حد تک سمجھنا شروع کردیا۔ اس کے بعد الحمدللہ! ہر دن میری پرواز اونچی سے اونچی ہوتی چلی گئی اور کلاس میں جو ٹیسٹ ہوتا اس میں اچھے نمبروں سے پاس ہوجاتا۔ میرے سب گھر والے اس پیش رفت پر ازحد خوش تھے۔ سالانہ امتحان ہوا تو میں پھوپھی جان اور والدہ مرحومہ کی دعائوں کی برکت سے ان کی امیدوں کے عین مطابق اوّل آگیا۔ ایک بات جس کو یاد کرکے آج بھی میرا دل باغ باغ ہوجاتا ہے، یہ ہے کہ مجھ سے پہلے جو تین چار طالب علم باری باری اوّل، دوم آیا کرتے تھے، سب بڑی خوشی اور محبت سے مجھے مبارک باد دے رہے تھے۔ کوئی حسد اور برے جذبات نظر نہیں آرہے تھے۔ اس چیز نے میرے دل میں بھی ان ہم کلاس ساتھیوں کی محبت میں خاصا اضافہ کیا۔
ہمارے ملحقہ گائوں ’’گھُرکو‘‘کا ایک ذہنی لحاظ سے معذور سا لڑکا تھا۔ وہ اسکول تو آتا تھا، مگر محض وقت گزاری کے لیے۔ اس کے والدین نے اسے اسکول انتظامیہ کے سپرد کررکھا تھا۔ اس کا نام جیون تھا اور اسے ’’سائیں جیون‘‘ کہا جاتا تھا۔ ’’سائیں‘‘ سندھی زبان میں تو بڑے، اونچے اور معزز لوگوں کے لیے بولا جاتا ہے، مگر پنجابی میں اس کے معنی مختلف ہیں۔ عموماً یہ کم عقل، بھکاری اور سادہ لوح افراد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ سائیں جیون نتیجہ سن کر فوراً اسکول سے نکلا اور ہمارے دروازے پر جا پہنچا۔ وہ پہلے بھی کبھی روٹی کی طلب یا لسی پانی کے شوق میں ہمارے ہاں آتا تھا۔ میری پھوپھی جان کو وہ ’’بُواجی‘‘ (پھوپھی کو پنجابی میں بُوا یا بُھوا کہا جاتا تھا) کہتا تھا۔ اُس روز بھی اس نے کہا: ’’بھُوا جی، تیرا ادریس اوّل آیا ہے، مجھے انعام دو اور گُڑ بھی کھلائو۔‘‘ بس وہ دن اور ایم اے فائنل (عربی) کے نتیجے کا دن، یہ اوّل میرے ساتھ ہی چمٹا رہا۔ الحمدللہ! اپنی ہرکلاس میں اوّل ہی آتا رہا، سوائے ایم اے اسلامیات کے۔ اس کا تذکرہ آگے آئے گا۔
دوسری جماعت میں پاس ہونے کے بعد مجھے تیسری کے بجائے چوتھی میں بٹھایا گیا۔ یہاں ہمارے استاد چودھری سلطان احمد مرحوم تھے۔ انھوں نے بھی خوش آمدید کہا۔ اس عرصے میں ابھی تک میرا باقاعدہ داخلہ نہیں ہوا تھا۔ چوتھی جماعت میں بھی سالانہ امتحان میں پہلی پوزیشن آگئی۔ اب پانچویں جماعت میں ایک اور ٹیسٹ کے بعد باقاعدہ داخلہ کروایا گیا۔ ماسٹر اصغر علی شاہ اور ماسٹر سلطان صاحب کی زیر نگرانی تعلیم جاری رہی۔ اب اسکول کی جنرل اسمبلی میں تلاوتِ قرآن کی ذمہ داری میری ہوا کرتی تھی جب کہ ترانہ مختلف طلبہ باری باری پڑھا کرتے تھے۔ کبھی کبھار ہیڈماسٹر میر برکت علی صاحب اسمبلی میں ایک آدھ طالب علم کی تقریر بھی کسی موضوع پر کرایا کرتے تھے۔ اس میں بھی مجھے سبقت حاصل رہی۔
ہمارے دور میں پانچویں کلاس میں وظیفے کا امتحان ہوا کرتا تھا۔ (میرے والد مرحوم بتایا کرتے تھے کہ ان کے دور میں یہ امتحان چوتھی جماعت میں لیا جاتا تھا۔ والد مرحوم نے چوتھی جماعت میں اور پھر مڈل کے امتحان میں اسکالرشپ حاصل کیا تھا۔) پرائمری وظیفے کے امتحان میں پوری تحصیل کے اسکولوں سے طلبہ رجسٹر ہوتے تھے اور متعلقہ اسکولوں سے ان کے داخلے محکمہ تعلیم کے دفتر تحصیل ہیڈکوارٹر بھیجے جاتے تھے۔ یہ امتحان مقررہ تاریخ پر تحصیل ہیڈکوارٹر پر یک روزہ ہوتا تھا۔ اس سال یعنی 1958ء میں پہلی بار ہمارے اسکول سے چھے طلبہ وظیفے کے امتحان میں شریک ہوئے۔ ہمارے کلاس انچارج ماسٹر سلطان صاحب نے بتایا کہ چند سالوں کی غیر حاضری کے بعد اس سال ہمارا اسکول پھر اس دوڑ میں شامل ہوا ہے۔ اچھی طرح یاد ہے کہ اس امتحان میں میرے علاوہ میرے پانچ دوست اور کلاس فیلوز محمد انور، صفدر علی، مشتاق احمد مرزا، غلام محمد بخشی اور محمد یونس انصاری شامل تھے۔
یہ فروری یا مارچ کا مہینہ تھا اور کھاریاں میں ایک وسیع و عریض لان میں خوشگوار دھوپ کے اندر بہت بڑی تعداد میں پوری تحصیل کے ڈسٹرکٹ بورڈ کے تحت چلنے والے اسکولوں سے جماعت پنجم کے طلبہ امتحان دینے کے لیے اپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھے تھے۔ سب پیپر باری باری ہوئے۔ ایک پیپر کا وقت ختم ہوتا تو تھوڑی دیر بعد دوسرا شروع ہوجاتا، یہاں تک کہ تمام متعلقہ مضامین کے پیپر ظہر اور عصر کے درمیان مکمل ہوگئے، جس کے بعد طلبہ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ چند ہفتوں کے بعد اسکول میں سرکاری سرکلر موصول ہوا جس کے مطابق مجھے، محمد انور، صفدر علی اور مشتاق مرزا المعروف مشتاق گورمانی کو وظیفے کا مستحق قرار دیا گیا۔ ہمارے دو ساتھی غلام محمد اور محمد یونس اس امتحان میں کامیاب نہ ہوسکے۔ عجیب بات یہ تھی کہ غلام محمد اسکول کے ہر ٹیسٹ اور امتحان میں ہمیشہ دوسرے یا تیسرے نمبر پر آتا تھا، مگر یہاں ناکام ہوگیا۔
ان سب دوستوں کی یادیں آج تک دل میں بسی ہیں۔ محمد انور صاحب کو اللہ سلامت رکھے۔ ماشاء اللہ آرمی سے اعلیٰ عہدے کے ساتھ ریٹائر ہوئے ہیں، راولپنڈی میں مقیم ہیں۔ ان کا گائوں رکھڈنڈ ہمارے گائوں کے قریب ہے۔ مرزا مشتاق قصبہ جوڑا کے رہنے والے تھے۔ آپ تعلیم سے فارغ ہوکر بیرون ملک یورپ چلے گئے تھے اور کئی سال قبل وہیں وفات پا گئے تھے۔ اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے۔ برادرم صفدر علی جو میرے رشتے دار بھی ہیں، طویل عرصے سے امریکہ میں مقیم ہیں اور اللہ نے مال و دولت کی ریل پیل کے ساتھ بہت فراخ دل بھی عطا فرمایا ہے۔ سماجی خدمات میں خوب انفاق کرتے ہیں، اللہ قبول فرمائے۔ آپ نے گائوں میں سیوریج کا بہترین انتظام کردیا ہے۔
بھائی غلام محمد اور برادرم محمد یونس سے بہت عرصے سے کوئی رابطہ نہیں۔ معلوم نہیں آج کل کہاں اور کس حال میں ہیں۔ اسے ہی زمانے کی ستم ظریفی کہا جاتا ہے کہ جن دوستوں سے دوچار دن ملاقات نہ ہو تو انسان پریشان اور بے قرار ہوجاتا ہے، وقت گزرنے کے ساتھ وہ قصۂ ماضی بلکہ قصۂ پارینہ ہوجاتے ہیں۔ میرتقی میرؔ نے ایک طویل غزل دہلی سے لکھنؤ چلے جانے کے بعد لکھی جس کے چند اشعار یاد آرہے ہیں جو مرحوم کے دوستوں کی جدائی اور بے اعتنائی کی کیفیت بیان کرتے ہیں ؎
لکھتے گر دو حرفِ لطف آمیز بعد از چند روز
تو بھی ہوتا اس دلِ بے تاب و طاقت کو قرار
خط کتابت سے یہ کہتے تھے نہ بھولیں گے تجھے
آویں گے گھر بار کی تیرے خبر کو بار بار
جب گیا میں یاد سے تب کس کا گھر کاہے کا پاس
آفریں صد آفریں اے مردمانِ روزگار!
ہمارے اسکول میں مختلف کھیل ہوتے تھے، مگر مجھ سمیت زیادہ طلبہ والی بال میں دلچسپی رکھتے تھے۔ اُس زمانے میں اسکول میں ابھی کرکٹ شروع نہیں ہوئی تھی۔ البتہ ایک دیہاتی گیم جو ہمارے دیہاتوں میں بہت پاپولر تھا، اسے پنجابی میں ’’گلی ڈنڈا‘‘ کہتے تھے، شوق سے کھیلا جاتا تھا۔ تقریباً ڈھائی تین فٹ لکڑی کا ڈنڈا (بلّا) اور لکڑی ہی کی ایک چھوٹی سی ٹکڑی جس کی موٹائی ڈنڈے سے کچھ کم اور لمبائی چھ سات انچ ہوتی تھی (بال)، اس گیم میں استعمال ہوتے تھے۔ چھوٹی لکڑی کے دونوں جانب سے اس کے سرے تراش کر نوکیں نکالی جاتی تھیں۔ اس کو گلی کہتے تھے۔ گلی کو زمین پر رکھ کر ٹلا لگانے والا (بیٹسمین) اسے ڈنڈے کی ضرب سے اچھالتا اور پھر اسے زوردار ضرب لگا کر کرکٹ بال کی طرح دور پھینکنے کی کوشش کرتا۔ سامنے گُلی کو کیچ کرنے کے لیے کھلاڑی موجود ہوتے تھے۔ وہ گلی کو کیچ نہ کرسکتے تو اٹھا کر واپس پھینکتے۔ وہ ایک خاص دائرے کے اندر آکر گرتی یا دائرے کے اندر رکھی اینٹ کو آلگتی تو ٹلے باز آئوٹ ہوجاتا۔ اسی طرح کیچ کی صورت میں بھی اسے آئوٹ شمار کیا جاتا۔ اس حساب سے رنز اور گلیاں (وکٹیں) شمار ہوتیں اور ہار جیت کا فیصلہ ہوتا۔ اس میں کھلاڑیوں کی اچھی خاصی ورزش ہوجاتی تھی۔
رسّاکشی کے مقابلے، دوڑ اور چھلانگیں لگانے کے مقابلے بھی ہوتے تھے۔ میں بھی ان کھیلوں میں کچھ وقت کے لیے شرکت کرتا تھا، مگر زیادہ تر وقت مطالعے میں گزرتا تھا۔ گائوں میں ہم عمر لڑکے شام کے وقت کھلے میدانوں میں کبڈی کھیلا کرتے تھے اور میں اس گیم میں بہت کامیاب تھا۔ میری چلنے کی اور دوڑنے کی رفتار فطری طور پر تیز تھی۔ کبڈی میں تیزی، پھرتی اور سخت پکڑ ضروری ہوتی ہے۔ میرا جسم ہمیشہ دبلا پتلا اور وزن زندگی بھر بہت مناسب رہا۔ میری پکڑ خاصی مضبوط تھی۔ مجھے یاد ہے کہ میں بہت بڑی مقدار میں ناشتے میں تازہ مکھن آدھی تنوری روٹی کے ساتھ استعمال کرتا تھا۔ مکھن والا برتن میرے سامنے پڑا ہوتا تھا۔ ظہرانے میں گھی پراٹھا اور عشائیے میں روٹی کے ساتھ معمولی سالن لیتا اور پھر جی بھر کے دودھ پیتا تھا۔
سردیوں میں تو دوپہر کو گھی کی ڈلیاں یوں کھاتا تھا جیسے برفی، مٹھائی کھائی جاتی ہے۔ ایک مرتبہ کبڈی کھیلتے ہوئے میرے بائیں ہاتھ کا جوڑ بھی اکھڑ گیا تھا جس کے دوران بڑی تکلیف ہوئی۔ رات بھر شدید درد میں مبتلا رہا مگر والدین کو اگلی صبح ہی بتایا۔ والد صاحب مجھے گھوڑی پر بٹھا کر علاقے کے ایک گائوں دینہ چک لے کر گئے، جہاں گائوں کے چودھری صاحب غالباً نام فتح خاں تھا، نے والد صاحب کا پُرجوش استقبال کیا۔ پھر میرے ہاتھ کا شکستہ جوڑ اپنی جگہ پر بڑی مہارت سے جوڑ دیا۔ اس دوران تکلیف تو بہت ہوئی مگر علاج کے بعد سکون ملا۔ چودھری صاحب نے پٹی بھی باندھی اور کچھ مالش بھی کی، ساتھ ہی ہدایت کی کہ کچھ دنوں تک زیتون کے تیل سے مالش اور پھر پٹی باندھنے کا عمل جاری رکھا جائے۔ اس کے بعد ہاتھ چند دنوں میں بالکل ٹھیک ہوگیا۔ (جاری ہے)