رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی
7 رمضان المبارک بروز پیر 19 مارچ 2024ء، شام ساڑھے سات بجے کے قریب پارکو آئل کمپنی خانپور کے قریب جماعت اسلامی سندھ کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری، مرکزی شوریٰ کے رکن اور سندھ کے معروف سماجی اور سیاسی رہنما عبدالحفیظ بجارانی کی ایک روڈ حادثے میں ہونے والی اچانک شہادت نے جماعت اسلامی سمیت اُن کے خاندان اور ضلع جیکب آباد، کندھ کوٹ، کشمور، گھوٹکی، شکارپور سمیت ملک بھر میں ان سے تعلقِ خاطر رکھنے والوں کو ایک طرح سے شدید صدمے میں مبتلا کردیا۔ جس نے بھی یہ الم ناک اور دردناک خبر سنی وہ بے اختیار اپنا کلیجہ تھام کر رہ گیا۔ شہید عبدالحفیظ بجارانی کی شخصیت دراصل تھی ہی کچھ ایسی من موہنی اور پیاری کہ جو بھی ایک بار ان سے ملا، ان کے عمدہ اخلاق اور اطوار کی بدولت پھر انہی کا ہوکر رہ گیا۔ وہ سراپا دعوت اور تحریک تھے اور جماعت اسلامی ہی ان کا اوڑھنا اور بچھونا تھی۔ اپنے ہی نہیں غیر بھی ان کے گرویدہ تھے۔ شہادت سے قبل بھی وہ ایک دعوتِ افطار کے اجتماع سے خطاب کے بعد واپس اپنے گائوں کرم پور بجارانی خود اپنی گاڑی کو ڈرائیور کرتے ہوئے جارہے تھے کہ مذکورہ مقام پر فرشتۂ اجل انہیں اچانک اس طرح سے ہمارے درمیان سے اچک کر لے گیا کہ ان کی شہادت کا تاحال ابھی تک کسی کو یقین ہی نہیں آتا۔ دل یہ بات ماننے کے لیے کسی طور پر تیار ہی نہیں ہوتا کہ وہ اب ہمارے درمیان نہیں رہے ہیں۔
اگرچہ بوقتِ شہادت وہ 60 برس کے قریب تھے، لیکن اس کے باوجود وہ نوجوانوں سے بھی کہیں بڑھ کر فعال اور متحرک تھے۔ لگ بھگ 20 برس قبل جب وہ امیر ضلع جیکب آباد تھے تو انہوں نے مجھے روزنامہ ’’جسارت‘‘ کے لیے ایک تفصیلی انٹرویو دیتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ 1965ء میں گوٹھ کرم پور بجارانی میں پیدا ہوئے تھے۔ معروف عالم دین مولانا واحد بخش خلجی مرحوم جو جماعت اسلامی کے رہنما بھی تھے، اُن کی شخصیت اور تربیت کا بجارانی صاحب پر بھی گہرا اثر تھا۔ بجارانی صاحب نے اپنے پسماندگان میں چار بیٹوں اور چار بیٹیوں کو سوگوار چھوڑا ہے۔ وہ موجودہ امیر جماعت جناب سراج الحق کے دورِ طالب علمی میں جمعیت سے وابستہ ہوئے اور مقام تا ڈویژن ناظم رہے۔ ان کا سارا خاندان ہی تحریکِ اسلامی سے وابستہ ہے۔ برادرِ خورد امداد اللہ بجارانی سابق امیر ضلع اور ضلعی شوریٰ کے رکن اور نائب امیر ضلع ہیں۔ شہید کی نمازِ جنازہ اگلے روز امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے پڑھائی جو خصوصی طور پر اپنی تمام تر مصروفیات ترک کرکے گوٹھ امام الدین بجارانی تشریف لائے تھے۔ ان کی نماز جنازہ میں مرکزی نائب امراء اسداللہ بھٹو، ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی اور صوبائی رہنمائوں کاشف سعید شیخ، حافظ نصراللہ عزیز چنا، ممتاز حسین سہتو، حزب اللہ جکھرو، پروفیسر نظام الدین میمن سمیت سردار زریاب خان بجارانی، میر اکبر بنگلانی، سردار احمد تبسم گڈانی، امیر ضلع دیدار لاشاری، طاہر مجید، پی پی شہید بھٹو کے صوبائی رہنما ندیم قریشی، چیمبر آف کامرس ضلع جیکب آباد کے صدر احمد علی بروہی، امیر ضلع گھوٹکی تشکیل صدیقی سمیت سیاسی و سماجی رہنمائوں، مقامی معززین، اہلِ خانہ، قریبی رشتے داروں سمیت سندھ، پنجاب اور بلوچستان سے آنے والے احباب نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ نمازِ جنازہ کے اجتماع سے دورانِ خطاب امیر جماعت اسلامی پاکستان نے شہید عبدالحفیظ بجارانی کی حیات اور خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے انہیں شان دار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ نظریاتی انسان اور اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے جدوجہد کرنے والے کبھی نہیں مرتے بلکہ عوام کے دلوں پر راج کرتے ہیں۔ بجارانی شہید بھی انہی میں سے ایک فردِ فرید تھے۔ ان کی دینی، تحریکی، عوامی اور سماجی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس موقع پر انہوں نے شہید کے بچوں کی تعلیم کے اخراجات اور کفالت تحریکِ اسلامی کی جانب سے کیے جانے کا اعلان بھی کیا۔
اگلے روز نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب لیاقت بلوچ بھی اپنے رفقا کے ہمراہ بہ غرضِ تعزیت گائوں تشریف لائے۔ نیز کندھ کوٹ، کشمور اور کرم پور کی ہندو پنچایت کے سرکردہ رہنمائوں نے بھی شہید کے گائوں آکر اُن کے بھائیوں سے اظہارِ تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ شہید اپنی زندگی میں ہمارے لیے بھی ایک بہت بڑا سہارا تھے۔ وہ ہمارے ہر دکھ درد اور خوشی میں شرکت کیا کرتے تھے۔ امیر صوبہ محمد حسین محنتی اور سیکرٹری مجاہد چنا نے بھی کرم پور پہنچ کر تعزیت کی۔ ان کی اچانک یوں جدائی پر تاحال تعزیت کا سلسلہ جاری ہے۔ سارے علاقے اور تحریکی حلقوں میں ان کی شہادت کے باعث پیدا ہونے والے خلا اور کمی کو بڑی شدت کے ساتھ محسوس کیا جارہا ہے۔ لگتا ہے کہ خالد شریف کا یہ شعر گویا بجارانی صاحب جیسی ہر دل عزیز اور ’’مرجع خلائق‘‘ شخصیت ہی کے لیے کہا گیا تھا:
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
شہید بجارانی گوناگوں خوبیوں کی حامل ایک ایسی شخصیت تھے جس نے اپنا سارا دنیوی کیریئر اُخروی زندگی اور تحریکی سرگرمیوں کے لیے وقف اور قربان کردیا تھا۔ وہ دینی اور دنیوی دونوں طرح کی تعلیم سے بہرہ مند تھے اور جس قدر باصلاحیت اور قابل تھے اس کے بل بوتے پر اچھی سے اچھی سرکاری ملازمت بآسانی حاصل کرسکتے تھے، لیکن اس کے برعکس ان کی اوّل اور آخر ترجیح صرف اور صرف تحریکِ اسلامی تھی۔ میں نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ان کی یاد میں اس طرح کی اشکوں میں ڈوبی تحریر لکھنا پڑے گی۔ وہ دیوانے بھی تھے اور فرزانہ بھی۔ دیوانے یوں کہ ان کے دل و دماغ پر ہر وقت جماعت کی دعوت اوروں تک پہنچانے کی دُھن سوار رہتی تھی۔ وہ دیوانہ وار قائدینِ جماعت کے حکم اور پالیسی پر عمل پیرا ہونے کے لیے ہمیشہ ہر محاذ، ہر میدان اور ہر جا پر کام کرنے اور سفر کرنے کی خاطر بلا تردد ہمہ وقت آمادہ اور تیار رہا کرتے تھے، اور فرزانے بھی ایسے تھے کہ باید وشاید۔
وہ سید مودودیؒ کے مطالعۂ کتب اور اپنے اساتذہ کرام خصوصاً مولانا واحد بخش خلجی اور تحریکی رہنمائوں مولانا جان محمد عباسی، مولانا احمد نور مغل اور ڈاکٹر ممتاز علی میمن حفظ اللہ کی صحبت اور تربیت کی وجہ سے اس عارضی اور فانی حیاتِ مستعار کے اصل راز اور مقصد کو بہ خوبی پا گئے تھے جس کی وجہ سے پھر انہوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور خود کو کلی طور پر فریضۂ اقامتِ دین کے لیے ہمیشہ کے لیے وقف کرڈالا۔ 2018ء میں جب راقم کی والدہ کا اچانک انتقال ہوگیا تو نماز جنازہ بھی انہوں نے ہی پڑھائی اور میری تالیفِ قلب کے لیے جناب سراج الحق کو بذریعہ فون اطلاع دی جنہوں نے مجھے تادیر فون پر اس صدمۂ عظیم کو جھیلنے کے لیے تشفی اور تسلی دی۔ شہید بجارانی مجھ سمیت بے شمار گم کردہ راہ افراد کو اسلامی جمعیت طلبہ اور تحریکِ اسلامی کی دعوت سے روشناس کرانے کا باعث بنے، جس کی وجہ سے ان کی زندگی کا ایک رُخ متعین اور مقصدِ حیات سے آگہی حاصل ہوئی۔ انہوں نے ان گنت دنیادار افراد کو قوم پرستی، علاقائیت اور مسلک یا فرقہ پرستی کی تنگنائے سے نکال کر راہِ ہدایت پر گامزن کیا جس کی وجہ سے مجھ سمیت بہت سارے افراد انہیں اس حوالے سے اپنا محسن اور مربی گردانتے ہیں۔ وہ ایک دور اندیش، وسیع المطالعہ اور وسیع النظر شخصیت کے حامل تھے۔ انہیں درسِ قرآن دینے اور تقریر کرنے کا ملکہ حاصل تھا۔ موقع کی مناسبت سے اپنی تقریر میں علامہ اقبالؒ اور شاہ لطیفؒ کے اشعار بڑی خوب صورتی سے استعمال کیا کرتے تھے۔ اکثر لوگ کہا کرتے تھے کہ اگر بجارانی صاحب خود کو پورے طور سے جماعت اسلامی کے لیے وقف نہ کرچکے ہوتے تو وہ یقینا ایک اعلیٰ پائے کے پروفیسر ہوتے۔ انہیں اردو اور سندھی زبان میں تحاریر لکھنے پر بھی دسترس حاصل تھی، لیکن حد درجہ تحریکی مصروفیات کی وجہ سے وہ زیادہ وقت اس کام کو نہیں دے سکے ورنہ وہ ایک اچھے ادیب بھی کہلاتے۔
ان کی حیات اور خدمات پر اگر لکھا جائے تو بلاشبہ ایک کتاب ان پر تحریر کی جاسکتی ہے۔ ان کے یارانِ دیرینہ ڈاکٹر شہاب الدین غازی، ڈاکٹر شہزاد چنا، محمد موسیٰ تنیو، خیر محمد تنیو، حافظ نصراللہ چنا، ممتاز سہتو اور دیگر بہت سارے تحریکی ساتھی اس سلسلے میں بہت اچھا مواد اور معلومات فراہم کرسکتے ہیں۔ شہید بجارانی سے وابستہ یادوں کا ایک دریا ہے جو امنڈتا چلا آتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کسے لکھا جائے اور کسے چھوڑ دیا جائے! ان کی ہر یاد دل پذیر اور من موہنی ہے۔ ان کا عمدہ اخلاق اور اعلیٰ رویہ ہر ایک کے دامنِ دل کو اپنی گرفت میں لے لیا کرتا تھا۔ سوشل میڈیا پر ہر طبقۂ فکر سے وابستہ افراد نے جس طرح سے ان کی اچانک شہادت پر اپنے قلبی رنج و غم کا اظہار کیا ہے وہ ان کی مقبولیت اور ہر دل عزیزی پر دلالت کرتا ہے۔ وہ بلا تفریقِ رنگ و نسل اور مذہب سب کی خدمت کے قائل اور ایک سچے داعی تھے جنہوں نے سرداروں کے سامنے بڑی دلیری کے ساتھ کام کیا۔
فرمانِ نبویؐ کا مفہوم ہے کہ ’’جو شخص اپنے محسن کا شکر گزار نہیں ہوتا وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔‘‘ لہٰذا یہ تحریر لکھتے ہوئے مجھے رہ رہ کر یہ احساس اور دکھ ہوتا ہے کہ کاش میں انہیں ان کی زندگی میں ہی بذریعہ تحریر یہ جتلا دیتا کہ وہ میرے محسن اور مربی ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کے جو 40 برس اقامتِ دین کی راہ میں صرف کیے اِن شاء اللہ خالصتاً للہ کیا گیا یہ سارا کام ان کے لیے بلندیِ درجات کا باعث ثابت ہوگا۔ وہ اس خاک دان سے کچھ اس انداز میں اچانک ہاتھ جھاڑ کر رخصت ہوئے ہیں کہ اپنے اور پرائے سبھی نے ان کی جدائی کے سانحے کو بڑی شدت کے ساتھ محسوس کیا ہے۔ انہوں نے تادمِ آخر اپنے اس مقصدِ حیات کے لیے جس سے وہ نوجوانی ہی میں جڑ گئے تھے‘ دیوانہ وار بلکہ ایک جنون کے ساتھ کام کیا۔ وہ جنون نہیں جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگی ہے، بلکہ وہ ایک ہمہ گیر اضطراب اور لگن جس نے انہیں کبھی کہیں پر بھی قرار سے بیٹھنے نہیں دیا۔ وہ جسے بھی تحریک کے لیے مفید سمجھتے اس شخص کے ایک طرح سے گویا ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ جاتے۔ نامعلوم کتنے افراد ان کے اس جذبۂ جنون کی بدولت تحریکِ اسلامی کے دھارے میں آشامل ہوئے۔ اسلام آباد میں دیے گئے دھرنے ہوں یا پھر جیکب آباد کا وہ دھرنا جو امریکیوں کے خلاف دیا گیا تھا… ارضی و سماوی آفات سے متاثرہ عوام کی خدمت ہویا پولیس اور وڈیروں کے ہاتھوں ستائے گئے افراد کی دادرسی… وہ ہر جگہ شرکت اور مدد کے لیے پہنچ جایا کرتے تھے۔ اللہ تحریک ِاسلامی کو ان کا متبادل عطا فرمائے، آمین۔