پارلیمنٹ فیصلوں کا مرکز نہیں

سابق سینیٹر مشتاق احمد خان اور سابق رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی کے اعزاز میں استقبالیہ تقریب

جماعت اسلامی خیبر پختون خوا کے زیراہتمام گزشتہ دنوں سینیٹ آف پاکستان میں 6 سال تک جماعت اسلامی کی نمائندگی کرکے حال ہی میں ریٹائر ہونے والے سابق سینیٹر مشتاق احمد خان اور قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کی یکہ و تنہا مگر موثر آواز سابق رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی کے اعزاز میں جماعت کے صوبائی ہیڈ کوارٹر المرکز الاسلامی پشاور میں ایک افطار ڈنر کا اہتمام کیا گیاٍ جس میں جماعت کے ذمہ داران اور مختلف شعبوں میں خدمات انجام دینے والے جماعت کے ہم خیال افراد کے علاوہ پشاور کے سینئر صحافیوں اور کالم نگاروں نے شرکت کی۔ جماعت کے رکن قومی اسمبلی اور رکن سینیٹ نے ایوانِ زیریں اور ایوانِ بالا کے اندر ایک موثر اور توانا آواز کے ذریعے سے نہ صرف پاکستان کو جو درپیش چیلنج ہیں ان کے حوالے سے اپنا کردار ادا کیا بلکہ پاکستان میں اِس وقت بنیادی انسانی حقوق کی جو پامالی ہورہی ہے اور جمہوریت پر جس طرح سے قدغنیں لگائی جارہی ہیں، جس طرح سے پارلیمان اور عوام کی رائے کو پامال کیا جارہا ہے اس کے حوالے سے انہوں نے ببانگِ دہل اپنی آواز ایوانوں کے اندر پہنچائی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جب بھی پارلیمان کے اندر غیر اسلامی اور غیر شرعی قوانین نافذ کرنے کی کوشش کی گئی انہوں نے اس کی بھرپور مزاحمت کی چاہے وہ ٹرانس جینڈر ایکٹ ہو، یا سود کے حوالے سے قوانین۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح سے فلسطین کے اندر چھے سات مہینوں سے انسانیت سوز مظالم کا سلسلہ جاری ہے، اس پر ایوان کے اندر اور ایوان سے باہر سب سے موثر اور توانا آواز جناب مشتاق احمد خان اور مولانا عبدالاکبر چترالی نے اٹھائی ہے۔

مولانا عبدالاکبر چترالی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اسمبلی یا کسی ذمہ دار فورم پر کبھی بھی اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کی بلکہ انہیں جب بھی بات کرنے کا موقع ملتا تو وہ اس سے پہلے امیر جماعت سے مشورہ کرکے جماعت کی پالیسی کو وہاں بیان کرتے تھے، الحمدللہ پانچ سال کے اس عرصے میں انہیں کبھی بھی، کسی وقت بھی کسی بات کو واپس لینے یا اس پر نادم ہونے کی نوبت نہیں آئی۔ وہ امیر جماعت اور قیم جماعت کے علاوہ محترم لیاقت بلوچ اور محترم پروفیسر ابراہیم سے بھی مشورہ کرتے تھے۔ یہ اسی مشاورتی عمل کا نتیجہ ہے کہ وہ آج اس بات پر فخر کرسکتے ہیں کہ کراچی سے لے کر چترال تک جماعت کے کارکنان اور اراکین کے علاوہ عوام بھی ان کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے قومی اسمبلی میں جماعت کی طرف سے دی گئی ذمہ داری کا حق ادا کیا ہے جو ہمارے لیے اثاثہ ہے، اور اس اثاثے کو لے کر ہم اللہ کے دربار میں بھی جائیں گے اِن شاءاللہ۔

جناب مشتاق احمد خان نے تقریب سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے تو میں صوبائی جماعت کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے ہمیں یہ عزت بخشی کہ سینیٹ کے اندر ہمیں پہنچایا، چھے سال تک ہمیں سپورٹ کیا، اور اس کے بعد جب سینیٹ کی ذمہ داریوں سے فارغ ہوئے تو یہاں ہمارے اعزاز میں یہ استقبالیہ تقریب ترتیب دی۔ اس محبت، اخلاص اور عزت افزائی پر میں صوبائی جماعت اور اپنی قیادت کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ خیبرپختون خوا کا سب سے بڑا مسئلہ بدامنی ہے۔ یہاں پر پچھلے بیس سالوں کے دوران جو بھی حکومتیں برسرِاقتدار آئی ہیں چاہے وہ کسی بھی جماعت کی ہوں، اس بدقسمت صوبے کو امن دینے میں ناکام رہی ہیں۔ یہاں ہونے والے درجنوں آپریشنوں کے باوجود ہمیں امن نصیب نہیں ہوسکا، لہٰذا میں نے سینیٹ کے فورم سے ہمیشہ امن کی بات کی۔ خیبرپختون خوا میں بدامنی کی ذمہ دار وفاقی اور صوبائی حکومتیں رہی ہیں۔ میں آج کی اس مجلس کی وساطت سے وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ جو سیکورٹی لوپ ہولز ہیں ان کو ختم کیا جائے، سیکورٹی اسٹریٹجی پر نظرثانی کی جائے، اور فوجی خواہ وہ عام سپاہی ہو یا آفسر ہمارے دل کے ٹکڑے ہیں، ان کا نقصان قومی نقصان ہے، اور ہماری مساجد، بازاروں اور ہماری آبادیوں کے اندر دہشت گردی کے واقعات ہوتے ہیں تو وہ بھی ہمارا اور قوم کا نقصان ہے۔ قیام امن ریاست کی ذمہ داری ہے، حکومت کا فرض ہے کہ وہ امن دے۔

مشتاق احمد خان نے کہا کہ میں چھے سال سینیٹ میں رہا اور یہ بہت ہنگامہ خیز سال تھے۔ جب میں سینیٹ میں گیا اُس وقت مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی، چار ماہ کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت آگئی، پھر تقریباً سوا چار سال کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت آگئی، اور اب جب میں سینیٹ سے فارغ ہورہا تھا تو پھر پی ڈی ایم ٹو کی حکومت تھی، تو اس طرح مجھے ان چار حکومتوں کے ساتھ بطور سینیٹر کام کرنے کا موقع ملا۔ اس عرصے میں ہم نے بہت سے چہروں کو دیکھا ہے، ان کی پالیسیوں کو دیکھا ہے، اور پھر یہ خوش قسمتی ہے یا کچھ لوگوں کی بدقسمتی تھی کہ میں انتہائی اسٹرے ٹیجک کمیٹیوں کے اندر شامل رہا، مثلاً میں چھے سال ڈیفنس کمیٹی کا ممبر رہا جو کہ بہت اہم کمیٹی تھی۔ عمومی طور پر ہمارے پارلیمنٹیرین ایسی کمیٹیوں کی ممبرشپ حاصل کرتے ہیں جہاں کچھ نہ کچھ ہوتا ہے۔ ڈیفنس کمیٹی ایسی ہے جہاں کچھ ہے نہیں، لیکن جن لوگوں کو ملک کے معاملات سے سروکار ہے ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اسی طرح کی اسٹرے ٹیجک کمیٹیوں میں آئیں۔ ورنہ لوگ واپڈا کی کمیٹیوں میں، گیس کی کمیٹیوں میں، سی این ڈبلیو کی کمیٹیوں میں جانا پسند کرتے ہیں۔

دستورِ پاکستان میں لکھا ہے کہ ریاست میں حاکمیتِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے اور سپریم لاء قرآن و سنت ہے، اور قران و سنت سے ماوراء کوئی قانون سازی نہیں ہوسکتی۔ لیکن یہاں پر عملاً اللہ تعالیٰ کی حاکمیتِ اعلیٰ کے بجائے خاندانوں، بعض اداروں اور شخصیات کی عمل داری ہے۔ یہاں پر سود کے حوالے سے بات ہوئی، ٹرانس جینڈر کے حوالے سے بات ہوئی، ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کی قانون سازی کے حوالے سے بات ہوئی.. لیکن اس قانون سازی میں قرآن و سنت کے دائرے کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا جاتا۔ دستور میں دوسری بات یہ کی گئی ہے کہ اقتدار ایک مقدس امانت ہوگا۔ میں نے دیکھا کہ مافیاز کے سارے نمائندے پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے ہیں، آپ کسی بھی مافیا پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے، کسی بھی مافیا کا احتساب نہیں کرسکتے۔ ان مافیاز میں رئیل اسٹیٹ مافیا، شوگر مافیا، یوریا مافیا، پرائیویٹ بجلی گھر مافیا، چینی مافیا، سیمنٹ اور سریا مافیا شامل ہیں، جو پارلیمنٹ کے اندر موجود ہیں اور یہ ادارے ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کررہے ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ حکومت خواہ کسی کی بھی ہو، ان بنیادی مافیاز کا کوئی محاسبہ نہیں کرسکتا۔ تو اقتدار مقدس امانت نہیں ہے بلکہ عملاً پلیٹ فارم ہے بینک اور اکاؤنٹس ملک اور بیرون ملک بنانے اور بھرنے کا۔ اور تیسری چیز یہ ہے کہ اقتدار عوام کا حق ہے۔ عوام کے پاس اقتدار کی اونرشپ ہے، اور عوام اپنی اس اونرشپ کو ایکسرسائز کریں گے منتخب نمائندوں کے ذریعے سے، اور اس کا فورم پارلیمنٹ ہوگی، فیصلوں کا مرکز پارلیمنٹ ہوگی۔ لیکن بدقسمتی ہے کہ پارلیمنٹ فیصلوں کا مرکز نہیں ہے۔ اور میں صرف دو بیانات آپ کو سناتا ہوں۔ میں چھے سال اسی پہ لگا رہا، یہی بات مجھے پارلیمنٹ کے اندر موجودہ وزیراعظم شہبازشریف نے ایک دفعہ بتائی تھی کہ اُن کے پاس جنرل باجوہ، جنرل نوید مختار اور جنرل فیض آئے اور کہا کہ ہم آپ کو وزیراعظم بنانا چاہتے ہیں لیکن انہوں نے انکار کردیا۔ اب جہاں گریڈ 22 اور گریڈ 21 کے دو افسر 25 کروڑ عوام کا حقِ حکمرانی اپنی جیب میں لیے پھرتے ہوں اور لوگوں کو آفر کرتے ہوں کہ ہم آپ کو دینے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ آپ ہماری شرائط پر ہمارے ساتھ بیٹھ کر بات کریں تو کہاں کی عوامی بالادستی اور کہاں کی اونرشپ؟ عوام اور جمہوریت کے نام پر قوم کے ساتھ فراڈ ہورہا ہے۔ اس لیے بنیادی مسئلہ پارلیمنٹ کا ربراسٹیمپ ہونا ہے، پارلیمنٹ فیصلوں کا مرکز نہیں ہے، اس کے پاس اختیار نہیں ہے۔ اور جب تک یہ فیصلوں کا مرکز نہیں بنے گی دستور کے مطابق پاکستان کے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ یہاں پر کچھ طبقات ایسے ہیں کہ اختیار ان کے پاس ہیں لیکن ذمہ داری ان کی نہیں ہے، تو اس کے نتیجے میں مسائل حل نہیں ہوں گے۔

لہٰذا وفاقِ پاکستان کو مضبوط کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عوام میں شعور پیدا کیا جائے، اور اسلام آباد میں موجود غلام اور انگوٹھا چھاپ پارلیمنٹ کے مقابلے میں ایک عوامی پارلیمنٹ ہونی چاہیے۔ یہ پارلیمنٹ عوام کی پارلیمنٹ ہو جو چوکوں اور چوراہوں میں، سڑکوں میں، گلی کوچوں میں وجود میں لائی جائیں جہاں لوگ اپنے مسائل ڈسکس کریں، قومی ایشوز ڈسکس کریں، عوام کے اندر شعور اور تعلیم آئے، اور اس سے ایک ایسا دباؤ بنایا جائے جس کے نتیجے میں سویلین سپریمیسی بھی یقینی ہو، پاکستان کی آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ساہوکار اداروں کے ہاں گروی آزادی بھی بازیاب ہو، اور عوام کے جو بنیادی حقوق ہیں ان کو تحفظ حاصل ہو، جس کے نتیجے میں انصاف، تعلیم، صحت، روٹی کپڑا اور مکان، نوجوانوں کے لیے روزگار، بنیادی حقوق کا تحفظ ہو، آزاد میڈیا ہو، اظہار رائے کی آزادی ہو، جس سے پاکستان میں ایک نئی روشن صبح کا آغاز ہوسکتا ہے۔ یہ ایک مستقل جدوجہد ہے، یہ ایک اعلیٰ و ارفع مشن ہے۔ اس سے ریٹائرمنٹ نہیں ہوتی، اس کے محاذ بدلتے ہیں، اس کے مورچے بدلتے ہیں لیکن مشن جاری رہتا ہے۔ اِن شاء اللہ ہمارا یہ مشن آخری دم تک جاری رہے گا۔

جماعت اسلامی خیبر پختون خوا کے امیر اور سابق سینیٹر پروفیسر محمد ابراہیم خان نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ محترم جناب مشتاق احمد خان اور محترم جناب مولانا عبدالحق اکبر چترالی نے اپنے اپنے محاذوں پر اپنی جو ذمہ داریاں ادا کرنے کی کوشش کی ہے میری دعا ہے کہ اللہ ان کی کوششوں کو اپنے دربار میں قبول اور منظور فرمائے اور ان کے لیے بھی اور ہمارے لیے بھی دنیا اور آخرت کے بہترین اجر کا ذریعہ بنائے۔ دراصل ہم جن مسائل سے دوچار ہیں اس کا تذکرہ یہاں بھی ہوا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اصل ذمہ داری تو سیاسی جماعتوں پر ہے۔ نظام جو کچھ بھی ہے سیاسی جماعتوں کا بنایا ہوا ہے، اور سیاسی جماعتیں اگر اپنا جمہوری آئینی کردار ادا کرنے کے لیے آگے بڑھیں تو ان کا حق کوئی بھی نہیں چھین سکتا۔ لیکن میں اپنے صوبے کی اگر بات کروں تو یہاں ان مقتدر قوتوں نے کئی گروہوں کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ آنے والے انتخابات کے نتیجے میں آپ کی حکومت بنے گی، اور یہ لوگ برملا اس رائے کا اظہار کرتے رہے کہ ہمارے ساتھ وعدہ ہوا ہے۔ اور جب وعدہ پورا نہیں ہوا تو وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بولنے لگے ہیں۔ ہماری یہ سیاسی جماعتیں جو اپنے اندرون میں جمہوریت نہیں رکھتیں، ملک کو بھی جمہوریت دینے میں ناکام اور نامراد رہی ہیں۔ اگر یہ تمام سیاسی جماعتیں اپنی حیثیت پہچان کر اپنی اصلاح کرلیں تو پھر قوم کی اصلاح بھی ممکن ہے، اور ہوسکتا ہے پھر کوئی نادیدہ قوت اقتدار پر قابض نہ رہ سکے۔ لیکن اگر سیاسی جماعتیں ان کے لیے استعمال ہوتی رہیں تو یہاں نہ جمہوریت مستحکم ہوسکتی ہے اور نہ ہی ملکی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ ہمارے اصحابِ اقتدار اس کو دل میں جگہ دے چکے ہیں، اس لیے پوری قوم ان کے ہاتھوں لٹ رہی ہے۔ قوم کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ اس کا اقتدار اور اختیار کن ہاتھوں میں رہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ قوم مایوسی کا شکار ہے۔ ہم نے 1970ء سے 2018ء تک مختلف تجربات کیے اور ان تمام تجربات کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ ہم آئندہ ایک دو الیکشن کے لیے نہیں، بلکہ مستقل طور پر قوم کے سامنے جماعت اسلامی کے نام اور جماعت کے نشان سے کھڑے رہیں گے۔ ہم نے 2024ء کے انتخابات سے اس کا آغاز کردیاہے،یہ ہمارا زیرو سے آغاز ہے، اسکوائر ون سے ہم آگے بڑھ رہے ہیں اور مجھے یقین ہے اِن شاءاللہ العزیز قوم ہماری جانب رجوع کرے گی۔ یہ مایوس قوم جس کی اکثریت آج بھی ووٹ دینے کی روادار نہیں ہے، اس کو یہ امید دلائیں گے کہ اِن شاءاللہ العزیز جماعت اسلامی امید کا سہارا ہے، ہمارے اِن رفقا کا کردار، اور اس سے پہلے بھی ہمارے بزرگوں نے جو کردار ادا کیا ہے اِن شاءاللہ اس بنیاد پر قوم کو اس مشکل سے نکالیں گے۔