پانچواں باب :ما بعد تصور: وجودی ”تصور“

کیئرکیگارڈ اورنٹشے(2)

کیئر کیگارڈ
ڈینش مفکر سورن کیئرکیگارڈ وجودیت کے بانیوں میں سے ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جمالیاتی رویہ وجود کے پہلے مرحلے کی تشکیل کرتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں انسان اپنی قوتِ تصور کو ایک نہ ختم ہونے والی خواہش کے طور پر دریافت کرتا ہے۔ اس تصور کا ابتدائی اظہار بقول کیئر کیگارڈ نوجوانی کا وہ جوش ہے جو ممکنات کی تلاش میں رہتا ہے۔ یہ اس بات کا بھرپور احساس ہے کہ کہیں کوئی پابندی نہیں، اور وجود کی ساری صفات نہ تھکا دینے والے جوش و ولولے سے بھری ہیں۔ وہ اس بات کو قبول کرتا ہے کہ سچ کی تلاش کے لیے ہماری نہ ختم ہونے والی آرزو موضوعی ہے۔ کیئرکیگارڈ مؤثر انداز میں جمالیاتی رویّے کو رومانیت پسند مثالیت پسندی کے مماثل قرار دیتا ہے۔ اور یہ برابری اس حقیقت کے تابع ہے کہ فرد کے منتخب اظہارات اس مرحلے پر رومانوی دور کے حنوط شدہ ہیروز ہیں، جیسے ڈان جون، فاسٹس، اور پرومیتھیس وغیرہ۔

مگر کیئرکیگارڈ رومانوی اسلوبِ تحقیق میں ایک واضح نقص دیکھتا ہے۔ وہ اصرار کرتا ہے کہ جمالیات زندگی کے تین مراحل میں سے صرف ایک مرحلہ ہے۔ دیگر دو مراحل اخلاقی اور مذہبی ہیں کہ جنہیں جمالیات کے تحت نہیں لایا جاسکتا جیسا کہ رومانیت پسند مثالیت پسندی نے فرض کرلیا تھا۔ یہ تینوں مرحلے آدمی کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ وجود کی سند حاصل کرنے کا اہل ہوسکے۔ بقول کیئرکیگارڈ ہمیشہ جمالیاتی مرحلے میں رہنا تخلیقی تصور کو وجود کی سند سے محروم کردیتا ہے: زندگی کے دیگر دو مراحل ’انکار‘ اور ’اختیار‘ مسلسل روزمرہ کے تجربے میں ہمارا سامنا کرتے ہیں۔ اخلاقی اور مذہبی مراحل ہمارے تخلیقی تصور کے لیے حدیں مقرر کرتے ہیں۔ اخلاقی مرحلہ ہمیں فوری ذمہ داریوں سے آگاہ کرتا ہے: فرد کی سطح پرذمہ داری اور سماجی ذمہ داری۔

بہترین آدمی
Training in Christianity کے مصنف نے ہمیں تصور کی جو کہانی سنائی ہے، الجھی ہوئی ہے۔ سب سے پہلے ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ ’’تصور‘‘ نوجوان شاعروں اور عاشقوں کا ہتھیار ہے کہ جس سے وہ وجود کی رکاوٹیں سرکرنا چاہتے ہیں۔ یہ ارادے اور آرزو کا باطنی چہرہ ہے کہ جس کی نگاہوں کے آگے حقیقت کے تضادات اور مشکلات غائب ہوتی محسوس ہوتی ہیں۔ بالکل ایک بے صبرے بچے کی طرح، جو ایک چمکتی ہوئی چیز کی طرف لپکتا ہے اور آس پاس کی دیگر چیزوں کو نظرانداز کردیتا ہے۔ بالکل اسی طرح تصور دیوانگی کی حالت میں اپنے ہدف کی طرف بڑھتا ہے۔

اس طرح جمالیاتی حس کا من مانا مزاج مذہبی رجحان سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ’تصور‘ عیسائیت کا ادب بالائے طاق رکھنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔ کیئرکیگارڈ مذہبی آدمی کے لیے عقیدہ ’تجسیم مسیح‘ کو ناقابلِ بیان معمّا قرار دیتا ہے، اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ وہ خود کو ربانی روح سے نسبت دینے کے عوض ’آدمی کے مصائب‘ پس پشت ڈال دیتا ہے۔ وہ خبردار کرتا ہے کہ ’تصور‘ عیسائیت کی جبریت نظرانداز کردیتا ہے۔ اور’جبریت‘ کے بغیرخالص عیسائی عقیدے کا کوئی مطلب نہیں۔

جب سے تصور نے عیسائیت میں انسانیت کے پہلو کو نظرانداز کیا، اُس کے لیے یہ زیادہ آسان ہوگیا کہ اپنے وجود میں بھی انسانیت کی گنجائش باقی نہ رہنے دے، اور خود خدا بن کر بیٹھ جائے۔

کیئرکیگارڈ آگے چل کر وضاحت کرتا ہے کہ ایک جمالیات پسند، خدا کا کوئی واضح تصور نہیں رکھتا۔Training in Christianity میں کیئرکیگارڈ تصور اور مذہبی آدمی کے درمیان تعلق کا حوالہ دے کر یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ دونوں ایک جیسے خواص سے متصف ہیں۔ یہاں پر مصنف تسلیم کرتا ہے کہ تصور کرنا ایسی قوت کے اظہار کی ابتدا ہے جو عقیدے کے معاملے میں منطقی بحث کی جانب بڑھتی ہے۔ کیونکہ آدمی خدا کے نائب جیسا نہیں بلکہ کمزور مخلوق ہے، اس لیے وہ کبھی کبھی یہ ضروری سمجھتا ہے کہ اپنی مذہبی ذمہ داری بالواسطہ ذرائع سے پوری کرے۔

کیئرکیگارڈ سمجھتا ہے کہ ہر انسان کسی نہ کسی درجے میں سوچے سمجھے تصور کی قوت رکھتا ہے، اسے وہ آدمی کا پہلی بار میں کچھ بن جانے کا ارادہ کہتا ہے۔ یہ آدمی کا اپنے امکان کے لیے پُرجوش ہونا ہے۔ اس نقطے کی وضاحت کے لیے وہ ہمارے سامنے ایک نوجوان پیش کرتا ہے جو ایک آئیڈیل پکچر آف پرفیکشن یعنی ’آدمی کا بہترین نمونہ‘ ہوتا ہے۔ یہ نوجوان آرزو کرتا ہے اور اس میں ڈھل جانا چاہتا ہے۔ یہ آرزو ہر وقت اُس کے ساتھ رہتی ہے۔ سوتے جاگتے بس وہ اُسے ہی تصور کرتا ہے۔ اور کبھی کبھی یہ آرزو اُسے پوری طاقت سے انتہا پر لے جاتی ہے اور نیند تک اُڑ جاتی ہے۔ یہاں تک کہ یہ آسیب بن کر سوار ہو جاتی ہے اور آدمی اس سے جان نہیں چھڑا پاتا۔ یہ نوجوان ایک ایسے تصور کے عشق میں مبتلاہو جاتا ہے جو ایک امکان سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔

یہ تصور آدمی کو وجود کی کھال سے باہراچھال دیتا ہے اور وہ کہانی کے انجام کی طرف چھلانگیں مارنے لگتا ہے۔ جبکہ کہانی ابھی شروع ہی ہوئی ہوتی ہے۔

نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ جمالیات پسند نوجوان ایک ناگزیر المیے سے دوچار ہوجاتا ہے، وہ اپنے محدود اور تکلیف دہ وجود کی حقیقت سے اندھا ہوجاتا ہے، اس دنیا کی حقیقت بھول جاتا ہے کہ جس میں اُسے بہرصورت زندہ رہنا ہے۔ وہ مایوسی کے ساتھ اپنے وجود کی تلخیوں سے لڑتا ہے۔ نوجوانی کی خام خیالیاں دنیا کی حقیقت محسوس کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتیں کیونکہ وہ اُسے اس مرحلے پر زیادہ تنگ نہیں کرتیں، اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اسے دنیا کا ابھی کوئی تجربہ نہیں ہوا ہوتا۔ یہ نوجوان تنہا اپنی خواہش کو اپنے تصور کی تصویر سے مشابہ دیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کا ایسا کرنا توانائی سے بھرپور ہوتا ہے۔ مگر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس نوجوان کی شخصیت داخلی طور پر دھیرے دھیرے ازسرنو تشکیل پاتی ہے۔ یہ پیدائشِ نو عیب سے پاک نہیں ہوتی۔ یہ ایک کمزور اور ناقص وجود ہوتا ہے۔ اور وہ تصویر جو اس نے اپنے تصور میں بنا رکھی ہوتی ہے، چکنا چور ہوجاتی ہے۔

یہ جمالیات پسند فرد جو پرفیکشن کی تلاش میں ہوتا ہے، ناکامی سے دوچار ہوجاتا ہے۔ یہ ایسا لگتا ہے کہ آدمی تخیل کی پرواز میں ہے۔ یہ اپنی ذات کی پروجیکشن سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ ایک افسانہ جو مثالیت پسند کا اپنا تخلیقی تصور تھا۔ اب حقیقت پھر توجہ کا مرکز بن چکی تھی۔ تصور پاش پاش ہوچکا تھا۔ چیزیں اور حالات اب کچھ اور ہوچکے تھے۔ مثالیت پسند تصویر صرف یہ بتاتی ہے کہ کہانی ادھوری ہے۔

اس تصور کا اظہار جو پرفیکشن چاہتا تھا، حقیقت کی تلخیوں کے ساتھ نباہ نہ کرسکا۔ اس طرح نوجوانی کا یہ مثالی تخیل دھندلا جاتا ہے اور اس کی جگہ ہمارا ٹھوس وجود لے لیتا ہے جو حقیقت کے مصائب سے بھرا ہے۔ یہ عتاب ہے حقیقت کا، اور حقیقت ہے مصائب کی۔ ییٹس تصور کے بارے میں کہتا ہے کہ ’سچ میں مرجھا جاتا ہے‘۔

کیئر کیگارڈ اپنی کتاب Anti-Climacus اور Sickness unto death میں یہ المیہ کہانی سمیٹتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ زندگی کی سنجیدگی اس ارادے میں ہے کہ کیا ہوا جائے، اور اپنی پرفیکشن کا اظہار روزمرہ کی تلخ حقیقتوں کا سامنا کرکے کیاجائے۔ یہ لازمی طور پرایسی حقیقت کا سامنا ہے کہ جس کی اس نوجوان نے ’توقع‘ نہیں کی ہوتی۔ (جاری ہے)

پرومیتیئھن پروجیکٹ

اس گمراہ کن ’توقع‘ کے راستے کیرکیگارڈ ہمیں تصور کے دوسرے اہم محرک کی طرف لے جاتا ہے۔ جسے ہم پرومیتھئین پروجیکٹ کہتے ہیں۔ ایک جگہ کیئرکیگارڈ لکھتا ہے کہ یہ توقع پرومیھتئین خواہش سے تعلق میں ہے، یہ خواہش کہتی ہے کہ ساری دنیا کو بزور طاقت بدل دیا جائے۔ اب ہم کیئر کیگارڈ کی Either/OrاورSickness unto deathسے چند متون منتخب کریں گے۔ جن میں پرومیتھئین ’توقعات‘ اور تخیلاتی آرزو اور مایوسی کو متوازی حالتوں میں بیان کریں گے کہ یہ یکساں ہیں۔ ہم یہاں دوبارہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ کیئرکیگارڈ جمالیاتی اور مذہبی رویوں کے درمیان تعلق کی پیچیدگی کس طرح محقق کرتا ہے۔

ہمارا پہلا متن Either/Or سے ہے۔ یہ خبردار کرتا ہے کہ تمام وہ رومانیت پسند جو پرومیتھئین آرزوکا شکار ہوگئے ہیں۔ جن کی توقعات کی کوئی حدنہیں۔ یہ دیکھنا بہت خوش گوار تجربہ ہوتا ہے کہ ایک آدمی کھلی فضا میں خام خیالیوں کے سمندر میں غوطے مارتا ہے، مگر کوئی بھی اپنی توقعات کو اپنی ہی کشتی پرسوار کر کے سمندر پارکرنے کی جرات نہیں کرتا۔ خواہ اُسے کشتی کا کپتان ہی کیوں نہ بنادیا جائے، کیونکہ توقع ایک کپتان ہے۔ یہ توقع پرومیتھئیس کا ایک مشکوک تحفہ ہے۔ بجائے اس کے کہ یہ آدمیوں کو محدودیت اورفنا کی تعلیم دے یہ انہیں توقعات میں لگائے رکھتا ہے۔ جو کوئی بھی اپنے تجربے میں لمبی لمبی توقعات لے کر چھلانگ لگاتا ہے اُسے یاد رکھنا چاہیے کہ مایوسی بالآخرناقابل برداشت ہوجاتی ہے۔

لہذا اصل فلسفہ یہ ہے کہ کوئی بھی بات تمہارے لیے باعث حیرت نہ ہو، صدمہ نہ بنے، یا اسے یوں کہہ لیں کہ کوئی بھی صورت حال تمہارے لیے نئی یا اجنبی نہ ہو۔ کیئرکیگارڈ کی وجودی تلخی یہاں بالکل واضح ہے وہ مثبت کلچرکو زمیں دوزکرنے پر تلا دکھائی دیتا ہے۔ اور کئیرکیگارڈ کے ہاں یقینا پرومیتھیس کا انتخاب، جو رومانوی تصور کا بھولا بھٹکا ہیرو تھا، ہرگز اتفاقی حادثہ نہ تھا۔

ہمارا دوسرا متن اس کے بعد کے کاموں سے ہے۔ Sickness unto death میں مصنف رومانوی مثالیت پسندی کی اُن کوششوں کو مستردکرتا ہے جو آدمی کے باطنی اورخارجی تضادمیں مصالحت چاہتی ہوں۔ کئیرکیگارڈ خبردار کرتا ہے کہ پرومیتھئین توقعات میں پڑکرصرف مایوسی ملتی ہے۔ جب ذات کا کہ جواپنے آپ میں بٹی ہوئی ہے’وجودی حقیقت‘ سے واسطہ پڑتا ہے تو’ہولناک‘ تجربہ سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ مگریہ ہولناکی خود اپنے اندربڑی مبہم ہے۔ یہ بہ یک وقت امیدبھی ہے اور مایوسی بھی۔ یہ نکتہ نظراس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ ہمارا تصور نہ صرف پرومیتھئین اسلوب میں توقع اور مایوسی دونوں ہی معلوم ہوتا ہے، بلکہ آدم کے قصہ میں بھی ’بہکائے جانے اور زمین پر اتارے جانے‘ جیسا ہے۔ کیئرکیگارڈ ان دونوں بنیادی قصوں کو مثال بنا کرکہتا ہے کہ آدمی کبھی بھی اپنے وجود کی حدود کوپارنہیں کرسکتا اور اپنے وجود کا گڑھا پاٹنا اُس کے بس سے باہر ہے اور نہ ہی وہ اس تقسیم کو قوت تصور سے متحد کرسکتا ہے۔ کوئی بھی آدمی جب یہ تسلیم کرلیتا ہے کہ اُس کا اس دوہرے پن پر کوئی بس نہیں چلتا، وہ مایوسی میں پناہ لے لیتا ہے۔ یہ بے ریاست بادشاہ بن جاتا ہے۔

اس طرح پرومیتھئین نے جوخداؤں کی مقدس آگ چرائی تویہ بالکل ایسا تھا کہ جیسے ’خدائی تدبر‘ پرنقب لگانے کی کوشش کی گئی۔ ایک ایسی سنجیدہ حقیقت جس کی خدا کے ہاں بڑی قدر ہے۔ یہ کہ آدمی اپنی محدودیت اور وجودیت پرقانع ہوجائے۔ انسانی مفادات اوراہمیت پرگزارا کرے۔ آدمی اپنے وجود کی حدوں میں رہے یہی عقل مندی ہے۔ اس طرح یہ ذات اس قدر مایوس ہوجائے کہ خود کو وہ نہ سمجھے کہ جو وہ ہے نہیں۔ یہ سرا سر ذات تک محدود رہے۔ یہاں تک کہ اس کوشش میں ذات کی بھی نفی کردے۔ اس ساری بحث میں ذات ایک ایسا بادشاہ ہے جس کی کہیں کوئی بادشاہت قائم نہیں۔

اس متن میں دو باتیں سمجھ آتی ہیں جواپنی فطرت میں جدید ہیں۔ پہلی بات یہ مشاہدہ کہ پرومیتھئین پروجیکٹ ایک افسانہ تھا کہ آدمی خدا کی جگہ لے لے۔ یہ محض ذات کی دوہری نقل تھی۔ اپنے ہی موضوعی تصورسے خدا خلق کرنے کی کوشش تھی، درحقیقت آدمی اپنے ہی عکس کی مذمت کررہا تھا۔ کئیرکیگارڈ کے لیے یہ جرمن مثالیت پسندوں اورہیگل سے سیکھا جانے والا آخری سبق تھا۔ دوسری بات نسبتا زیادہ جدید ہے جواس متن میں ملتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ آدمی کی خود شناسی کی کوئی حقیقت نہیں۔ رومانوی مثالیت پسندی کی پرومیتھئین ’توقع‘ کی قسمت میں ناکامی لکھی ہے۔ وجودیت نے’توقع‘ کا یہ شکارگھات لگا کے کیا ہے۔ یہ خوفناک دریافت کہ آدمی کے تصور کی گہرائی محض خالی پن ہے۔ کیئر کیگارڈ نے ماورائیت پسند مثالیت پسندوں کی امید پرستی کو سختی سے مسترد کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ آدمی کی موضوعیت کا باطنی جوہرکھوکھلے پن میں ہے۔ ایسا وجودی ہیولا جوفضا میں تحلیل ہوجائے، اس کی کسی کاوش کی کوئی وقعت نہیں۔ اس کا اپنے حادثاتی وجود سے فرارممکن نہیں، اُسے اسی بے معنویت میں گزربسرکرنی ہے۔ یہاں کئیرکیگارڈ پیش بینی کرتا ہے کہ وجودی فلسفہ عدمیت بیس ویں صدی کے مفکرین البرٹ کامیو اورسارترکی مرکزی تھیم بننے جارہا ہے۔

اسی متن میں آگے چل کرکیئر کیگارڈتسلیم کرتا ہے کہ مسیحیت سے بڑھ کر کسی عقیدے نے خدا اور آدم کو باہم اتنا قریب نہیں کیا۔ صرف خدا خالق حقیقی ہے اور ہر انسانی ایجاد اورجدت بالآخر ایک دھندلاتصور، خواب بن کررہ جائے گی۔ آج تک کسی عقیدے میں اتنی شدت سے کسی توہین مذہب کا دفاع نہیں کیا گیا کہ جتنا عیسائیت نے ’’آدمی میں خدا کے حلول‘‘ کا کیا ہے۔ دونوں کو ایک کردیا گیا اور ایسا جبروتشدد کی مدد سے کیا گیا۔

یہ گناہ کو بھلانے کی کوشش کرنا ہے۔ اور اس کی جڑ آدم کے اس قیاس میں ہے کہ آدمی خدائی کے ساتھ وحدت میں آسکتا ہے۔ مگر ان تصوراتی خام خیالیوں نے آدمی کے وجود کی حقیقت اور محدودیت کا کچھ نہیں بگاڑا، ہمارا گناہ گار ہونا اور فانی ہونا جوں کا توں قائم رہا۔

آدمی کے عارضی وجود سے غافل ہونا رومانیت پسندوں کی کوششوں میں نمایاں تھا۔ اور یہ مثالیت پسندی صرف جمالیاتی رویہ تک محدود نہ تھی، یہ مذہبی رجحان میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ مگر کیرکیگارڈکہتا ہے کہ جیسے جیسے ’خدا کے سلطنت‘ کی اصطلاح دنیا کے لیے استعمال ہوتی گئی عیسائیت منسوخ ہوتی چلی گئی۔

کیئرکیگارڈ کو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جدیدیت کی روح کی سب سے بڑی غلطی آدمی کے تصور کو خدائی سے گڈمڈ کرنا ہے۔ یہ بہ یک وقت آدمی کے وجود کی محدودیت اورخدا کی لا محدودیت میں الجھا دیتا ہے۔ کیئر کیگارڈ نوجوان مثالیت پسند کی کہانی کی جانب لوٹتا ہے اور پرومیتھئین کی تصوراتی گمراہیوں اورعیسائیت کی نظریاتی دست درازیوں میں ربط تلاش کرتا ہے، اسے مستحکم کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ یہ سامنے کا مشاہدہ ہے کہ بچے اور نوجوان زندگی کے بارے میں جوشیلی خواہشات رکھتے ہیں اورٹھوس تجربے کے لیے کوئی خانہ خالی نہیں چھوڑتے۔ لہذا مثبت کلچرجمالیاتی اور مذہبی دونوں زاویوں سے مسترد کردیا جاتا ہے۔ یوں وجودی اپنے تمام دکھوں، تنہائیوں، اکیلے پن اور خام خیالیوں کے ساتھ نمایاں ہوکرسامنے آجاتا ہے۔ وجودی آدمی کے لیے نہ دنیا میں کوئی راہ نجات ہے اور نہ اپنی ذات میں ہی کوئی معنی موجود ہیں۔ کیئر کیگارڈ کے لیے صرف خدا پرایمان بچتا ہے مگر وہ بھی خوف پر مبنی ہے جس سے آدمی کا معروضی یقین شک شبے کی نذر ہو جاتا ہے۔

نٹشے

یہ 19ویں صدی کی وجودیت کا ایک اور بہت بااثر نام ہے۔ نٹشے کا نکتہ نظریہ تھا کہ آدمی کے ’’تصور‘‘ کا اُس کے وجود کی ’’بے معنویت‘‘ سے جب سامنا ہوتا ہے تو وہ ڈھے جاتاہے۔ وہ اس بے معنویت کی شرح میں کئیر کیگارڈ سے مختلف ہے۔ نٹشے تسلیم کرتا ہے کہ جدید آدمی کی روح زخمی ہے، اورایمان کی ساری حالتیں زوال پذیر ہیں۔ تخلیقی تصور درحقیقت بے بنیاد ہے، عدمیت میں ٹھیرتا خیال محض ایک لاحاصل خواہش اور ارادہ ہے۔ مگر اس حالت میں بھی ایک خفی خوبی پائی جاتی ہے، جدید آدمی کے لیے جینے کا ایسا امکان جو ماورا اقدار سے بے نیاز بے۔ نٹشے کی نظرمیں’’تصور‘‘ زندگی کے لیے ’آ بیل مجھے مار‘ ہے۔

دوستووسکی لکھتا ہے کہ اگر خدا حالت مرگ میں ہےتو پھرآدمی کو ہرچیزکی کھلی چھوٹ ہے اورنٹشے نے اس ’’اگر‘‘ کو مٹادیا اور اس کے نتائج کو گلے لگالیا۔ نٹشے نے جب اپنی کتاب The Gay science میں، جواٹھارہ سو بیاسی میں شایع ہوئی، ’خدا کی موت‘ کا اعلان کیا، تواسے آدمی کی کامل آزادی کا اعلان باور کیا گیا، اورہاتھوں ہاتھ یہ خیال عام ہوگیا۔

اس کے بعد آدمی فوق بشر کے پروجیکٹ کے لیے آزاد ہوگیا: ایک ایسا عظیم فرد، جو اپنے من مانے وجود کوآرٹ میں ڈھالنے کی جرات کرسکے۔ اس طرح ’تخلیقی تصور‘کی بے معنی دنیا میں یہ اپنے ارادے کی قوت کا اظہارکرسکتا ہے۔ یہ فوق بشرسچ اور اخلاق کے روایتی نظریات کومتوازی اقدارسے ڈھا دینا چاہتا ہے۔

نٹشے کا نظام اقدار اس کی کتاب Genealogy of moralsمیں سامنے آتا ہے۔ وہ اعلان کرتا ہے کہ خیر و شر کے سارے روایتی نظریات آدمی کی ثقافتی ایجادات کے سوا کچھ نہیں۔ اب روایت کی ماورائی اقدار بے نقاب ہوتی ہیں کہ جنہوں نے ارادے کی قوت کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا۔ یہ روایتی اقدار تاریخی ادوار کی پیداوار تھیں۔ عیسائیت اور افلاطونیت دونوں میں مغربی آدمی نے ماورائے حس عالم کو بالادستی دے کے وجود کی نفی کی تھی۔ ’کامل قدر‘ کا نظریہ ایک سوچے سمجھے افسانے سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ یہ ایسے لوگوں کی ایجاد تھی جن کی ذہنیت ریوڑ جیسی تھی کہ جو تخلیقی ذہنوں کی عظمت سے حسد کرتے تھے۔ کامل قدرزندگی کی ’حقیقت‘ سے گریز کا فقط ایک بہانہ تھا۔

ہائیڈگر نے نٹشے کو آخری ماہر مابعدالطبیعات لکھا ہے: ایک ایسا فلسفی جس نے وجودیاتی الہیات کے خاتمے کا اعلان کیا۔ نٹشے دلیل دیتا ہے کہ خدا کے بارے میں روایتی تصورات جیسے علت اولی، قادر مطلق، اورخیر دراصل انسانی ارادے کی پروجیکشن تھی۔ روایتی ما بعدالطبیعات نے آدمی سے یہ بات پوشیدہ رکھی کہ ’قدروں‘ کا اصل خالق وہ خود ہے۔ نٹشے نے مغربی تہذیب کے قلب میں موجود بے معنویت اورعدمیت کو نمایاں کردیا تھا۔ اس نے مغرب کو للکارا تھا کہ وہ اب عدم سے نئی دنیا تخلیق کرے۔

نٹشے کی ’نئی قدروں‘ کا پروجیکٹ نہ صرف ’خیر‘ کے اخلاقی سوال پراثر انداز ہوا بلکہ ’سچ‘ کے نظریہ علم پربھی سوالیہ نشان لگ گیا۔ کامل سچ کی زمانوں سے تلاش اب طاقت کے خفی ارادے میں نمایاں ہوگئی۔ نٹشے نے دعوٰی کیا کہ علم کی نام نہاد جستجوکے پیچھے جیت کی ہوس چھپی مل سکتی ہے۔ سچ کی ما بعدالطبیعاتی تلاش کا حتمی محرک ’وجود‘ پراقتدار اورقبضہ کی خواہش تھی۔ یہ حقیقت آدمی نے خود اپنے آپ سے چھپائی، یہاں تک کہ وجودیت کا دور جدید آگیا کہ جب ہرچیز پرسوال اٹھادیے گئے۔ کچھ بھی اندھا دھند قبول کرنے سے انکار کردیا گیا۔ نٹشے نے وضاحت کی کہ اب تک سچ کو مسئلہ بننے کی اجازت نہیں دی گئی تھی کیونکہ اب تک یہ ’راہبانہ اصول پرستی‘ فلسفہ پرحاوی تھی، وجود کا سچ طے شدہ تھا۔ یقینا کانٹ اس اعتراف کے قریب پہنچ چکا تھا کہ مابعدالطبیعاتی سچ کے مخمصہ کی فطرت بہت پیچیدہ ہے۔ مگرجیسا کہ ہائیڈگرنے نوٹ کیا، کانٹ ’اتھاہ گہرائی دیکھ کر پیچھے ہٹ گیا تھا‘۔ اوربعد کی جرمن مثالیت پسند اور رومانیت پسند تحریک نے بھی اس ’وجودی‘ پاتال سے خود کو دور ہی رکھا۔ انہوں نے آدمی کے ’’تصور‘‘ کوایک نئی ’آفاقی‘ ماورائیت پرپہنچادیا تھا اورآدمی کے ’وجود‘ سے آنکھیں پھیرلی تھیں۔

کئیرکیگارڈ نے اپنی حد تک آدمی کے ’وجود‘ کے اس خالی پن کو نمایاں کیا۔ مگر’عقیدہ‘ کی جانب لپکنے کی گنجائش باقی رہنے دی۔ نٹشے نے یہ گنجائش بھی ختم کردی۔ وہ غیبی خدا کی جانب لپکنے کے بجائے پاتال میں جاگرا۔ وجود کی بے معنویت بالآخراپنی تمام ہولناکی اورشان کے ساتھ اپنی برہنگیت کے سامنے جاکھڑی ہوئی۔ مستند ذات نے اتھاہ اندھیروں میں آنکھیں گاڑ دیں۔

نٹشے کے مطابق ’سچ کا ارادہ‘ پہلے سے ہی انحطاط کی علامت ہے، اور وہ جوسچ بولتا ہے بالاخراس حقیقت کو جان لیتا ہے کہ ہمیشہ جھوٹ بولتا رہا تھا۔ اس طرح نٹشے کئیرکیگارڈ کے تین مراحل کا نمونہ الٹادیتا ہے۔ اس کے ہاں جمالیات کا مرحلہ ’وجود‘ کے اعلٰی اظہارکے طورپرسامنے آتا ہے، اخلاقیات اور مذہب دونوں سے ماورا۔ یہ طرز فکرنٹشے کے فلسفہ تصورکا اختصاص ہے۔جب تک خیال کی قوت سچ کوخواب وخیال کی نذرکرتی ہے، تخلیقی تصورکی کارگزاری ناقابل بھروسہ رہتی ہے۔ اورجہاں تک یہ اپنی خیالی دنیا کوخیالی دنیا کے طورپرہی قبول کرتی ہے اوراس کی تخلیقی صلاحیت کا آزادانہ استعمال کرتی ہے، یہ قابل اعتباررہتی ہے۔ نٹشے کہتا ہے کہ ’سچ کادعوٰی‘ غلطی سے زیادہ مہلک ہے کہ من مانا تصوراسے ’حقیقت‘ قرار دے کربرباد کردیتا ہے، اس سے تو بہت بہتر ہے کہ آدمی مایوسی سے ہی سہی اندھیروں میں سچ کی تلاش کرے۔ وہ کہتا ہے کہ ہمیں اس اندھیرے کواپنی اٹل تقدیر سمجھ کرسینے سے لگا لینا چاہیے تاکہ کسی سند کے ساتھ زندہ رہ سکیں۔ نٹشے کا مؤقف تھا کہ تصور کے تخلیقی سچ تغیر پذیر ہیں، جتنے سچ اتنی تشریحات۔ اس طرح خدا کی ذات میں محدود لامحدودیت کی جگہ آدمی کی لامحدود تشریحات لے لیتی ہیں۔ اس سیاق میں ہم نٹشے کی یہ الجھی ہوئی تشکیل کہ ’سچ عورت بن جاتا ہے‘ پرایک نظرڈال سکتے ہیں۔ وہ مثال دیتا ہے کہ خودساختہ مابعدالطبیعاتی ’سچ‘ ایک پدری سلسلہ ہے جسے وجودیت نے ایک ’دھوکے‘ کے طورپر منکشف کردیا ہے، اوراب یہ پردوں کے پیچھے جاری ایک ایسا رقص بن چکا ہے کہ جس میں ایک عورت خود کوصاف چھپاتی بھی نہیں اور سامنے آتی بھی نہیں۔ یہاں دریدا کی ’سچ کا انہدام‘ کی ترکیب برمحل ہوگی۔ WILL TO POWER کی پندرہویں کتاب میں نٹشے روایتی اوردرحقیقت ماورائی مثالیت پسندی کے اس مؤقف کے نتائج کا تنقیدی جائزہ لیتا ہے۔ وہ دلیل دیتا ہے کہ مطلق اورمربوط سچ کی جستجوکہ جس میں افلاطونی تسویہ کی علامت SunFatherGoodاب بھی محفوظ ہے مگربدلی ہوئی صورت میں، کہ جسے کانٹ فشٹے اورشیلنگ نے مرتب کیا تھا۔ جنہوں نے ’سچ‘ ترک نہیں کیا تھابلکہ اسے ’انتہائی پراسرار‘ بنا دیا تھا۔ نٹشے کا مشاہدہ ہے کہ ’یہ بنیادی طورپرپرانا سورج ہی تھا مگرشک کی نظر سے دیکھا جارہا تھا، خیال کوارفع بنایا جارہا تھا۔ جہاں جہاں مثالیت پسندوں نے سچ اورآرٹ یا دلیل اور تصورکی وحدت کی بات کی ہے، نٹشے نے اسے ’غضبناک بے آہنگی‘ قراردیا ہے۔ نٹشے مابعدالطبیعات کے تابوت پرآخری کیلیں ٹھونکتا ہے اور دعوٰی کرتا ہے کہ نہ کم نہ زیادہ ’سچ‘ سوائے ’استعارات کی فوج‘ کچھ نہیں، چرمی کاغذ کے افسانوں کے سوا کچھ نہیں کہ جوانسانی تصورایجاد کرتا ہے تاکہ ناختم ہونے والے انواع اقسام معنوں کا تجربہ کرسکے۔ موضوعی نکتہ ہائے نظرمیں وجودی تکثیریت کونٹشے perspectivismپکارتا ہے۔ جہاں اب فرد تجربات کے آزادانہ کھیل میں خوش ہوا جاتا ہے۔ مابعدالطبیعات کواسطورقرار دے کرتحقیر کرتا ہے کہ جواپنی اصل بھول چکی ہے۔ روایتی ما بعدالطبیعات کوالٹے پاؤں پھیردیے جانے کے مضمرات will to power میں نمایاں ہیں۔

نٹشے کہتا ہے کہ ’سچ‘ کوئی ایسی شے نہیں جوموجود ہو یا جسے دریافت کیا جائے بلکہ اسے تخلیق کرنا پڑتا ہے۔ یہ محض طاقت کے حصول کے لیے استعمال کیا جانے والا لفظ ہے۔

نٹشے نےکئیرکیگارڈ کی طرح کبھی بھی فلسفہ ’’تصور‘‘ منظم انداز میں پیش نہیں کیا۔ یہ اُس کی تحریروں میں ’قیاس‘ کی مخالفت کے سیاق میں جا بہ جا بکھرا ہوا ہے۔ تاہم آرٹ کے بارے میں اپنے تصورات کے بیان میں وہ اس موضوع پراپنی فکرپیش کرتا ہے۔ نٹشے نے رومانویت کا یہ دعوٰی قبول کیا ہے کہ فلسفہ میں آرٹ کا قابل فخرمقام ہونا چاہیے۔ یہ اُس کے ہاں سچ اور افسانہ کے درمیان انتخاب کا نہیں بلکہ افسانہ کی دو قسموں کے درمیان انتخاب کا معاملہ ہے۔ وہ کہتا ہے کہ آرٹ علم سے زیادہ طاقت ور ہے، کیونکہ آرٹ جینے کی امنگ دیتا ہے جب کہ علم برباد کرکے رہتا ہے۔ لیکن اگرفنکارانہ تصورکی زندگی میں کوئی عظمت ہے تو بس وہ یہی ہے کہ بے معنویت جاری رہے، اور یہ عدمیت نہیں ہے۔ نٹشے کی نظرمیں عدمیت دراصل عیسائیت، اخلاقیات، اورقیاسی فلسفہ کی آڑمیں بے معنویت پرپردہ ڈالنا ہے۔ بےمعنویت کا خفی اظہارایک ایسا ارادہ ہے جوماورائی سچ کے ذریعہ ہماری وجودی دنیا سے حالت انکارمیں ہے۔

مختصرا عدمیت دراصل اس دنیا کا انکار ہے کسی اور دنیا کی خاطر۔ نٹشے کاخیال ہے کہ یونانی المیہ اورویگنر کی موسیقی سمیت جدید آرٹ کی چند مخصوص صورتیں ’طاقت کی یاسیت ہے‘۔ وہ جرمن مثالیت پسندوں کی ماورائی وحدت کی تحقیرکرتا ہے کہ جوحقیقت کے تضادات نظرانداز کرکے ان میں میں ہم آہنگی دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ نٹشے اُن فنکارانہ تصورات کی توصیف کرتا ہے جو’حقیقت‘ کے کثیرپہلووؤں کے الجھاؤ کوجرات سے ظاہرکرتے ہیں۔ جرمن مثالیت پسندوں کی انسان پرست رجائیت نٹشے کی وجودی یاسیت سے موافقت میں نہیں ہے۔ جہاں ماورائی تصوروحدت اور مطلقیت دیکھتا ہے وہاں وجودی تصورتنازع اورتقسیم دیکھتا ہے۔ مزید یہ کہ زندگی کی بے معنویت پروجودیت کا اصرارنمایاں ہے، جوماورائیت پسندوں کے لیے ناقابل برداشت ہے۔

نٹشے کے دوہرے اثبات میں موجود بنیادی تضاد، یعنی تصور کی لامحدود آرزوئیں اورہمارے ٹھوس وجود کی ناقابل عبور حدیں، اُس کے فلسفہ وجودیت کا مغزہیں۔ پیٹرپُزنے اسے ’وجودی آزاد تصور‘ اور ’تقدیر‘ میں تنازع کے طورپرشناخت کیا: ایک طرف آدمی لامحدود جمالیاتی تصور کا اہل ہے اور دوسری جانب بے مقصد بےکاروجود کا تسلسل ہے۔ ہم کیسے نٹشے کے اُس ’نئے آدمی‘ کا سُراغ پاسکتے ہیں کہ جس کی آمد کا وہ اعلان کرتا ہے؟ نٹشے اس معمہ کا کوئی حل پیش نہیں کرتا۔ جس وجودی ’تصور‘ کا وہ مدعی ہے وہ مشکلوں میں الجھا ہوا ہے۔ یہ خود سے اوردنیا دونوں سے تضاد میں ہے۔ یہ اپنے ہی افسانوں میں مگن ہے۔ یہ بہ یک وقت اپنی بے معنویت اورخالی پن میں ظاہرہورہا ہے۔ نٹشے کے لیے ’وجودی تصور‘ ’ناں‘ کو ’ہاں‘ کہہ رہا ہے۔ یہ اپنی ہی قبرپررقصاں ہےWill to power کے تیرہویں باب How the ‘True World’ finally became a Fable: The History of an Error میں نٹشے کہتا ہے کہ مغربی فلسفہ ایک کہانی ہے سچ کے ماورائی حس کی، جسے سب سے پہلے افلاطون نے ’ابدی وجود‘ کے طورپرپیش کیا۔ نہ صرف یہ کہ یہ ’وجود مطلق‘ بتدریج سکڑتا گیا بلکہ آخرکارافسانہ بن کر رہ گیا۔ وہ اس تاریخ کے آخری مرحلے کا اعلان کرتا ہے، ایک جدید(بلکہ شاید مابعد جدید بھی) مرحلہ کہ جہاں فلسفہ مکمل طورپرمنہدم ہوگیا۔ نٹشے لکھتا ہے کہ ’وہ دنیا جسے ہم نے منسوخ کردیا، کہ جسے چھوڑدیا گیا، کئی سوال پیچھے چھوڑ گیا۔ کیا نٹشے تخلیقی تصورکے رومانوی دعوے تہس نہس کرنے میں واقعی کامیاب ہوسکا؟ یا وہ محض رومانوی مثالیت پسندی کی رجائیت کورومانویت کے اپنے خاص برانڈ ’یاسیت‘ سے بدل سکا تھا، کہ جوویگنیرین وجودیت کی قسم تھی۔ ایک سمجھوتہ نہ کرنے والا انکار، ایک باغیانہ بے معنویت کہ جو’تقدیرپرقانع‘ رہنے کا الجھا ہوا بیانیہ بھی ہے۔ ایک ایسا عمل کہ جس میں آدمی کا تخلیقی ارادہ دنیا کی من مانی نفسانفسی میں ضبط وتحمل سے کام لے رہا ہے؟ یہ ہیں وہ سوال جن سے بیس ویں صدی کے وجودیوں کا سامنا رہا۔