پاکستان ایک بڑا امکان تھا اور اصولی اعتبار سے اس امکان کو اپنے دیگر امکانات ظاہر کرنے چاہیے تھے۔
پاکستان کے حوالے سے یہ بات بار بار یاد دلائے جانے کے قابل ہے کہ پاکستان کا قیام محض کوئی سیاسی اور جغرافیائی واقعہ نہیں تھا، بلکہ اس کی پشت پر مسلمانوں کی تاریخ و تہذیب کے بڑے بڑے مطالبات کام کررہے تھے، یہ اور بات کہ ان مطالبات کا شعور اچھے اچھوں کو نہیں تھا۔
قائداعظم ’’اچھے مسلمان‘‘ تھے یا نہیں تھے، اس کا فیصلہ تو ’’مفتیانِ کرام‘‘ ہی کرسکتے ہیں، لیکن یہ عجیب بات ہے کہ ایک ماڈرن محمد علی جناح کو مسلمانوں کی تاریخ و تہذیب کے جن مطالبوں کا شعور تھا اس کا سراغ ’’مفتیانِ کرام‘‘ کے یہاں ناپید ہے۔ قائداعظم کے مذکورہ شعور کا ایک ثبوت اُن کا یہ مشہور فقرہ ہے کہ ’’پاکستان اُسی روز بن گیا تھا جس دن پہلے مسلمان نے برصغیر میں قدم رکھا۔‘‘ یہ بظاہر ایک سیدھا سادہ جملہ ہے، لیکن اس جملے میں جو بات ہے اسے کہنے کے لیے مسلمانوں کی تاریخ و تہذیب کا گہرا شعور درکار ہے۔
صفت ’’امتیاز‘‘ مذاہب اور تاریخ کا ایک اہم اصول ہے، اور تاریخ شاہد ہے کہ تمام مذاہب اور اُن کے ماننے والوں نے اس صفتِ امتیاز کو ظاہر کیا ہے۔ مسلمانوں کے یہاں بھی یہ صفت ظاہر ہوئی ہے لیکن مسلمانوں کو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں پر یہ فوقیت حاصل ہے کہ ان کے یہاں صفتِ امتیاز کا اظہار ہمہ گیر اور ہمہ جہتی بنیادوں پر ہوا ہے۔ برصغیر اس حوالے سے ایک ’’عالمی ماڈل‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلمان برصغیر میں ہمیشہ اقلیت میں رہے، اور یہ ایک حیرت انگیز بات ہے کہ وہ ہندو معاشرے میں جذب نہیں ہوئے، ورنہ ہندوستان کی تاریخ یہ ہے کہ جو یہاں آیا یہیں کا ہوکر رہ گیا۔ دراصل یہ مسلمانوں کی صفتِ امتیاز ہی تھی جس نے انہیں تہذیبی سطح پر ہندوئوں سے الگ رکھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کا قیام مسلمانوں کی صفتِ امتیاز کا سیاسی جہت میں اظہار ہے، یہ اور بات ہے کہ اس کے لیے فضا بہت بعد میں جاکر تیار ہوئی، اور ایسا ہونا قرین قیاس ہے کیوں کہ اس کے لیے اکثریت کی منطق درکار تھی۔ قیامِ پاکستان کی پشت پر مسلمانوں کے مذہب اور تاریخ و تہذیب کا یہ واحد تقاضا کارفرما نہیں تھا، کچھ اور تقاضے بھی تھے، لیکن اگر صرف اس ایک تقاضے کو بھی سامنے رکھا جائے تو وہ لوگ کاٹھ کے اُلّو نظر آتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ پاکستان مسلمانوں کی محض سیاسی یا اقتصادی ضرورت تھا اور تحریکِ پاکستان کی پشت پر یہی تقاضے کام کررہے تھے۔ ہم خالص سیاسی اور اقتصادی تقاضوں کے منکر نہیں، لیکن مسلمانوں کی تاریخ کو پیش نظر رکھا جائے تو ان تقاضوں کی اہمیت معمولی اور جزوی صداقتوں سے زیادہ نہیں۔
یہ سارے حقائق اپنی جگہ، لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ آزادی امکان کا دوسرا نام ہے۔ پاکستان بھی ایک امکان کا نام تھا (اور ہے)، لیکن آج 76 سال بعد ہماری حالت کیا ہے؟ ہماری حالت یہ ہے کہ ہم آزاد ہیں لیکن ہماری آزادی، آزادی کی پیروڈی محسوس ہوتی ہے۔ ہمارے پاس ہنوز ایک بڑا امکان ہے۔ لیکن یہ امکان، امکان کی پیروڈی دکھائی دیتا ہے۔
ایک بڑے امکان میں لاکھوں، کروڑوں چھوٹے چھوٹے امکانات ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح ایک بڑی لہر کے دائرے میں چھوٹی چھوٹی لہروں کے بہت سے دائرے ہوتے ہیں۔ انسانی سطح پر ایک امکان سے بہت سے امکانات فروغ پاتے ہیں اور امکانات کا دائرہ فروغ پاتا رہتا ہے۔ مدینہ کی ریاست ابتداً ایک چھوٹی سی ریاست تھی، لیکن اس کے امکان کا دائرہ بہت ہی بڑا تھا اور اس دائرے کے امکانات بروئے کار آکر رہے۔ اگر پاکستان مسلمانوں کی صفتِ امتیاز کا حاصل ہے تو اس کی نسبت مدینہ کی ریاست کے سوا کسی اور چیز سے ہو ہی نہیں سکتی۔ یہاں میں نے ’نسبت‘ کا لفظ شعوری طور پر استعمال کیا ہے، اس لیے کہ ہم اس سے زیادہ کے مستحق قرار نہیں دیے جاسکتے۔ بے شک ہم اس سے زیادہ کے مستحق نہیں تھے لیکن اس کے باوجود پاکستان ایک بڑا امکان تھا اور اصولی اعتبار سے اس امکان کو اپنے دیگر امکانات ظاہر کرنے چاہیے تھے۔ لیکن ہوا اس کے برعکس ہے۔ ہمارے امکانات اور دائرہ وسیع ہونے کے بجائے سکڑتا چلا گیا اور آج ہماری حالت یہ ہے کہ جیسے ہم بند گلی میں آکھڑے ہوئے ہیں۔ ہمیں لگ رہا ہے جیسے ہمارے سارے امکانات ختم ہوگئے۔ کیا ہم اس بند گلی سے نکل سکیں گے؟ اس سوال کا جواب اثبات میں دینے والوں کی کمی نہیں، لیکن ان لوگوں کی تین اقسام ہیں۔
ایک قسم اُن لوگوں کی ہے جو پاکستان کے امکانات کو چاٹ گئے ہیں۔ جنہوں نے اس زندہ قوم کے ذہنوں میں طرح طرح کے فساد بھر دیے ہیں۔ حقائق پر پردہ ڈالنا اور منصوبہ بندی کرکے جھوٹ بولنا ان کی عادت اور ضرورت ہے۔ چنانچہ ان کے جواب کا مفہوم واضح ہے۔
دوسری قسم اُن لوگوں کی ہے جو پاکستان سے غیر مشروط محبت کے مجرم ہیں۔ وہ پاکستان کی ترقی و خوش حالی میں حصے دار بنیں یا نہ بنیں، انہیں اس ملک سے کچھ حاصل ہو یا نہ ہو، وہ اس ملک سے محبت کیے جائیں گے۔ یہ ان کی داخلی اور ملّی مجبوری ہے۔ چنانچہ ان کا جواب نیت کی صفائی اور شعور کی گہرائی اور وسعت سے پیدا ہوتا ہے۔
لوگوں کی تیسری قسم وہ ہے جسے حالات کی نزاکت کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ چنانچہ ان کا جواب لاعلمی کا نتیجہ ہے اور شاید لاعلمی اس تناظر میں بڑی رحمت ہے۔
ان تینوں اقسام کے لوگوں کے بارے میں خواہ کوئی کچھ کہے، لیکن ان کے جواب کی ایک معنویت ہے۔ تاہم ان لوگوں کے مابین قدرِ مشترک یہ ہے کہ جب ان سے پوچھیے کہ صاحب! ان چند اسباب اور امکانات کی وضاحت کیجیے جو آپ کے نزدیک ہمیں بند گلی سے نکال لے جانے کا سبب بنیں گے؟ اس سوال کا کوئی واضح جواب کسی کے پاس موجود نہیں۔ پاکستان سے غیر مشروط محبت کرنے والوں کے پاس بھی اگر اس سلسلے میں کچھ ہے تو ایک خواہش، ایک نیک تمنا، ایک توقع اور ایک دُعا۔ یہ سرمایہ کم نہیں۔ یہ پاکستان کی بہت بڑی متاع ہے اور یہ پاکستان کے بہت کام آئے گی۔ لیکن بہرحال یہ صورتِ حال اس امر کی غماز ضرور ہے کہ ملک و قوم کے حالات اتنے مخدوش ہوچکے ہیں کہ مستقبل کے حوالے سے اسباب اور امکانات کی نشان دہی بھی دشوار ہوگئی ہے اور ہمارا گزارا اب خواہشوں، تمنائوں اور دعائوں پر ہے۔
کیا یہ مایوسی کی باتیں ہیں؟ نہیں ایسا نہیں ہے۔ یہ ملک ہمیں اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے لیکن ہماری ضرورت اب جذبات سے پیدا ہونے والا ردعمل نہیں ہے۔ ہماری ضرورت ایک ایسا ردعمل ہے جو حالات کے تجزیے، ادراک اور شعور سے پیدا ہو۔ یہ ردعمل ہمیں ہر طبقے میں درکار ہے اور اس کے لیے ہمیں تمام حقائق سے آنکھیں چار کرنی ہوں گی۔ وہ طرزِفکر جو ہمیں بتاتا ہے کہ بنگلہ دیش بن گیا تو کیا ہوا، آخر بنگلہ دیش بھی تو ایک آزاد مسلم ریاست ہے، ایک ایسا طرزِ فکر ہے جو بیک وقت حواس باختگی، مجرمانہ خلش اور جعلی دانشوری سے لبریز ہے۔