امریکہ کی بڑی آبادی اب اسرائیل کے خلاف اور فلسطین کے حق میں ہے
ڈاکٹر محسن انصاری امریکہ کے مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم اکنا(Islamic Circle of North America) کے صدر ہیں۔ گزشتہ دنوں کراچی تشریف لائے تو ان کے ساتھ گفتگو کا موقع ملا جس میں امریکہ میں مسلمانوں کی صورتِ حال، امریکی انتخابات اور اکنا کے ریلیف کے کاموں پر تبادلہ خیال ہوا۔ آپ نے1989ء میں ڈائو یونیورسٹی سے گریجویشن کیا،پھر امریکہ چلےگئے، جس کے بعد مزیدتعلیم اور ٹریننگ حاصل کی، چائلڈ اسپیشلسٹ اور پھر ICUکے اسپیشلسٹ بنے۔ اس کے بعد یونیورسٹی آف میری لینڈ اسکول آف مڈیسن میں استاد کی حیثیت سے پڑھاتے بھی رہے۔ آج کل امریکہ میں دو کلینک چلانے کے ساتھ ساتھ اکنا کے لیے کام کررہے ہیں۔ اس سے پہلے ہیلپنگ ہینڈز اور اکنا ریلیف ذیلی تنظیم کے چیئرمین کے عہدے پر کام کرچکے ہیں۔ آپ نے دورانِ گفتگو بتایا کہ آپ کے پانچ بیٹے اور ایک بیگم ہیں اور سارے کے سارے سید مودودیؒ کی تعلیم سے متاثر ہوکر تحریکِ اسلامی کا حصہ بنے ہیں اور متحرک ہیں۔ آپ سے ہونے والی خصوصی گفتگو نذرِ قارئین ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: امریکہ میں موجود مسلمانوں کی کیا صورت حال ہے؟
ڈاکٹر محسن انصاری: امریکہ میں برصغیر سے جانے والے مسلمانوں کی حالت معاشی طور پر مستحکم ہے، مگر دوسرے چیلنجز موجود ہیں، کیونکہ دنیا اب گلوبل ویلیج ہے۔ بہت سارے چیلنجز جو مجھے یہاں پاکستان آکر پاکستانی نوجوانوں میں، مردو خواتین میں، گھروں اور خاندانوں میں نظر آتے ہیں وہ امریکہ میں بھی ہیں۔ سب سے بڑا چیلنج اپنی موجودہ اور آنے والی نسل کو دین پر قائم رکھنا ہے۔ یہ یہاں بھی ہے۔ یہاں لوگ دینِ اسلام کو ڈس اون نہیں کرتے لیکن اسلام کو عملی زندگی کا حصہ نہیں بناتے۔ جبکہ امریکہ میں بہت بڑی تعداد میں ایسے مسلمان موجود ہیں جو کہیں گے کہ ہم مسلمان نہیں ہیں۔ عمل اُن کے اور یہاں کے ملتے جلتے ہیں۔ یہ نماز پڑھتے ہیں نہ وہ نماز پڑھتے ہیں، نہ یہ اسلامی روایات کا خیال رکھتے ہیں نہ وہ امریکہ میں رکھتے ہیں۔ بس یہاں والے کہتے نہیں، وہاں والے کہہ دیتے ہیں۔ اسلامو فوبیا کا طوفان پوری دنیا میں موجود ہے۔ امریکہ میں یہودی لابی، ہندوتوا لابی، قادیانی لابی، انڈین لابی اور بنگلادیش کے سیکولر عناصر کا اتحاد ہے، وہ باقاعدہ آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ اس اشتراک عمل کے نتیجے میں وہ مسلمانوں بالخصوص اسلامی تحریکوں کے لیے بہت مسائل پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کررہے ہیں۔ ان کے مختلف سرکاری اداروں، حکومتی اداروں میں تعلقات ہیں۔ وہ مسلمانوں کو اسلامسٹ کے نام سے یاد کرتے ہیں، اسلامی تحریکوں کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ مسلمان کے تشخص کا بھی ایک چیلنج ہے۔ امریکہ میں رہنے والے مسلمان کو مغرب میں رہنے والے دوسرے مسلمانوں کی طرح اپنے آپ کو مسلمان رکھنا، مسلمان دِکھنا، مسلمانوں کی طرح یقین کرنا بھی ایک چیلنج ہے۔ منفی پہلو کے ساتھ ساتھ کچھ مثبت پہلو بھی ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل:گزشتہ بیس، تیس سالوں میں مغرب میں کیا بدلا ہے؟
ڈاکٹر محسن انصاری: دیکھیں ہر قوم کا ایک خاصہ ہوتا ہے کہ ان کا مزاج ایسا ہے۔ بحیثیتِ مجموعی امریکی کہیں کہیں جھوٹ بولتے اور بے ایمانی کرتے ہیں لیکن معاملات میں ایمان دار ہیں۔ ان کی بڑی اکثریت ایسی ہے کہ اسے جب درست بات بتائی جائے تو وہ قبول کرتی ہے۔ اسی لیے ایک بڑی تعداد امریکیوں کی مسلمان بھی ہوجاتی ہے، دعوت کو قبول بھی کرلیتی ہے۔ مگر ایک چیز جو امریکہ میں پوری دنیا کی طرح غالب ہورہی ہے وہ ہے خاندانی نظام کی تباہی۔ پاکستان سمیت پوری دنیا، ساتھ ساتھ مشرقی ملکوں میں بھی خاندانی اکائی مجروح ہورہی ہے اور انفرادیت پروان چڑھ رہی ہے۔ فرد کی بقاء ذاتی فوائد کا حصول، امریکی معاشرہ مَیں (I) کا معاشرہ ہے، ہم (WE)کا معاشرہ نہیں ہے۔ اس کے پیش نظر خودغرضی کے معاملات نظر آتے ہیں۔ اسکول، کالج میں سکھایا جاتا ہے اپنے بارے میں سوچو، والدین کے بارے میں مت سوچو، بھائی بہن کے بارے میں مت سوچو،If You Don’t Like Something Justچھوڑ دو۔ 18سال کے ہوگئے، ماں باپ، گھر والے پسند نہیں تو گھر چھوڑ دو۔ وہ جو خاندان پر مبنی طرز زندگی ہے وہ وہاں موجود نہیں ہے۔ مسلمان بھی جو اس معاشرے کا حصہ ہیں ان کی ایک بہت بڑی تعداد اس مائنڈ سیٹ کا شکار ہوتی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: اخلاقی انحطاط تو امریکہ میں بڑھا ہے۔عرصے سے سن رہے ہیں امریکہ زوال پذیر ہے۔ لیکن امریکہ تو ویسے ہی مضبوط ہے؟
ڈاکٹر محسن انصاری: دیکھیں، مولانا مودودیؒ نے کتاب میں قوموں کے عروج اور زوال کی جو چیزیں لکھی ہیں ان میں صرف ایک اخلاقی انحطاط نہیں ہے جس کے نتیجے میں قومیں اوپر جائیں یا نیچے آئیں۔ دنیا میں قوموں کے اوپر نیچے جانے کے الگ پیرامیٹرز ہیں، ان پیمانوں ہر ابھی بھی امریکی قوم پوری اترتی ہے۔ صبح 6 اور 7 بجے سڑکیں بھری ہوتی ہیں، سب اپنا کام شروع کردیتے ہیں، اپنی نوکری اور کام سے ایمان دار ہیں، جو کام دیا جاتا ہے اس کو پورا کرتے ہیں، محنتی لوگ ہیں۔ اپنی ملازمت کے ساتھ بے ایمانی نہیں کرتے۔ یہ وہ ساری انفرادی خصوصیات ہیں جو اجتماعی خوبیاں بن کر ملک کی ترقی کا ذریعہ بنتی ہیں۔ پھر انہوں نے اپنے اداروں کو مضبوط کیا ہوا ہے۔ ان میں فوج مداخلت کرکے حکومت تبدیل نہیں کرتی۔ بیوروکریسی اور عدلیہ بالعموم مداخلت نہیں کرتیں عوام کی رائے کے معاملے میں۔ جو بھی مروجہ جمہوریت ہے اس کی پیروی کرتے ہیں۔ ان سب پیمانوں کی وجہ سے انہوں نے ابھی تک خود کو مضبوط رکھا ہوا ہے۔ ظالموں کا ساتھ بھی دیتے ہیں وہ، سب کچھ کرتے ہیں، لیکن بحیثیت مجموعی ایک قوم کی ترقی کے لیے جن اجزاء کی ضرورت ہے ان میں بیشتر پر وہ پورا اترتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: امریکہ میں کیا انتخابات شفاف ہوتے ہیں ؟گزشتہ سالوں میںدھاندلی کی باتیں ہوئیں، یعنی اس کے برعکس رائے بھی سامنے آئی؟
ڈاکٹر محسن انصاری: ڈونلڈ ٹرمپ ایک ایسا Phenomenonہے امریکہ کی سیاست میں، جو پہلے کبھی تھا نہیں۔ اس کی ایک مخصوص ذہنی حالت ہے، مخصوص سوچ ہے، لیکن کسی نہ کسی طرح اس کے دیگر معاملات کی وجہ سے اس کے جو پیروکار ہیں ان میں تقریباً 25 سے30 فیصد ڈونلڈ ٹرمپ کے Die Hard سپورٹر ہیں۔ اس کے باوجود کہ 25 سے 30 فیصد اس کو ووٹ دیتے ہیں، اسے اکثریت میں ووٹ نہیں پڑے۔ پاپولر ووٹ بہت کم تھے مخالف کے مقابلے میں جس انتخاب میں وہ جیتا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا، پھر کہا کہ بارک اوباما مسلمان ہے۔ جبکہ بارک اوباما نہ مسلمان تھا، نہ ہے۔ لیکن جب اس نے کہا تو 25 فیصد لوگوں نے سوچنا شروع کردیا کہ بارک اوباما مسلمان ہے۔ یا اسی طرح ٹرمپ نے کہا جب 9/11ہوا تو مسلمان سڑکوں پر نکل کر خوشیاں منا رہے تھے۔ یہ سب جھوٹ ہے، مگر اس کے پیروکار یقین کرلیتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل:آنے والے امریکی انتخابات کا نتیجہ کیا ہوسکتا ہے؟ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے امکانات کیا ہیں؟ اگر کامیاب ہوگیا تو اس کے بعد کی صورت حال کیا ہوگی؟
ڈاکٹر محسن انصاری: ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے امکانات بہت زیادہ نہیں مگر اچھے خاصے ہیں۔ اگر ٹرمپ جیت جاتا ہے تو اسلام دشمنی، اسلامو فوبیا، اور اسلامی تحریکوں کے لیے مشکلات کہیں زیادہ بڑھ جائیں گی۔ ٹرمپ کا تو نعرہ یہی ہے کہ وہ آتے ہی مسلمانوں پر پابندیاں لگائے گا۔ فلسطینیوں کی حمایت میں مظاہرہ کرنے والوں کو ڈی پورٹ کرے گا۔
فرائیڈے اسپیشل: غزہ میں جاری جارحیت اور اس پر مسلمانوں کا اضطراب کیا مغرب میں مسلمانوں کے لیے سیاسی مشکلات کا سبب نہیں بنے گا؟
ڈاکٹر محسن انصاری: منفی اور مثبت دونوں پہلو موجود ہیں۔ میرے خیال سے مثبت پہلو زیادہ ہے۔ منفی پہلو یہ ہے کہ بہت بڑی تعداد میں اسرائیل کی جو لابی ہے ان کے پاس بہت زیادہ وسائل اور دولت ہے۔ اس دولت اور وسائل کو استعمال کرکے وہ رائے عامہ بالخصوص میڈیا کو اپنے کنٹرول میں رکھتے ہیں۔ اسی کی وجہ سے گزشتہ 40، 50 سال سے اسرائیل کی ایک بھرپور حمایت موجود ہے امریکہ میں۔ غزہ کے لوگوں کی شہادتوں، قربانیوں اور ان کے خون کی وجہ سے پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ امریکہ کی بڑی آبادی اب اسرائیل کے خلاف اور فلسطین کے حق میں ہے۔ ابھی جو سروے ہوا ہے اس کے مطابق 18 سے 35 سال کے افراد کی اکثریت فلسطین کی حامی ہے۔ ایسا بھی ہوگا، امریکہ میں کوئی سوچ نہیں سکتا تھا، کیوں کہ تناسب 80 فیصد اسرائیل اور 12 فیصد فلسطین ہوتا تھا۔ اب یہ تناسب بدلا ہے، لیکن بڑی عمر کے لوگ اب بھی اسرائیل کے حامی ہیں۔ 18 سے 35 سال کے لوگوں کی حمایت فلسطین کے لیے ہے۔ اسی لیے کالجوں، یونیورسٹیوں میں اس وقت بڑی تعداد میں فلسطین کی حمایت میں مظاہرے ہوئے ہیں جس سے بوڑھے اور صہیونیت کے حامی لوگ پریشان بھی بہت ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل:امریکہ میں موجود سیاست دانوں، تھنک ٹینکس اور ماہرین تک رسائی کس طرح کرتے ہیں اور اُن تک مسلمان اپنا مؤقف کس طرح پہنچاتے ہیں؟
ڈاکٹر محسن انصاری: بہت سارے ذریعے ہیں، مختلف سرکاری تعلقات کے محکمے (Government Relation Departments) بنائے ہوئے ہیں، ہر ایک کا اپنا ڈیپارٹمنٹ ہے، ہر تنظیم کے وکلاء ہیں۔ ہر مسلمان ووٹر انفرادی حیثیت میں بھی اپنے حلقے کے سینیٹر اور کانگریس مین سے بات کرسکتا ہے۔ آپ سینیٹر یا کانگریس مین کو کال کریں یا پیغام چھوڑ دیں تو وہ خود یا چیف آف اسٹاف لازمی جواب دیتا ہے۔ پھر فلسطین کے معاملے میں ہم نے بہت بڑے بڑے مظاہرے کیے ہیں، ایک مظاہرے میں تو چار لاکھ افراد شریک ہوئے جو وائٹ ہائوس کے سامنے ہوا تھا، یہ امریکہ کی تاریخ کا سب سے بڑا مظاہرہ تھا جو مسلمانوں کی طرف سے تھا۔ میں نے بھی اس میں خطاب کیا اور دیگر مسلم لیڈرز نے بھی۔ تو اس طرح ہمارے مسلمان بھائیوں بالخصوص خواتین کی طرف سے روز کے حساب سے کئی ہزار کالیں پورے امریکہ میں سینیٹرز اور کانگریس مینوں کو جاتی ہیں جن میں اپنا مؤقف پیش کیا جاتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:پاکستان اور ہندوستان کے معاشی اور سیاسی کردار کا کس طرح موازنہ کریں گے؟
ڈاکٹر محسن انصاری: دو چیزیں ہیں، ہندوستان سیاست میں ہم سے بہت آگے ہے۔ وجہ یہ کہ اُن کے ہاں کوئی قید و بند نہیں ہے۔ شراب بھی پی لیتے ہیں، ناچ بھی لیتے ہیں، کپڑے بھی اتار لیتے ہیں، امریکیوں کے ساتھ گھل مل جاتے ہیں۔ ان کے مفادات بھی مشترک ہیں چاہے وہ اسرائیل کا معاملہ ہو یا اسلامو فوبیا کا۔ چار سے پانچ ہندو کانگریس میں موجود ہیں جبکہ پاکستانی ایک بھی نہیں ہے۔ دوسرا پہلو معاشی ہے۔ وہ اس میدان میں بھی آگے ہیں۔ گوگل اور مائیکروسافٹ جیسے بڑے بڑے اداروں کے سربراہ ہندوستانی ہیں۔ انہوں نے اپنے راستے بنائے، محنت بھی کی، تعلیم بھی حاصل کی، معاشرے میں گھل مل بھی گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے لوگوں نے بھی بہت غیر معمولی کام کیا ہے۔ پاکستانی پیچھے ہیں ہندوستانی لوگوں سے، مگر بہت زیادہ پیچھے نہیں ہیں۔ پاکستانی افراد اسپتالوں میں، انڈسٹریز میں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بڑے بڑے عہدوں پر خدمات انجام دے رہے ہیں اور اپنی کارکردگی سے متاثر بھی کیا ہے۔ بالعموم پاکستانی لوگ معاشی طور پر مستحکم ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: اکنا امریکہ کی ایک معروف این جی او ہے اور بڑے پیمانے پر دعوت و ریلیف کے کاموں سے منسلک ہے۔ اس کی دعوتی اور ریلیف سرگرمیوں سے قارئین کو آگاہ کریں کہ وہ کیا ہیں؟
ڈاکٹر محسن انصاری: اکنا (ICNA)کے بے شمار شعبہ جات ہیں۔ خواتین کا الگ ڈپارٹمنٹ ہے، نوجوانوں کا الگ ہے۔ ہمارا ریلیف کا ایک شعبہ ہے جو پاکستان سمیت پوری دنیا میں کام کرتا ہے۔ 55 ممالک میں اس کا کام ہے۔ اس کا نام ”ہیلپنگ ہینڈ“ ہے۔ ہمارا ریلیف کا دوسرا ڈپارٹمنٹ جو صرف امریکہ میں کام کرتا ہے اس کا نام ”اکنا ریلیف“ ہے۔ امریکہ کے 650 شہروں میں اس کی شاخیں ہیں۔ باقی ہمارا دعوۃ کا ڈپارٹمنٹ Why Islam Gain Peace کے نام سے کام ہوتا ہے جس کے پوری دنیا میں بہت اثرات ہیں۔ ہر 6 منٹ پر ویب سائٹ پر قرآن کے نسخے کی درخواست ہوتی ہے۔ روزانہ کے حساب سے لوگ ہمارے دعوۃ کے ڈپارٹمنٹ کی فون لائن پر اسلام قبول کرتے ہیں۔ یہ ایک بہت سائنٹفک ہائی ٹیک نظام ہے جس میں ایک فرد ایک نمبر پر کال کرتا ہے، دوسری طرف سے جواب دینے والا کوئی عالم دین ہوتا ہے۔ اکنا کا ممبر بھی ہوتا ہے جو اسلام اور اکنا سے متعارف کراتا ہے۔ کچھ ملاقاتوں، کچھ گفتگو کے بعد عام طور پر لوگ اسلام قبول کرلیتے ہیں۔ جو اسلام قبول کرلیتے ہیں ہم انہیں چھوڑ نہیں دیتے، اُن کے علم میں اضافہ کرنا، دین میں اضافہ کرنا، اسلام قبول کرنے والے نے کلمہ پڑھ لیاThen What Now اب آگے نماز کیسے پڑھنی ہے، طہارت کیسے حاصل ہوگی، روزے کیسے رکھتے ہیں، پھر ان کی اسلام کے اندر موجودگی اور اسلام کا علم اُن کے اندر بڑھانے کا کام بھی ہمارا دعوۃ ڈپارٹمنٹ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی ہمارے بہت سارے ڈپارٹمنٹ ہیں۔ Advocacyکا ڈپارٹمنٹ ہے، Social Justice کا ڈپارٹمنٹ ہے، نئے مسلمانوں کا الگ ڈپارٹمنٹ ہے، ریلیف ایکٹیوٹی کے سارے ڈپارٹمنٹس علیحدہ ہیں۔ اکنا کے کام میںبڑے بڑے کنونشن ہوتے ہیں۔ ہمارے مرکزی کنونشن میں تقریباً 30 ہزار مسلمان شریک ہوتے ہیں۔ پھر ہمارے علاقائی کنونشن ہوتے ہیں جن میں 5 سے 7 ہزار لوگ شریک ہوتے ہیں۔ پھر ہماری Family Gatheringsہوتی ہیں، بعض Family Gatheringsمیں 25 ہزار افراد شریک ہوتے ہیں۔ پورے امریکہ کے طول و عرض میں ہمارے اس طرح کے پروگرام ہیں جن میں مسلمان بھرپور شرکت کرتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل:جو افراد اسلام قبول کرنے کے لیے رابطہ کرتے ہیں اُن میں سے زیادہ تر افراد کا تعلق کس طبقے سے ہوتا ہے ؟
ڈاکٹر محسن انصاری: ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ان میں جیلوں میں رہنے والے بھی شامل ہیں، گوری خواتین کی بہت بڑی تعداد ہےم جبکہ جیلوں میں اسلام قبول کرنے والوں میں زیادہ تعداد Amrican African Blacksکی ہے۔ معاشرے کے ہر طبقے کے افراد، نوجوان بالخصوص 18 سے 30 سال کے افراد جلدی دعوت قبول کرتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل:گوری خواتین کے کیا اہم مسائل ہوتے ہیں جو اسلام کی طرف آنا چاہتی ہیں ؟
ڈاکٹر محسن انصاری: قرآن کہتا ہے یہود و نصاریٰ کے بارے میں کہ نصاریٰ وہ ہیں جن کے دل نرم ہوتے ہیں۔ بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو گورے ہیں، اور گوری خواتین جو کرسچن ہیں یا سابقہ کرسچن ہیں اُن کے دلوں میں نرمی ہے۔ ہم جو دعا مانگتے ہیں اللہ سے (ترجمہ) ”ہمیں حق بات پتا چلے، اسے قبول کرلیں۔ ہمیں باطل پتا چلے تو اس سے اجتناب کریں“۔ خصوصاً جیسے فلسطین کا مسئلہ ہوا،وہ اپنے بچوں کے جنازے اٹھاتے ہیں اور اللہ اکبر کہتے ہیں۔ جنازہ اٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں ہم بھی شہادت کے لیے تیار ہیں۔ اپنے بچوں کو دفن کرتے ہیں پھر الحمدللہ رب العالمین کہہ رہے ہیں۔ ان گوروںکو یہ بات سمجھ ہی نہیں آتی کہ یہ کس طرح کے لوگ ہیں! پھر وہ اسلام کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسلام خود بخود انہیں متاثر کرتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:پاکستان میں ہیلپنگ ہینڈز کے پروجیکٹس کیا کیا ہیں، تفصیلات بتانا چاہیں گے؟
ڈاکٹر محسن انصاری: ہیلپنگ ہینڈزپاکستان کے 125 اضلاع میں کام کررہا ہے۔ ہم ہر سال پاکستان میں تقریباً 10 سے 12 ملین ڈالر کے پراجیکٹس کرتے ہیں۔ 11 ہزار یتیم ہیں جن کی کفالت کا کام پوری طرح سے ہم کرتے ہیں۔ ہمارے اسپتال ہیں، ڈسپنسریز ہیں۔ جیسے سیلاب آیا تھا سندھ میں، اس میں ساڑھے تین ارب کی مدد کی ہے، بہت سارے نئے گھر بنائے ہیں، کچھ بن رہے ہیں ۔جو بن گئے ان میں لوگ منتقل ہوگئے ہیں۔ امریکہ کے مسلمان پاکستان میں ہیلپنگ ہینڈزجو امریکہ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم ہے، پر بھرپور اعتماد کرتے اور اسے سپورٹ کرتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: سہراب گوٹھ کراچی میں آپ کا ایک پراجیکٹ برائے ذہنی امراض اور بحالی کے حوالے سے ہے۔ اس سے متعلق کچھ بتائیں۔
ڈاکٹر محسن انصاری: اس میں کام شروع ہوچکا ہے، اورعوام استفادہ کررہے ہیں۔ یہ ملٹی ملین ڈالر کا پراجیکٹ ہے، اس کے مختلف مراحل ہیں۔ پہلا مرحلے میں کنسٹرکشن شروع ہوچکی ہے۔ دوسرے اور تیسرے مرحلے کے مکمل ہونے میں 4 سے 5 سال لگیں گے۔ مگر خدمات شروع ہوچکی ہیں۔ جب یہ پایہ تکمیل کو پہنچے گا توسب سے بڑا بحالی کا اسپتال ہوگا۔ بعد میں میڈیکل کالج بھی ہوگا۔ جمنازیم بھی ہوگا۔ اور وہ ساری چیزیں جو ایک بڑے Rehablitation Hospitalمیں ہوتی ہیں، تمام خدمات مکمل مفت ہیں۔