اسلام اور کفر کے درمیان پہلا معرکہ بدر کے مقام پر 17رمضان المبارک سن 2ہجری کو ہوا جس میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کو شاندار فتح سے نوازا، اورکفر کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ اس لیے 17 رمضان المبارک کو اللہ تعالیٰ نے ’یوم الفرقان‘ کا نام دیا ہے۔ یہ روئے زمین کی پہلی جنگ تھی جو اسلحہ اور ظاہری مال و اسباب کے بجائے اللہ پرکامل ایمان اور ایقان کی بنیاد پر لڑی گئی۔
بدر مکہ اور مدینہ سے شام جانے والے تجارتی قافلوں کی گزرگاہ پر ایک چھوٹا سا گائوں تھا جس کے اردگرد چھوٹے پہاڑی ٹیلے تھے۔ تجارتی راستہ ہونے کی وجہ سے اس کی ایک خاص اہمیت تھی۔ میدانِ بدر مدینہ منورہ سے تقریباً 80 اورمکہ سے 220 میل کے فاصلے پر تھا۔
مسلمانوں کے مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ چلے جانے کے بعد اسلام دشمن خصوصاً سردارانِ قریش بہت جزبز ہورہے تھے اوراپنے ہاتھ مَل رہے تھے کہ مسلمان اپنی جانیں بچاکر ان کے ہاتھ سے نکل گئے۔ علاوہ ازیں مکہ کے مشرک اور اسلام دشمن سرداروں کو یہ خوف بھی لاحق تھا کہ مسلمان قوت پکڑ کر اس تجارتی راستے کو بند کردیں گے اور مکہ کی تجارت اور کاروبار ختم ہوجائے گا۔ کفارِ مکہ دن رات اسی سوچ بچار میں تھے کہ کسی طرح مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے کچل دیا جائے۔ وہ غصے اور انتقام کی آگ میں جھلس رہے تھے اور مدینہ پر چڑھ دوڑنے کا بہانہ ڈھونڈ رہے تھے۔ انہی دنوں مکہ کا ایک تجارتی قافلہ ابوسفیان کی قیادت میں شام سے مالِ تجارت لے کر واپس آرہا تھا۔ اس قافلے کی حفاظت کی آڑ میں سردارانِ قریش نے ایک ہزار جنگجوئوںکا بہت بڑا لشکر تیارکیا جو ہر طرح کے اسلحہ سے لیس تھا۔
نبیِ مہربان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ پر حملے کی غرض سے قریشی لشکر کی آمد کی اطلاع ملی تو آپؐ نے مجلس مشاورت بلوائی اور خطرے سے نپٹنے کے لیے تجاویز طلب فرمائیں۔ مہاجرین نے جانثاری کا یقین دلایا۔ آپؐ نے دوبارہ مشورہ طلب کیا تو انصار میں سے سعد بن عبادہؓ نے عرض کیا کہ غالباً آپؐ کا روئے سخن ہماری طرف ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ہاں۔ حضرت سعد بن عبادہؓ نے عرض کیا کہ ’’یارسول اللہﷺ! ہم آپؐ پر ایمان لائے ہیں۔ ہم نے آپؐ کی تصدیق کی اور گواہی دی ہے کہ جو کتاب آپؐ لائے ہیں وہ حق ہے اور ہم نے آپؐ کی اطاعت اور فرماں برداری کا عہد کیا ہے۔ یارسول اللہﷺ آپ جس طرف جانے کا حکم دیں گے ہم میں کوئی ایک بھی اس سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے حق کے ساتھ آپؐ کو معبوث کیا اگر آپؐ ہمیں سمندر میں کود جانے کا حکم دیں گے تو ہم سمندر میںکود جائیں گے‘‘۔
حضرت مقداد ؓنے عرض کیا ’’ہم موسیٰ کی امت کی طرح نہیں ہیں جس نے موسیٰ سے کہا کہ تم اور تمہارا رب جاکر دشمن سے لڑو، ہم تو یہاں بیٹھ کر دیکھیںگے۔ بلکہ ہم آپؐ کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے آپؐ کے ساتھ لڑیں گے‘‘۔
غزوہ بدر میں مسلمانوں کی فتح کا سب سے بڑا اور اصل سبب نصرتِ الٰہی تھی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت گریہ وزاری سے دعا فرمائی:’’اے خدا! یہ قریش ہیں، اپنے سامانِ غرور کے ساتھ آئے ہیں تاکہ تیرے رسول کو جھوٹا ثابت کریں۔ اے اللہ! اب تیری وہ مدد آجائے جس کا تُو نے مجھ سے وعدہ فرمایا۔ اے اللہ! اگر آج یہ مٹھی بھر نہتے لوگ مارے گئے تو پھر روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں بچے گا‘‘۔ دعا کے دوران آپؐ کی داڑھی مبارک آنسوئو ں سے بھیگی اور ہچکی بندھی ہوئی تھی۔ آپؐ کے کندھوں پر پڑی ہوئی چادر بار بار نیچے گر جاتی جسے حضرت ابوبکر صدیقؓ اٹھاکر آپؐ کے کندھوں پر ڈال دیتے اور ساتھ ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈھارس بندھاتے کہ اللہ تعالیٰ آپؐ کو تنہا نہیں چھوڑے گا اور آپؐ کی ضرور مدد کرے گا۔
اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو فتح کی بشارت دی اور ایک ہزار فرشتوں سے امداد فرمائی جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانفال میںکیا ہے۔ جنگ سے ایک روز قبل آپؐ نے میدانِ بدر کا معائنہ فرمایا،آپؐ کے ہاتھ میں چھڑی تھی جس سے آپؐ نے میدان میں مختلف جگہ پر دائرے لگائے اور فرمایا کہ ابوجہل یہاں قتل ہوگا۔ ولید، عتبہ اور شیبہ یہاں قتل ہوں گے۔ جنگ کے بعد صحابہ ؓ نے دیکھا کہ ان مشرک سرداروں کی لاشیں اسی جگہ پڑی تھیں جہاں آپؐ نے دائرے لگائے تھے۔
جنگِ بدر میں مسلمانوں کی کُل تعداد محض 313نفوسِ قدسیہ پر مشتمل تھی، ان میں سترہ سالہ نوجوان عمیر سے لے کر ساٹھ سالہ بوڑھے تک سب لوگ شامل تھے۔ جنگی مال و اسباب اور اسلحہ کی شدید قلت تھی۔ محض 2گھوڑے اور 70اونٹ تھے۔ لڑنے والوں کے پاس ڈھنگ کی تلواریں بھی نہیں تھیں، مگر اللہ کے ان سپاہیوں کو جنگی اسلحہ اور اپنی قوتِ بازو سے زیادہ اللہ کی مدد اور نصرت کا یقین تھا۔
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
جنگِ بدر کا عجیب منظر تھا کہ بھائی بھائی کے خلاف، باپ بیٹے اور بیٹا باپ کے خلاف، بھانجا ماموں اور چچا بھتیجے کے خلاف نبرد آزما تھا۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے اپنے والد جراح کو، عمر فاروقؓ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو، مصعبؓ نے اپنے بھائی عبید کو، اور اسی طرح بہت سے صحابہ نے اپنے قریبی رشتے داروں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرکے غیرتِ اسلامی اور محبتِ نبوی کا بے مثال مظاہرہ کیا۔ غزوہ بدر کے بعد ایک بار حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بیٹے نے جو جنگ میں کفار کی طرف سے لڑے تھے، اپنے والد سے کہا کہ جنگِ بدر میں آپ دو بار میری تلوار کے نیچے آئے مگر میں نے آپ پر وار نہیں کیا۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ نے کہا کہ بیٹا اگر تُو ایک بار بھی میری تلوار کے نیچے آجاتا بخدا میں اپنا ہاتھ نہ روکتا۔
غزوہ بدر میں ابوجہل، عتبہ اور شیبہ سمیت کفار کے بڑے بڑے نامور سردار مارے گئے۔ کفار کے لشکر کے 70لوگ تہ تیغ ہوئے اور 70کو قیدی بنا لیا گیا۔کفر کے غرور اور تکبر کو اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لیے خاک میں ملادیا، اسلامی لشکر کے 14سپاہی شہید ہوئے۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ساتھ فتح و نصرت کا جو وعدہ فرمایا تھا وہ پورا ہوگیا۔ ابوجہل اور دیگر قریشی سرداروں نے مکہ سے روانہ ہونے سے پہلے خانہ کعبہ کا غلاف پکڑ کر دعا کی تھی کہ ’’خدایا دونوں گروہوں میں سے جو بہتر ہے اس کو فتح عطا کر، اور جو ظلم کے راستے پر ہو اسے تباہ کر‘‘۔ چنانچہ غزوہ بدر میں اللہ تعالیٰ نے اپنا فیصلہ فرما دیا کہ کون حق پر ہے اور کون باطل پر۔
اسلامی اخوت کا دلوں پر اس قدر غلبہ تھا کہ انصار اور مہاجر ایک دوسرے کو اپنا بھائی اور اپنے غیر مسلم رشتے داروں کو اپنا دشمن سمجھتے تھے۔ جب قیدی پکڑے جارہے تھے تو حضرت مصعب بن عمیرؓ کے ایک بھائی ابوعزیز کو جو کفار کی طرف سے لڑ رہے تھے، ایک صحابیؓ نے پکڑا۔ حضرت مصعب بن عمیر ؓ نے کہا کہ اس کی مشکیں ذرا کس کر باندھنا، اس کے ماں باپ بہت مال دار ہیں اچھا فدیہ مل جائے گا۔ اس پر قیدی نے کہا کہ کچھ شرم کرو، میں تمھارا سگا بھائی ہوں، تم میری مدد کرنے کے بجائے میرے دشمن کو سختی سے باندھنے کا مشورہ دے رہے ہو! اس پر حضرت مصعبؓ نے کہا کہ میرے بھائی تم نہیں اِس وقت میرا بھائی وہ ہے جو تمھیں باندھ رہا ہے۔ قیدیوں کے بارے میں مشاورت ہوئی۔ عمر فاروقؓ نے مشورہ دیا کہ ان قیدیوں کو قتل کردیا جائے اور ہر مسلمان اپنے قریبی رشتے داروں کو خود قتل کرے۔ ابوبکر صدیقؓ نے مشورہ دیا کہ تعلیم یافتہ قیدیوں سے دس دس اَن پڑھ مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کا معاہدہ کیا جائے اور دیگر قیدیوں سے ایک ہزار سے لے کر چار ہزار درہم تک یا حسبِ استطاعت فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری تجویز کو پسند فرمایا۔ آپؐ چاہتے تھے کہ قیدی صحابہ کرامؓ کے ساتھ وقت گزاریں گے تو انہیں اسلام کے متعلق جاننے کا موقع ملے گا۔ اسلام کی حقانیت اور صحابہؓ کے حسنِ سلوک سے متاثر ہوکر ان قیدیوں میں سے اکثر نے اسلام قبول کرلیا۔
حق و باطل کے اس پہلے معرکے میں اسلام کی شاندارفتح نے مسلمانوں کو عرب کی ایک عظیم قوت بنادیا۔ عرب اور عرب سے باہر دور و نزدیک اس جنگ کے چرچے ہونے لگے، چھوٹے قبائل جو پہلے اسلام قبول کرنے سے ڈرتے اور کفارِ مکہ سے خوف زدہ تھے، انہوں نے کھل کر مسلمانوں کی حمایت شروع کردی اور لوگ جوق درجوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔ بدر سے پہلے اسلام ایک مذہب اور دین تھا، مگر بدر کے بعد وہ خود ریاست بن گیا۔
آج دنیا بھر میں جگہ جگہ مسلمان مظلوم و مقہور ہیں۔ کشمیر، فلسطین، اراکان… ہر جگہ مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا اور ان کا ناحق خون بہایا جارہا ہے۔کشمیر اور فلسطین میں ہندوئوں اور یہودیوں نے مسلمان علاقوں پر زبردستی قبضہ کرکے مسلمانوں کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ غزہ میں پچھلے چھے ماہ سے مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے،32ہزار سے زائد فلسطینیوں کو قتل کیا جاچکا ہے جن میں زیادہ تعداد بچوں اور عورتوں کی ہے۔ اسلام دشمن طاقتیں مظلوم مسلمانوں کے بجائے جارحیت اور ظلم و جبر کرنے والوں کا ساتھ دے رہی ہیں اور مسلم حکمران خوابِ غفلت سے بیدار نہیں ہورہے۔ اس وقت دنیا میں پونے دو ارب مسلمان ہیں جن کے پاس 80 لاکھ مسلح افواج ہیں، زمینی، سمندری، معدنی وسائل کی کوئی کمی نہیں، 58 کے قریب مسلم ممالک ہیں۔ جبکہ اسرائیل کی آبادی محض ایک کروڑ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم ممالک میں سے اگرکوئی ایک سربراہِ مملکت یا فوجی سربراہ جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس قتلِ عام پر اٹھ کھڑا ہو تو روزانہ قتل ہونے والے سیکڑوں فلسطینیوں کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ نبیِ مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکے بنائے جاتے ہیں اور قرآنِ عظیم الشان کو نذرِ آتش کیا جاتا ہے۔ عالمی استعمار کھل کر اسلام دشمنوں کی سرپرستی کررہا ہے۔ ان حالات میں ضرورت ہے کہ عالم اسلام متحد ہوکر امت کے مسائل کے حل اور اپنے مقبوضہ علاقوں کی آزادی کے لیے مشترکہ لائحہ عمل تیار کرے اور عالمی قوتوں سے مرعوب ہونے کے بجائے ناموسِ رسالتﷺ اور اسلامی شعار کے تحفظ کا دوٹوک اور واضح اعلان کیا جائے۔ جب تک عالمِ اسلام اپنے مسائل خود حل نہیں کرتا، دنیا مسلمانوں پر مسلط کردہ ظلم و جبر کے نظام کو بدلنے کے لیے تیار نہیں ہوگی۔
غزوۂ بدر کا پیغام:
یوم بدر کا پیغام یہ ہے کہ میدانِ جنگ میں کامیابی کا انحصار مادی وسائل سے زیادہ نظریاتی اور اخلاقی حیثیت پر ہے۔ بدر میں یہ ثابت ہوگیا کہ امت جب ایمان اور یقین کے ساتھ آگے بڑھتی ہے تو اللہ کی نصرت اس کے ساتھ ہوتی ہے۔ جنگِ بدر رنگ و نسل کے بجائے خالص عقیدے کی بنیاد پر تھی۔ ایک طرف تکبر و غرور اور گھمنڈ تھا، اور دوسری طرف عاجزی، انکسار اور اللہ کی نصرت پر کامل یقین تھا۔ اسلام اور کفر کے درمیان اس جنگ میں مہاجرین اور انصار نے ایک دوسرے سے بڑھ کر قربانیاں دیں۔ آج بھی نسل، زبان اور علاقائی تعصب پر تقسیم ہونے کے بجائے عقیدے اور نظریے کی بنیاد پر امت کو متحد اور منظم ہونا ہوگا۔ امت کے اتحاد کی بنیاد آج بھی کلمۂ توحید اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہی ہے۔
فضائے بدر پیدا کرفرشتے تیری نصرت کو اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی!