اہلِ غزہ اور غزوہ بدر

غزوہ بدر 17 رمضان المبارک کو پیش آیا اور معرکہ طوفان الاقصیٰ کا سلسلہ ماہِ رمضان میں بھی جاری ہے

بچپن ہی سے غزوہ بدر کا واقعہ زیر مطالعہ رہا۔ مختلف مجالس میں اس کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو سنتے آرہے ہیں کہ رسول اللہﷺ کی قیادت میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جس جرات و بہادری سے کفارِ قریش کا مقابلہ کیا، تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ افرادی قوت و آلاتِ جنگ کی قلت کے باوجود مدمقابل دشمن (جو افرادی قوت کے ساتھ ساتھ مسلح قوت کا حامل تھا) سے مقابلہ کرتے ہوئے اسے شکست سے دوچار کیا، جس کی بدولت حق کی قوت ابھر کر سامنے آئی، اور باطل کی پست ہمتی اور اس کا کذب دنیا کے سامنے آشکارا ہوگیا۔

7 اکتوبر 2023ء سے حماس اور اسرائیل کے مابین شروع ہونے والی جنگ کو 6 ماہ ہونے کو ہیں۔ اسرائیل جسے عسکری قوت حاصل ہے، جدید آلاتِ حرب سے لیس ہے، اس کے مقابلے میں غزہ کے مجاہدین جس پامردی اور مردانہ واری کے ساتھ اس کا مقابلہ کررہے ہیں، اس پر ان کو سلام عقیدت پیش کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے اس عمل سے غزوہ بدر کی عملاً یاد تازہ کردی ہے۔

غزوہ بدر 17 رمضان المبارک کو پیش آیا اور معرکہ طوفان الاقصیٰ کا سلسلہ ماہِ رمضان میں بھی جاری ہے، اور مقابلہ بھی کفارِ مکہ کی طرح بلکہ ان سے بھی بڑھ کر طاقت ور دشمن اسرائیل کے ساتھ ہے، جس کی پشت پر طاقت ور ممالک ہیں۔ اس کے مقابلے میں 313 مجاہدین کی مانند غزہ کے مجاہدین ہیں، جو افرادی قوت کے ساتھ ساتھ عسکری قوت میں بھی مدمقابل دشمن سے پیچھے ہیں، جنہیں کسی ملک کی عسکری پشت پناہی بھی حاصل نہیں ہے، لیکن جتنی قوت موجود ہے اس کے ذریعے سے اللہ رب العالمین کے بھروسے پر اور اس کی مدد ونصرت سے 170 دن سے دشمن کا مقابلہ کررہے ہیں۔ جس طرح غزوہ بدر میں صحابہ کرام ؓ نے شجاعت وبہادری کی مثالیں قائم کیں، اسی طرح غزاوی مجاہدین پامردی اور استقامت کے ساتھ دشمن کی عسکری قوت کو کمزور کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔ قابض اسرائیل اپنی درندگی اور وحشت فلسطینی عوام پر ڈھائے ہوئے ہے، جس کے نتیجے میں 33 ہزار سے زائد افراد شہادت کا جام نوش کرچکے ہیں، ہزاروں زخمی اور لاپتا ہیں، جبکہ لاکھوں افراد بے سروسامانی کے عالم میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ لیکن اس بے بسی اور بے کسی کے باوجود اپنی ایمانی حرارت سے امتِ مسلمہ اور غیرمسلموں کو اسلام کی حقیقی دعوت پہنچا رہے ہیں۔ اس کائنات کی ایک ہی ہستی ہے جس کی جانب سے خوشی اور کشادگی میسر آتی ہے، اور اسی کی جانب سے انسان مصائب و آزمائشوں میں مبتلا ہوتا ہے۔ اس لیے خوشی اور مصیبت میں اپنے حقیقی مالک ہی کو پکارنا چاہیے۔ اسی عقیدے کی بنیاد پر وہ اس کسمپرسی کے عالم میں بھی ’’اللہ ہمارے لیے کافی اور وہی ہمارا بہترین کارساز ہے‘‘ کی صدائیں بلند کررہے ہیں۔

دعائوں کی کثرت
غزوہ بدر کے موقع پر آپ ﷺ نے صفیں درست کرکے اپنے رب سے مدد و نصرت طلب کرتے ہوئے یہ دعا فرمائی: ”اے اللہ! تُو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے اسے پورا فرمادے، اے اللہ! میں تجھ سے تیرے عہد اور تیرے وعدے کا سوال کررہا ہوں۔ اے اللہ! اگر آج یہ گروہ ہلاک ہوگیا تو تیری عبادت نہ کی جائے گی۔ اے اللہ! اگر تُو چاہے تو آج کے بعد تیری عبادت کبھی نہ کی جائے گی۔“

رسول اللہﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے آج بھی مجاہدینِ غزہ اپنے رب سے کامیابی و کامرانی کی دعائیں کررہے ہیں، ان کی دعائیں خشوع وخضوع کے ساتھ اپنے رب پر کامل بھروسے کا مظہر ہیں۔

مجاہدین کی ایک ویڈیو نشر کی گئی جس میں وہ اپنے رب سے دعا مانگتے ہوئے التجا کررہے ہیں:
”اے اللہ! ہمارے معاملات کو آسان فرما، اپنی مدد کو ہماری تقویت کا سبب بنا، ہماری مشکلات کو آسانی میں تبدیل فرما، ہر آزمائش سے اپنی عافیت میں رکھ، ہر بیماری سے شفا عطا فرما، ہر مشکل کو آسانی میں تبدیل فرما۔ اے اللہ! اپنی خشیت سے نواز دے جو ہمیں تیری معصیت سے بچانے کا سبب بن جائے۔ اپنی اطاعت کی توفیق عطا فرما جو ہمارے جنت میں داخل ہونے کا سبب بن جائے۔ اپنی ذات پر ایسا یقین عطا فرما جو دنیا کے مصائب پر صبر کا ذریعہ بنے۔ جو ہم پر ظلم کررہے ہیں تُو ہماری طرف سے اُن سے انتقام لے لے۔ اے اللہ! مسلمانوں کی مدد ونصرت فرما۔ اے اللہ مسلمانوں کے جہادی لشکروں کی مدد فرما، اور ان کو غلبہ عطا فرما۔“

اس دعا کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ مجاہدینِ غزہ اپنے رب سے لو لگائے، اسی کی طرف رجوع کرتے ہوئے مدد و نصرت کے طالب ہیں۔ اس طرح اہلِ غزہ بھی اپنے مجاہدین کی ثابت قدمی کے لیے دعائیں مانگ رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک شخص نے الجزیرہ کے صحافی کو یہ پیغام دیا کہ یحی سنوار(حماس کے غزہ میں رہنما) کو پیغام دے دو ہم دعاگو ہیں اللہ رب العزت آپ کو ثابت قدمی عطا فرمائے۔ ان کی کامیابی و فتح اور بے یارومددگار مسلمانوں کے لیے پورے عالم میں دعاؤں کا سلسلہ جاری ہے۔ وائل دحدوح (الجزیرہ کے صحافی) نے قطر میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ”میرے ایک دوست یمن کے ایک دور دراز گاؤں کی ڈاکومنٹری بنانے کے لیے گئے، وہاں سب بعد نمازِ فجر اہلِ غزہ کے لیے دعاگو تھے۔“

گویا کہ جس طرح غزوہ بدر میں رسول اللہ ﷺ موجود وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے رب کے سامنے دعاگو تھے، اسی طرح غزہ کے مجاہدین بھی اپنے رب سے دعائیں مانگ رہے ہیں، اور دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اصل قوت اور طاقت اللہ ہی کی جانب سے حاصل ہوتی ہے۔

معاذؓ ومعوذؓ اور غزاوی نوجوان
معاذ بن عمرو اور معوذ بن عفرا نے غزوہ بدر میں کافروں کے سرخیل ابوجہل پر جس بہادری و شجاعت کے ساتھ وار کیا، وہ ایک مثال بن چکا ہے۔ اسی طرح آج ہم دیکھتے ہیں کہ نہتے بچے اور خواتین بہادری و شجاعت کی چٹان بنے بزدل اسرائیلی فوجیوں کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں، ہاتھ میں پتھر لیے ٹینک کے سامنے موجود ہوتے ہیں، ہاتھ میں غلیل لیے دشمن کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔ یہ اس امر کی علامت ہے کہ غزہ کا بچے، جوان، خواتین اس جذبے سے سرشار ہیں کہ اسرائیل کو اپنی ایمانی قوت سے شکست سے دوچار کرنا ہے اور مسجد اقصیٰ کو آزاد کرانا ہے۔ اسی طرح جب ان کے والدین یا اقرباء شہید ہوجاتے ہیں تو ان کی زبان سے یہی صدا بلند ہوتی ہے کہ اللہ کی رضا میں ہم راضی ہیں، اللہ رب العزت ان کی شہادت قبول فرمائے اور وہی بہترین کارساز ہے۔

ان کے اس طرزعمل سے یہ سبق ملتا ہے کہ اہلِ ایمان اپنی اولاد کی تربیت اس نہج پر کریں کہ ان کے دلوں میں اللہ پر ایمان پختہ ہو اور وہ اسی کی رضا میں راضی ہوں۔

قیدیوں کے ساتھ حسن ِسلوک
غزوہ بدر کے موقع پر 70 کفار مسلمانوں کی قید میں آئے،جن کے بارے میں رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام ؓ سے مشورہ کیا، حضرت ابوبکر ؓ نے فدیہ لے چھوڑدینے کا مشورہ دیا،جبکہ حضرت عمرؓ نے یہ مشورہ دیا کہ ہر صحابی کے قریبی کو اس کے حوالے کردیا جائے اوروہ اپنے ہاتھ سے اس کا سر قلم کردے۔ فیصلہ حضرت ابوبکر ؓکی رائے کے مطابق کیا گیا۔

اس موقع پر رسول اللہ ﷺنے صحابہ کرام کو یہ نصیحت فرمائی کہ :قیدیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا۔ اسی پر عمل کرتے ہوئے صحابہ کرام نے ان کے طعام وقیام کا خیال رکھا۔

اسی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے مجاہدینِ غزہ نے اسرائیلی قیدیوں کے ساتھ احسن طریقے سے معاملہ کیا جس کا پورے عالم نے مشاہدہ کیا۔ عارضی جنگ بندی کے دوران جب اسرائیلی قیدیوں کو رہا کیا جارہا تھا تو اُس وقت اسرائیلی قیدی خواتین مجاہدین کو الوداع کہہ رہی تھیں، اور بعض نے ویڈیوز بنا کر نشر کیں جن میں بتایا کہ مجاہدین نے ان کے قیام وطعام کا خیال رکھا، اور ایک نوجوان لڑکی نے بتایا کہ ہم ورزش کرتے تھے تو انہوں نے اس عمل سے ہمیں نہیں روکا۔ گویا کہ انسان کی بنیادی ضروریات کا مکمل خیال رکھتے ہوئے اسلام کے قیدیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔

اس کے مقابلے میں اسرائیل کی جانب سے اہلِ فلسطین سے بدسلوکی بھی دنیا جان چکی ہے کہ اس نے انسانی حقوق کو پامال کرتے ہوئے قیدیوں کو دردناک اذیت پہنچائی، جس کی صرف ایک مثال فلسطینی خاتون اسراء جعابیص ہے۔ اسراء جعابیص کو قیدیوں کو تبادلے کے تیسرے گروپ میں فلسطین لایا گیا۔ ان کی قید کا سبب یہ ہے کہ 2015ء کے آخر میں وہ اریحا سے القدس واپس آرہی تھیں، راستے میں ان کی گاڑی خراب ہوگئی، وہاں اسرائیلی فوجی نے ان پر فائرنگ کی جس کی وجہ سے گیس سیلنڈر پھٹ گیا، آگ لگنے کی وجہ سے اسراء جعابیص کا آدھے سے زیادہ جسم جھلس گیا۔ اسرائیلی فوج نے ان کو اپنی قید میں لے لیا اور الزام عائد کیا کہ وہ اسرائیلی فوجی کو مارنے کی کوشش کررہی تھیں۔ جیل انتظامیہ نے ان کے علاج معالجہ پر پابندی لگادی حتیٰ کہ دردکش ادویہ سے بھی منع کردیا گیا۔

قید کے دوران ان کے خاندان نے کہا کہ وہ علاج کے اخراجات برداشت کریں گے، ان کو اجازت دی جائے کہ وہ اپنی بیٹی کے علاج کے لیے ڈاکٹر کو ساتھ لے آئیں، لیکن جیل انتظامیہ نے اس سے انکار کردیا۔

آٹھ سال بعد رہائی کے وقت ان خاتون کے چہرے پر جلنے کے گہرے اثرات ہیں۔ ان کی آزادی کے بعد عرب سوشل میڈیا پر کہا گیا کہ: اسرا جعابیص کے علاج کے لیے پُرزور آواز اٹھائی گئی لیکن اس کا نتیجہ نہیں نکل سکا۔ حماس کی مزاحمت نے اسراء جعابیص کو اسرائیل کی قید سے آزاد کروایا۔

ان واقعات سے ثابت ہوا کہ اہلِ غزہ اور مجاہدین نے رمضان المبارک میں غزوہ بدر کے ایمان افروز مناظر کو ازسرنو زندہ کردیا ہے۔ اللہ کے اذن سے ان کی یہ ثابت قدمی و اولوالعزمی فتح ونصرت کی نوید ثابت ہوگی۔