جسٹس شوکت صدیقی کو انصاف مل گیا؟

گزشتہ ہفتے بھٹو صدارتی ریفرنس کا فیصلہ دیا گیا کہ بھٹو صاحب کو انصاف کے تقاضوں کے مطابق اپنا کیس عدالت میں پیش کرنے کا پورا موقع نہیں دیا گیا۔ بھٹو صاحب کے کیس اور صدارتی ریفرنس پر دو طرح کی آراء ہیں، دونوں میں بہت وزن ہے۔ اس کے بعد آنے والے ہفتے میں جسٹس صدیقی کے مقدمے کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ ہوسکتا ہے اب ڈاکٹر نذیر شہید کو بھی انصاف مل جائے۔ بہرحال یہ بھی کہنے میں حرج نہیں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کے لیے انصاف کی تلاش میں یہ ایک طویل سفر رہا ہے، لیکن سپریم کورٹ نے جسٹس صدیقی کی برطرفی کو ’’غیر قانونی‘‘ قرار دے دیا۔ جسٹس صدیقی نے ایک درخواست دائر کی تھی جس میں عدالتِ عظمیٰ سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کے طور پر اُن کے خلاف جاری کردہ برطرفی کے نوٹیفکیشن کو منسوخ کرے۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے مشاہدہ کیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے آئین کے آرٹیکل 10-A کے تحت منصفانہ ٹرائل اور مناسب عمل کی ضرورت کو نظرانداز کیا، جب کہ صدیقی صاحب کو بدانتظامی پر عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی۔ سپریم کورٹ نے سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کے ساتھ ساتھ صدیقی کی برطرفی پر اُس وقت کے صدر کے نوٹیفکیشن کو بھی کالعدم قرار دے دیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس صدیقی کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا ریٹائرڈ جج سمجھا جائے اور وہ تمام مراعات اور پنشن کے حق دار ہوں گے۔

جسٹس صدیقی کو 21 جولائی 2018ء کو راولپنڈی بار ایسوسی ایشن میں ان کی تقریر پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان کے عہدے سے ہٹادیا گیا تھا جس میں انہوں نے انٹیلی جنس ایجنسیوں پر عدالتی معاملات میں مداخلت اور ہائی کورٹ بینچوں کی تشکیل میں ہیرا پھیری کا الزام لگایا تھا۔ اس کے بعد ان کے خلاف متعدد ریفرنس دائر کیے گئے اور بالآخر انہیں 11 اکتوبر 2018ء کو ان کے عہدے سے برطرف کردیا گیا۔ اُس وقت کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے انہیں سپریم جوڈیشل کونسل کی ایک سفارش کی روشنی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کے عہدے سے ہٹادیا۔ اس طرح سپریم کورٹ کا فیصلہ ایک موجودہ جج کے ساتھ کی گئی غلطی کی دیر سے لیکن اہم اصلاح کے طور پر آیا ہے۔ 2018ء میں جس طرح سے سب کچھ اتنی تیزی سے کیا گیا تھا اس نے بہت سے لوگوں کی بھنویں تان دی تھیں۔ قانونی اور سیاسی مبصرین نے سوال کیا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل اتنی جلدی اس نتیجے پر کیسے پہنچی کہ جج بدتمیزی کے مرتکب ہوئے؟ دسمبر 2023ء میں ہونے والی ایک سماعت میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک اہم سوال اٹھایا کہ جب یہ تمام لوگ مبینہ طور پر کسی کو سہولت فراہم کررہے تھے تو فائدہ اٹھانے والا کون تھا؟ بہت سے لوگ پروجیکٹ عمران کے آغاز کے بارے میں بات کرتے ہیں، اور کس طرح مسلم لیگ (ن) کے سپریمو نوازشریف کو عمران خان کی حکومت کے لیے راستہ بنانے کے لیے بے دخل کیا گیا تھا، لیکن وہ مزید کہتے ہیں کہ اصل فائدہ ہائبرڈ نظام کو تھا جس نے اب جمہوری نظام کی جگہ لے لی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس عرفان سعادت پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے جسٹس شوکت صدیقی کی آئینی درخواستوں پر محفوظ کیا گیا فیصلہ گزشتہ ہفتے سنایا۔ سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے منصب سے برطرفی کے واضح طور پر غیرمنصفانہ فیصلے کو کالعدم قرار دے کر ایسا تاریخ ساز فیصلہ کیا ہے جس کے نہایت مثبت اثرات اِن شاء اللہ ہمارے پورے عدالتی نظام پر مرتب ہوں گے۔