اب آئی ایم ایف ہی ہمیں بتائے گا کہ ہم کو کب، کتنا اور کس پر ٹیکس لگاناہے، کون سے ترقیاتی منصوبے بند کرنے ہیں اور کن ترقیاتی منصوبوں کی اجازت ہوگی
ملک کا سیاسی منظرنامہ ایک ایسی کشتی میں سوار ہے جس میں سوراخ کا حجم مسلسل بڑھ رہا ہے۔ پارلیمنٹ سے جس طرح مکھن سے بال کی طرح نوازشریف کو نکال دیا گیا ہے، بالکل اسی طرح مزید دو سیاسی شخصیات بھی مائنس فارمولے کی زد میں ہیں، اور وقت آنے پر انہیں بھی گھر کی راہ دکھا دی جائے گی، تاہم یہ کام ایک نہایت خاموش حکمت عملی کے ساتھ انجام پائے گا۔ یوں معلوم ہورہا ہے کہ سیاسی امور اب پالیسی سازوں کی ترجیح نہیں رہے بلکہ ساری توجہ معیشت پر مرکوز ہے، اور اس کے سارے فیصلے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل میں ہوں گے۔ اب وفاق میں وزیراعظم اور صوبوں میں وزراء اعلیٰ… یہ سب سیاسی پیادے ہیں اور سیاسی نظام بہرحال ان کے ذریعے ہی چلایا جائے گا اور چابک ہاتھ میں پکڑے اصل قوت پس منظر میں رہے گی۔ ملکی معیشت کو قومی معیشت کے بجائے آئی ایم ایف کی معیشت کا نام دینا زیادہ مناسب ہے۔ اب آئی ایم ایف ہی ہمیں بتائے گا کہ ہم کو کب، کتنا اور کس پر ٹیکس لگانا ہے، کون سے ترقیاتی منصوبے بند کرنے ہیں اور کن ترقیاتی منصوبوں کی اجازت ہوگی۔ اپریل کے وسط تک اس کے فیصلوں کی تفصیلات بھی سامنے آجائیں گی اور ہم اس کے فیصلوں پر عمل درآمد کے پابند ہوں گے۔ اب سوال صرف یہ ہے کہ غلامی اور کسے کہتے ہیں؟ ملک کے عام آدمی سے لے کر عوام کے منتخب نمائندوں تک، سب کی جیب پر آئی ایم ایف کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔ شہباز حکومت، جو مسلم لیگ(ن) کی تیسری حکومت ہے، مگر عوام کو عوامی فلاح کے نام پر دھوکے میں رکھنے میں اس کا کوئی ثانی نہیں ہے، شہباز حکومت کی سولہ ماہ کی کارکردگی اس لحاظ سے اطمینان بخش ہے کہ ان کی سولہ ماہ کی حکومت نے نوازشریف کو اقتدار سے ہمیشہ کے لیے دور کردیا ہے، مسلم لیگ(ن) کے بڑے بڑے سیاسی برج اسی سبب الٹے اور مضبوط قلعے مسمار ہوئے ہیں۔ اب مسلم لیگ( ن) نے ملکی معیشت کی بساط پر ایک مہرے کو آزمانے کا فیصلہ کیا ہے مگر اصل اختیارات کی کنجی وزیراعظم شہبازشریف نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے، اس نے ماضی میں ایک چارٹرڈ اکائونٹنٹ سے ملکی معیشت چلائی اور اب ایک بینکار کو میدان میں اتارا ہے، تین بار کی حکومت کا تجربہ رکھنے کے باوجود اسے ملکی معیشت چلانے کے لیے کوئی معیشت دان نہیں مل سکا۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ ملک کی معیشت کو سمجھنے میں، وزیر خزانہ کے طور پر خدمات انجام دینے والے ماہر معاشیات اور سرکاری خزانے کی ذمہ داری سنبھالنے والے کمرشل بینکر کے درمیان واضح فرق ہے۔ وزارتِ خزانہ میں ایک ماہر معاشیات وسیع اقتصادی پالیسی کے مسائل جیسے کہ مالیاتی محرکات، ٹیکسوں، حکومتی اخراجات، تجارتی پالیسیوں اور طویل المدتی اقتصادی منصوبہ بندی پر توجہ مرکوز کرسکتا ہے۔ دوسری طرف معاشی استحکام کے لیے وزارتِ خزانہ میں ایک بینکر اپنی بہترین سمجھ کے مطابق مالیاتی معاملات پر زیادہ توجہ دے سکتا ہے، حالانکہ یہ خالصتاً گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور اس کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کا شعبہ اور میدان ہے۔ زیرک اور سمجھ دار معیشت دان اس نکتے سے متفق ہیں کہ ایک ماہر اقتصادیات وزیر خزانہ ٹیکس نظام کو مضبوط بنانے کو ترجیح دے سکتا ہے، جبکہ میکرو اکنامک استحکام کے حصول، پائیدار ترقی کو فروغ دینے، آمدنی میں عدم مساوات کو کم کرنے اور ساختی اقتصادی چیلنجوں سے نمٹنے پر توجہ مرکوز کرسکتا ہے۔ پاکستان کی معاشی مشکلات اس کی غیر دستاویزی معیشت کی وجہ سے ہیں، جو کہ سائز میں دستاویزی معیشت کے تقریباً متوازی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 250 ملین کی آبادی کے باوجود ملک میں مجموعی طور پر ٹیکس سے جی ڈی پی کا تناسب 10-11 فیصد کے چیلنج سے دوچار ہے۔ یہ بنیادی طور پر غیر دستاویزی معیشت ہے جس کی وجہ سے محبوب الحق، سرتاج عزیز، عبدالحفیظ شیخ، سلمان شاہ، اور مفتاح اسماعیل جیسے تجربہ کار ماہرینِ اقتصادیات کی خدمات کے باوجود ملک آج تک اپنے پیروں پر مضبوطی سے کھڑا نہیں ہوسکا، بلکہ یہ کسی حد تک اس میں رکاوٹ بنے رہے۔ اب شوکت عزیز اور شوکت ترین کے بعد معروف اور عالمی شہرت یافتہ کمرشل بینکر محمد اورنگزیب کو خزانے کا چوکیدار بنایا گیا ہے۔ ان تمام تجربات میں اسحاق ڈار ایک متنازع وزیر خزانہ کے طور پر نمایاں ہیں جنہوں نے چالوں کے ذریعے مصنوعی معیشت کو آگے بڑھایا اور زرمبادلہ کی شرح کو مصنوعی طور پر کنٹرول کیے رکھا جس کے نتیجے میں ملک کو ایک مستحکم معیشت نہیں مل سکی۔
ماضی کے ناکام تجربات کے بعد اب پھر ایک بینکار کو ہی کیوں خزانے پر بٹھایا گیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انہیں شہبازشریف نہیں بلکہ کوئی اور لے کر آیا ہے۔ ان سے پہلے سلطان علی الانہ کا نام لیا جارہا تھا، تاہم آغا خان فاؤنڈیشن کی ذمہ داریاں آڑے آئیں اور متبادل کے طور پر محمد اورنگزیب کے نام قرعہ فال نکلا۔ ان کے انتخاب کی سب سے بڑی اور اہم وجہ یہ ہے کہ ان کی مدد سے پاکستان گرے لسٹ سے کامیاب طریقے سے باہر نکل سکا ہے۔ جب پاکستان ماضی قریب میں FATF کی گرے لسٹ سے نکلنے کی کوشش کررہا تھا اُس وقت بھی سلطان الانہ ایسے ماہرین کو لائے تھے جنہوں نے ملک کا نام ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکالنے میں مدد کی۔ اب ایک بار پھر، ملک کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور دیگر عالمی قرض دہندگان کے ساتھ مذاکرات کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بطور وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا انتخاب بہتر سمجھا گیا۔ ایک پیشہ ور بینکر ہونے کے ناتے اورنگزیب عالمی مالیاتی اداروں میں کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ملکی معیشت پر گہری نظر ڈالی جائے تو ہمیں بینکنگ ہی ایک ایسا شعبہ ہے جو ترقی کرتا ہوا نظر آتا ہے، پاکستانی بینک بلند شرح سود کی وجہ سے تاریخی منافع کما رہے ہیں۔ حکومت قرضوں کے حصول کے لیے کمرشل بینکوں پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بینکوں نے صرف پچھلے سال میں مارک اَپ آمدنی کی بنیاد پر منافع میں 85 فیصد اضافہ کیا ہے۔ نومنتخب وزیر خزانہ بھی انہی بنیادی اور اصولی ترجیحات کی بات کررہے ہیں۔ وہ ایف بی آر میں اصلاحات، سبسڈی میں کمی یا اسے ختم کرنے، ہول سیل، ریٹیل ٹریڈ، رئیل اسٹیٹ اور زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانا چاہتے ہیں، ان کے خیال میں اب تک کسی بھی سیاسی حکومت نے سنجیدگی سے ان شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش نہیں کی جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ طاقتور لوگ پارلیمنٹ میں موجود ہیں یا تجارتی تنظیموں کے ذریعے حکومت پر دباؤ ڈالتے ہیں۔ ان کا یہ نکتہ کسی حد تک درست معلوم ہوتا ہے، ماضی میں بھی جنرل پرویزمشرف ان تاجروں پر ٹیکس نہیں لگا سکے تھے۔ وزیر خزانہ اورنگزیب کا بیانیہ یہ ہے کہ ہمیں پہلے اپنا معاشی ماڈل بدلنا ہوگا۔ ہمیں درآمد پر مبنی ترقی سے برآمد پر مبنی ترقی کی طرف منتقل ہونا ہے۔ ہمارے اخراجات ہماری آمدنی سے زیادہ ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم ایک ڈالر کمانے کے لیے دو ڈالر خرچ کرتے ہیں۔ اُن کا تجزیہ ٹھیک ہے کیونکہ اب تک یہی ہوتا رہا کہ ایک اندازے کے مطابق 6-7 فیصد جی ڈی پی گروتھ کے ذریعے ہم اپنی درآمدات کو بغیر کسی روک ٹوک کے کھول دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر پر ناقابلِ برداشت دباؤ پڑتا ہے، اور پھر ہم پہلے سے زیادہ سخت حالات میں ایک اور پروگرام کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانے پر مجبور ہوتے ہیں۔
آئی ایم ایف نے ایک بار پھر ڈو مور کا مطالبہ کیا ہے۔ اگلے پروگرام اور وفاقی بجٹ 2024-25ء کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ کامیاب مذاکرات ایک انتہائی مشکل کام ہوگا۔ آئی ایم ایف نے سبسڈی کلچر ختم کرنے پر زور دیا ہے۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستان میں اشرافیہ غریبوں کے مقابلے میں سبسڈی سے زیادہ مستفید ہوتی ہے۔ یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اشرافیہ کو سالانہ 17 ارب ڈالر سے زیادہ کی سبسڈی ملتی ہے، یہی وہ پس منظر ہے جس کے باعث پاکستان کو آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت میں مشکل پیش آرہی ہے۔ حکومت کے تمام ترلے اور منتوں کے بعد بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ نو ماہ کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کا دوسرا اور آخری جائزہ گزشتہ ہفتے تک پہنچ گیا تھا، تاہم آئی ایم ایف پروگرام عام لوگوں کو کسی بھی قسم کی راحت فراہم کرنے میں ناکام رہا۔ پاکستان کا آئی ایم ایف سے حاصل شدہ قرض مجموعی طور پر 13.79 ارب ایس ڈی آر ہے، اب تک عالمی مالیاتی ادارے سے پاکستان کے 23 معاہدے ہوچکے ہیں، آئی ایم ایف سے حالیہ اسٹاف لیول معاہدہ طے پایا ہے جس سے پاکستان کو قرض کی آخری قسط کی مد میں ایک ارب 10کروڑ ڈالر جاری ہونے کی راہ ہموار ہوئی ہے، پاکستان پہلے ہی دو اقساط کی مد میں آئی ایم ایف سے ایک ارب 90 کروڑ ڈالر حاصل کر چکا ہے، یہ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے قلیل مدتی قرض پروگرام کی آخری قسط ہے۔ شہباز مخلوط حکومت کو گمبھیر معاشی صورتِ حال سے نمٹنا پڑے گا، جس میں ملک کی انتہائی کمتر معاشی ترقی، بے روزگاری، اندرونی اور بیرونی قرضوں کا بوجھ شامل ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں اس بوجھ میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ کیا نئی حکومت ملک کو تاریخی قرضوں کے چنگل سے نکال پائے گی؟ اس کے لیے حکومت کو ایک اکنامک مینجمنٹ منصوبے کی اشد ضرورت ہے جو اتفاقِ رائے کا متقاضی ہے۔ آئی ایم ایف کے حالیہ معاہدے کا ایک بڑا حصہ تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے دکان داروں اور تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے بڑا اقدام کرتے ہوئے ڈیلرز، ریٹیلرز، مینوفیکچررز اور امپورٹر کم ری ٹیلرز کی لازمی رجسٹریشن اسکیم کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ اب ہر دکان دار سالانہ کم از کم 12 سو روپے ٹیکس دے گا۔ یکم اپریل سے ابتدائی طور پر کراچی، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی، کوئٹہ اور پشاور میں رجسٹریشن کی جائے گی۔ اس کے لیے قانون سازی بھی کی جارہی ہے، رجسٹریشن نہ کرانے والے کی نیشنل بزنس رجسٹری میں(باقی صفحہ 33پر)
جبری رجسٹریشن کی جائے گی۔ حکومت نے آئی ایم ایف کو ایف بی آر میں اصلاحات سے آگاہ کردیا تھا۔ تقریباً 31 لاکھ ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے پلان بنایا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹیکس ادائیگی ہر پاکستانی کا فریضہ ہے جو اسے خوش دلی سے ادا کرنا چاہیے، لیکن ہمارا روزِ اول سے المیہ یہ رہا ہے کہ اس ضمن میں مؤثر پالیسیاں نہ بنیں، بلا تفریق ٹیکسوں کے حصول کو ہمیشہ نظرانداز کیا گیا اور محض ٹیکس نیٹ میں آنے والے لوگوں پر ہی سارا بوجھ ڈالا گیا۔ معیشت کی موجودہ بدحالی کی بڑی وجہ ٹیکس اور گیس و بجلی چوری اور بدعنوانی ہے، اور اس کی وجہ یقیناً غریب یا متوسط طبقے کے لوگ نہیں جنہیں اب ٹیکس نیٹ میں لایا جارہا ہے۔ تاہم مراعات یافتہ طبقات کی عیاشیاں بھی روکی جائیں اور جو کھربوں پتی ٹیکس ادا نہیں کرتے انہیں ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔ دوسری صورت میں بحران میں گھرے پاکستان کو بچانا مشکل ہوجائے گا۔