ریموٹ کنٹرول حکومت سیاسی بحران ختم ہو گا؟

جو حکومت شہبازشریف کی بنی ہے اس میں سوائے ندامت اور سیاسی سمجھوتوں کے کچھ بھی نہیں

پاکستان میں سیاسی استحکام یا سیاسی اور جمہوری نظام کی پختگی محض ایک خواب لگتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں جمہوریت فوری طور پر مضبوط بنیادوں پر استوار نہیں ہوتی، بلکہ ایک ارتقائی عمل کے ذریعے آگے بڑھتی ہے۔ ریاست یا سماج کے جو بھی فریق ہوتے ہیں ان کی ترجیحات میں جمہوری نظام کی مضبوطی ہوتی ہے، اور اسی کو بنیاد بناکر وہ نظام کو چلانے کی کوشش کرتے ہیں، کیونکہ جمہوری نظام کسی ایک فریق کی کامیابی کے ساتھ نہیں جڑا ہوتا بلکہ اس کامیابی میں ریاستی سطح کے تمام سیاسی اور غیر سیاسی کردار ایک دوسرے کی مدد اور تعاون کی بنیاد پر جڑے ہوتے ہیں۔ لیکن پاکستان کی کہانی جمہوری معاشروں سے بالکل مختلف ہے۔ جمہوریت کو ہم ایک مضبوط ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں جبکہ ہماری اصل ترجیح جمہوریت نہیں بلکہ مفادات پر مبنی کھیل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے جیسے معاشروں میں جمہوریت ایک مصنوعی عمل کے ساتھ چلائی جاتی ہے اور دنیا کو سیاسی طور پر رام کرنے کے لیے بتایا جاتا ہے کہ ہم ایک جمہوری ریاست ہیں۔ جبکہ دنیا ہمارے جمہوری نظام کی داخلی کمزوریوں، کوتاہیوں اور ناکامیوں کو بنیاد بناکر عالمی سطح پر اپنا بیانیہ بناتی ہے کہ پاکستان کمزور جمہوری ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں جمہوریت کے مقابلے میں آمرانہ نظام کو بالادستی حاصل ہے۔

اسی آمرانہ مزاج اور غیر جمہوری طرزعمل کی بنیاد پر یہاں سیاسی نظام کو چلایا جاتا ہے، اسی بنیاد پر انتخابات ہوتے ہیٖں اور حکومتیں بنانے کا کھیل بھی کھیلا جاتا ہے۔ یہ جو وزیراعظم شہبازشریف کی سربراہی میں پی ڈی ایم پارٹ ٹو حکومت بنی ہے، سب جانتے ہیں کہ یہ کیسے بنائی گئی ہے، کون اس حکومت کو بنانے والا ہے، یا یہ کس کی طاقت کی بنیاد پر سامنے آئی ہے۔ عوامی مینڈیٹ کے مقابلے میں بڑے حلقوں کے مینڈیٹ کی بنیاد پر جو حکومت شہبازشریف کی بنی ہے اس میںسوائے ندامت اور سیاسی سمجھوتوں کے کچھ بھی نہیں ہے۔ حکومت کو احساس ہوتا ہے کہ ہم واقعی حکومت ہیں، اور وہ اس زعم میں اپنی سیاسی طاقت، اختیارات اور فیصلوں کو خود پر بالادست کرنا چاہتی ہے۔ اسی خواہش کی بنیاد پر حکومتی سطح سے کچھ فیصلے سامنے آتے ہیں، لیکن چند ہی لمحوں بعد حکومت کو طاقت ور حلقوں کی طرف سے عملاً یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ اگرچہ حکومت آپ کی ہے مگر اس حکومت میں اختیارات کا استعمال آپ کا نہیں ہے۔ یعنی حکومت کا اصل ریموٹ کنٹرول حکومت کے پاس نہیں بلکہ کسی اور کے پاس ہے۔ اس بات کا احساس مسلم لیگ (ن) کے اندر موجود ہے اور پارٹی سے بیشتر ناراض ارکان برملا اس مؤقف کا اظہار کررہے ہیں کہ ہمیں حکومت تو بناکر دے دی گئی ہے مگر ہماری حیثیت محض نمائشی ہے، اور اصل اختیارات ان ہی کے پاس ہیں جو پہلے بھی طاقت ور تھے اور آج بھی طاقت ور ہیں۔ اس تناظر میں چار اہم خبریں دیکھتے ہیں۔

اول: حکومت نے ارسا چیئرمین کے لیے ڈاکٹر ظفر محمود کا انتخاب کیا اور اس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا، مگر پیپلز پارٹی کی مخالفت کی وجہ سے اسے اپنا ہی جاری کردہ نوٹیفکیشن واپس لینا پڑا۔

دوئم: وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ سابق فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید کو پارلیمنٹ میں طلب کیا جائے گا اور ان کی جوابدہی کی جائے گی۔ اس پر وزیر قانون اعظم نذیر تاڑرکے بقول یہ کوئی حکومتی فیصلہ نہیں بلکہ وزیر دفاع کا ذاتی فیصلہ ہے، اور حکومت اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ کسی کو طلب کرسکے۔ اس پر خواجہ آصف کو نہ صرف اپنے بیان کی وضاحت کرنا پڑی بلکہ ان کے بقول اس بیان پر انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی حنیف عباسی نے تو نام لیے بغیر خواجہ آصف پر سخت تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ اگر ان میں واقعی جرات تھی تو وہ یہ باتیں اُس وقت کرتے جب طاقت میں تھے۔

سوئم: وزیراعظم نے دو روز قبل اپنی سربراہی میں اقتصادی رابطہ کمیٹی کے سربراہ کے طور پر خود کو پیش کیا اور اس کابینہ کی نجکاری کمیٹی کی سربراہی اسحاق ڈار کو دی گئی، مگر دو دن بعد ہی وزیراعظم کو اپنا ہی کیا ہوا فیصلہ واپس لینا پڑا، اور اب وزیر خزانہ کو ہی اقتصادی رابطہ کمیٹی کا سربراہ بنادیا گیا ہے اور اسحاق ڈار سے بھی کابینہ کی نجکاری کمیٹی کی سربراہی واپس لے لی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ فیصلہ کیسے ہوا اور کس نے کیا، اور کیوں وزیراعظم کو اس فیصلے پر سبکی کا سامنا کرنا پڑا؟ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کہاں کھڑی ہے۔

چہارم: وزیراعظم سیکرٹری داخلہ کے طور پر کسی اورکی تقرری چاہتے ہیں جبکہ وزیر داخلہ جو پی سی بی کے سربراہ بھی ہیں، وہ سیکرٹری داخلہ کے طور پر اپنے قابل اعتماد فرد کو لانا چاہتے ہیں جس پر وزیراعظم خوش نہیں ہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ وزیراعظم سے بھی زیادہ مضبوط ہیں۔ اسی طرح کہا جارہا ہے کہ حکومت شہبازشریف کی ہے اور فیصلے کہیں اور سے ہورہے ہیں، اور جب بھی حکومت کی جانب سے کوئی بڑا فیصلہ سامنے آتا ہے تو طاقت کے حامل اصل کردار نمایاں ہوجاتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ طاقتوں کو بھی معلوم ہے کہ اصل حکومت کس کی ہے اور جو حکومت لائی گئی ہے وہ حقیقی حکومت نہیں بلکہ ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت اسے لایا گیا ہے۔ وزیراعظم نے کوشش کی کہ وہ کسی طریقے سے اقتصادی معاملات میں خود کو طاقت ور بنائیں، اور اسی بنیاد پر اسحاق ڈار کی خدمات بھی لی گئیں، مگر لگتا ہے کہ ان کو ایسا کرنے سے روکا گیا ہے اور وزیر خزانہ کے جو اختیارات کم کرنے کی کوشش کی گئی اس میں حکومت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ وزیراعظم سمیت حکومت کے بعض وزرا میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ ہم پر دبائو ڈال کر ایسے فیصلے کروائے جارہے ہیں جو خود ہماری سیاسی ساکھ کو متاثر کریں گے۔ مسئلہ محض وفاق تک محدود نہیں بلکہ پنجاب میں بھی مسلم لیگ (ن) کو خاصی مزاحمت کا سامنا ہے، اورکئی اہم سرکاری نشستوں پر وزیراعلیٰ اپنی مرضی کی تقرری کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے بھی ہورہا ہے کہ ایک طرف حکمرانوں کو معلوم ہے کہ ان کا مینڈیٹ کس حد تک جائز ہے، اور جو لوگ لانے والے ہیں وہ بھی جانتے ہیں کہ حکومت کا مینڈیٹ کس حد تک اصلی اور کس حد تک جعلی ہے۔ اسی بنیاد پر حکومت پر دبائو ڈال کر اپنی مرضی کے فیصلے کروائے جارہے ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بھارت سے تجارت، اسرائیل کو تسلیم کرنے اور سی پیک پر یوٹرن سمیت کئی اہم معاملات پر بھی حکومت پر دبائو ہے کہ وہ وہی کچھ کرے جو اسے کہا جائے۔ اس لیے جیسے جیسے وقت آگے بڑھے گا حکومتی سطح پر مایوسی بھی بڑھے گی اور اس کا اہم اداروں کے ساتھ تنازع بھی کھڑا ہوگا۔ وزیراعظم کو احساس ہورہا ہے کہ ہمارے پاس نہ تو خارجہ، دفاع اور معیشت ہے، نہ ہی داخلی سیاست کے بیشتر معاملات پر ہمارا کنٹرول۔ فیصل واوڈا، محسن نقوی اور نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی سینیٹ میں آمد کو بھی اسی پیرائے میں دیکھا جائے کہ یہ لوگ کون ہیں اور کس کی فرمائش پر سینیٹ کے رکن بننے جارہے ہیں!

نوازشریف کی سیاسی پوزیشن سب سے کمزور ہے۔ ایک طرف وہ اس سارے حکومتی کھیل میں تنہا ہوئے ہیں اور دوسری طرف ان کی بیٹی کی وزارتِ اعلیٰ پنجاب نے ان کے مزید ہاتھ پیر باندھ دیے ہیں، کیونکہ اگر وہ کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا جو کچھ ہورہا ہے اُس پر اپنے ردعمل کو سخت بناتے ہیں تو ان کو اپنی بیٹی کی وزارتِ اعلیٰ کے حوالے سے مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوازشریف کو عملی طور پر پارلیمنٹ میں واپسی سے کوئی دلچسپی نہیں، اور کہا جارہا ہے کہ وہ عید سے قبل پہلے عمرہ کے لیے سعودی عرب اور پھر لندن جاسکتے ہیں۔ نوازشریف کو محسوس ہورہا ہے کہ اگرچہ اقتدار کا ہمارے ہاتھ میں ہے مگر اس پورے کھیل میں سوائے ندامت کے ہمیں کچھ نہیں مل رہا، اور اس کھیل کی وجہ سے ہماری زبانیں بھی بند کردی گئی ہیں۔ حکومتی وزرا بھی ٹی وی پروگراموں میں شرکت سے گریز کررہے ہیں اور اُن کو لگتا ہے کہ موجودہ صورت حال میں حکومت کا دفاع کرنا بہت مشکل کام ہے، خاص طور پر حکومت کے اتحادی اس سارے کھیل میں اختیارات تو لے چکے ہیں مگر حکومتی مشکلات کے حل میں ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں۔ دوسری طرف حکومت سوچتی ہے کہ بھارت سے تجارت کو ہر صورت ممکن بنایا جائے اور جو تعطل ہے اس کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ لیکن اس میں ایک طرف بھارت کسی بھی سطح پر لچک دکھانے کے لیے تیار نہیں اور اس نے فوری مذاکرات یا تعلقات کی بحالی کے امکان کو مسترد کردیا ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں بھی حکومتی اور اسٹیبلشمنٹ کی سطح پر بہت سے معاملات پر عدم اتفاق ہے۔ کیونکہ ایک رائے فوری طور پر تجارت کرنے کے حق میں ہے تو دوسری طرف ایک رائے یہ بھی ہے کہ پاکستان کو بھارت میں ہونے والے انتخابات کا انتظار کرنا چاہیے اور جو بھی نئی قیادت سامنے آئے اُس کے بعد تجارت کرنے پر کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے۔ اسی طرح افغانستان کے معاملات میں بھی خرابیاں جڑ پکڑرہی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ افغانستان بھی ہمارے لیے ایک مشکل میدان بنتا جارہا ہے۔ اسی طرح دی اکنامسٹ کے بقول موجودہ صورت حال میں پاکستان کی مشکلات کم ہوتی نظر نہیں آرہی ہیں،کیونکہ ایک طرف اسے معاشی سطح پر چیلنج درپیش ہیں کہ سرکاری خزانہ خالی ہے، قرضے ناگزیر ہیں اور بری حکمرانی سمیت دہشت گردی نے ملک کو جکڑا ہوا ہے، تو دوسری طرف پی ٹی آئی ایک مضبوط اپوزیشن کے طور پر موجود ہے اور عمران خان کی سیاسی پوزیشن حکومت کے مقابلے میں بدستور بہت مضبوط ہے اور اس سلسلے میں سیاسی اور غیر سیاسی لوگوں نے جو بھی کوششیں کی ہیں وہ تمام تر ناکام ہوئی ہیں۔ اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ جب حکومت مشکل میں ہو، اُس سے بڑے فیصلے نہ ہورہے ہوں اور حکومت کی کارکردگی اور ساکھ پر بھی کئی سوالیہ نشان ہوں تو ایسے میں حزب اختلاف کی سیاست کا مضبوط ہونا فطری بات ہوتا ہے۔ ایک طرف حکومت مفاہمت کی بات کرتی ہے مگر دوسری طرف پی ٹی آئی کی سیاسی مشکلات میں کمی کرنے کے بجائے ان میں مسلسل اضافہ کیا جارہا ہے، اورکہا جاتا ہے کہ وزیر داخلہ محسن نقوی کی تقرری کو بھی اسی تناظر میں جوڑ کر دیکھا جائے تو سارا کھیل سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اِس حکومت کے پاس واقعی یہ اختیارات ہیں کہ وہ پی ٹی آئی کے لوگوں کے بارے میں کوئی بڑا فیصلہ کرسکے؟ یا یہ فیصلہ بھی حکومت کے مقابلے میں کسی اور کے ہی پاس ہے؟ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ بھی مفاہمت کی سیاست کو آگے بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں اُن کولگتا ہے کہ اصل فیصلہ حکومتی اختیار میں نہیں آتا، اور یہ فیصلہ طاقت ور لوگوں کو ہی کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نئی حکومت بننے کے باوجود ہمارا سیاسی بحران ختم نہیں ہورہا اور ایسا لگتا ہے کہ بہت سوچ سمجھ کر ہماری گتھی باندھی گئی ہے تاکہ کوئی بھی اسے نہ کھول سکے۔ پی ٹی آئی کو بھی سمجھ میں آرہا ہے کہ نئی حکومت کا کھیل کامیابی کے ٹریک پر نہیں چڑھ سکے گا اور حکومت کو آنے والے دنوں میں کئی محاذوں پر سیاسی و معاشی پسپائی اختیار کرنا پڑے گی۔ جو لوگ یہ نیا حکومتی ماڈل لائے ہیں وہ اپنے کھیل میں اس حد تک تو کامیاب ہوگئے ہیں کہ جن کا راستہ روکنا تھا وہ رک گیا، اور جن کو راستہ دینا تھا وہ دے دیا گیا ہے، لیکن اب ریاستی اور حکومتی گاڑی کو کیسے کامیابی سے چلانا ہے یہ اصل سوال ہے، اوراس کا جواب آج بھی ہمیں مجموعی طور پر ریاستی یا حکومتی نظام میں نہیں مل رہا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم حالات کو خراب کرنے کے خود ذمہ دار ہیں، اور کوئی نہیں بلکہ ہم خود اپنے دشمن ہیں اور ترقی کے مقابلے میں ہم حالات کو خراب کرنے میں ہی اپنا مفاد سمجھتے ہیں۔ لیکن اس گاڑی کو کب تک ایسے ہی چلایا جائے گا جیسے اِس وقت چلانے کی کوشش کی جارہی ہے؟ یہ تجربہ پہلے بھی ناکام ہوا تھا اوراب بھی ناکامی سے ہی دوچار ہے۔