اب مقابلہ کس بات کا؟

انسان دنیا میں اس لیے آتا ہے کہ وہ ایک شیشے کی طرح پتھروں سے ٹکراتا چلا جائے۔ انسان اس بے رحم جہاں میں ظالم فلک کے نیچے اپنی قوتِ برداشت کو ڈھال بنائے، اپنے جذبے کو تلوار بنائے، اپنے حوصلے کو بلند رکھے اور انجام کار اس دشمنِ جاں زمانے کو زیر کرے۔

انسان کو صرف کوشش اور مسلسل کوشش، صرف مقابلے اور مسلسل مقابلے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ انسان کی راہیں اس کی بے مائیگی نے مسدود کررکھی ہیں۔ انسان کو انسان سے بچنا ہے کیونکہ انسان انسان کو ڈستا ہے۔ انسان انسان کو ہڑپ کرلیتا ہے، نگل جاتا ہے۔ انسان انسان کا استحصال کرتا ہے، انسان انسان کو مجبوریاں دیتا ہے، انسان انسان کا سکون برباد کرتا ہے، انسان انسان کا سرمایہ لوٹ لیتا ہے، انسان انسان کی عزت خاک میں ملاتا ہے، انسان انسان کو حیوان بناکے رکھ دیتا ہے۔ انسان انسان سے نجات صرف مقابلے سے ہی پا سکتا ہے۔ مقابلہ نہ ہو تو انسان انسان نہیں بن سکتا، ترقی نہیں کرسکتا، مہذب نہیں ہوسکتا، متمدن نہیں ہوسکتا بلکہ کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔

مقابلے کا یہ تصور، انسان کو اس کی اعلیٰ روحانی اقدار سے محروم کرنے کے لیے دیا گیا ہے۔ مقابلہ بین الطبقاتی ہو یا بین الاقوامی… ایک بے روح، مادی اور غیر فطری وبا ہے۔ زندگی کسی مقابلے کا نام نہیں۔ زندگی تو بس زندگی ہے، ایک عطا ہے، ایک انعام ہے، ایک نوازش ہے، ایک ایسا کرم جس کے لیے شکر ضروری ہے۔

تاریخِ عالم فتوحات و شکست، جرائم و سزا کا ایک ریکارڈ ہی نہیں، بلکہ یہ محسنین کی داستان بھی ہے۔ مقابلہ کرنے والا کچھ لینا چاہتا ہے اور محسن کچھ دینا چاہتا ہے۔ بادشاہ مقابلے کرتے رہے اور آخرکار کھنڈرات کی شکل میں اپنی عبرت کی داستان چھوڑ گئے۔ ظل سبحانی اور عالم پناہ کہلانے والے آنجہانی اور فانی ثابت ہوئے۔

مقابلہ انسانوں میں نفرت کا بیج بوتا ہے، اور مقابلے کی انتہائی شکل جنگ ہے، تباہی اور بربادی۔

انسانوں کی کھوپڑیوں پر بیٹھ کر شاہی فرمان جاری کرنے والے ہلاکو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قابلِ نفرت رہے۔ انسانی خون کا دریا بہانے والے آخر اسی دریا میں غلطاں نظر آئے۔ مقابلہ اپنے لیے فتح چاہتا ہے اور دوسروں کے لیے شکست… اور یہی مقابلے کی برائی ہے۔

زندگی کو جہادِ مسلسل کہنے اور اسے جدوجہد گرداننے والوں نے نہ جانے اسے کیا کیا بنادیا۔ ہر ایک سے الجھنا، ہر مقام پر لڑنا، ہر بات پر بحث، ہر امر پر تبصرہ، ہر انسان سے دست و ’’گریبانیاں‘‘، ہر موضوعِ سخن پر لن ترانیاں، ہر شے کو مشکوک نگاہوں سے دیکھنا، ہر ایک کو نیچا دکھانے کے لیے کوشاں رہنا، ہر مقام اور صاحبِ مقام کی خامی بلکہ خامیاں تلاش کرنا، ہر نظام پر برہم ہونا، نکلتے سورج سے خائف رہنا، ڈوبنے والے ستاروں سے نالاں رہنا، صاحبِ حیثیت کو استحصالی کہنا، غریب کو بزدلی اور بے غیرتی کے طعنے دینا، اپنے ماں باپ سے ناراض، اپنی اولاد سے شاکی، اپنے وجود سے بیزار، دوسروں سے برسرپیکار، زندگی کو تیشۂ جاں اور حالات کو سنگِ گراں کہتے رہنا، غور کو ناقابلِ فہم کرب مستقل میں مبتلا پانا، ہر طرف ظلم، استحصال دیکھنا، ہر جہاز کو پانی کی تہ میں اترتے دیکھنا، ہر سفر کو مجبوری، ہر واقعے کو حادثہ کہنا، محبت کرنے والوں کو احمق سمجھنا، اپنی خودساختہ دانائی کے قطب مینار سے زمین پر رینگنے والے ’’کیڑے مکوڑوں‘‘ کو تمسخر سے دیکھنا، کاوش پیہم کا راگ الاپنا… غرضیکہ ہمہ حال بدحال رہنا ہی ایسے لوگوں کا مزاج بن کر رہ جاتاہے۔

زندگی کو احمقانہ جھگڑالوپن سے علیحدہ کرکے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ نعمت ایک احسان ہے، ایک تحفہ ہے، ایک مسکراتا ہوا پھول ہے… خوشبو اور رنگوں کا امتزاج۔ زندگی رواں دواں ایک پاکیزہ دریا ہے، جو کناروں کو سیراب کرتا ہوا چلتا رہتا ہے۔ فیض ہی فیض، تعاون ہی تعاون، برکت ہی برکت…

انسان کو کیا ہوگیا ہے! انسان کو کس کی نظر لگ گئی ہے! اس مسیحا کو کیا عارضہ لاحق ہے! اس معالج کو کیا روگ لگ گیا ہے! اس اشرف نے ہر شرف کو برباد کردیا ہے۔

ہمیشہ رہنے کی خواہش نے زندگی کو عذاب بنادیا ہے۔ انسان زندگی رہنے کے لیے مرتا جارہا ہے، سسکتا جارہا ہے۔ ہر شے کو ڈراتے ڈراتے خود ہی سہم گیا ہے۔
(’’دل د ر یا سمندر‘‘/واصف علی واصف)