مملکت ہو یا معاشرہ… اس میں امن و استحکام، تعمیر و ترقی کا دارو مدار وہاں جاری و ساری نظامِ عدل و انصاف پر ہوا کرتا ہے۔ ماضی کی تاریخ کھنگال لیجیے یا آج کی دنیا پر نظر دوڑا لیں، جہاں جتنا عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا، وہاں کے عوام اتنے ہی مطمئن و خوش حال اور سماج اتنا ہی مائل بہ ترقی و استحکام ہوگا۔ خالقِ کائنات نے انسان کی تخلیق کے بعد رسولوں ؑ اور کتبِ الہامی کے ذریعے اس کی رہنمائی کا جو نظام وضع فرمایا اس کا مقصد بھی یہی بتایا ہے کہ انسان انصاف پر قائم اور عمل پیرا ہو۔ اپنی آخری کتابِ ہدایت قرآن حکیم کی سورۃ الحدید آیت 25 میں ارشاد ربانی ہے: ’’ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔‘‘ اور بات یہیں پر ختم نہیں کردی گئی بلکہ اس سے بڑھ کر حکم یہ بھی فرمایا گیا کہ: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو، اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین یا رشتے داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریقِ معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے، لہٰذا اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو، اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ کو اس کی خبر ہے۔‘‘ اب عدل کی عظمت اس سے زیادہ اور کیا ہو گی کہ گواہی کی زد رشتے داروں یا والدین پر پڑے بلکہ خود اپنی ذات بھی زد میں آتی ہو تو بھی انصاف سے روگردانی کی گنجائش نہیں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ نے حالیہ دنوں میں دو اہم فیصلے سنائے ہیں۔ پہلے فیصلے میں عدالتِ عظمیٰ کے ایک خصوصی بینچ نے سابق وزیراعظم، پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت کے فیصلے… جس پر 1979ء میں عمل درآمد بھی ہوگیا تھا… کے خلاف دائر کی گئی نظرثانی کی درخواست پر قرار دیا ہے کہ بھٹو صاحب کے ساتھ عدالتِ عالیہ لاہور اور عدالتِ عظمیٰ میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ دوسرے معاملے میں عدالتِ عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ نے منصفِ اعلیٰ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالتِ عالیہ اسلام آباد کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی سے متعلق ’سپریم جوڈیشل کونسل‘ کی صدرِ مملکت کو ارسال کی گئی سفارش کے خلاف درخواست کی سماعت کی اور اس معاملے میں بھی قرار دیا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف دائر ریفرنس میں تحقیقات کے تقاضے پورے نہیں ہوئے، چنانچہ ان کی برطرفی سے متعلق ’سپریم جوڈیشل کونسل‘ کی صدرِ مملکت کو بھجوائی گئی سفارش کالعدم قرار دے کر جسٹس صدیقی کو ریٹائر قرار دیا گیا کیونکہ معاملے کی سماعت کے دوران وہ جج کی مقررہ آئینی عمر پوری کرچکے ہیں۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی عدالتِ عالیہ اسلام آباد کے فاضل جج تھے جب انہوں نے جولائی 2018ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ بار کی ایک تقریب کے دوران تقریر کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا کہ ملک کے ایک مقتدر ادارے کی مقتدر شخصیات کی جانب سے اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان پر دبائو ڈالا جاتا اور مرضی کے فیصلے سنانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ان کی اس تقریر میں عائد کیے گئے الزامات کو بنیاد بناتے ہوئے اُس وقت کی حکومت نے تحقیقات کرانے کے بجائے 24 جولائی 2018ء کو انہیں چارج شیٹ کردیا اور اس بنیاد پر ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس بھی دائر کردیا گیا۔ اُس وقت کے منصف ِاعلیٰ جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس صدیقی کے خلاف کارروائی شروع کی جس کے دوران ایک اہم ادارے کے افراد پر لگائے گئے سنگین الزامات کی تحقیقات کرائے بغیر اور جسٹس صدیقی کو ان الزامات کو ثابت کرنے کا موقع دیے بغیر کونسل نے انہیں جج کے منصب سے برطرف کرنے کی سفارش صدرِ مملکت کو ارسال کردی۔ صدر عارف علوی نے اس سفارش پر عمل کرتے ہوئے جسٹس شوکت صدیقی کی برطرفی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ اپنے خلاف اس کارروائی کو جسٹس صدیقی نے عدالتِ عظمیٰ میں چیلنج کردیا مگر مسلسل ساڑھے پانچ برس تک ان کی یہ درخواست زیر التوا رہی۔ گزشتہ برس عدالتِ عظمیٰ کے منصف ِاعلیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 2010ء میں صدرِ آصف علی زرداری کی جانب سے دائر کردہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی سزا کے خلاف نظرثانی کی درخواست کے علاوہ جسٹس شوکت صدیقی کی زیر التوا اپیل کی سماعت کے لیے بھی اپنی سربراہی میں خصوصی بینچ تشکیل دے دیا۔ اس بینچ نے معاملے کی سماعت کے بعد اپنے 23 صفحات پر محیط فیصلے میں سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے مزیدلکھا کہ بدقسمتی سے عدالت ِعظمیٰ کی جانب سے اس معاملے کے فیصلے میں تاخیر ہوئی اور جسٹس صدیقی اس دوران اپنی ریٹائرمنٹ کی آئینی مدت پوری کرچکے ہیں اس لیے انہیں ان کے منصب پر بحال نہیں کیا جا سکتا تاہم وہ ریٹائرڈ تصور ہوں گے اور بطور جج پنشن سمیت تمام مراعات حاصل کرنے کے مجاز ہوں گے۔
عدالتِ عظمیٰ کے بھٹو کیس اور جسٹس شوکت صدیقی کیس میں سنائے گئے دونوں فیصلے اگرچہ تاریخی اہمیت کے حامل ہیں مگر اب بھی ان کے نتیجے میں ’’انصاف کے تقاضے‘‘ بہرحال پورے نہیں کیے گئے اور کم سے کم الفاظ میں بھی انہیں’’ادھورا انصاف‘‘ ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان فیصلوں کا ایک روشن پہلو تو یہ ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے ’’خود احتسابی‘‘کی ایک اچھی روایت کا آغاز کیا ہے جسے قرآن کے اس حکم کی جانب مثبت پیش رفت قرار دیا جائے گا کہ ’’انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو، اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین یا تمہارے رشتے داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔‘‘ تاہم یہ دونوں فیصلے کئی لحاظ سے تشنہ اور ادھورے ہیں۔ بھٹو کیس میں پیپلز پارٹی کے سابق رکن اسمبلی احمد رضا قصوری کے والد محمد احمد خاں کو بہرحال قتل کیا گیا تھا، انہیں کس نے اور کیوں قتل کیا؟ اس کا سراغ لگایا جانا بھی ضروری ہے، مگر عدالتِ عظمیٰ نے اس ضمن میں کوئی کاوش یا ہدایت اپنے فیصلے میں نہیں کی۔ جسٹس صدیقی کے کیس میں بھی اہم امر یہ ہے کہ ایک مقتدر ادارے کی عدلیہ کے معاملات میں مداخلت اور فیصلوں پر اثرانداز ہونے کے الزامات کی تحقیقات کرائی جائے اور اگر یہ ثابت ہوجائے تو اس کے مرتکبین کو قرار واقعی سزا کا اہتمام کیا جائے تاکہ مستقبل میں اس کی مؤثر روک تھام ہوسکے، کیونکہ یہ شکایات آج کل بھی زبان زدِ عام ہیں۔ انصاف میں تاخیر کو انصاف سے انکار کے مترادف قرار دیا جاتا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے جسٹس صدیقی کے فیصلے میں تاخیر کا اعتراف کیا ہے جس کا خاصا نقصان بھی ذاتی طور پر جسٹس شوکت صدیقی کو برداشت کرنا پڑا ہے، مگر عدالت نے کوئی ایسا اقدام تجویز نہیں کیا جس پر عمل درآمد سے ’دادا کے مقدمے کا فیصلہ پوتے یا پڑپوتے کو سنانے‘ کی روایت سے نجات مل سکے۔ (حامد ریاض ڈوگر)