عشقِ رسول ﷺ اور شاعرانہ ہنرمندی نعت کے دو بنیادی حوالے ہیں۔ نعت گوئی کا ایک بڑا مشکل مرحلہ توازن اور اعتدال کا ہے۔ شاعر جوشِ عقیدت میں یا تو حدود سے تجاوز کرجاتا ہے یا پھر سوئِ ادب کا مرتکب ہوتا ہے۔ دامن کو آلودہ کیے بغیر دریائے عشق میں غوطہ لگانا، اور پھر اس پورے تجربے کو تخلیقی تجربے کی سطح پر لے جاکر شاعرانہ ہنرمندیوں کے ساتھ بیان کرنا بہت دشوار ہے۔ شاعرانہ تخیل کو نعت گوئی میں بھی آدابِ عشق کا پاس ازبس ضروری ہے۔
پیشِ نظر کتاب ’’اعزاز‘‘ ممتاز مزاح نگار اور نعت گو شاعر خالد عرفان کا دوسرا نعتیہ شعری مجموعہ ہے۔ خالد عرفان کا پہلا مجموعہ نعت ’’الہام‘‘ 1986ء میں شائع ہوا تھا۔ ’’لقمہ شر‘‘،’’ بڑے لوگ‘‘، ’’نوپرابلم‘‘، ’’ایکسکیوزمی‘‘، ’’چٹکی میں زعفران‘‘اور’’ناقابلِ اشاعت‘‘ جیسے طنزیہ مزاحیہ مجموعوں کی تخلیق کے بعد نعت کی طرف آنا توفیق ِ ایزدی ہی ہے۔
خالد عرفان کے متعدد نعتیہ اشعار ایسے ہیں جنھیں عالمی شہرت حاصل ہوئی۔ان پر طرحی مشاعرے ہوئے۔ انڈیا اور امریکہ کی اکثر محفلوں کا آغاز ان کے اس شعر سے ہوتا ہے:
میں نعتِ احمدِ مختار پڑھنے والا ہوں
تم اپنے ذوقِ سماعت کو باوضو رکھنا
خالد عرفان کے پاس کہنے کے لیے بات بھی ہے اور کہنے کا سلیقہ بھی۔ بقول پروفیسر اقبال عظیم: خالد عرفان کے لہجے میں تازگی ہے، زبان و بیان میں وہ پختگی ہے جو عام نہیں، اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان اشعارکا غالب عنصر وہ پاسِ ادب ہے جو نعت گوئی کی شرطِ اوّل ہے۔ خدا اور رسول ﷺ کے ساتھ خوبصورت تعلق کے اس اظہار کو ملاحظہ کیجیے:
وہ میرے دل میں مکیں ہیں، یہ میری شہہ رگ میں
نہ مجھ سے دور محمدؐ، نہ مجھ سے دور خدا
……
وہ حبیبِ ربِّ جلیل ہیں
وہ مرے خدا کی دلیل ہیں
خالد عرفان اُن خوش نصیب لوگوں میں سے ہے جنھیں دلاور فگار، راغب مرادآبادی، محشر بدایونی، شاعر لکھنوی، امید فاضلی، شبنم رومانی، محسن بھوپالی جیسے شعراء کی صحبت حاصل ہوئی۔ مرحوم و مغفور نعیم صدیقی کی کتاب ’’محسنِ انسانیت‘‘نے انھیں نعتیہ شاعری کی طرف متوجہ کیا۔ علامہ نسیم احمد صدیقی نوری کے مشورے سے خالد عرفان نے اپنی نعتوں میں سائنسی تخیلات کو نمایاں جگہ دی، اور اس سائنسی دور کی ایجادات، اختراعات اور تجربات کو بعض اشعارِ نعت میں بڑی عمدگی سے تشبیہاتی و استعاراتی انداز میں برتا ہے۔درجِ ذیل اشعار اس کی عمدہ مثال ہیں:
رسولِ پاکؐ کی سیرت سے روشنی پاکر
تمام چاند ستارے ہمارے جادہ ہیں
جہاز و راکٹ واسکائی لیب و طیارے
براقِ سرورِ عالم سے استفادہ ہیں
………
معمور ہے ہستی کی ہر اک جنس انھیں سے
منسوب ہے ہر عہد کی سائنس انھیں سے
بقول ڈاکٹر ابوالخیر کشفی: یہ عہدِ حاضر کے ایک ایسے صاحبِ شعور و ایمان شخص کا نتیجہِ فکر ہے جو مذہب اور سائنس کی تطبیق کی کوشش کررہا ہے بلکہ آج سائنس کے لیے مذہب اور اسمِ محمد ﷺ کو ثبوت کا درجہ دے رہا ہے۔
معراجِ محمدؐ نے کیا راز جو افشا
وہ راز خلاؤں سے ہوا پوچھ رہی ہے
پھیلائے ہوئے گوشہِ دامانِ تجسس
سائنس محمدؐ کا پتا پوچھ رہی ہے
خالد عرفان نے نبی کریم ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے اہم اور بڑے واقعات کی عظمتوں تک پہنچنے اور تاریخِ کائنات کے لیے ان کی اہمیت کو سمجھنے کی سعیِ بلیغ کی ہے۔سیرتِ طیبہ کا ایک اہم باب سفرِ طائف بھی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ تبلیغِ دین کے لیے زیدؓ بن حارثہ کے ہمراہ طائف تشریف لے گئے۔ طائف کے لوگوں نے نہ صرف آپ ﷺ کی بات کو سننا گوارا نہ کیا، بلکہ اس پر مستزاد شہر کے اوباشوں کو آپؐ کے پیچھے لگادیا کہ آپؐ پر سنگ باری کرکے بھگادیں۔ اُن کی بدسلوکی اور سنگ باری کے باعث آپؐ لہولہان ہوگئے۔ملک الجبال آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اجازت طلب کی کہ اگر حکم ہو تو طائف کے دونوں پہاڑوں کو آپس میں ملادیاجائے۔ لیکن رحمۃ للعالمین ﷺ نے ان کی بربادی کے بجائے ہدایت کی دعا فرمائی۔ خالد عرفان کہتے ہیں:
یہ ظرف، یہ ادائے رسالت تو دیکھیے
دشمن بھی ان کے پیش نظر تھے دعاؤں میں
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو بے شمار معجزات عطا فرمائے۔ آپؐ کے لعابِ مبارک میں بھی اللہ تعالیٰ نے بڑی رحمتیں اور برکتیں پوشیدہ رکھی تھیں۔غزوہ خیبر کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ آشوبِ چشم میں مبتلا تھے۔ آپ ﷺ کے حکم سے انھیں بلایا گیا۔ آپ ﷺ نے اپنا لعابِ مبارک ان کی آنکھوں میں لگایا تو وہ فوراً ٹھیک ہوگئیں، جیسے انہیں کوئی تکلیف ہی نہ تھی۔اور بھی متعدد مواقع پر آپ ﷺ کے لعابِ مبارک کی برکتوں کا ظہور ہوا۔ اس حوالے سے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے:
انسانیت کو ان سے ملا نسخہِ شفاء
تریاق کے عجیب خزانے سخن میں تھے
کیمسٹری کی تجربہ گاہوں میں بھی نہیں
اجزائے کیمیا جو لُعابِ دہن میں تھے
چند متفرق اشعار دیکھیے:
منظرِ شہرِ نبیؐ آنکھ میں آئے اور پھر
ایسی نیند آئے کہ ہوجائیں مقفل آنکھیں
……
سنگریزوں کا کہیں نام نہیں مٹی میں
خاکِ طیبہ کو جو چھانا تو ستارے نکلے
……
اکثر یہ سوچتا ہوں گناہوں کے بعد میں
کیا میر اعشق لائقِ شایانِ نعت ہے؟
……
روزِ محشر وہی امت کے سہارے نکلے
ہم جنھیں بھول گئے تھے، وہ ہمارے نکلے
خالد عرفان صاحب کی نعتیہ شاعری اُن سارے اوصاف سے متصف ہے جن کا وجود اچھی شاعری کی ضمانت دیتا ہے:
ہر قافلہ عشق کے رہبر ہیں محمدؐ
انسانِ مکمل ہیں، پیمبر ہیں محمدؐ
اُمی ہیں مگر علم کا خاور ہیں محمدؐ
صد شکر کہ اُمت کا مقدر ہیں محمدؐ
میدانِ قیامت میں جہاں آپؐ وہاں ہم
ورنہ مرے سرکار، کہاں آپؐ، کہاں ہم
یہ بات بجا طور پر کہی جاسکتی ہے کہ پیش نظر نعتیہ شعری مجموعہ ’’اعزاز‘‘ عشقِ رسول ﷺ اور شاعرانہ ہنرمندی کا ایک حسین امتزاج ہے، جس کے لیے خالد عرفان لائقِ صد مبارک باد ہیں۔