قصہ یک درویش:تذکرئہ ننھیال

آٹھویں قسط

میں چھوٹی عمر میں تو ہر روز اپنی نانی اماں سے ملنے اُن کے ہاں جایا کرتا تھا۔ جب میں نے قرآن پاک حفظ کرلیا تو اکثر فارغ اوقات میں ننھیالی گھر کا چکر لگاتا تھا۔ ایک دن میں اپنی والدہ کے ساتھ نانا جان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ نانا جان نے حسبِ معمول والدہ محترمہ کے سر پہ محبت سے ہاتھ پھیرا اور مجھے اپنے ساتھ چمٹا لیا۔ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ مرحوم کی آنکھوں میں آنسو اتر آئے۔ میں حیران ہورہا تھا کہ ماجرا کیا ہے! مرحوم میری والدہ محترمہ سے بات کرتے ہوئے فرمانے لگے: ’’فضل بی بی! آپ کے بیٹے کو اللہ لمبی عمر اور اچھی صحت عطا فرمائے۔ قرآن پاک کی برکات سے اسے نوازے اور نیکی کے راستے پر قائم رکھے۔ اس طرح کے بچے کم ہی والدین کو دیر تک دیکھنے نصیب ہوتے ہیں۔‘‘ پھر اپنے بیٹے حافظ نور محمد مرحوم کا تذکرہ کیا اور ان کے تذکرے کے ساتھ آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔

میں نے دیکھا کہ میری والدہ بھی اس موقع پر رونے لگیں اور پھر دونوں باپ بیٹی نے میرے لیے ڈھیروں دعائیں کیں۔ آج بھی مجھے وہ منظر یاد ہے اور ان کی یہ دعائیں مجھے زندگی بھر قدم قدم پر سہارا دیتی رہی ہیں۔ میری نانی اماں جومجھ سے بے پناہ محبت کرتی تھیں، میری چھوٹی عمر میں جب کہ میں ابھی مکتب میں گیا بھی نہیں تھا، دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ وہ بہت عظیم خاتون تھیں۔ ان کا سراپا میری آنکھوں کے سامنے ہے اور میں اپنے دیگر تمام بزرگان کی طرح ان کے لیے بھی اللہ سے دعا کرتا رہتا ہوں کہ اللہ انھیں اپنے مقرب بندوں میں شامل فرمائے۔ برسبیل تذکرہ میرے دادا جان اپنی بھتیجی (میری نانی اماں) کا اُن کی زندگی میں ذکر کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ اگر محمد علی کے بجائے جنت بی بی میرا بھتیجا ہوتا تو میری بہت سی پریشانیاں ختم ہوجاتیں۔ بہرحال یہ انسانی سوچ کا ایک زاویہ ہے، ہوتا تو وہی ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے۔

قارئین محترم! میرے استادِ گرامی حافظ جان محمد مرحوم کے تذکرے میں آپ نے پڑھا ہے کہ آپ اپنی درس گاہ کا مقام تبدیل کرتے رہتے تھے۔ جب آخری بار انھوں نے اپنی درس گاہ ہماری جامع مسجد سے تبدیل کی تو میرے نانا جان حافظ فضل الٰہی مرحوم نے اپنی مسجد کی درس گاہ کی ذمہ داری خود سنبھال لی۔ اس مرتبہ میرے استادِ محترم کو تحفظات تھے کہ ہم لوگ ’’وہابی‘‘ ہوگئے ہیں اور آپ کو ’’وہابیوں‘‘ سے نفرت تھی۔ نانا جان نے نئے سرے سے مکتب کو منظم کیا، اگرچہ اس وقت آپ کی عمر خاصی ہوچکی تھی۔ لاٹھی کے سہارے چلتے تھے، کمر بھی ٹیڑھی ہوچکی تھی، مگر عزم بہت پختہ اور ارادہ بڑا مضبوط تھا۔ اللہ کا نام لے کر جب درس کا آغاز کیا تو چند دنوں میں ہی طلبہ و طالبات کی ایک بڑی تعداد درس گاہ کی زینت بن گئی۔ استادِ محترم حافظ جان محمد مرحوم نے طویل عرصے تک یہ کارِخیر جاری رکھا۔ ان کے مقابلے میں نانا جان حافظ فضل الٰہی مرحوم نے تھوڑے عرصے میں طلبہ کی ایک خاصی بڑی تعداد کو حفظ مکمل کرایا۔ مضبوط ڈسپلن کے علاوہ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ آپ کی کوئی اور مصروفیت نہیں تھی۔ ہمہ وقت یہی ذمہ داری ادا کرتے تھے۔

نانا جان کا قد کاٹھ بھی خوب تھا اور جسم بھی خاصا فربہ تھا۔ آپ گائوں کی مسجد میں بیٹھے طلبہ و طالبات کو پڑھا رہے ہوتے تو ایک عجیب، ایمان افروز سماں ہوتا تھا۔ کسی وقت بلند آواز میں کسی شاگرد کو جھڑکی دیتے تو ان کی گرج دار آواز ریلوے اسٹیشن تک سنائی دیتی تھی جس کا فاصلہ مسجد سے تقریباً ایک کلومیٹر تھا۔ اُس زمانے میں ابھی تک مسجد اور اسٹیشن کے درمیان کوئی عمارتیں وغیرہ نہیں بنی تھیں۔ درمیان میں کھلی فضا اور کھیت ہی ہوتے تھے۔ کسان بیلوں سے ہل چلاتے تھے، ٹریکٹر اور گاڑیاں اُس زمانے میں نہیں ہوتی تھیں، اس لیے نہ کوئی شور ہوتا، نہ ہنگامہ۔ پُرسکون ماحول، خاموش فضائیں، شفاف ہوائیں… نہ آلودگی، نہ بدبو! ایسے میں جب یہ شیرِ خدا آواز نکالتا تو دور تک اس کی گونج سنائی دیتی۔ اللہ تعالیٰ ان سب اہلِ علم کی کاوشوں کو شرفِ قبولیت بخشے جنھوں نے کئی نسلوں کو چٹائیوں پر بیٹھ کر قرآن پاک سے روشناس کرایا۔

ابتدائی بچپن کی یادوں سے ہر آدمی لطف اندوز ہوتا ہوگا۔ میں جب بھی یہ دریچہ کھولتا ہوں، دیر تک اس ماحول میں کھو جاتا ہوں۔ سراپا محبت و شفقت اور انتہائی نازبرداری کرنے والی جو شخصیات آج بھی لوحِ حافظہ پر موجود و محفوظ ہیں، ان میں میرے دونوں ماموں صاحبان کا بڑا نمایاں مقام ہے۔ میرے ننھیال اور ددھیال ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے اور ایک ہی چھوٹی سی بستی میں مقیم تھے۔ جب چلنا سیکھا تو اچھی صحت کے دوران صبح ہی صبح اپنے گھر سے نکل کر نانا ابو کے گھر چلے جانا معمول سا بن گیا۔ نانا ابو اور نانی اماں مجھے دیکھتے تو ان کی زبان پر بسم اللہ اور ماشاء اللہ کے الفاظ آجاتے۔ ادھر اپنے گھر میں معاملہ یہ ہوتا تھا کہ میری پھوپھی جان اور دادا ابو گھر سے میری غیرحاضری پر بے قرار ہوجاتے اور کوئی نہ کوئی قاصد مجھے گھر لے جانے کے لیے آجاتا۔

ننھیال کے پیار اور محبت کے حوالے سے ہماری زبان میں مختلف محاورے اور ضرب الامثال ہیں ’’یہ خالہ جی کا گھر نہیں‘‘ اور ’’باز آجائو ورنہ نانی اماں یاد آجائے گی‘‘ وغیرہ وغیرہ! نانی اماں مجھے ناشتا کرائے بغیر واپس نہ جانے دیتی تھیں۔ میں ابھی چھوٹا ہی تھا کہ نانی اماں کی وفات ہوگئی۔ اس موقع پر میں نے عورتوں کے علاوہ اپنے ماموں صاحبان کو بھی خاموشی سے آنسو بہاتے دیکھا تو میں بھی رونے لگا۔ نانی اماں کی شفقت تھوڑے سے عرصے کے لیے ہی شاملِ حال رہی مگر وہ مجھے آج تک یاد ہے۔ حق تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔

ماموں جان کسی کام کاج میں لگے ہوتے تو میری آمد پر فوراً کام چھوڑ کر میری طرف لپکتے۔ چھوٹے ماموں جان تو بازوئوں میں اٹھا لیتے، کبھی بازو اپنے سر سے اوپر کرکے یہ تاثر دیتے کہ میں ہوا میں پرواز کرنے لگا ہوں۔ شروع میں تو میں ڈر جاتا کہ نیچے گر جائوں گا مگر بعد میں معلوم ہوا کہ وہ مجھے نیچے نہیں گرنے دیں گے۔ بڑے ماموں جان اگرچہ پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن اردو اور پنجابی پڑھ سکتے تھے۔ انھیں بہت سے اشعار یاد تھے اور آواز اتنی سریلی کہ پرندے بھی محو ہوجائیں۔ وہ میرے گال تھپتھپاکر کوئی شعر پڑھتے جس کو میں سمجھ تو نہ پاتا لیکن یہ احساس ضرور ہوتا کہ وہ میری تعریف کررہے ہیں۔ یہ سب ان کی محبت تھی ورنہ میں کیا اور میری بساط کیا! ایک نحیف و نزار، مریل اور بیمار، دبلا پتلا مجھ جیسا بچہ کہاں کسی کی توجہ کا مرکز بن سکتا تھا! مگر خونیں رشتہ بھی اللہ کی عجیب اور عظیم نعمت ہے۔ میں جب کالج میں پہنچا تو لاہور سے واپسی پر ننھیالی گھر جاکر بہت محظوظ ہوتا۔ ماموں صاحبان کے سامنے میں کبھی کبھار یہ شعر پڑھتا:

اسیرِ پنجۂ عہد شباب کر کے مجھے
کہاں گیا میرا بچپن خراب کر کے مجھے

تو وہ دونوں بھائی بہت ہنستے اور فرماتے: ابھی تو تم بچے ہی ہو! مگر اب ہاتھوں پہ اچھا لاتو نہیں جاسکتا تھا۔

میں اپنے اللہ کی نعمتوں اور احسانات کو یاد کرتا ہوں تو قدم قدم پر ان کی تعداد اتنی ہے کہ سچ جانیں اگر گننا چاہوں تو گن نہیں سکتا۔ خود خالقِ کائنات نے قرآن مجید میں دو مرتبہ فرمایا ہے ’’‘‘ وَإِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْہَآ۔(سورہ ابراہیم آیت 34) وَإِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْہَآ(سورۃ النحل آیت 18) ترجمہ: ’’اے لوگو! اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو نہیںکرسکتے۔‘‘ نہ میرے اندر کوئی خوبی نہ حسن و جمال، نہ قوت و پھرتی نہ کوئی اور کمال! بچپن سے آج تک عزیز و اقارب، دوست احباب اور اللہ والوں کی ایک بڑی تعداد جس محبت کا اظہار کرتی رہی ہے، وہ ایک اعزاز بھی ہے اور امتحان بھی۔ مجھ سے محبت کرنے والے میرے ظاہر سے بھی واقف نہیں، باطن کو تو کوئی کیا جانے گا۔ عالم الغیب و الشھادۃ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اللہ والوں سے مجھے بے پناہ محبت ہے اور جو اللہ کے باغی ہیں ان کے لیے اپنے دل میں اپنی ساری کمزوریوں کے باوجود بھی کوئی نرم گوشہ کبھی پیدا نہیں ہوا۔ امام شافعیؒ کا ایک شعر جس کا حوالہ اور بھی کئی مقامات پر میں نے دیا تھا، اس کو اکثر گنگناتا ہوں:

احب الصالحین و لستُ منھم
لعل اللہ یرزقنی صلاحا

(میں اللہ کے صالح بندوں سے محبت کرتا ہوں، اگرچہ میں ا ن جیسا نہیںہوں، امید رکھتا ہوں کہ اللہ مجھے بھی صالحیت عطا فرما دے۔)

گزشتہ صفحات میں ہماری پرانی مسجد کا تذکرہ ہوا ہے تو مجھے ایک ولی اللہ شدت سے یاد آئے ہیں۔ سید ذاکر علی شاہؒ (کراچی والے) جو روزنامہ جسارت کے پبلشر اور جماعت اسلامی کے اولین ارکان میں سے تھے، میرے نہایت مشفق و مہربان دوست اور مربی تھے۔ ایک بار معلوم ہوا کہ شاہ صاحب کو زیر زمین پانی کی لہروں کا اندازہ لگانے کی خاص صلاحیت اللہ نے عطا فرمائی ہے۔ ہمارا علاقہ بارانی ہے۔ ہم نے اپنی بارانی زمینوں پر دو ٹیوب ویل لگا رکھے تھے ا ور ایک دو مزید لگانے کا ارادہ تھا۔ ایک مرتبہ شاہ صاحب منصورہ آئے تو میں نے آپ سے اس بات کا تذکرہ کیا۔ آپ نے بڑی خوشی سے فرمایا ’’جب چاہیں، میںآپ کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہوں۔‘‘ میں نے کہا کہ کل چلتے ہیں تو فرمانے لگے، ٹھیک ہے۔

اگلے روز ہم لاہور سے ظہرانے کے بعد روانہ ہو کر شام تک گائوں پہنچ گئے۔ شاہ صاحب نے دو دن ہمارے ساتھ گائوں میں گزارے۔ اتفاق سے اس روز بارش شروع ہو گئی۔ شاہ صاحب نے فرمایا کہ اگر زمین بالکل خشک ہو تو پانی کا اندازہ نسبتاً زیادہ درست ہوتا ہے۔ مگر گیلی زمین پر بھی اندازہ ہو سکتا ہے۔ اگلی دوپہر ہم زمینوں پر گئے اور مختلف مقامات کو دیکھنے کے بعد مرحوم نے ایک جگہ کا تعین کیا۔ ان کی اس رہنمائی کے مطابق وہیں بورنگ کرائی گئی اور ٹیوب ویل لگایا جو الحمدللہ کامیاب رہا۔

شاہ صاحب نے ایک بات مجھے لاہور واپس آ کر بتائی۔ فرمانے لگے کہ آپ کی مسجد میں مجھے بہت روحانی سکون ملا۔ رات کو جب میں مسجد میں گیا تو عجیب منظر دیکھا۔ آپ کی مسجد میں ناری مخلوق کا قیام ہے اور وہ سب لوگ انتہائی متقی اور نیک نفس ہیں۔ وہ سب عبادت میں مشغول تھے۔ ان کے درمیان اگر ان کی نوع کا کوئی شرانگیز فرد یا افراد آنے کی کوشش کریں تو یہ لوگ انھیں مار بھگاتے ہیں۔ ان سے کسی بھی انسان کو کوئی گزند یا شر نہیں پہنچ سکتا،یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر پختہ ایمان رکھنے والے، عبادت گزار اور قرآن سے عشق کی حد تک لگائو رکھتے ہیں۔ شاہ صاحب کو اللہ نے جماعت اسلامی کے قافلہِ سخت جان میں کئی سال جدوجہد کرنے کی توفیق عطا فرمائی جو ان کے لیے بہت بڑا سرمایہ ہے۔ اس کے ساتھ شاہ صاحب کو دیگر مختلف میدانوں میں جو ذاتی خصوصیات حاصل تھیں، یہ بھی اللہ اپنے خاص بندوں کو ہی عطا فرماتا ہے۔ ہم تو اس میدان سے بالکل ناواقف و نابلد ہیں۔

شاہ صاحب کی رودادِشب سن کر مجھے کوئی تعجب نہ ہوا۔قرآن مجید کے کئی مقامات، ان کی تفسیر اور آنحضورؐ کی احادیث اور سیرت کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کی طرح جن بھی کافر اور مومن، متقی اور فاسق و فاجر، شریف اور شرانگیز ہر طرح کے ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں بالخصوص سورۂ احقاف کا آخری رکوع، سورہ الجّن پوری کی پوری اور دیگر کئی سورتوں کی مختلف آیات لائقِ مطالعہ ہیں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مکہ معظمہ میںمسلمان جنّ حصولِ تعلیم کے لیے حاضرہوا کرتے تھے۔ جس مقام پر یہ مجلس لگتی تھی، بعد میں اسی مقام پر جو مسجد تعمیر کی گئی اس کا نام ’’مسجد جن‘‘ ہے جو آج بھی موجو د ہے۔

مکہ معظمہ میں عمرے اور حج کی سعادت حاصل کرنے والے خوش قسمت مسلمانوں کی بڑی تعداد اس مسجدکی زیارت کے لیے وہاں جاتی اور نفل ادا کرتی ہے اور فرض نمازوںکے اوقات میں باجماعت نماز کی سعادت حاصل کرتی ہے۔ عبداللہ بن مسعودؓ کئی راتوں کو حضور پاکؐ کے ساتھ ہوتے تھے۔ آپؐ ایک دائرہ کھینچ کر حضرت ابن مسعودؓ سے فرماتے کہ اس دائرے کے اندر بیٹھے رہیں۔ پوری وادی اللہ کے بندوں سے بھری ہوئی ہے جو تمھیں نظر نہیں آرہے۔ پھر آپؐ ان کو قرآن کی تعلیم دیتے اور دیگر ہدایات دینے کے بعد رخصت کر کے واپس لوٹتے۔ (جاری ہے)