غزہ:’’آپریشن کاسٹ لیڈ‘‘… اسرائیلی فوجیوں کی گواہی

آپریشن کاسٹ لیڈ میں حصہ لینے والے اسرائیلی فوجیوں نے بعد میں اپنے بیانات اور گواہیوں میں کہا کہ کوئی ایک گھر بھی ایسا نہیں ملا جو سلامت رہا ہو۔ بہت سے مقامات پر مناظر ویسے ہی تھے جیسے دوسری جنگِ عظیم سے متعلق ہالی وڈ میں بنائی جانے والی فلموں میں دکھائے جاتے ہیں، یعنی زندگی کا نام و نشان مٹادیا گیا تھا۔ فوجیوں نے بتایا کہ دو دن تک غزہ میں ایک ایک گھر کو چُن چُن کر تباہ کیا گیا۔ ایک پوری بٹالین اس کام میں جُتی رہی۔ فوجیوں نے بتایا کہ ایک دن اُنہوں نے حماس کے ایک جنگجو کو دیکھا جو اُنہیں دیکھتے ہی غائب ہوگیا۔ غالب گمان یہ تھا کہ وہ کسی سرنگ میں گُھسا ہوگا۔ اُسے ختم کرنے کے لیے ایک پورا باغ اجاڑ دیا گیا۔ اس کام کے لیے خصوصی طور پر بلڈوزر منگوائے گئے۔ مکانات، کھیت کھلیان، پولٹری فارم، سڑکیں، پُل سبھی کچھ تباہ کردیا گیا۔ ایک فوجی نے اپنی گواہی میں کہا کہ جو کچھ ہم نے کیا اور دیکھا اُسے دیکھ کر بھی اُس کی حقیقت پر یقین نہیں آتا تھا۔ اُس فوجی کے لیے یہ سب کچھ اس لیے بہت عجیب اور حیرت انگیز تھا کہ محض پانچ دن قبل اُس نے پورے علاقے کو ہرا بھرا دیکھا تھا۔ پھر جب وہ پلٹ کر گیا تو وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ ملبے سے اٹا ہوا میدان پڑا تھا اور سمندر صاف دکھائی دیتا تھا۔ ایک فوجی نے آپریشن کاسٹ لیڈ میں حصہ لینے کے بعد ایک ٹی شرٹ ڈٰیزائن کی جس میں ایک بہت قوی الجثہ فوجی کو ایک مسجد میں گھومتے ہوئے دکھایا گیا تھا اور اس پر نعرہ درج تھا کہ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ اس معاملے کو ختم کرسکتے ہو تو پھر سب کچھ تباہ بھی کیا جاسکتا ہے۔

فلسطینیوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے اسرائیلی حکومت نے بار بار کہا کہ غزہ میں آپریشن کاسٹ لیڈ کے دوران نظم و ضبط کا پورا خیال رکھا گیا، جنگی اصولوں اور قوانین کی خلاف ورزی نہیں ہونے دی گئی اور کسی بھی سویلین پراپرٹی کو کسی جواز کے بغیر تباہ نہیں کیا گیا۔ فلسطینیوں کے زخموں پر مزید نمک چھڑنے کے لیے اسرائیلی حکومت نے آپریشن کاسٹ لیڈ کے بعد بے ضابطگیوں کی تحقیقات کا ڈراما رچایا اور ایک فوجی کو کسی نامعلوم مقام پر کسی جواز کے بغیر طاقت استعمال کرنے پر سزا سُنائی گئی۔ اس حوالے سے کوئی تفصیل نہیں بتائی گئی۔

اسرائیلی حکومت نے بار بار یہ دعویٰ کیا کہ آپریشن کاسٹ لیڈ میں جو طاقت استعمال کی گئی وہ حماس کی طرف سے لاحق خطرے کے تناسب سے تھی۔ اسرائیلی فوجیوں نے آپریشن کاسٹ لیڈ کے بعد جو کچھ بتایا اُس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوج نے جو طاقت استعمال کی وہ حماس کی طرف سے لاحق خطرے سے کئی گنا زیادہ تھی۔ اسرائیلی فوجیوں کے بیانات کی روشنی میں کوئی بھی بلا خوفِ تردید کہہ سکتا ہے کہ اسرائیل نے حماس کی طرف سے لاحق خطرے کو تو محض بہانے کے طور پر استعمال کیا اور وہ سب کچھ کیا جو اُسے کرنا ہی تھا۔ مقصود صرف یہ تھا کہ غزہ میں زیادہ سے زیادہ تباہی واقع ہو اور عام فلسطینیوں کے لیے ڈھنگ سے محض زندہ رہنا بھی بہت بڑے چیلنج میں تبدیل ہوجائے۔ اسرائیلی فوجیوں نے بتایا کہ ایسی تباہی کا اُنہوں نے سوچا بھی نہ تھا۔ بمباری جاری رہتی تھی، توپیں خاموش ہونے کا نام نہ لیتی تھیں، زمین مسلسل کانپتی رہتی تھی، فائرنگ بھی مستقل جاری رہتی تھی۔ بہت سے فوجیوں کو اندازہ ہی نہ تھا کہ طاقت اِتنے بڑے پیمانے پر استعمال کی جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ کبھی کبھی تو ہمیں اُس گھر سے بھی نکل جانے کو کہا جاتا تھا جہاں سے فائرنگ کی جاتی تھی کیونکہ متواتر فائرنگ سے گھر کی دیواریں تک لرز لرز کر کمزور پڑ جاتی تھیں اور پھر اُن کے گرنے کا خدشہ رہتا تھا۔

درجنوں اسرائیلی فوجیوں نے اپنی گواہیوں میں صاف کہا کہ جتنے بڑے پیمانے پر طاقت استعمال کی گئی اُس کا کسی بھی لحاظ سے کوئی جواز نہ تھا۔ یہ تو محض پاگل پن تھا۔ فوجیوں سے کہا گیا کہ زیادہ سے زیادہ طاقت کا مظاہرہ کرنا ہے کیونکہ عسکری قوت میں اسرائیلی فوج حماس سے بہت بڑھ کر تھی۔ اور اس کا مظاہرہ لازم تھا۔ کئی فوجیوں نے بتایا کہ اُنہوں نے نہتے شہریوں کو نشانہ بنایا اور اُن کے خلاف اِتنی طاقت استعمال کی جس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔

اسرائیلی بریف میں یہ نکتہ زور دے کر بیان کیا گیا کہ فوجیوں کو ہدایت کی گئی کہ طاقت بروئے کار لانے کے عمل میں کوشش کی جائے کہ کسی بھی ایسی پراپرٹی کو کم سے کم نقصان پہنچے جو حماس یا کسی اور جنگجو گروپ کے زیرِ استعمال نہ ہو، نہ کبھی زیرِ استعمال رہی ہو۔ انسانی حقوق کی مستند تنظیموں نے مگر کچھ اور ہی کہانی سُنائی۔ اُن کا بیان تھا کہ غزہ میں بیشتر سویلین ڈھانچے کو کسی جواز کے بغیر نشانہ بنایا گیا۔ سب کچھ جان بوجھ کر تباہ کیا گیا تاکہ فلسطینیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ مسائل پیدا ہوں اور وہ ڈھنگ سے جینے کے قابل نہ ہوسکیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور بنیادی انسانی حقوق کی علَم بردار دیگر تنظیموں نے اپنی رپورٹس میں بتایا کہ غزہ کے طول وعرض میں کم و بیش 90 فیصد سویلین ڈھانچے کو تباہ کردیا گیا۔ جوس، بسکٹ، کولڈ ڈرنکس اور دیگر اشیائے خور و نوش تیار کرنے والی فیکٹریوں کو صفحۂ ہستی سے مٹادیا گیا۔ متعدد علاقوں میں جس طور فیکٹریوں، کھیتوں اور باغات کو تباہ کیا گیا اُس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سب کچھ منصوبہ سازی کے تحت تھا، یعنی اسرائیلی حکومت چاہتی تھی کہ غزہ کے باشندے ڈھنگ سے جینے کے قابل ہی نہ رہیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے بتایا کہ اسرائیلی فوج نے کسی جواز کے بغیر بعض علاقوں کو کنٹرول میں لے رکھا تھا۔ وہاں بہت بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی گئی۔ مکانات تباہ کرنے کے بعد کھیتوں اور باغات کو بھی مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا۔ ایسا کرنے کا بظاہر کوئی جواز نہ تھا کیونکہ اُن علاقوں سے اسرائیلی فوج کو کسی بھی طرح کا کوئی خطرہ لاحق نہ تھا۔

یہ نکتہ بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ اسرائیلی فوج نے حماس پر بظاہر قابو پانے کے بعد جب یہ محسوس کرلیا کہ اب لڑائی زیادہ دن جاری نہیں رکھی جاسکتی کیونکہ ایسا کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہ رہے گی تب بہت بڑے پیمانے پر گولہ باری اور فائرنگ کرکے متعدد علاقوں کو ملیا میٹ کردیا گیا۔ یہ سب کچھ بہت شرم ناک تھا۔ خود اسرائیلی فوجیوں نے بتایا کہ اُنہیں یہ سب کچھ بہت عجیب لگ رہا تھا کیونکہ اِتنے بڑے پیمانے پر تباہی و بربادی یقینی بنانے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ عزبت عبدِ ربو نامی علاقے میں عمارتوں کو اُس وقت تباہ کیا گیا جب اسرائیلی فوج نے پورے علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا۔ جب فوج نے پورے علاقے کو کنٹرول میں لے ہی لیا تھا تو پھر طاقت کے اندھا دھند استعمال کی کیا ضرورت تھی؟ ایک اور بڑے علاقے میں تمام عمارتوں کو دو دن کے خصوصی آپریشن میں بلڈوزروں اور اینٹی ٹینک مائنز کی مدد سے تباہ کیا گیا۔ یہ سب کچھ ایک کرائسز گروپ نے بھی نوٹ کیا اور اِس پر انتہائی حیرت کا اظہار کیا۔ زمینی حقیقتوں سے صاف اندازہ ہوتا تھا کہ جو کچھ بھی کیا جارہا ہے وہ کسی جنگجو گروپ کے خلاف کارروائی نہیں بلکہ ایک پورے علاقے کو جان بوجھ کر تباہ کیا جارہا ہے تاکہ وہ دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہوسکے۔ کارڈزمین نے اپنی رپورٹ میں اسرائیلی بریف کا حوالہ دیا کہ خالی پڑے ہوئے مکانوں کو اس لیے تباہ کیا گیا کہ حماس یا تو انہیں استعمال کررہی تھی یا کرسکتی تھی۔ یہ جواز بھی بہت بھونڈا ہے کیونکہ بعد میں خود اسرائیلی فوج نے یہ بات تسلیم کی کہ سیکڑوں مکانات کو اس طور تباہ کیا گیا کہ اُن کی تباہی کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا۔

ایک اسرائیلی فوجی افسر نے انتہائی بے شرمی سے یہ بڑھک ماری کہ اتنے بڑے پیمانے پر سویلین ڈھانچے کو تباہ کرنے کے بعد یہ امید کی جانی چاہیے کہ اربن گوریلا وارفیئر کا ڈی این اے تباہ کردیا گیا ہے یعنی اب حماس کبھی اٹھ نہ سکے گی اور اسرائیل کے لیے خطرہ بھی نہ بن سکے گی۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ اسرائیل کے نائب وزیر اعظم ایلی یِشائی نے کہا کہ حماس کو اب کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔ اگر وہ سمندر میں بھی حملہ کرے گی تو ہم اُس کے داغے ہوئے ہر راکٹ کے بدلے 100 مکانات تباہ کریں گے۔ یہ ساری باتیں انتہائی شرم ناک تھیں کیونکہ حماس کی طرف سے تو اسرائیل کو برائے نام نقصان پہنچا تھا۔ دو طرفہ تباہی کا موازنہ کرنے والوں نے بتایا کہ ایک اسرائیلی گھر کے بدلے فلسطینیوں کے 6600 سے زائد گھر تباہ کیے گئے۔ اتنی بڑی تباہی پر بھی اسرائیلی فوج کی پیاس نہیں بجھی۔

مسئلہ صرف رہائشی مکانات کا نہ تھا۔ اسرائیلی فوج نے غزہ کی مذہبی اور ثقافتی شناخت کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ اسرائیلی کاررائیوں میں 30 مساجد مکمل طور پر تباہ ہوئیں اور 15کو شدید نقصان پہنچا۔ کارڈزمین نے اسرائیلی فوج کے بیانات اور بریفنگز کی بنیاد پر جو رپورٹ تیار کی اُس میں بتایا گیا کہ اسرائیلی فوج نے کارروائیوں کے دوران صرف اُن مساجد کو نشانہ بنایا جن کے بارے میں شبہ تھا کہ حماس کے جنگجو اُنہیں اپنے ٹھکانوں کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی فوج نے آنکھیں بند کرکے ہر عمارت کو نشانے پر لیا تاکہ اُسے مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کیا جاسکے۔

اسرائیلی فوج نے ابتدائی بیانات میں یہ کہا کہ بعض مساجد کو نشانہ بنایا گیا تو اُن میں مزید دھماکے ہوئے جس کا مطلب یہ تھا کہ اُن میں اسلحہ اور گولہ بارود ذخیرہ کیا گیا تھا۔ پھر جب مساجد کو بہت بڑے پیمانے پر نشانہ بنایا جانے لگا تو اسرائیلی فوج نے اس حوالے سے کوئی وضاحت کرنے کی زحمت گوارا کرنا بھی چھوڑ دی۔ اسرائیلی فوج نے ایک مسجد کو نشانہ بنایا تو وہاں 15 افراد شہید ہوئے۔ دعویٰ یہ کیا گیا تھا کہ مسجد میں حماس کا ٹھکانہ اور اسلحہ خانہ ہے، مگر بعد میں معلوم ہوا کہ ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ اُس مسجد سے حماس کا کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ سب کچھ گولڈ اسٹون رپورٹ میں درج ہے۔ اسرائیلی حکومت نے اس رپورٹ کے دعوے کی تردید کی بھی زحمت گوارا نہ کی۔ جب اِس حوالے سے شدید نکتہ چینی کی گئی تب اسرائیلی حکومت نے یہ نیم مردہ سی وضاحت جاری کی کہ مسجد کے مرکزی دروازے کے پاس موجود حماس کے دو جنگجوؤں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس کارروائی میں مسجد بھی تباہ ہوگئی، بس۔ گولڈ اسٹون رپورٹ میں دفاعی امور کے ماہر نے بتایا کہ اسرائیلی حکومت کا یہ دعویٰ یکسر بے بنیاد تھا کہ حماس نے مساجد کو اسلحہ چھپانے کے لیے استعمال کیا کیونکہ غزہ میں اور بہت سے ایسے مقامات تھے جہاں اسلحہ بہت آسانی سے اور محفوظ طور پر چھپایا جاسکتا تھا۔ اور پھر مساجد میں اسلحہ اور گولہ بارود بھلا کیوں چھپایا جاتا جبکہ اسرائیلی انٹیلی جنس نے پہلے ہی اُنہیں ہدف بنا رکھا تھا اور اُن کی نشاندہی بھی کی جاچکی تھی!

اسرائیلی حکومت نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ حماس نے اسلحہ رکھنے کے لیے مساجد کا انتخاب اس لیے کیا کہ اُسے معلوم تھا کہ اسرائیلی فوج مساجد پر حملے نہیں کرتی، انہیں تباہ نہیں کرتی۔ یہ دعویٰ انتہائی بھونڈا تھا کیونکہ2001ء سے 2008ء کے دوران اسرائیل نے غزہ میں کم و بیش 55 مساجد کو نشانہ بنایا، انہیں شدید نقصان پہنچایا یا تباہ کیا۔ (جاری ہے)