مہنگائی کا طوفان اور حکمران طبقات

8 فروری کے متنازع ترین انتخابات کے انعقاد کے بعد مقتدر قوتوں نے ملک اور قوم پر پہلے ہی سے بارہا کے آزمودہ جس حکمران ٹولے کو مسلط کیا ہے، اس کے طور اطوار اور رنگ ڈھنگ دیکھ کر اہلِ وطن کے ذہن میں بے اختیار مرزا غالب کا یہ شعر عالمِ یاس و نااُمیدی میں گونجنے لگتا ہے، کیوں کہ انہیں بظاہر تو اصلاحِ احوال کی کوئی امید نظر نہیں آتی:

کوئی اُمید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی

میڈیا رپورٹس کے مطابق اِس وقت وطنِ عزیز میں مہنگائی کی شرح تقریباً 29 فیصد ہے۔ مستقبل قریب میں موجودہ حکمرانوں کی جانب سے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید بے محابہ اضافے کی جو ’’نوید‘‘ سنائی گئی ہے اس کی بنا پر لامحالہ اس میں کئی گنا مزید اضافہ ہوجائے گا۔ ماہرینِ معاشیات کے مطابق گزشتہ کچھ عرصے میں ناقص اور بے سمت حکومتی پالیسیوں کے سبب ملک میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے پاکستانیوں کی تعداد 11 کروڑ سے بھی بڑھ چکی ہے۔ ایک ایسے غریب ترین ملک میں جہاں کے باشندے مارے غربت اور حد درجہ مہنگائی کے نانِ شبینہ کے بھی محتاج اور عالمِ ناامیدی میں مع اپنے بچوں کے خودکشی کرنے تک پر مجبور ہوچکے ہیں، اس ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی نومنتخب وزیراعلیٰ مریم نوازشریف کی گاڑی کے لیے پونے تین کروڑ روپے کے نئے ٹائر خریدے جانے کی خبر کا سامنے آنا بلاشبہ ستم رسیدہ اور مسائل و مصائب میں مبتلا عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مصداق ہی قرار پائے گا۔ دوسری جانب پنجاب حکومت کے ترجمان کا یہ بیان کس قدر بے تکا اور مضحکہ خیز ہے کہ ’’کیوں کہ جس گاڑی کے ٹائر تبدیل کیے جارہے ہیں وہ دو برس پرانے تھے لہٰذا یہ عمل ضروری سمجھا گیا ہے۔ ’’تفو برتو! اے چرخ گرداں تفو‘‘۔

ایک طرف ہمارے ملک میں مہنگائی کی شرح کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے تو دوسری جانب اطلاع کے مطابق ہمارے پڑوسی ممالک بنگلہ دیش اور بھارت میں یہ شرح تقریباً 6 فیصد کے قریب ہے۔ افغانستان میں طالبان حکومت کی درست نہج پر استوار کردہ معاشی پالیسیوں کے سبب اس کی معیشت تیزی سے شاہراہِ ترقی پرگامزن ہوچکی ہے۔ اس کی ایک بہت بڑی وجہ وہاں پر ہمارے ملک کی طرح بیورو کریٹس پر انحصار نہ ہونا بھی ہے۔ درست کہتے ہیں دردِ دل کے حامل معیشت کے ماہر کہ ہمارے ملک کی معاشی تباہی کے پسِ پردہ ایک بڑا اور نمایاں کردار بیورو کریسی کی عیاشیوں اور ان کے اللے تللوں کا بھی ہے۔ ورلڈ بینک نے بھی افغانستان کی معاشی صورتِ حال کو بے حد تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں مہنگائی کی شرح میں 9.1 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے اور پاکستانی روپے کے مقابلے میں افغان کرنسی 29.3 فیصد مستحکم ہوئی ہے۔ یہ ایک امر واقع ہے کہ پڑوسی ممالک اور خطے کے مقابلے میں افغانستان میں افراطِ زر کی شرح بہت ہی کم ہے، اور اس نے 2023ء میں 1.9 بلین ڈالر کی بھارت کو اور پاکستان کو برآمدات بھی کی ہیں۔ یہ سب کچھ اس کے روشن مستقبل کا واضح مظہر ہے۔

اس کے برعکس پاکستان کی تمام پالیسیوں میں مقتدرہ کے بے جا عمل دخل نے ہمیں بجائے عروج کے ترقیِ معکوس سے دوچار کر رکھا ہے جس پر جتنا بھی اظہارِ افسوس کیا جائے، کم ہے۔

افسوس تو اس امر پر بھی بے حساب کیا جانا چاہیے کہ وطنِ عزیز کے دوسرے بڑے صوبے سندھ میں بھی اہلِ صوبہ ہر حوالے اور ہر لحاظ سے شدید ترین پریشانیوں اور مسائل سے دوچار ہیں، اور صوبے پر گزشتہ لگ بھگ ڈیڑھ عشروں سے حکومت کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی بجائے عوام کی تکالیف کو کم یا ختم کرنے کے‘ الٹا ان میں اور زیادہ، بلکہ بہت زیادہ اضافے کا موجب بنی ہوئی ہے۔ اب ایک مرتبہ پھر سے صوبے پر تیسری مرتبہ سید مراد علی شاہ بطور وزیراعلیٰ حکومت کرنا شروع کرچکے ہیں اور انہوں نے اپنی صوبائی کابینہ میں اس مرتبہ بھی انہی پرانے چہروں کو لیا ہے جو ماضی میں اہلِ سندھ کے لیے کوئی بھی کارنامہ سرانجام نہیں دے سکے ہیں۔ سیاسی مبصرین کی رائے میں متنازع انتخابات کے نتیجے میں سندھ کی جو کابینہ تشکیل پائی ہے وہ دراصل صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ اور اصل وزیراعلیٰ سندھ محترمہ فریال تالپور کی رضامندی اور آشیرباد کا نتیجہ ہے۔ سندھ میں جتنی شدید بدامنی ہے اور اہلِ صوبہ جس قدر اپنے جان، مال، عزت اور آبرو کے حوالے سے ہمہ وقت احساسِ عدم تحفظ سے دوچار رہتے ہیں اس کے تذکرے سے سندھی اخبارات کے کالم اور اداریے معمور ہیں۔ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی ہر دم اسی کا رونا رویا جاتا ہے، لیکن مجال ہے کہ حکمرانوں کا اس حوالے سے کبھی کوئی اظہارِ ہمدردی سامنے آیا ہو۔

سندھ کے کچے کے علاقے ڈاکوئوں کے محفوظ ٹھکانوں میں تبدیل ہوچکے ہیں جہاں پر اِس وقت بھی اُن کے زیر قبضہ لگ بھگ 80 مغوی ہیں۔ نگراں حکومتِ سندھ نے بھی بہت دعوے کیے تھے کہ ہم ضلع گھوٹکی، کندھ کوٹ، کشمور، شکارپور، جیکب آباد میں رینجرز اور فوجی آپریشن کرکے تمام ڈاکوئوں کا قلع قمع کردیں گے۔ بلا مبالغہ نام نہاد پولیس آپریشن کے نام پر کروڑوں روپے تو کرپشن کی نذر کر دیے گئے تاہم فوجی آپریشن نہ ہو سکا۔ قوم پرست حلقے اس حوالے سے بھی مقتدر حلقوں پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ اس ساری بدامنی اور اغوا برائے تاوان کے پسِ پردہ دراصل یہ عزائم کارفرما ہیں کہ مذکورہ اضلاع کی کچے کی ہزاروں ایکڑ سرسبز و شاداب زمین کو اپنے قبضے میں لے لیا جائے، اور یہاں پر چھائونیاں تعمیر کرنا مقصود ہے۔

بے چارے اہلِ سندھ درمیان میں پس رہے ہیں۔ مہنگائی، بدامنی، بے روزگاری نے ان کی زندگی اجیرن کر ڈالی ہے اور بظاہر صورتِ حال میں بہتری دکھائی نہیں دیتی۔