بہترین طبی سہولتوں کے ساتھ مفت اسپتال کا خواب کیسے پورا ہوا۔۔انڈس اسپتال کے ڈائریکٹر عبدالباری کا انٹریو

ڈاکٹر عبدالباری خان کا پاکستانی معاشرے میں خدمت کے حوالے سے اہم اور بڑا نام ہے۔ آپ پاکستانی افرادِ معاشرہ کی بڑی تعداد کو ایک چھت کے نیچے صحت کی معیاری سہولیات منظم انداز میں فراہم کررہے ہیں۔ انڈس اسپتال کی تعمیر ایک ایسا خواب تھا جو شاید کم ہی لوگ دیکھ پاتے ہیں، اور ڈاکٹر صاحب نے اپنے خواب کو حقیقت کردکھایا۔ آپ کی زندگی کی کہانی متاثر کن اور قابلِ تقلید ہے۔
ڈاکٹر باری کی زندگی کی کہانی اور ان کی خدمات کو سمجھنے کے لیے ان کا یہ تفصیلی انٹرویو نوجوان نسل اور سماج کے لیے کچھ کرنے کی خواہش رکھنے والے لوگوں کے لیے یقیناً دلچسپی کا باعث ہوگا۔ انٹرویو کے دو حصے اس سے قبل پیش کیے جاچکے ہیں، اب اس کا تیسرا اور آخری حصہ نذرِ قارئین ہے۔

فرائیڈے اسپیشل: مریضوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے ایک بڑا اسپتال بنانا یا ہر شہر میں اسپتال بنانا بہتر ہے۔ اس سے دباو کو کم کیا جاسکتا ہے اور معیاری طبی سہولیات ہر کونے میں پہنچ سکتی ہیں۔ آپ کی کیا رائے ہے؟

ڈاکٹرعبدالباری:ہم کراچی یا لاہور میں اتنا بڑا کام نہیں کررہے۔ اسپتال کے علاوہ ہمارا ماڈل HUB SPOKE MODEL ہے۔ جیسے کراچی کا اسپتال HUB اور اس کے بہت سے SPOKES ہوں گے۔ ہم اس وقت دیہی علاقوں میں کام کررہے ہیں خواہ سندھ کا ہو یا پنجاب کا۔ SPOKES اسپتال CONNECTEDہو HUB سے۔ ہماری کوشش تھی کہ پہلے صوبائی ہیڈکوارٹر میں ایک اسپتال ہو جیسے کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ۔

فرائیڈے اسپیشل: کوئی ایسا مریض جو آج تک یاد رہ گیا ہو، جس نے ہمت بڑھائی ہو کہ یہ خدمت اور زیادہ کرنی چاہیے؟

ڈاکٹرعبدالباری:کینسر کے مریض بچے جب صحت یاب ہوکر جاتے ہیں اور جس طرح سے وہ شکریہ ادا کرتے ہیں اس کا احساس ہی ناقابلِ بیان ہے۔ مریض دعائیں دیتے ہیں اور میں چلتا ہی اُن کی دعاوں سے ہوں۔ میں اپنے عملے سے بھی کہتا ہوں کہ مریض کی دعا بغیر کسی رکاوٹ کے عرش تک پہنچتی ہے، وی آئی پی ہم نہیں یہ مریض ہیں۔ یہ تمہاری تنخواہ لاتے ہیں۔ ان کی دعا لینا، کبھی بددعا نہ لینا ورنہ وہ دعا سے زیادہ رفتار سے عرش تک جاتی ہے۔

فرائیڈے اسپیشل: مریض ہر نوعیت کا آتا ہوگا۔ اپنی اپنی کیفیت کے حساب سے کبھی خاموش، کبھی غصیل، کبھی شور شرابہ کرنے والا۔ عملے کے لوگ بھی انسان ہیں۔ کبھی غصہ آگیا، جھنجلاہٹ اور اکتاہٹ۔ عملے کی تربیت کیسے کی جاتی ہے ان معاملات سے نبردآزما ہونے کے لیے؟

ڈاکٹرعبدالباری:اصل بات رول ماڈل کی جانب سے رویّے کی ہوتی ہے۔ اگر رول ماڈل کا رویہ اچھا ہوگا تو عملہ بھی سیکھے گا اور ویسا ہی ردعمل دے گا۔ آپ انڈس اسپتال میں پوچھیں اسپتال کیسے چلتا ہے؟ عملے کا فرد کہے گا اللہ چلاتا ہے۔ ہم نے تربیت میں یہ بات پختہ کردی ہے کہ سب کچھ اللہ چلا رہا ہے۔ مریضوں کے ساتھ بہترین سلوک ٹریننگ کا حصہ ہے۔ ہمارے اپنے دیگر چیک اینڈ بیلنس ہیں۔ کسی مریض کے ساتھ بدتمیزی، بدتہذیبی پر NO TOLERENCE پالیسی ہے۔ جنسی ہراسگی پر ZERO TOLERENCE ہے۔ کرپشن پر بھی ZERO TOLERENCE ہے۔ ہمارے پاس لوگ اسی معاشرے سے آتے ہیں، لیکن ہماری نگرانی اتنی سخت ہے کہ ہم انہیں پکڑلیں گے۔ کوئی پکڑا جائے تو اسے سبق آموز بناتے ہیں دیگر کے لیے۔ میں خوش قسمت سمجھتا ہوں اپنے آپ کو کہ اللہ نے مجھے اچھے اچھے لوگ دیے جن میں کچھ کرنے کی لگن تھی، اور وہ ایسے ہیروز ہیں جو سامنے نہیں آتے مگر یہ سب کچھ وہی لوگ کرتے ہیں۔ ہمارے پاس کوئی آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں یہ کرسکتا ہوں۔ اُس کا جذبہ اور انداز بتا دیتا ہے کہ یہ کچھ کرسکتا ہے۔ پھر ہم اسے ساتھ ملا لیتے ہیں اور آزاد کردیتے ہیں کہ اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کرو۔ میں تو بس گھومتا پھرتا رہتا ہوں۔ میرا مشن ہے کہ انڈس اسپتال کو ایک ادارہ بناوں۔ مجھے کوئی نہیں جانتا مگر انڈس اسپتال کو لوگ جانتے ہیں۔ یہ اسپتال ایک برانڈ بن چکا ہے۔ میرا KEY PERFORMANCE INDICATOR [KPI] بھی یہی تھا۔ جب ہم شروع کررہے تھے میرا ایک برانڈ تھا، میں 10 پر تھا انڈس 0 پر تھا۔ آج انڈس 10 پر ہے۔ انڈس کی ترقی غیر معمولی ہے۔

فرائیڈے اسپیشل:کبھی کسی مقام پر مایوسی سے سامنا ہوا؟

ڈاکٹرعبدالباری:مایوسی کبھی نہیں ہوئی البتہ چیلنجز کا سامنا رہا۔ لوگ پوچھتے ہیں: پھر آپ کیا کرتے ہیں؟ ایک ہی جواب: جاء نماز بچھاتے ہیں، اللہ سے معافی مانگتے ہیں کہ یقیناً ہم سے کوئی غلطی ہوئی ہوگی۔ میری ایک دعا ہوتی ہے ”یا رب ہم سب کمزور و ناتواں ہیں، ہم کوئی بھی سزا برداشت نہیں کرسکتے، لیکن ہماری بھول چوک کی وجہ سے ان لوگو ں کو محروم نہ کرنا“۔ ہم اللہ سے معافی مانگ کر پھر شروعات کرتے ہیں۔

فرائیڈے اسپیشل: انڈس اسپتال ایک خواب تھا جو پورا ہوگیا۔ اگلا خواب؟

ڈاکٹرعبدالباری:خواہش ہے یہ ایک ادارہ بن جائے اور چلتا رہے۔ اِن شاء اللہ چلتا رہے گا۔ 15 سال سی ای او رہنے کے بعد یہ ذمہ داری آگے منتقل کردی۔ نئے سی ای او ظفر زیدی ہیں جو شروع سے میرے ساتھ ہیں، ڈاکٹر امین چنائے ہیں، ڈاکٹر اختر عزیز تھے۔ اب بحیثیت صدر میرا ہدف ہے کہ اس اسپتال کو مزید آگے لے کر جانا ہے۔ اللہ اتنی زندگی دے کہ میں اپنے بنائے ہوئے اسپتال خود بند کردوں۔ PREVENTIVE میں اتنے آگے چلے جائیں، لوگوں کو اتنا صحت مند کردیں کہ اسپتالوں کی ضرورت نہ رہے۔ یہ مفروضہ نہیں ہے، اس کے پیچھے ایک وجہ ہے۔ جب میں سول اسپتال کی CASUALITY بنارہا تھا تو ایک صاحب میرے پاس ہالینڈ سے مرسڈیز ایمبولینس ڈونیشن میں لے کر آئے۔ میں ہاوس جاب کررہا تھا، جب اٹھنے لگا تو وہ کہنے لگے: ڈاکٹر صاحب آپ کہیں تو پورا اسپتال لے آوں؟ میں نے پوچھا: وہ کیسے لے آئیں گے؟ کہنے لگے: ہالینڈ میں لوگ بیمار ہی نہیں ہوتے کیوں کہ ان کا پروگرام اتنا اچھا بنا ہوا ہے، تو اسپتال کوئی جاتا ہی نہیں۔ اسپتال بند ہورہے ہیں۔ 1986ء میں ہالینڈ میں اسپتال بند ہورہے تھے جبکہ ہم آج سوچ رہے ہیں کہ ہمیں اور اسپتال بنانے ہیں۔

فرائیڈے اسپیشل:عام انسان میں بنیادی احتیاط کے ضمن میں کس طرح شعورپیدا کیا جائے کہ اسے اسپتال نہ آنا پڑے؟

ڈاکٹرعبدالباری:جی، صدیوں سے چلا آرہا ہے کہ ”احتیاط علاج سے بہتر ہے“۔ آپ کو احتیاط کرنی ہے۔ تمباکو نوشی زہر ہے۔ اپنی خوراک کو معتدل رکھیں، ورزش کریں۔ انسان کی صحت اچھی ہوگی تو اسپتالوں پر دبائو کم ہوگا۔ شوگر اور بلڈپریشر کو کنٹرول رکھیں تاکہ اس کے منفی اثرات سے بچ سکیں۔

فرائیڈے اسپیشل: ڈاکٹرز کے نام کیا ہے آپ کا پیغام؟وہ ایسا کیا کریں کہ انڈس جیسے اسپتالوںپر بوجھ کم پڑے؟

ڈاکٹرعبدالباری: عام انسان میں احتیاط کا شعور بیدار کریں۔ علاج جذبے کے ساتھ کریں، کیوں کہ یہ اللہ پر قرض ہوجاتا ہے اور اللہ اپنا قرض رکھتا نہیں ہے۔ ہم کہتے ہیں اللہ وہاں دے گا۔ اللہ یہاں بھی دے دیتا ہے۔ آپ چاہتے ہیں آپ کے بچے اپنے پیروں پر کھڑے ہوجائیں۔ میرے تین بچے ہیں دو بیٹے، ایک بیٹی۔ ایک بیٹا ڈاکٹر ہے، اس کی بیوی بھی ڈاکٹر ہے، فیلو شپ کررہے ہیں امریکہ میں۔ بیٹی نے پبلک ہیلتھ میں ماسٹرز کیا لندن سے۔ چھوٹا بیٹا LUMS سے گریجویٹ ہے، اور کیا چاہیے! کچھ دن پہلے ٹی وی پر مجھ سے سوال پوچھا گیا: یہ کام جو آپ نے کیا، بہت مشکل ہے، بہت تکالیف آئی ہوں گی اور THANKLESS جاب ہے۔ میں نے کہا: آپ کی رائے سے اتفاق نہیں کرتا، یہ تو بہت آسان ہے اگر آپ کا منبع صحیح ہے۔ اللہ پر یقین ہے تو اس سے آسان کام کوئی نہیںہے۔ یہ بہت THANKFULجاب ہے۔ اُس آدمی سے پوچھیں جسے خواب آور ادویہ کے باوجود بھی نیند نہیں آتی۔ جبکہ مجھے اتنی پُرسکون نیند آتی ہے کہ گھر والے کہتے ہیں آپ بستر پر جانے سے پہلے سوچکے ہوتے ہیں۔ کہیں چلے جائیں تو لوگ پہچان لیتے ہیں، پاس آتے ہیں، عزت دیتے ہیں، خیال کرتے ہیں۔ کبھی کبھی تو شرمندگی بھی محسوس ہونے لگتی ہے۔ مریض دعا کررہے ہوتے ہیں۔ زمانے میں جو اچھے اچھوں کو نہیں ملا وہ اللہ نے ہم کو نصیب کیا۔

فرائیڈے اسپیشل:لوگوں سے کچھ کہنا چاہتےہوں،کوئی پیغام دینا چاہتے ہوں؟

ڈاکٹرعبدالباری:ہمارا یہ اسپتال ہے لوگوں کی وجہ سے ہے اور لوگوں کے لیے ہے۔ جب پہلا آپریشن بجٹ بنا اور میں کسی کے پاس گیا اور کہا اسپتال بن گیا ہے اب چلانے کے لیے پیسے چاہئیں۔ انہوں نے پوچھا: بجٹ کتنا ہے؟ میں نے کہا: 24کروڑ۔ پوچھنے لگے: ڈالر میں کتنا ہے؟ اُس وقت ڈالر 60 روپے کا تھا۔ میں نے کہا: 4 ملین ڈالر۔انہوں نے کہا: ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب، 1 ملین ڈالر۔ ان کا جواب سن کر میں نے سوچا یہ تو بہت آسان ہے، بس تین افراد اور چاہیے ہوںگے 4 ملین ڈالر کے لیے۔ جب میں وہاں سے اٹھ رہا تھا تو انہوں نے کہا: ڈاکٹر صاحب آپ جب کبھی معاشی مشکلات میں ہوں تو میں آپ سے ایک فون کال کی دوری پر ہوں۔ آج 16 سال ہوگئے اُن سے رابطہ کرنے کی ضرورت نہیں پڑی، کیوں کہ اس قوم نے کرنے نہیں دیا۔ بیشک اللہ بہترین کارساز ہے۔ میں جس کے پاس یقین سے گیا وہاں سے کبھی پیسہ نہیں ملا، اور کبھی وہاں سے ملا جہاں میں سوچتا تھا کہ یہاں سے کیسے آگیا! مریضوں کی دعا کسی ایک کے لیے نہیں سب کے لیے ہوتی ہے۔ ایک افغانی مریض ہے دل کا، جس کا والو میں نے تبدیل کیا تھا۔ وہ تین چار سال بعد آیا، میں میٹنگ کی وجہ سے اُس سے مل نہ سکا۔ میرے ڈرائیور نے بتایا کہ آپ کا وہ افغانی مریض آیا تھا۔ مجھے دکھ ہوا کہ مل نہ سکا۔ مگر وہ ایک سوغات دے گیا تھا ایک چھوٹی سی پوٹلی جس میں چند میوہ جات تھے۔ اس سے بہتر میوہ زندگی میں نہیں کھایا۔ ڈرائیور کو بھی کھلایا۔ ڈرائیور نے کہا: اُس کا پیغام تھا آپ کے لیے کہ میری والدہ نے آپ کو سلام کہا ہے اور وہ ہر فرض نماز کے بعد 2 رکعت نفل نماز پڑھ کر ڈاکٹر صاحب کے لیے دعا کرتی ہیں۔ ایک ایسی عورت جس نے کبھی مجھے دیکھا نہیں وہ ایسا کرے! یہ تو اربوں کھربوں سے بھی نہیں ہوسکتا۔ ہم اپنے حصے کا کام ایمان داری سے کرتے رہیں تو ایک دن خوشحال پاکستان دیکھیں گے۔ دوسرا مسئلہ منفی باتیں اور سوچ پھیلانے کا ہے۔ اِن شاء اللہ پاکستان کو کچھ نہیں ہوگا۔ اپنا کام، اپنا حصہ ایمان داری سے ڈالیں، پاکستان جلد اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے گا۔ میں جہاں بھی جاتا ہوں ہمیشہ مثبت اور پُرامید باتیں کرتا ہوں۔ چند لوگ بھی یہ باتیں سمجھ گئے تو مسئلہ حل ہوجائے گا۔