کشمیر ”برائے فروخت“ کی تختی کی نقاب کشائی

مہاراشٹرا محل کی تعمیر… شیوسینا کے حوالے؟

آخرکار پانچ سال بعد 5اگست 2019ء کے فیصلے کے نتیجے میں پیدا ہونے والا وہ تجسس ختم ہوا جو اس قدر بڑے فیصلے کے پس منظر اور پیش منظر کے حوالے سے چلا آرہا تھا۔ یہ بات تو طے تھی کہ بھارت کی حکومت نے پانچ اگست کا فیصلہ کسی منصوبہ بندی اور طویل المیعاد مقصد کے بغیر نہیں کیا تھا، مگر بھارت کس طرح اور کب اپنے مقاصد کی جانب کھلی پیش قدمی کا آغاز کرے گا، انتظار صرف اس کا تھا۔ تجسس اور تحیر کا یہ سفر اُس وقت ختم ہوا جب کشمیر میں منوج سنہا کی حکومت نے سری نگر کے نواح میں 20 کنال اراضی مہاراشٹرا میں شیوسینا حکومت کو ایک پُرشکوہ محل کی تعمیر کے لیے فراہم کرنے کا اعلان کیا۔ شیوسینا بھارت کے جانے پہچانے سخت گیر بال ٹھاکرے کی جماعت ہے، اور اُن کی موت کے بعد اس کی قیادت اُن کے بیٹے ادھے ٹھاکرے کررہے ہیں۔یہ جماعت اپنی انتہا پسندانہ پالیسیوں اور گینگز کی سرپرستی کا طویل ریکارڈ رکھتی ہے۔ مہاراشٹرا میں یہ جماعت بی جے پی کی اتحادی کے طور پر برسرِاقتدار ہے اور شیوسینا کے رہنما اکناتھ شنڈے وزیراعلیٰ کے طور پر کام کررہے ہیں۔ کشمیر میں جس غیر کشمیری گروہ یا سرگرمی کے لیے کشمیر کی زمین کے پہلے عطیہ کے لیے مہاراشٹرا بھون کے نام پر قرعہ ٔ فال شیوسینا کے نام نکل آیا، اس سے ایک ذہنیت کی عکاسی ہورہی ہے کہ آنے والے دنوں میں بھارت اپنے کشمیر پروجیکٹ کو کس اسٹائل میں اور کن گروہوں کے ذریعے آگے بڑھائے گا، اور اس ذہنیت کے ساتھ اور اس کے ذریعے کشمیر کو کنٹرول کرنے کا نتیجہ کیا نکلے گا یہ نوشتۂ دیوار ہے۔ یوں کشمیر پر پانچ برس سے ’’برائے فروخت‘‘ کی جو تختی نقاب میں لپٹی ہوئی تھی اب اس کی نقاب کشائی کا آغاز ہوگیا ہے۔

گزشتہ برس جون میں مہاراشٹرا کے وزیراعلیٰ اکناتھ شنڈے اور ان کے بیٹے رکنِ لوک سبھا شری کانت شنڈے نے اپنی پارٹی سے تعلق رکھنے والے 15 ریاستوں کے سربراہوں کے اجلاس کے لیے سری نگر کا انتخاب کیا۔ اس اجلاس کا مقصد بظاہر شیوسینا کے ایجنڈے کو شمال کی جانب مگر حقیقت میں کشمیر تک بڑھانا تھا۔ یہ محض ایک سیاسی جماعت کی نہیں بلکہ ایک ذہنیت اور ایجنڈے کی کشمیر منتقلی تھی۔ یہ ذہنیت تو اسی دن آشکارا ہوگئی تھی جب ایک انتہا پسند نے کشمیر کی خوبصورت لڑکیوں سے شادیاں کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ماتھے پر تلک لگاکر اپنی ہندو اور سخت گیر شناخت کو نمایاں کیے رکھنے والے مہاراشٹرا کے وزیراعلیٰ نے سری نگر میں اپنی موجودگی کے دوران لال چوک میں ایک فاتحانہ مارچ کیا، گویا کہ وہ تاریخ کا دھارا اُلٹ جانے کا اعلان کررہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے بیٹے کے ہمراہ کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا سے ملاقات کی، انہیں گلدستہ پیش کیا اور کشمیر میں مہاراشٹرا محل کے لیے زمین فراہم کرنے کی فرمائش کی۔ یہ فرمائش کیونکر رد ہوسکتی تھی جبکہ سارا میلہ ہی زمینوں کی صورت میں کشمیریوں کا کمبل چرانے کے لیے سجایا گیا تھا۔ گورنر سنہا نے یہ فرمائش پوری کرتے ہوئے متعلقہ محکمے کو مہاراشٹرا محل کی تعمیر کے لیے زمین تلاش کرنے کا حکم دیا۔ کشمیر کے علاوہ دوسرے مہاراشٹرا بھون کی تعمیر کے لیے جس علاقے کا انتخاب کیا گیا وہ گجرات کا ایودھیا شہر ہے جہاں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا افتتاح ہوا تھا۔ ان دومقامات کی علامتی حیثیت کیا ہے یہ بات محتاجِ وضاحت نہیں رہی۔ کشمیر حکومت نے کشمیر کی زمین پر غیر کشمیری پروجیکٹ کے لیے سری نگر ائرپورٹ سے چند میل کی مسافت پر اچھ بل بڈگام میں 20 کنال پر مشتمل رقبہ شاملات دیہہ اس محل کی تعمیر کے لیے وقف کرنے کی منظوری دی۔ یہ زمین ننانوے سال کی لیز پر مہاراشٹرا حکومت کو منتقل کی گئی، جس کے عوض 8 کروڑ 16 لاکھ روپے کشمیر حکومت کو منتقل کیے جارہے ہیں۔ یوں کم وبیش 40 لاکھ فی مرلہ کے حساب سے یہ زمین خرید لی گئی۔ مہاراشٹرا اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر اجیت پوار نے بجٹ تقریر میں یہ اعلان کیا تھا کہ مہاراشٹرا کی حکومت ایودھیا اور کشمیر میں سیاحوں کو بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لیے زمین خرید رہی ہے اور اس مد میں بجٹ میں 77 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ اس کے بعد کشمیر کے گورنر نے مہاراشٹرا حکومت کو زمین فراہم کرنے کی منظوری دی، جس کے بعد مہاراشٹرا حکومت نے کشمیر میں حاصل ہونے والی اس کامیابی کا جشن منایا ہے۔یوں کشمیر میں زمینیں خریدنے کے پہلے باضابطہ عمل کا آغاز ہوگیا ہے۔

یہ وہی مقام ہے جہاں 1940ء کے دور میں فلسطینی کھڑے تھے جب دنیا بھر سے آبادکاروں نے ان کی زمینیں اور باغات اونے پونے داموں خریدنا شروع کیے تھے اور اس عمل میں انہیں برطانوی حکام کی حمایت حاصل تھی۔یوں لگ رہا ہے کہ پہلے مرحلے میں سرکاری محلات کے نام پر کشمیر کی وہ زمینیں حاصل کی جائیں گی جو ریاست کے تصرف میں ہیں۔مہاراشٹرا بھون کی تعمیر اس کا ثبوت ہے۔ دوسرے مرحلے میں بھارت کے بڑے سرمایہ دار اور صنعت کار زمینیں حاصل کرنے کے لیے کشمیر کا رخ کریں گے۔ سرکاری زمینوں سے انہیں ترقی اور روزگار کے نام پر حصہ دیا جائے گا۔ جونہی عام کشمیریوں کے اندر زمینوں کی فروخت کے مالی فوائد کا احسا س پیدا ہوگا، پرائیویٹ زمینوں کی خریداری کے لیے سرکار، صنعت کار اور عام شہری بھی کشمیر کا رخ کریں گے۔ اس طرح کشمیر کو بڑے دائرے سے ایک نقطے میں سمیٹنے کا وہ عمل شروع ہوگا جسے عرفِ عام میں فلسطین ماڈل کہا جاتا ہے اور جس کا خطرہ برسوں سے کشمیر میں محسوس کیا جارہا تھا۔ اس منصوبے کو شیوسینا جیسے سخت گیر پرائیویٹ گروہوں کے ذریعے آگے بڑھانے کا عمل زیادہ تباہ کن اور خونیں ثابت ہوسکتا ہے۔ آج بھی جب غزہ میں بدترین صورت حال ہے بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر اسرائیل میں پائے جاتے ہیں، جس سے دونوں ملکوں کے تجربات اور ٹیکنالوجی کے تبادلے میں اشتراک و تعاون کا پتا چل رہا ہے۔