”شدت پسندی “ کی نئی تعریف

مسئلہ فلسطین نے برطانوی سیاست کا رخ یکسر تبدیل کردیا

غزہ تاحال سلگ رہا ہے، اور پانچ ماہ گزر جانے کے باوجود بھی ظلم و ستم، فسطائیت اور نسل کُشی کا باب بند ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلے کے باوجود بھی عالمی برادری مظلوم فلسطینیوں کا قتلِ عام رکوانے کی کوشش تو کجا… ان مظلوموں، زخمیوں اور بیماروں کو خوراک و پانی سمیت علاج معالجے کی سہولیات تک فراہم کروانے میں تاحال ناکام ہے۔ دوسری جانب ماہِ مقدس رمضان المبارک میں غزہ کے مسلمان اپنے رب کی کبریائی کا اعلان شہید ہونے والی مساجد کے سائے اور سڑکوں پر نماز ادا کرکے کررہے ہیں۔ یہ وہ جذبہ ہے جس کو دنیا کی بہترین عسکری قوت اور ٹیکنالوجی مسخر کرنے میں ناکام ہے۔ اپنے تباہ حال مکانوں کے ملبے پر افطار و سحر کرنے والے غزہ کے مظلوم اس حال میں بھی اپنے رب کے شکر گزار ہیں۔ اس پورے تناظر میں امتِ مسلمہ کے اندر فتح و شکست سے آگے ایک الگ سوچ نظر آتی ہے، ایک جذبہ ان کی آنکھوں سے جھلکتا ہے۔ جب بھی کوئی دو مسلمان خواہ اُن کا تعلق دنیا کے کسی کونے سے ہو، جب ملتے ہیں تو غزہ و فلسطین کا تذکرہ اُن کی گفتگو کا لازمی حصہ ہوتا ہے۔ اس گفتگو میں اُن کی چمکتی آنکھیں اس عزم کا اظہار کرتی ہیں کہ وہ ان بدترین حالات میں بھی بھرپور جذبے میں معمور ہیں۔ ان کو اگر شکوہ ہے تو مسلم حکمرانوں سے، اور انہیں اس سے بڑھ کر اس بات کا یقین ہے کہ فلسطینی فتح یاب ہوں گے۔ اس پانچ ماہ کے عرصے میں یہ جذبہ سرد پڑنے کے بجائے مزید مہمیز پارہا ہے۔ یہ وہ صورتِ حال ہے جس سے مغرب اب پریشان ہے۔ اس کے مظاہر اس بات کا اعلان کررہے ہیں کہ مظلوموں کا خون رنگ لارہا ہے۔ مغرب کی جمہوری اقدار کے اندر کام کرنے والے مسلمانوں کو پابند کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس غم و غصے کا پہلا نتیجہ برطانیہ میں یہ برآمد ہوا کہ لیبر پارٹی کے سابق رہنما جارج گیلووے جن کو اسرائیل پر تنقید کی پاداش میں لیبر پارٹی سے فارغ کردیا گیا تھا اور اب وہ ورکرز پارٹی کے رہنما ہیں اور اسرائیل کے صہیونی عزائم کے خلاف اپنا واضح مؤقف رکھتے ہیں، انہوں نے برطانیہ کے شمال میں واقع شہر روش ڈیل (Rochdale) سے برطانوی پارلیمنٹ کے ضمنی انتخاب (منعقدہ 29 فروری 2024ء) میں واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے۔ انہوں نے دونوں بڑی پارٹیوں حکمران کنزرویٹو پارٹی اور اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی کے امیدواروں کو 6 ہزار سے زائد ووٹ کی برتری سے شکست سے دوچار کیا ہے۔ یہ انتخاب برطانیہ میں فلسطین اور اسرائیل کے تنازعے کا ٹیسٹ کیس تھا۔ مسلمان ووٹرز کی تعداد اس پورے حلقے میں محض 30 فیصد ہے اور روایتی طور پر یہ حلقہ لیبر پارٹی کا مضبوط گڑھ تصور کیا جاتا ہے، جہاں سے لیبر پارٹی کے امیدوار کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ لیکن غزہ کی صورتِ حال پورے برطانیہ کی سیاست کو تبدیل کرچکی ہے اور یہ انتخاب اس بات کا بیّن ثبوت تھا کہ مسلمان ووٹرز اب دونوں بڑی جماعتوں لیبر اور کنزرویٹو پر اعتماد کرنے اور ان کو اپنا ووٹ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ اس حلقے سے متواتر دو مرتبہ لیبر پارٹی کے امیدوار ٹونی لوائڈ کامیاب ہوتے رہے، انہوں نے سال 2019ء میں منعقدہ انتخابات میں 24475 ووٹ حاصل کیے جوکہ ڈالے گئے کُل ووٹوں کا 51.6 فیصد تھے، جبکہ ان کے قریب ترین کنزرویٹو پارٹی کی امیدوار عاطفہ شاہ تھیں جنہوں نے 14807 ووٹ حاصل کیے، اور یوں واضح اکثریت سے لیبر پارٹی کے امیدوار کامیاب قرار پائے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سال 2019ء میں اس حلقے میں ورکرز پارٹی کا کوئی امیدوار ہی نہیں تھا جس کی وجہ ان کا ووٹ بینک نہ ہونا تھا۔ لیکن اکتوبر 2023ء کے بعد سے اب صورتِ حال یکسر مختلف ہے اور دونوں پارٹیاں نہ صرف مسلم ووٹرز، بلکہ انسانی و جمہوری حقوق پر بلاتفریقِ زبان، رنگ و نسل یقین رکھنے والوں کا اعتماد کھو چکی ہیں، اور اِس بڑی تعداد میں صرف مسلمان نہیں بلکہ ایک بڑی اکثریت سفید فام نسل کے لوگوں کی بھی شامل ہے۔ اس انتخاب کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ سابقہ الیکشن میں کامیاب لیبر پارٹی ایک مسلمان امیدوار اظہر علی کو سامنے لانے کے باوجود محض 2402 ووٹ حاصل کرسکی جوکہ کُل ڈالے گئے ووٹوں کا 7.7 فیصد تھے، اور انتخابی نتائج میں چوتھے نمبر پر رہی۔ اس طرح لیبر پارٹی 51 فیصد ووٹوں سے اب 7.7 فیصد ووٹوں پر اپنے مؤقف کی وجہ سے پہنچ چکی ہے، اور یہی حال اب کنزرویٹو پارٹی کا ہے۔ یہ نتائج برطانوی سیاست میں دھماکہ کرچکے ہیں، اسی وجہ سے برطانوی وزیراعظم رشی سونک کو ان انتخابات کے بعد یہ مضحکہ خیز بیان دینے کی ضرورت پیش آئی کہ ان کے امیدوار کو فلسطین پر پارٹی مؤقف کی وجہ سے شدید دھمکیوں کا سامنا تھا اور ان کی پارٹی یعنی حکمران جماعت کو آزادانہ مہم چلانے کی اجازت نہیں مل سکی۔ لیکن وہ یہ بتانا بھول گئے کہ اُن کی اپنی پارٹی اور دیگر پارٹیوں کے امیدواروں کو تحفظ فراہم کرنا کس کی ذمہ داری تھی؟ انہوں نے مزید کہا کہ اس الیکشن سے تقسیم کی سیاست بڑھی ہے، اور سیاست میں ایسے اقدامات جن سے برٹش اقدار کو خطرہ ہو، برداشت نہیں کیے جائیں گے۔ یکم مارچ 2024ء کو 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ کے باہر دیا گیا یہ بیان دراصل برطانوی حکومت کی پالیسی کا مظہر ہے کہ وہ جہاں ایک جانب حماس کو اس بیان میں بار بار دہشت گرد کہہ رہے ہیں، وہیں دوسری جانب جمہوری طور پر منتخب ایک رکن پارلیمنٹ کو دہشت گردی کو بطور نعرہ استعمال کرنے یا ان مبینہ دہشت گردوں کی حمایت کرکے ووٹ حاصل کرنے کا مرتکب قرار دے رہے ہیں، لیکن وہ اس جانب توجہ نہیں کررہے کہ کیوں عوام ایسے افراد کو ووٹ دے رہے ہیں؟ اگر حماس برطانوی حکومت کی نظر میں دہشت گرد ہے تو عالمی عدالتِ انصاف کا فیصلہ کس کو نسل کُشی کا ذمہ دار قرار دے رہا ہے؟ کون چن چن کو بے گناہ بچوں اور عورتوں کو ناکردہ گناہوں کی سزا دے رہا ہے کہ جس کے وہ مستحق نہیں ہیںِ؟

برطانوی حکومت کی سابق وزیر داخلہ سوئیلا بروامین بھی اسی قسم کے بیانات جاری کرتی رہی ہیں، انہوں نے جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے فلسطین کے حق میں مظاہرہ کرنے والوں کو نہ صرف نفرت بڑھانے کا ذمہ دار قرار دیا بلکہ اس مارچ کو نفرت انگیز مارچ (Hate March) قرار دیا اور لندن میٹرو پولیٹن پولیس چیف کو یہ ہدایات جاری کیں کہ وہ ان احتجاجوں پر پابندی عائد کریں۔ اس ضمن میں وزیراعظم رشی سونک کا بیان بھی ریکارڈ کا حصہ ہے جوکہ 23 اکتوبر 2023ء کو بی بی سی نے رپورٹ کیا کہ

’’ ہماری سڑکوں پر جہاد کے نعرے نہ صرف یہودی کمیونٹی کے لیے ایک دھمکی ہیں بلکہ یہ ہماری جمہوری اقدار کے بھی منافی ہیں‘‘۔

اس پر لندن میٹرو پولیٹن پولیس چیف سر مارک رائولی کا ردعمل تاریخ کا اہم ترین واقعہ ہے، انہوں نے نہ صرف وزیر داخلہ سوئیلا بروامین کو مخاطب کرکے کہا کہاحتجاج برطانوی عوام کا جمہوری حق ہے اور اس پر پابندی عائد کرنا جمہوری اقدار اور برطانوی قانون کے منافی ہے، برطانوی پولیس صرف قانون پر عمل درآمد کی ذمہ دار ہے، لہٰذا اگر ان مظاہروں پر پابندی عائد کرنی ہے تو حکومت کو چاہیے کہ وہ قوانین میں ترمیم کردے۔ مارک رائولی نے مزید کہا کہ

”Jihad” literally means ”effort” or ”struggle” in Arabic. In Islam the main meaning is an internal struggle, such as a believer’s struggle to live in accordance with their faith. Jihad can also be an outward struggle or war, which in Islamic teaching must be in self defence and within prescribed limits. (BBC 23 October 2023)

)جہاد کو دہشت گردی سے جوڑنا انتہائی غلط ہے۔ عربی میں جہاد کے معنی جدوجہد کے ہیں اور اسلام میں اس کے معنی اپنے ایمان کی جانب جدوجہد کے ہیں۔ جبکہ جہاد کے بیرونی مظاہر میں حقِ دفاع اسلامی تعلیمات کے مطابق بھی اس کا ایک جزو ہے۔(

یہ وہ دھماکے دار ردعمل تھا جس کے بعد برطانوی وزیر داخلہ سوئیلا بروامین کو وزیراعظم رشی سونک نے برطرف کردیا۔ اس کے بعد سے متواتر یہ کوششیں جاری ہیں کہ کسی طرح فلسطین کے حق میں کیے جانے والے مظاہروں پر پابندی عائد کی جائے۔ اس ضمن میں متعدد بار رپورٹس کا اجراء کیا گیا اور کروایا گیا جن میں اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ مظاہرے برطانوی سماج میں نفرت پھیلا رہے ہیں۔ جبکہ صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔ پوری کنزرویٹو پارٹی خود برطانوی سماج میں نفرت و تقسیم کا باعث بن چکی ہے، اس کی جانب سے متواتر مسلمانوں، اُن کے رہنماؤں، یا وہ مسلمان جوکسی بھی سرکاری عہدے پر موجود ہیں، پر حملے کیے جارہے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی کے سابقہ ڈپٹی چیئرمین لی اینڈرسن کا بیان ہے جس میں انہوں نے کہا کہ اسلامسٹ نہ صرف ہمارے ملک، میئر لندن صادق خان بلکہ لیبر پارٹی کے سربراہ کیئر اسٹارمر کو بھی کنٹرول کرچکے ہیں۔ اس بیان پرشدید ردعمل آیا اور اسے نہ صرف برطانوی جمہوری اقدار کے منافی بلکہ نفرت انگیز بیان کے طور پر لیا گیا جس کے بعد کنزرویٹو پارٹی نے لی اینڈرسن کی پارٹی رکنیت معطل کردی۔ میئر لندن صادق خان نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے ان بیانات کو اسلامو فوبیا اور نفرت انگیز قرار دیا، انہوں نے مزید کہا کہ ایسے بیانات کی وجہ سے لندن میں مسلمانوں کے اوپر حملوں کے کیسز میں 330 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

معاملہ صرف یہیں تک محدود نہیں رہا بلکہ اب گزشتہ دنوں برطانوی وزیر برائے کمیونٹی مائیکل گوو نے برطانوی پارلیمان میں ایک اور ایسی ہی تقریر داغ دی جس میں اسلام اور سیاسی اسلام کو دراصل ناقابلِ برداشت قرار دیا گیا، اور اس کی مکمل ذمہ داری سید قطب، حسن البناء اور سید مودودی کی تعلیمات و لٹریچر پر ڈال دی گئی۔ اس تقریر میں مائیکل گوو نے چند مسلم تنظیموں کا نام لے کر بھی ان کو شدت پسند اور معاشرے میں شدت پسندی کی وجہ قرار دیا۔ مائیکل گوو کی یہ تقریر اور اس کے کلپ پوری دنیا میں دیکھے گئے، لیکن اس سے زیادہ خطرناک بات جوکہ اب برطانوی قانون کا حصہ بن چکی ہے اس کی جانب شاید وہ توجہ نہیں کی گئی جس کی وہ مستحق تھی۔ یہ تقریر دراصل برطانیہ میں جاری شدت پسندی کی تعریف کا حصہ تھی جس کی نئی تعریف پارلیمان کے سامنے زیربحث تھی، اور اس بحث کا آغاز دراصل لندن میں مظاہروں پر پابندی کے جواب سے ہوا تھا، لہٰذا برطانوی حکومت نے یہ ضروری سمجھا کہ قانون کے بجائے اس قانون کے اطلاق کی تعریف میں تبدیلی کردی جائے تاکہ ہر وہ فرد جو اس سے باہر تھا، اس میں آجائے اور حکومت کو اس کی منظوری کے بعد لامحدود اختیار حاصل ہوجائیں۔

شدت پسندی کی نئی تعریف کی منظوری برطانوی پارلیمان نے 14 مارچ 2024ء یعنی رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ دی اور اب یہ باقاعدہ ایک قانونی دستاویز ہے۔

دہشت گردی کے بعد شدت پسندی کی یہ نئی تعریف پورے مغرب میں وہی نتائج دے گی جو کہ اس سے قبل دہشت گردی کو اسلام سے منسلک کرکے حاصل کیے جاچکے ہیں۔ اب اسلام کو شدت پسندی سے جوڑا جارہا ہے۔ اس تعریف کی رو سے ہر وہ فرد یا گروہ براہِ راست شدت پسند کہلائے گا جو شدت پسند نظریات کی ترویج کی کوشش کرے گا۔ یہ نظریات کون سے ہیں اسے سمجھنے کے لیے وزیر موصوف کی تقریر کا ایک حصہ ہی کافی ہے۔ یعنی اسلام بطور مذہب تو باقی رہ سکتا ہے لیکن اسلام کے بطور دین باقی رہنے کا کوئی جواز مغرب میں موجود نہیں رہے گا۔

یہ تاریخ کا ایک اہم ترین لمحہ ہے، کیونکہ اس وقت نئی مردم شماری کے مطابق برطانیہ میں مسلمانوں کی کُل تعداد کا 51 فیصد حصہ وہ ہے جو برطانیہ میں پیدا ہوا ہے۔ یہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ برطانیہ کی 2021ء کی مردم شماری کے مطابق عیسائیت برطانیہ کا سب سے بڑا مذہب نہیں ہے بلکہ لادینیت سب سے بڑا مذہب ہے، اس کے بعد عیسائیت اور پھر اسلام کا نمبر آتا ہے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کی آبادی کا ایک بڑا حصہ 15 سال اور اس کے بعد 40 سال سے کم عمر پر مشتمل ہے جس میں گزشتہ بیس سالوں میں عمر کے اس حصے کے لحاظ سے دوگنا اضافہ ہوا ہے۔ یعنی آئندہ آنے والے عرصے میں اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ اسلام برطانیہ کے سب سے بڑے مذہب کے طور پر سامنے آئے۔ یہ اعدادوشمار نہ صرف مسلمانوں کے لیے حوصلہ افزا ہیں بلکہ یہ ایک نئے سماج کی جانب اشارہ بھی کررہے ہیں، لہٰذا اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ پہلے سے پیش بندی حکومت کی سطح پر کی جائے۔ تاہم اس وقت غزہ و فلسطین کے مسئلے نے جہاں بٹی ہوئی امت کو یکجا کیا ہے، وہیں مغرب کے مسلمانوں کے اندر ایک ولولہ پیدا ہوا ہے۔ یہ ولولہ ایک امت کو اور خاص طور پر مغرب میں رہنے بسنے والوں کو ایک طویل جدوجہد پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوسکا تو مغرب میں اس کے بہت اچھے نتائج برآمد ہوسکتے ہیں جس کے ثمرات نہ صرف فلسطین بلکہ پوری دنیا تک پہنچیں گے۔ مغرب کا جمہوری نظام اگر جمہوری اقدار کو درست طریقے سے راستہ نہیں دے گا، اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرے گا تو یہ مغرب کے جمہوری نظام کی ناکامی کا نقطہ آغاز ہوگا۔ غزہ نے ان پانچ ماہ میں دنیا کی سیاست کو یکسر تبدیل کردیا ہے اور تاحال کررہا ہے، یہ وہ نکتہ ہے جس کو مغرب جتنا جلدی سمجھ لے اُس کے لیے اچھا ہے، ورنہ محض قوانین میں تبدیلی سے ظلم کی مذمت کو نہ کبھی روکا جاسکا ہے اور نہ آئندہ کبھی روکا جاسکے گا۔