متنازع انتخابات اور حکومت سازی سیاسی بحران یا ہمہ جہتی ریاستی بحران؟

ناکامی کا بوجھ کون اٹھائے گا؟

انتخابات میں مرضی کے نتائج کے حصول اور نئی حکومت سازی کے بعد اصل چیلنج حکومتی یا ریاستی معاملات کو کسی ترقی کے عمل میں ڈھالنا ہے۔ اسی بنیاد پر وزیراعظم شہبازشریف اور آرمی چیف کے درمیان ایک طویل ملاقات ہوئی ہے۔ اس ملاقات میں طے کیا گیا ہے کہ موجودہ مشکل حالات میں حکومت اور فوجی قیادت مل کر مختلف ریاستی و حکومتی چیلنجز سے نمٹنے کی کوشش کریں گی۔ جو نیا حکومتی نظام ہے، یہی بنیادی طور پر اسٹیبلشمنٹ اور موجودہ حکومت کے درمیان ایک دوسرے کی سہولت کاری سے جڑا ہوا ہے۔ انتخابات کو بنیاد بناکر انتخابات سے پہلے اسی نظام یا اسی حکومت کا خاکہ تیار کیا گیا تھا، اور اسی کو بنیاد بناکر اس میں سیاسی رنگ بھرے گئے تاکہ اپنی مرضی اور منشا کے مطابق حکومت تشکیل دی جاسکے۔ پاکستان کی مجموعی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو اس میں آنے والی ہر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان نہ صرف تعلقات بہتر ہوتے ہیں بلکہ ان دونوں کے پیجز بھی مشترکہ مفادات سے ہی جڑے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدا ہی میں دونوں طرف سے خیرسگالی جیسے جذبات اور ایک دوسرے کے لیے اچھے کلمات سننے کو ملتے ہیں۔ لیکن کچھ عرصے بعد اپنی مرضی اورمنشا کے تحت لائے جانے والے سیاسی نظام اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اختلافات کی کہانیاں شروع ہوجاتی ہیں، اوراس کا نتیجہ ملکی سیاست میں ایک نئی مہم جوئی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف کو اسٹیبلشمنٹ کے لاڈلے کا خطاب دیا جاتا ہے۔ اس سے قبل یہی عمل ہم نے نوازشریف اور عمران خان کے بارے میں بھی دیکھا تھا، مگر ایک وقت میں جو ہیرو تھے وہ کسی اور دور میں زیرو ہوگئے۔ اس لیے جو کچھ آج شہبازشریف ہیں وہ آج ہی ہیں، کل اُن کی سیاسی حیثیت کیا ہوگی اس کا فیصلہ مستقبل پر چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن ایک بات طے شدہ ہے کہ پاکستان کی ریاست یا حکومتی نظام کو سنگین نوعیت کے جو چیلنج درپیش ہیں ان سے نمٹنے کا کوئی بھی راستہ معمولی اقدامات سے نہیں جڑا ہوا، بلکہ یہ عمل کئی طرح کے غیر معمولی اقدامات کا تقاضا کرتا ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کی یہ مجبوری ہے کہ وہ اس نئے نظام کو ہر صورت ساتھ لے کر چلے اوریہ نظام کچھ کامیابی بھی حاصل کرے۔ کیونکہ اس نئے نظام یا حکومت کو لانے میں جو پاپڑ عمران خان مخالف سیاسی قوتوں اور اسٹیبلشمنٹ نے بیلے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، بلکہ کئی معاملات ابتدا ہی میں سب کے سامنے آگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس نظام کو چلانا ہی سب کی مجبوری بنی ہوئی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سازشی تھیوری اور سازش کی مختلف حکمت عملیوں کے تحت جو بھی نیا سیاسی نظام ترتیب دیا گیا ہے اس کی سیاسی ساکھ کو کیسے بحال کیا جائے؟کیونکہ پاکستان میں جو لوگ حکومت میں ہیں وہ بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ یہ نئی حکومت کسی انتخابات میں شفافیت کی بنیاد پر سامنے آئی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ یہ کھیل کھیلنے کا مقصد عمران خان کو باہر رکھ کر نئی حکومت بنانا تھا۔ اسی وجہ سے اس نئی حکومت کو کئی محاذوں پر اپنی اخلاقی اور سیاسی ساکھ کے بحران کا سامنا ہے۔ اس نئے نظام کی تشکیل کے لیے ہم نے آئین و قانون کے ساتھ یا ریاست وحکومتی اداروں سمیت الیکشن کمیشن اور عدلیہ کے ساتھ جو کیا ہے وہ بھی سب کے سامنےپر نمایاں ہوگیا ہے۔ہمارا بحران محض سیاسی یا معاشی نوعیت کا نہیں بلکہ یہ مجموعی طور پر ریاستی نظام کے اندر موجود بہت سی کمزوریوں اور عملی تضادات کو نمایاں کرتا ہے۔یہ واقعی بطور ریاست ہمارے سامنے ایک غیر معمولی صورتِ حال ہے، اس سے نمٹنے کے لیے ہمیں ایک مؤثر سیاسی و معاشی حکمت عملی درکار ہے۔لیکن یہ نیا نظام یا نئی حکومت ابھی تک مفاہمت کے موڈ میں نہیں۔ ان انتخابات کے نتیجے میں ایک بڑا فریق پی ٹی آئی اور عمران خان ہی ہیں، اور عمران خان یا اُن کی جماعت کو مفاہمت کی کسی بھی سیاست میں شامل کیے بغیر مفاہمت کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔لیکن اس نئی حکومت کی ابتدائی حکمت عملی یا سوچ کو دیکھیں تو اس میں ابھی بھی مفاہمت کی بات نہیں ہے، یا مفاہمت کرنے کا اختیار ہی اس کے پاس نہیں ہے۔ بہت سے سیاسی پنڈتوں کی رائے ہے کہ اصل لڑائی بھی عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہے اور اس لڑائی کے خاتمے کا فیصلہ بھی یہی فریق کریں گے۔ اس لیے اگر مفاہمت ہونی ہے تو ان ہی لوگوں کو کوئی راستہ نکالنا ہوگا۔ لیکن ابھی تو ایسا ہی لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان لڑائی جاری ہے اور فی الحال یہ پالیسی ہی غالب نظر آتی ہے کہ پی ٹی آئی یا عمران خان کو کوئی سیاسی راستہ نہیں دینا۔ پشاور ہائی کورٹ کا مخصوص نشستوں پر پی ٹی آئی مخالف فیصلہ، اور گنتی کے کھیل میں پی ٹی آئی سے جیتی ہوئی نشستیں حاصل کرنا، اور جو لوگ بھی قیدی ہیں اُن کو کسی بھی سطح پر ریلیف نہ دینا ظاہر کرتا ہے کہ کسی بھی سطح پر مفاہمت کے امکانات محدود ہیں، حالانکہ اسٹیبلشمنٹ ہو یا پی ٹی آئی یا حکومتی اتحاد… کسی کے پاس بھی مفاہمت کے آپشن کے سوا کچھ نہیں ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہم مفاہمت تو چاہتے ہیں مگر کسی کو شکست دے کر اور اپنی جیت کو یقینی بناکر۔ یہ مفاہمت نہیں بلکہ کسی بھی فریق پر مفاہمت کو مسلط کرنے کا ایجنڈا ہے۔ یہ بات اب حقیقت کے طور پر تسلیم کرلینی چاہیے کہ پی ٹی آئی کا علاج طاقت کے کھیل میں نہیں، اس کا مقابلہ کرنے کے لیے سیاسی راستہ ہی اختیار کرنا ہوگا، اور عمران خان ایک سیاسی حقیقت ہیں، اس حقیقت کو ہرسطح پر تسلیم کرکے ہی آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنا ہوگا۔

اسٹیبلشمنٹ کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ انہوں نے جو کرنا تھا وہ کرلیا اوراپنی مرضی کی حکومت بھی بنالی، لیکن اس کے لیے انہوں نے عملاً ریاستی اور اپنے ادارے کی سطح پر ایک بھاری قیمت ادا کی ہے۔ اس وقت قومی سیاست کے تناظر میں داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر جو اسٹیبلشمنٹ مخالف ایجنڈا غالب نظر آتا ہے اور چاروں طرف سے اسٹیبلشمنٹ پر تنقید بھی ہورہی ہے اور ان ہی کو اس سارے بحران کا ذمہ دار بھی سمجھا جارہا ہے، یہ درست عمل نہیں، حالانکہ اسٹیبلشمنٹ کا یہ اعلان تھا کہ وہ خود کو سیاست سے دور رکھے گی، مگر سابق سینیٹر مشتاق احمد خان جن کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے اُن کے بقول اسٹیبلشمنٹ کا یہ مؤقف اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ اس لیے اب طے ہونا چاہیے کہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی کردار ختم ہو، وگرنہ یہ کردار اسی طرح برقرار رہتا ہے تو پھر اسٹیبلشمنٹ پر تنقید بھی ہوگی اور لوگ ان کو صورت حال کا ذمہ دار بھی قرار دیں گے۔ اس وقت ہماری داخلی اور علاقائی سیاست سے جڑے جو چیلنج ہیں ان سے نمٹنے کے لیے بھی بہت ضروری ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نہ صرف مفاہمت کا راستہ اختیار کرے بلکہ خود کو بہت سے سیاسی معاملات اوربلاوجہ کی سیاسی مداخلت کے عمل سے بھی دور رکھے، اسی میں ریاستی مفاد بھی جڑا ہوا ہے۔

موجودہ شہباز شریف حکومت کا بڑا چیلنج معاشی صورت حال میں بہتری پیدا کرنا ہے۔ فوجی قیادت اِس حکومت کی حمایت میں ضرور موجود ہے لیکن اس معاشی بوجھ سے باہر نکلنے کا راستہ حکومت کو خود تلاش کرنا ہے۔ اگرچہ ملک میں ایک معاشی ایڈوائزری کونسل موجود ہے، مگر اس ناکامی کا بوجھ بھی شہبازشریف حکومت پر ہی پڑے گا۔ خود پیپلزپارٹی بھی مسلم لیگ (ن) سے مل کر اس سیاسی ومعاشی بوجھ کو اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہوگی اور اُس کی کوشش ہوگی کہ خود کو حکومت کے برے معاملات یا ناکامی سے دورکھے اور اسی میں اس کا اپنا مفاد بھی پنہاں ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ ہونا ہے اور اس معاہدے سے قبل کی شرائط اور معاہدے کے نتیجے میں سامنے آنے والی مشکلات یا نتائج کی قیمت عوام کو ادا کرنا ہے، اس کا سیاسی بوجھ بھی حکومت پر بہت جلد پڑنے والا ہے، کیونکہ آئی ایم ایف پاکستان کی موجودہ داخلی صورتِ حال سے فائدہ اٹھاکر اپنا دبائو بڑھائے گا اور کوشش کرے گا کہ جو بھی معاہدہ ہو وہ اس کی اپنی شرائط پر ہو اور پاکستان ان شرائط پر عمل درآمد کرنے کا پابند ہو۔ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ آئی ایم ایف کا معاہدہ ہی ہمیں موقع دے گا کہ ہم دیگر برادر اسلامی ممالک سے کوئی مالی فائدہ اٹھائیں، کیونکہ جب تک آئی ایم ایف کا معاہدہ اور اس کی رضامندی نہیں ہوگی کوئی بھی اسلامی ملک ہمارے ساتھ کھڑا نہیں ہوگا۔ حکومت نے نئے وزیر خزانہ اورنگ زیب پر ان معاشی حالات کا بوجھ ڈال دیا ہے، کیا وہ کوئی جادو چلاسکیں گے؟ یا اُن کے سامنے بھی معیشت کو چلانے کے وہی روایتی طور طریقے ہیں جن پر پہلے بھی عمل ہورہا تھا اور آگے بھی ہوتا رہے گا؟ اگرچہ امریکہ نے باور کروایا ہے کہ وہ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کی حمایت کرے گا۔ مگر امریکہ کی اس حمایت کے بدلے میں ہمیں کیا قیمت ادا کرنی ہے؟ یہ سوال زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ دوسری طرف نئی حکومت نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کروائی ہے کہ معاہدے سے قبل جو بھی اُس کی شرائط ہیں ان پر فوری عمل کیا جائے گا کیونکہ پاکستان سمجھتا ہے کہ معاہدے کو یقینی بنانے کے لیے پہلے سے طے شدہ فیصلوں پر ہر صورت عمل کرنے کی طرف بڑھنا ہوگا۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ حکومت فوری طور پر ضمنی بجٹ لانے اور پرچون پر ٹیکس لگانے پر تحفظات رکھتی ہے اور اُسے لگتا ہے کہ ایسا کرنے سے بحران بڑھے گا۔ اس لیے اِس وقت ملک کا جو معاشی بگاڑ ہے اس میں اگر فوری طور پر لوگوں کو ریلیف نہیں دیا جاتا تو ایسی صورت میں حکومت کو ابتدا ہی میں اپنی ساکھ کے بحران کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اگر معاشی حالات میں فوری درستی کا عمل ممکن نہیں ہوتا تو پھر سیاسی حالات ہوں یا سیکورٹی کے حالات… ہمیں دونوں صورتوں میں ایک بڑے بحران یا سیاسی بگاڑکا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ کیونکہ ہم نے جو وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے خود، یا ہماری اسٹیبلشمنٹ نے توقعات وابستہ کی ہوئی ہیں کہ یہ حالات کی درستی میں کلیدی کردار ادا کریں گی، ایسا ہونا ممکن نہیں لگتا۔ اور ہمیں وفاقی حکومت سمیت صوبائی حکومتوں کے ابتدائی طرزعمل سے یہی لگتا ہے کہ حالات میں بہتری کے امکانات محدود ہیں۔ پہلے بھی کئی بار یہ بات تحریر کی جاچکی ہے کہ ہمیں موجود ہ حالات سے نمٹنے کے لیے ایک بڑے اورمضبوط سیاسی نظام اور خود مختاری پر مبنی حکومتی مینڈیٹ درکار ہے، تاکہ ایسی مضبوط حکومت کی موجودگی میں سخت فیصلے کیے جاسکیں۔ کیونکہ جو موجودہ حکومتی سیٹ اپ ہے وہ پہلے ہی نہ صرف کمزور بلکہ مفلوج ہے اور تنہا فیصلے کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہے۔لیکن کیونکہ ہم نے اپنی مرضی اورمنشا کے مطابق ایسا نظام اختیار کرلیا ہے جس میں وفاق ہو یا صوبہ… کوئی بھی جماعت تن تنہا حکومتی نظام کو چلانے کی پوزیشن میں نہیں۔ اب جو نیا حکومتی اتحاد بنا ہے، اس سے قبل یہ پہلے رائونڈ میں بطور پی ڈی ایم حکومت کرچکے ہیں، مگر اب دوسرے رائونڈ میں وہ پہلے سے بھی کمزور وکٹ پر ہیں اوران کا سارا انحصار ہمیں اس وقت اسٹیبلشمنٹ پر نظر آتا ہے۔ جبکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود اسٹیبلشمنٹ بھی نئی حکومت پر ہی انحصار کرکے آگے بڑھنا چاہتی ہے، اور چاہتی ہے کہ یہ نظام نہ صرف چلے بلکہ ہماری ترجیحات بھی اس نئے نظام میں بالادست ہوں۔ اس کھیل یا نئے حکومتی نظام کی سیاسی ساکھ کو سمجھنا ہے تو اس مثال کو دیکھنا ہوگا:

سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا، سابق نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اور سابق نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی آزاد حیثیت سے سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں لیکن ان کے تجویز کنندہ مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم ہیں، اوربظاہر ووٹ بھی ان کو یہی جماعتیں دیں گی، اور کہا جارہا ہے کہ ان کو حکومتی اتحاد کی مدد سے جتایا جائے گا۔ یہ تینوں افراد کس کے نمائندے ہیں اورکس نے ان کو نامزد کیا ہے؟ اور کیونکر سیاسی جماعتوں نے ان کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے؟ تو سارا کھیل سمجھ میں آجاتا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ یہ جو مصنوعی انداز سے، اور جو لوگ ہارگئے تھے اُن کے ہاتھ میں حکومت دے کر ہم کیسے اس نظام میں بہتری کے امکانات پیدا کرسکتے ہیں! یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اب سیاسی مہم جوئی اور سیاسی ایڈونچرز کی بنیاد پر نظام چلانا اتنا آسان نہیں رہا، اور لوگوں کو بھی اندازہ ہورہا ہے کہ پسِ پردہ جو کھیل کھیلا جارہا ہے وہ ہمیں اس دلدل سے باہر نہیں نکال سکتا۔