حکومتِ پاکستان نے عالمی ساہوکار، بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے سامنے مکمل طور پر ہتھیار ڈال دیے ہیں اور ساہوکار کی تمام شرائط من و عن تسلیم کرنے پر آمادگی ظاہر کردی ہے، اور اس حقیقت پر غور کرنے کی ضرورت تک محسوس نہیں کی کہ ان شرائط پر عمل درآمد کرنے کے کیا نتائج پاکستان کے عام آدمی کی زندگی اور ملکی معیشت پر مرتب ہوں گے۔ مذاکرات کے لیے پاکستان آنے والے آئی ایم ایف کے وفد اور پاکستانی حکام کے مابین ہونے والے مذاکرات کی ذرائع ابلاغ کے ذریعے سامنے آنے والی روداد کے مطالعے کے بعد یہ فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگتی کہ یہ دو طرفہ مذاکرات نہیں بلکہ قطعی یک طرفہ عمل ہے جس میں ساہوکار کی طرف سے مطالبات کی ایک طویل فہرست اور کرنے کے کاموں کا ہدایت نامہ مقروض اور مزید قرض کے درخواست دہندہ کے سپرد کیا گیا ہے، جس نے اثرات کا جائزہ لیے اور کچھ سوچے سمجھے بغیر مطالبات اور ہدایات کے سامنے سرِ تسلیم خم کردیا ہے۔ غالبؔ خستہ جاں کے الفاظ میں کیفیت کچھ یوں ہے:
قرض کی پیتے تھے مے اور کہتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
حالات کی سنگینی اس حد کو پہنچ گئی ہے کہ حکمران نواز لیگ کے قائد جناب نوازشریف خود چیخ اٹھے ہیں کہ ’’آئی ایم ایف کے کہنے پر بجلی اور گیس مزید کتنی مہنگی ہوں گی، عوام کا صبر کب تک آزمائیں گے…‘‘ یہ گویا حکومت کے قائد اور سرپرستِ اعلیٰ کی طرف سے اپنی ہی حکومت کی ناکامی کا پیشگی اعتراف ہے۔ دوسری جانب اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی اپنی رپورٹ میں توانائی کی قیمتوں میں ردو بدل اور مستقبل میں مزید اضافے کو مختصر اور طویل المدت بنیادوں پر مہنگائی کے منظرنامے کے لیے خطرہ قرار دے دیا ہے اور موجودہ سخت مالیاتی پالیسی اور شرح سود 22 فیصد کی بلند ترین سطح پر برقرار رکھنے کا اعلان کردیا ہے۔ یوں ہماری حکومت اور مرکزی بینک پوری طرح آئی ایم ایف کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ لیکن آئی ایم ایف کی تاریخ اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ یہ ایک ایسا طبیب ہے کہ جس کے بتائے ہوئے نسخوں کے استعمال سے شاید ہی کوئی ملک مالیاتی بحران سے نکل سکا ہو۔ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کا قیام 1936ء کی عالمی کساد بازاری اور دوسری جنگِ عظیم کی تباہ کاریوں کے پس منظر میں 1944ء میں عمل میں لایا گیا تاکہ عالمی مالیاتی نظام کی بنیاد رکھی جا سکے، بین الاقوامی تجارت میں اضافے کے ذریعے مختلف ممالک کی آمدن اور ذرائع روزگار کو وسعت دی جا سکے، اور ادارے کے رکن ممالک کو بین الاقوامی ادائیگیوں میں درپیش خسارے کی صورتِ حال سے نبرد آزما ہونے کے لیے قرض کی فراہمی ممکن بنائی جا سکے۔ بظاہر یہ مقاصد اقتصادی مشکلات میں گھرے ممالک کو مدد فراہم کرنا اور اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہیں، تاہم آج کل اس ادارے کی حیثیت ایک عالمی سودخور ساہوکار تک محدود ہو کر رہ گئی ہے جس کے پیش نظر اپنے قرض خصوصاً سود کی رقم کی وصولی کو یقینی بنانا ہے، اس مقصد کو پیش نظر رکھ کر یہ پالیسیاں بناتا اور مقروض ممالک کے لیے شرائط اور قواعد و ضوابط وضع کرتا ہے۔
پاکستان کو اس کے شکنجے میں جکڑے طویل مدت گزر چکی ہے، پہلی بار 1958ء میں پاکستان نے آئی ایم ایف سے قرض لیا، تب سے اب تک بار بار کوشش اور ’’قرض اتارو… ملک سنوارو‘‘ جیسی مہمات کے باوجود اس سے جان چھڑانے میں کامیاب ہوسکے ہیں نہ ہماری معیشت کی بہتری کی کوئی صورت سامنے آ سکی ہے، بلکہ ہم ’’مرض بڑھتا گیا، جوں جوں دوا کی‘‘ والی کیفیت سے دوچار ہیں۔ اب تک 22 دفعہ مختلف معاہدوں کے ذریعے ہم آئی ایم ایف سے قرض لے چکے ہیں۔ ان تمام معاہدوں میں اگرچہ آئی ایم ایف کی طرف سے عائد کردہ شرائط کم و بیش یکساں نوعیت کی تھیں، مگر ماضی میں ہماری اکثر حکومتوں کی طرف سے ایسی شرائط پر عمل درآمد سے گریز کیا گیا جن کے بارے میں ملکی ماہرینِ اقتصادیات کی یہ رائے پائی گئی کہ یہ شرائط قومی خودمختاری اور عوامی فلاح و بہبود کے منافی ہیں۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کا رویہ سخت سے سخت تر ہوتا چلا گیا ہے جس کا نتیجہ ہے کہ ملکی معیشت اب پاکستان کے بجائے بڑی حد تک آئی ایم ایف کے کنٹرول میں جا چکی ہے، ملک کا مرکزی بینک خودمختار بنادیا گیا ہے، ڈالر کی شرح تبادلہ پر حکومت کا کنٹرول ختم کرکے اسے منڈی کے اتار چڑھائو سے منسلک کردیا گیا ہے، اب پی آئی اے اور دوسرے قومی اداروں کی نجکاری کے لیے حکومت پر سخت دبائو ہے جس کے پیش نظر ہمارے حکمران نجکاری کا عمل تیز سے تیز تر کرنے پر مستعد دکھائی دیتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے سابق وزیراعظم شوکت عزیز کی طرح بیرونِ ملک سے ایک شخصیت کو درآمد کرکے ملک کی وزارتِ خزانہ کا قلمدان سونپ دیا گیا ہے تاکہ ملک سے زیادہ بین الاقوامی اداروں کے مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ آئی ایم ایف کے مذاکراتی وفد نے مطالبات کی جو فہرست پاکستانی حکام کے حوالے کی ہے اُس کے مطالعے سے یہ بات نمایاں ہوکر سامنے آئی ہے کہ ان اقدامات کا مقصد پاکستانی معیشت کی اصلاح ہرگز نہیں، بلکہ ان کا واحد مقصد اپنے قرضوں بلکہ اس سے بھی زیادہ سود کی وصولی کو یقینی بنانا ہے۔ ان مطالبات میں بجلی اور گیس کے نرخوں میں ناقابلِ برداشت اضافہ بھی شامل ہے جس کی تعمیل کا وعدہ ہماری حکومت نے کرلیا ہے اور بجلی کے نرخوں میں سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ اور بنیادی قیمت میں سالانہ اضافہ صارفین کو منتقل کرنے کی یقین دہانی کرا دی گئی ہے۔ اس طرح گیس کے گردشی قرضوں کی ادائیگی کا بوجھ بھی عوام کو برداشت کرنا پڑے گا۔ سوال یہ ہے کہ پہلے سے مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کے ہاتھوں تنگ آکر بچوں سمیت خودکشیوں پر مجبور لوگ یہ بوجھ کیوں کر برداشت کریں گے؟ وقت کی ضرورت ہے کہ ہمارے حکمران ہر صورت آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کرکے اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کی منصوبہ بندی کریں جو کچھ زیادہ مشکل اور ناممکن الحصول نہیں۔ اس کے لیے حکمران طبقے اور اشرافیہ کو قربانی دینا ہوگی اور ملک و قوم کی خاطر سادہ طرزِ زندگی اختیار کرنا ہوگا۔ قرضوں سے کسی ملک نے ترقی کی ہے نہ پاکستان کرسکتا ہے۔ (حامد ریاض ڈوگر)