رمضان المبارک!

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا :
”میری اُمت کے لوگ ہمیشہ اچھے رہیں گے جب تک روزہ جلد افطار کرتے رہیں گے“۔
(بخاری، جلد اوّل، کتاب الصّوم، حدیث نمبر 1835 )

ایک بندہ مومن کے لیے رمضان المبارک ، اللہ تعالیٰ کا ایک بڑا احسان اور عظیم تحفہ ہے۔ جو شخص اس مہینے میں کوئی نیک اور بھلا کام کرتا ہے تو اس کو ایسا ثواب ہوتا ہے، جیسے اورمہینوں میں فرض کا ثواب، اور جو کوئی اس مہینے میں ایک فرض بجا لائے تو اس کو ستّر فرضوں کا ثواب ملتا ہے۔

اس مہینے کی ابتدا میں رحمت ہے اور اس کے درمیانی دنوں میں مغفرت وبخشش ہے، اور اس کے آخری حصے میں دوزخ سے آزادی ہے۔ اس مہینے میں کثرت سے کلمۂ شہادت و استغفار پڑھنا، اللہ تعالیٰ سے جنت کی دُعا کرنا اور دوزخ سے پناہ مانگنا ایک بندئہ مومن کا وظیفۂ حیات ہے۔

اللہ ربّ العزت کا یہ کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں دین کا صحیح فہم نصیب کیا، اور ایک دین دار نظم سے منسلک ہو کر اجتماعی زندگی گزارنے کا موقع فراہم کیا۔ اس گئے گزرے دور میں ہرطرف پھیلی ہوئی تاریکی اور جہالت کو دیکھیے۔ دین سے دُوری اور گریز کی اَن گنت راہوں کو دیکھیے۔ پھر اپنی خوش بختی کا اندازہ کیجیے کہ اس مالک و خالق نے اپنے دین کی سربلندی کے لیے ہمیں منتخب کیا ہے۔ کیسی خوش نصیبی ہمارے حصے میں آئی ہے کہ اس نے اپنا محبوب بندہ بننے، عبادالرحمٰن میں اپنا نام لکھوانے، اور اپنی خوش نودی کے نصب العین کے تحت جدوجہد کرنے والوں میں ہمیں شامل کیا ہے۔

لیکن یہی خوش بختی ایک گراں بار ذمہ داری اور نازک فریضہ بھی ہے… اس سے پہلو تہی کرنا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے سے کم نہیں۔ اس کام میں تھوڑی سی سستی اور تساہل بھی سخت پکڑ اور کڑی باز پرس سے ہمکنار کرنے والی ہے۔ اس فانی دنیا کے مقابلے میں ہمیشہ قائم و باقی رہنے والی زندگی کے لیے قیمتی اثاثہ اور متاع بے بہا جمع کرنے کا یہ بڑا نادر موقع ہے۔اپنے ربّ سے تعلق مضبوط کرنے اور اس کی قربت حاصل کرنے کا یہ بہترین زمانہ ہے۔ ایمان کا بڑھنا، اس میں روزافزوں اضافہ اور ترقی، انسان کی فلاح، اس کی کامرانی اور اس کی کامیابی کے لیے اللہ رب العالمین کی بارگاہ میں سرخروئی اور مغفرت کا یہ پیشگی پروانہ ہے۔

ہم پر اللہ ربّ العزت کے اَن گنت احسانات اور نوازشیں تقاضا کرتی ہیں کہ ہم ہرلمحہ اس کا شکر ادا کریں۔ شکر کی بہترین شکل اللہ کے سامنے جواب دہی کا زندہ احساس ، رجوع الی اللہ کی اُمنگ اور انفاق فی سبیل اللہ ہے۔ ذکر کی مکمل ترین اورمؤثر ترین صورت نماز ہے۔ اللہ کی رضا کو اپنی زندگی کا نصب العین قرار دینے کے بعد اس کے تمام تقاضوں کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنا مسلسل جہاد ہے۔

رمضان المبارک ایک بار پھر رحمت و کرم کی بارش کا وسیلہ کر بن رہا ہے۔ ہم پر لازم ہے کہ اس مبارک ماہ کی ویسی ہی قدر کریں جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔ فریضہ اقامت دین کی جدوجہد کے ایک کارکن کی نظر سے دیکھیں تو یہ مہینہ اپنے آپ کو علم دین سے لیس کرنے، خوب اجر سمیٹنے، چھوٹی بڑی نیکیاں اپنا شعار بنا لینے، اپنے نفس پر قابو پانے، ایک مجاہد کا سا مضبوط ایمان پیدا کرنے، مردِمومن کی سی دُور رس نگاہ پیدا کرنے کا مہینہ ہے۔ مختصر یہ کہ اپنے مالک حقیقی سے قرب حاصل کرنے، اور اپنے آپ کو اس کے انعامات اور فضل کا مستحق قرار دینے کا مہینہ ہے۔ اگر ہم ان نعمتوں کی قدر کرنے اور اللہ کا شکر ادا کرنے کا ارادہ کریں گے، تو وہ ہمیں اپنی عائد کردہ ذمہ داریوں کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنے کے قابل بنائے گا اور بحیثیت مجموعی دین کا اچھا کارکن اور اپنی راہ کا زیادہ مستعد سپاہی بننے کا حوصلہ عطا کرے گا اور ہرآن ہماری مدد بھی فرمائے گا۔

ضروری ہے کہ ان دنوں اپنے معمولات کو دوسرے دنوں کے مقابلے میں بالکل تبدیل کردیجیے۔ اپنا زیادہ وقت تلاوت قرآن کریم، نماز اور مطالعے میں گزاریے۔ اٹھتے بیٹھتے مسنون اذکار کا سہارا لیجیے۔ جب بات کیجیے تو نیکی کی بات کیجیے۔ اپنے رب ّسے دُعائیں کیجیے، گناہوں پر معافی مانگیے، اُسی مالک حقیقی کے سامنے گریہ و زاری کیجیے اورمغفرت طلب کیجیے۔

تحریک اسلامی کے دشوار اور کٹھن راستوں کو ہم اس وقت تک طے نہیں کر سکتے، جب تک کہ ہماری سیرت پختہ اور ایمان مضبوط بنیادوں پر استوار نہ ہو، اور ہم میں بے پناہ صبر اور خدا خوفی کا داعیہ موجود نہ ہو۔ زندگی کی آسایشوں اور دنیا کی چمک دمک میں اُلجھ کر ہم اکثر اپنے مقصدِ حیات ہی کو بھول جاتے ہیں۔ ہم اس وقت تک ثابت قدمی اورمستقل مزاجی کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکتے، باطل کے مقابلے میں چٹان ثابت نہیںہو سکتے، جب تک کہ ہماری ذاتی اور اجتماعی زندگی، ربّ کی بندگی کے مفہوم سے پوری طرح آشنا نہ ہو اور خواہشات نفس کی غلامی سے نکلنے کی ہم نے مشق نہ بہم پہنچائی ہو۔

ہمیں نہ صرف خود حق کے راستے پر چلنا ہے بلکہ دوسروں کو بھی چلنے کی دعوت دینا ہے۔ ہمیں نہ صرف اپنی زندگیوں میں دین کو قائم کرنا ہے بلکہ اپنے ماحول ، معاشرے اورپورے ملک میں دین کو قائم کرنے کے لیے جدوجہد کرنی ہے۔ اس کام کے لیے ہمیںخلوص کی وافر مقدار، مضبوط ایمان کی دولت اور صبرو حکمت کا سرمایہ درکار ہے۔ اسی طرح انتہائی پختہ سیرت و کردار، عزم و ارادے اور اللہ کی معیت، نصرت، توفیق اور اس کی رضا کی ضرورت ہے۔