دیکھا گیا ہے کہ بعضے بعضے لوگ ’سنہرا موقع‘ نہیں لکھتے۔ ’سنہری موقع‘ لکھتے ہیں۔ ہمارا جی چاہتا تھا کہ ایسے موقع پرستوں کی خوب خبر لی جائے۔ مگر نئی دہلی سے ڈاکٹر تابشؔ مہدی نے خبر دی ہے کہ ’سنہرا‘ کوئی رنگ ہوتا ہی نہیں۔ صاحب! رنگ تو ’سنہری‘ ہی ہوتا ہے، جیسے گلابی ہوتا ہے، جیسے چمپئی ہوتا ہے، جیسے نارنجی ہوتا ہے یا جیسے دھانی ۔
ڈاکٹر صاحب کی یہ رنگا رنگ بات دل کو لگتی ہے۔ اگر لوگ باگ ہلکی سردی کو’گلابی جاڑا‘ بولتے ہیں، شریکِ حیات کرنے کو ’چمپئی چہرہ‘ چاہتے ہیں، اپنی دُلہن کے لیے’نارنجی جوڑا‘ خریدتے ہیں اور اوڑھنے والیاںسر پر ’دھانی روپٹّا‘ اوڑھ کر دھان کے کھیت میں کھیت ہو رہتی ہیں توکسی ’سنہری موقعے‘ سے فائدہ اُٹھانا بھلاکیسے غلط ہوگیا؟ ویسے اہلِ لغت تو یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ زنانہ اوڑھنی ’روپٹّا‘ نہیں، دوپٹّا ہے اوراس دوپٹّے میں واؤ غیر ملفوظ ہے، یعنی بولتے ہوئے واؤ نہیں بولا جاتا۔ دال پر پیش لگا کر ’دُپٹّا‘ بول دیتے ہیں، جیسا کہ ناسخؔ نے بولا:
آج اوڑھا ہے دوپٹّا آسمانی یار نے
میرے سر کو بھی بلائے آسمانی چاہیے
مگر دوپٹّا ’آسمانی‘کہنے والے ناسخ نے’رنگ‘ کے ’سنہرے‘ ہونے کا اعلان کرڈالا۔ ناسخؔ ہی کا ایک شعرنوراللغات میں منقول ہے:
وصف جب میں نے کیے تیرے سنہرے رنگ کے
خود بخود ہر صفحۂ دیواں سنہری ہو گیا
اس شعر کے ضمن میں ڈاکٹر تابشؔ مہدی، بقول خود ’’اُردو کی مستند ترین لغت، نوراللغات‘‘ سے اقتباس کرکے ارسال کرتے ہیں:
’’جلالؔ نے ’سرمایۂ زبانِ اُردو‘ میں لکھا ہے کہ ’یہاں لفظ سنہری کو یائے مجہول کے ساتھ یعنی امالہ کے ساتھ ’سنہرے‘ پڑھنا خطا ہے۔ اس واسطے کہ ’سنہری‘ نام ایک رنگ کا ہے۔ پس اس رنگ کی طرف خواہ شے مؤنث منسوب ہو، خواہ شے مذکر، بہرطور اس کو یائے معروف کے ساتھ ’سنہری‘ پڑھیں گے۔ قیاس بر رنگ اگری، بسنتی، چنپئی، دھانی وغیرہ‘‘۔ جب کہ صفحۂ دیواں کوناسخؔ نے بھی ’سنہری‘ ہی کہا۔
ڈاکٹر تابش ؔ مہدی نے جلالؔ کے اس قولِ معقول کی وضاحت فرماتے ہوئے مزید لکھا ہے کہ ’’سنہرا بولنا غلط ہے، کیوں کہ ’سنہری‘ ایک رنگ کا نام ہے۔ رنگ مذکر و مؤنث نہیں ہوتا، بلکہ مذکر و مؤنث دونوں کے لیے ایک ہی شکل میں آتا ہے۔ جیسے بسنتی، دھانی، چمپئی۔ اب اگر ان کو مذکر کے ساتھ بولنا ہو تو یہ نہیں کہیں گے کہ بسنتا کپڑا، دھانا جوڑا اور چمپیا لباس۔ بلکہ کہیں گے بسنتی کپڑا، دھانی جوڑا، چمپئی لباس۔ بالکل اسی طرح ’سنہری‘ بھی ایک رنگ ہے۔ مذکر لفظ کے ساتھ ’سنہرا‘ بولنا غلط ہے۔ سنہری ہی استعمال کرنا چاہیے‘‘۔
مگر مزے کی بات یہ ہے کہ کچھ رنگوں کی تذکیر و تانیث استعمال کرنے پر ہم نے اہلِ زبان کو اس جھگڑے میں پڑتے نہیں دیکھا۔ مثلاً نیلا آسمان ہی نیلی چھتری بھی کہلاتا ہے۔ پیلا جوڑا پہن کر کچھ لوگوں کی رنگت پیلی پیلی سی لگنے لگتی ہے۔ جامہ زیب خواتین اگر ہرا جامہ زیب تن کرلیں تو رنگ سے رنگ کا میل کرنے کو اس پر ہری ہری چوڑیاں پہن لیتی ہیں۔ اُدھر پتھر کے بُت پوجنے والوں کے لیے صنم تراش کوئی کالا پتھر تراش کر کالی مائی کی مورتی گھڑ لیتے ہیں اورفخرسے کہتے ہیں:
میرے ہاتھوں سے تراشے ہوئے پتھر کے صنم
آج بت خانے میں بھگوان بنے بیٹھے ہیں
یوں تو مولوی نورالحسن نیر مرحوم نے نوراللغات میں لفظ ’سنہرا‘ کے معنی بھی دے رکھے ہیں، جس کی نشان دہی ڈاکٹر تابشؔ مہدی نے بھی کی : ’’سنہرا: صفت مذکر۔ سونے کے رنگ کا، زرّیں، وہ چیز جو سونے کے رنگ کی ہو، نام ایک رنگ کا جس کو طلائی بھی کہتے ہیں‘‘۔
اسی طرح ڈاکٹر تابش مہدی پرتاب گڑھی کے موجودہ مسکن سے سابقہ تعلق رکھنے والے مولوی سید احمد دہلوی نے بھی فرہنگِ آصفیہ میں لفظ ’سنہرا‘ کے معنی یوں درج کیے ہیں:
’’صفت: رُپہلا کا نقیض۔ سونے کے رنگ کا۔ مُذہّب۔ زر اَندوز۔ طلائی۔ طلا کا۔ زرّین۔ پُر زَر۔ سونے کا‘‘۔
’نقیض‘ کا مطلب ہے ضد، اُلٹا، برعکس اور برخلاف۔ ’ذہب‘ سونے کو کہتے ہیں۔ لہٰذا ہر سنہری شے، طلائی یا مُطلّاچیز اور وہ دست کاری جس پر سونے کا کام کیا گیا ہو، نیز سونے سے بنائی ہوئی تمام اشیا ’مُذہّب‘ کہلائیں گی۔
مولوی سید احمد دہلوی صاحب نے لفظ ’سنہرا‘ کے استعمال کی نظیر بھی پیش کردی ہے۔ سند کے طور پر ایک شعرتو رشکؔ کا دیا ہے:
یہ طلائی رنگ جسمِ یار گہرا ہو گیا
جو انگرکھا چھو گیا تن سے سنہرا ہو گیا
اوردوسرا شعر آتشؔ کا ہے:
مے کی تکلیف نہ کیوں کر کریں اُن آنکھوں کے جام
موئے سر ابرِ سیہ، برق سنہرا تعویذ
دلچسپ بات یہ ہے کہ سید صاحب نے ’سنہری‘ کے معانی بھی ٹھیک وہی درج کیے ہیں جو ’سنہرا‘ کے لکھے ہیں۔ اور لفظ ’سنہری‘ کے استعمال کی سند میں بھی کئی اشعار دیے ہیں۔ان اشعار میں سے ایک شعر توسعادت یار خان رنگینؔ کاہے:
دانت خاصے دھڑی طلسم جمی
سنہری لب تس پہ بول چال پری
جب کہ ناسخؔ کے کئی اشعار دیے ہیں۔ ان میں سے ایک شعر وہی ہے جس پر مولوی نورالحسن نیرؔ مرحوم نے جلالؔ کے ’’سرمایۂ زبانِ اُردو‘‘ کا حوالہ دے کر اعتراض کیا تھا۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ جلالؔ کے اعتراض پر ناسخؔ نے اپنے کہے کی اصلاح کرلی تھی۔ کیوں کہ سید احمد دہلوی مرحوم نے فرہنگِ آصفیہ میں لفظ ’سنہری‘ کے استعمال کی مثال دیتے ہوئے ناسخؔ کا وہی شعر یوں نقل کیا ہے:
وصف جب میں نے کیے تیرے سنہری رنگ گے
خود بخود ہر صفحۂ دیواں مُذہّب ہو گیا
غالباً تکرار کے عیب سے بچنے کے لیے دوسرے مصرعے میں ’سنہری‘ کی جگہ ’مُذہّب‘ لایا گیا ہے۔ گویا مولوی سید احمد دہلوی صاحب نے ’سنہرا انگرکھا‘ اور ’سنہرا تعویذ‘ بھی جائز سمجھا اور ساتھ ہی ’سنہری لب‘ اور ’سنہری رنگ‘ بھی رَوا قرار دے ڈالا۔ اب معلوم نہیں کہ مولوی نورالحسن نیر اور مولوی سید احمد دہلوی جیسے، لسانیات کے، دو ممتاز مولویوں کے درمیان ’سنہرا مرغا‘ حرام ٹھہرے گا یا ’سنہری مرغا‘۔ خیر، مرغے کے ساتھ جو سلوک بھی ہوتا رہے، ہو۔ مگر گمان غالب یہی ہے کہ کم از کم ’سنہری مرغی‘ دونوں مولویوں کی فقہ میں حلال سمجھی جائے گی۔
بہرحال، فقہائے امت کے اختلاف کی طرح فقہائے لسانیات کے اختلافات کو بھی رحمت ہی جاننا چاہیے۔ کیوں کہ اگر ماہرین میں اختلاف ہوجائے تو اس سے ہم جیسے مقلدین کے لیے گنجائش نکل آتی ہے کہ جس رائے پر چاہیں عمل کریں۔ ’سنہری مرغا‘ بھون کر کھائیں یا ’سنہرا مرغا‘ پیڑ سے اُڑا کر پیٹ میں پہنچائیں۔