دستورِ مدینہ اور فلاحی ریاست کا تصور

دستورِ مدینہ ساتویں صدی عیسوی (622ء) میں ہجرتِ نبوی ﷺ کے نتیجے میں ظہور پذیر ہونے والا ایک عظیم انقلابی قدم تھا، جس نے تاریخِ انسانی کا رخ بدل دیا۔ اس کی وجہ سے مختلف قوموں کو ایک وسیع تر سیاسی نظام میں باہم مل جل کر رہنے کے مواقع میسر آئے۔ رسول اللہﷺنے دستورِ مدینہ کے ذریعے قبائلیت کے مابین عدم مساوات اور تنازعات کا خاتمہ کرکے انصاف اور مساوات کی بنیاد پر ایک وسیع ادارے یعنی مملکت کی بنیاد ڈالی۔ آپﷺ نے اس دستور کو نہ صرف یہ کہ خود تحریر کروایا بلکہ اسے ھذا کتاب من محمد النبیﷺ قرار دیا۔ اسی دستورِ مدینہ کے نتیجے میں مدینہ منورہ میں ایک فلاحی ریاست کا قیام ممکن ہوا، اور معاشرے سے ظلم، ناانصافی، عدم مساوات اور ایسی ہی دیگر خرابیوں کا سدباب ہوا۔

پیشِ نظر کتاب ”دستورِ مدینہ اور فلاحی ریاست کا تصور“ (دستورِ مدینہ اور جدید دساتیرِ عالم کا تقابلی جائزہ) ڈاکٹر حسن محی الدین قادری (چیئرمین، سپریم کونسل آف منہاج القرآن انٹرنیشنل) کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جس پر انھیں مصر کی جامعہ الدول العربیۃ (Arab League University) نے پی ایچ۔ڈی کی سندعطا کی ہے۔ ڈاکٹر حسن محی الدین نے اپنے اس مقالے میں دستورِ مدینہ کا کامل تجزیہ، تقابل، توضیح اور تشریح کی ہے اور امریکی و برطانوی اور دیگر مغربی دساتیر کے دستوری اصولوں کا دستورِ مدینہ سے تقابلی جائزہ لیا ہے۔ انھوں نے دستورِ مدینہ کی مکمل تخریج و تحقیق اور اس کا استناد و اعتبار ثابت کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ صرف دستورِ مدینہ ہی تمام آئینی و دستوری تقاضے پورے کرتا ہے اور اسی پر عمل پیرا ہو کر مسلم ممالک مثالی اسلامی فلاحی ریاستیں تشکیل دے سکتے ہیں۔

یہ تحقیقی مقالہ عربی، انگریزی اور اردو زبانوں میں شائع ہوچکا ہے۔ اردو زبان میں یہ تحقیقی مقالہ دو جلدوں اور قریباً 1360 صفحات پر محیط ہے۔ اس تحقیقی مقالے کےدرجِ ذیل 7 ابواب اورہر باب کی متعدد فصول ہیں:

1۔ عالمِ مغرب اور عالمِ اسلام میں قانون سازی کا ارتقاء، 2۔ دستورِ مدینہ کی توثیق و تصدیق (روایات ودفعات کی تخریج اور راویوں کے احوال)، 3۔ دستورِ مدینہ (تحقیقی جائزہ)، 4۔ ریاست کے عناصرِ تشکیلی (دستورِ مدینہ اور جدید دساتیر کی روشنی میں) ، 5۔ دستورِ مدینہ اور جدید دساتیر میں نظامِ حکومت کے عمومی اصول، 6۔ حقوقِ انسانی (دستورِ مدینہ اور جدید دساتیر کی روشنی میں)، 7۔ ریاستی اختیارات(دستورِ مدینہ اور جدید دساتیر کی روشنی میں) ۔

اس محققانہ کاوش کویہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ فاضل محقق نے صرف تاریخی واقعات اور فقہی کتب ہی پر انحصار کرکے دستورِ مدینہ کی مختلف شقوں کو بیان نہیں کیاہے بلکہ دستور ِمدینہ کی دفعات کی توثیق ِمزید کے لیے ہرشق کی موافقت میں قرآن وسنت ، احادیث ِمبارکہ اور کتب ِسیر وتاریخ سے مزید شواہد درج کیے ہیں ۔ مزید یہ کہ دستورِ مدینہ کی دفعات کا جدید دستوری اصولوں کے ساتھ تقابلی جائزہ اس دقتِ نظری سے پیش کرنے کی سعیِ جمیل کی گئی ہے کہ ان کے درمیان مشترک اور مختلف فیہ امور کی وضاحت ہوسکے۔ اس تقابلی جائزے کےلیے امریکی اور برطانوی دساتیر ، اقوام متحدہ کے چارٹر اور یورپ کے معاہدات کو بطور نظیر پیش نظر رکھا گیا ہے ، تاکہ ان کے نظام حکمرانی اور عہد ِنبویﷺ کے نظام ِحکمرانی کے درمیان مشترکات و تناقضات کو اجاگر کیا جاسکے۔علاوہ ازیں فاضل محقق نے اس کتاب میں حضوراکرمﷺ کی ریاستی پالیسی کے بنیادی اصول مفصلاً بیان کیے ہیں اور دستورِ مدینہ کو اسلامی سیاسی افکار کے ایک اہم مصدر و ماخذ کے طور پر پیش کیا ہے۔

اس تحقیقی مقالے میں دستورِ مدینہ کی ایک ایک شق کا قرآن و سنت کی روشنی میں جس گہرائی ، گیرائی اور دقتِ نظر سے تجزیہ کیا گیا ہے وہ تحقیق و جستجو کی ایک عمدہ مثال ہے، جس کا بجا طور پر اعتراف عالمِ عرب کی ممتاز علمی شخصیات پروفیسر ڈاکٹر جمال فاروق محمود الدقاق (پرنسپل دعوہ اسلامیہ کالج، قاہرہ، مصر)، پروفیسر ڈاکٹر طٰہٰ حُبیثی (صدر شعبہ فلسفہ و عقیدہ ، کلیہ اصولِ دین، جامعۃ الازہر، قاہرہ)، پروفیسر ڈاکٹر سعد سعد جاویش (پروفیسر علوم الحدیث، جامعۃ الازہر، مصر) اور ڈاکٹر رمضان الحسین جمعہ(پروفیسر آف شریعہ، کلیہ دارالعلوم، جامعۃ الفیوم، مصر) نے بھی کیا ہے۔

ڈاکٹر رمضان الحسین جمعہ لکھتے ہیں: ”اس محتاط، سنجیدہ، عمیق اور جامع مطالعے سے محقق نے یہ ثابت کیا ہے کہ مدینہ منورہ کے وثیقے میں ایسے آئینی اصول موجود ہیں جنھیں موجودہ دنیا نے اپنایا ہے ، جیسے: شہریت کا اصول، تمام ریاستی طبقات کی نمائندگی، سماجی یکجہتی، قبائلی و شخصی رسم و رواج کا احترام، جان و مال کا تحفظ، فرد کی عزت و تکریم کی حفاظت، اتحاد کا فروغ، عدل کا قیام، آزادیِ اظہارِ رائے کی ترویج، مختلف فیہ امور کا جانچنا، مجلسِ شوریٰ کا قیام، حکام کا تقرر، الغرض! ہر چیز کو شرح و بسط کے ساتھ فصیح و بلیغ پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔“

فلاحی ریاست کے حوالے سے دستورِ مدینہ اور جدید دساتیرِ عالم کے تقابلی جائزے پر مشتمل یہ ایک شاندار علمی و تحقیقی کاوش ہے، جس کے لیے فاضل محقق ڈاکٹر حسن محی الدین قادری لائق ِ صد تحسین و قابل ِ مبارک باد ہیں۔ کتاب بھی بہت سلیقے سے شائع ہوئی ہے۔