ساتویں قسط
انسان کی نیکیاں اللہ کے ہاں محفوظ ہوتی ہیں اور خلقِ خدا بھی ان کی گواہی دیتی ہے۔ انسان کو ہر کام اللہ کی رضا کے لیے کرنا چاہیے، کیوں کہ اجر اسی کو عطا کرنا ہے۔ اللہ کے بندوں کے ساتھ حسنِ سلوک اسلامی تعلیمات کا اوّلین اصول ہے۔ بھائی عطا محمد کے ماموں زاد بھائی نور محمد جو گائوں میں رہنے والے بجاڑ قبیلے سے تعلق رکھتے تھے اور دونوں آپس میں سمدھی بھی تھے، طویل عرصہ قبل برطانیہ چلے گئے تھے۔ ان کی سب اولاد سوائے ایک بیٹی کے وہیں رہائش پذیر ہے۔ ان کو بھی اللہ نے مال و دولت کی فراوانی عطا فرمائی ہے۔ برادرم نور محمد مرحوم ہمارے خاندان کا بہت احترام کرتے تھے۔
میں جب بھی انگلینڈ جاتا (اُن کی زندگی میں چھے سات مرتبہ اس کا اتفاق ہوا)، اپنے گھر میں بہت بڑی ضیافت کرتے۔ کئی مواقع پر انھوں نے ایسی باتیں کیں جن کے بیان کرنے سے دولت مند افراد (بالخصوص نو دو لتیے) عموماً سخت نفرت کرتے ہیں۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ نور محمد مرحوم جوانی میں ہماری زمین پر کاشت کاری کیا کرتے تھے، ان کی اپنی زمین نہیں تھی۔ پچاس ساٹھ کی دہائی میں ہمارے علاقے کے بہت سے لوگ تلاشِ معاش میں یورپ بالخصوص برطانیہ منتقل ہوئے۔
بھائی نور محمد پرانے وقتوں کو یاد کرکے کہتے کہ ’’ہم دو بہن بھائی بچپن میں یتیم ہوگئے۔ ہماری والدہ کا دوسرا نکاح ہمارے چچا سے ہوا۔ ان سے دو بھائی اور دو بہنیں ہوئیں تو چچا بھی انتقال کرگئے۔ اس سارے عرصے میں بابا فتح علی نے کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی اور ہماری تمام ضروریات کو پورا کیا، تاآنکہ میں اور میرا چچا زاد بھائی خان محمد جوان ہوگئے اور بابا جی کی زمینوں پر کاشت کاری کرنے لگے، اس کے ساتھ بھیڑ بکریاں پالنے کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔ جب مجھے 1961-62ء میں انگلینڈ جانے کا خیال آیا تو سوچا کہ میرے پاس تو وہاں جانے کا خرچہ بھی نہیں۔ میں نے ماموں فیض صاحب (میرے والد مرحوم کو یہ سب بہن بھائی ماموں کہتے تھے کیوںکہ ان کی والدہ کو ہمارے والد صاحب بہن کہہ کر پکارتے تھے) سے اس بات کا تذکرہ کیا۔
اُس زمانے میں ولایت جانے کے لیے چھے سات ہزار روپے سے کام چل جاتا تھا۔ ماموں فیض صاحب نے میری حوصلہ افزائی کی اور چند دنوں میں بطور قرض اس رقم کا اہتمام کردیا اور میری قسمت سنور گئی‘‘۔ پھر بھائی نور محمد مرحوم ہر مرتبہ یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد فرماتے ’’حافظ صاحب! ہمارے دانتوںمیں تو اب تک آپ کے گھر کی دال روٹی کے ذرے موجود ہیں۔‘‘ یہ ایک ضرب المثل ہے جس میں سمندر کو کوزے میں بند کردیا گیا ہے۔ اللہ سب مرحومین کی مغفرت فرمائے۔
سماجی خدمات کے حوالے سے اپنے خاندانی بزرگوں کے ایک اور کارِخیر کی یادیں بھی میرے البم میں محفوظ ہیں۔ ہماری جامع مسجد ہمارے گھر کے ساتھ جانبِ مغرب واقع ہے۔ یہ ایک کھلا احاطہ ہوا کرتا تھا جس کے شمال میں مسجد کی عمارت اور اس کا صحن، وضوگاہ وغیرہ تھے، بیچ میں ایک وسیع احاطہ، جس کے سینٹر میں پرانے وقتوں میں گھنے سایہ دار برنے کے درخت اور ایک جانب بیریاں، دوسری جانب لسوڑے کے درخت ہوتے تھے۔ یہ احاطہ ہماری خاندانی چوپال تھی۔ اس کے مغرب کی جانب ایک بڑا کمرہ تھاجسے حجرہ کہا جاتا تھا۔ اس میں درویش وغیرہ بسیرا کرتے تھے، ان کا کھانا ہمارے گھر میں پکتا اور وہ خود آ کر لے جاتے۔ جنوبی جانب ایک بہت بڑا کمرہ مسافروں کی رہائش کے لیے تعمیر کیا گیا تھا جس کی مشرقی اور شمالی جانب کھڑکیاں تھیں اور دروازہ شمالی جانب چوپال کے صحن میں کھلتا تھا۔ اس کمرے کے مغرب میں ایک اور کمرہ تھا جو سردیوں میں مسافروں کے مویشی باندھنے کے کام آتا تھا۔
آج کے دور اور اُس دور میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اب نہ کوئی مسافر آتا ہے، نہ مویشیوں کو ساتھ لانے کا کوئی تصور ہے۔ بزرگوں کے حکم کی تعمیل میں ہم بچپن میں ان مسافروں کے لیے اپنے خاندان کے تمام گھروں سے حسب ِضرورت سالن روٹی جمع کرکے لاتے اور ان کی خدمت میں پیش کرتے۔ ایک رات قیام کرنے کے بعد یہ عارضی مہمان جانبِ منزل روانہ ہوجاتے۔ مویشیوں کے لیے چارے کا انتظام بڑے لوگوں کی ذمہ داری ہوتی تھی۔ کمروں کی صفائی خادمینِ مسجد کو کرنا ہوتی تھی۔ کئی مسافر بتاتے کہ راستے میں جو گائوں آیا ہم نے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ کیا ہم وہاں ایک شب قیام کرسکتے ہیں؟ تو ہر ایک نے کہا کہ نہیں بھئی نہیں، آگے جائو، ایک گائوں چک میانہ ہے، وہاں قیام ممکن ہوگا۔ یہ پرانا مگر یادگار دور تھا۔
اب دورِ جدید میں الحمدللہ مسجد نہایت خوب صورت دو منزلہ بن چکی ہے، بجلی بھی ہے، اے سی بھی لگے ہوئے ہیں، بہترین سائونڈ سسٹم ہے، سردیوں میں تمازت کا اہتمام بھی ہے اور دیگر تمام سہولیات بھی میسر ہیں، مگر قدیم مسجد میں داخل ہوتے ہی جو ذہنی سکون اور روحانی مسرت حاصل ہوتی تھی، اس کی اپنی ہی شان تھی۔ چوپال تقریباً ختم ہوچکی ہے۔ اس کا صحن اب پکا ہوگیا ہے۔ کمرے بھی نئے اور پختہ بن گئے ہیں مگر بند پڑے رہتے ہیں۔ نہ مسافر، نہ اُن کے مویشی، نہ گھنے سایہ دار درخت، نہ ان کے سائے میں وہ محفلیں جو تاریخ کی گزرگاہوں اور وقت کی تہوں میں کہیں گم ہوگئی ہیں، مگر جنھوں نے انھیں کبھی دیکھا تھا وہ بڑے شوق سے ان کا تذکرہ کیا کرتے تھے۔ نئی نسل تو زیادہ جانتی نہیں، مگر ہم جیسے لوگ ان تاریخی چیزوں کو کبھی نہیں بھول سکتے۔ اب ہمارے عزیزان اپنی حویلی میں مجلس لگاتے ہیں، مگر بزرگوں کی مجلسوں کی شان جدا تھی۔ اللہ میرے عزیزوں کی اس محفل کو آباد رکھے۔ ماضی کو یاد کرکے میرؔ کا یہ شعر ذہن میں آ گیا:
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی
میرے دادا ابو اپنی چوپال کے سربراہ تھے۔ ان کی وفات کے بعد میرے تایا جان اور نانا جان نے بیک وقت یہ منصب سنبھالا۔ یہ کام واقعی بڑا کٹھن اور مشکل تھا۔ جھگڑوں کے فیصلے کرنا اور پھر فریقین کو اس پر مطمئن کرنا کوئی آسان کام نہیں۔اس عرصے میں میرے نانا جان مسجد میں درسگاہ بھی چلا رہے تھے اور یہ سماجی ذمہ داریاں بھی ادا کررہے تھے۔ میرا ننھیالی گھر میرے لیے اب تک یادگار ہے۔ یہ گھر میرے آبائی گھر سے بہت قریب تھا، لیکن دوسری گلی میں واقع تھا۔ میرے نانا جان حافظ فضل الٰہی بہت مہمان نواز اور وسیع حلقہ احباب رکھتے تھے۔ ذریعہ معاش کاشت کاری تھا، مگر اس سے گزارا بمشکل ہوتا تھا۔ اس کی مختلف وجوہات تھیں۔ ایک تو نانا جان بوجوہ اتنی محنت نہیں کرتے تھے جتنی بارانی علاقے کی کاشت کاری کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ دوسرے، آپ کے والدِ گرامی قدر حافظ سلطان علی مرحوم نے آپ کے بچپن میں آپ کی والدہ سے علیحدگی اختیار کرلی اور دوسری شادی اپنی پسند کے مطابق کرلی۔ اب بچپن میں سوتیلی ماں کے ہاتھوں فطری طور پر تکالیف بھی اٹھانا پڑیں جس کے اثرات مزاج میں آخر تک محسوس کیے جا سکتے تھے۔ مرحوم جوانی کی عمر کو پہنچے تو ہمارے خاندان میں شادی ہوئی۔ میری نانی اماں میرے دادا جان کی بھتیجی، ان کے بڑے بھائی میاں محمد مرحوم کی بیٹی تھیں۔
نانا جان کو زرعی زمین کا نصف حصہ ملنے کے بجائے تیسرا حصہ ملا۔ حافظ سلطان علی مرحوم نے ہمارے ہاں کے عرف کے مطابق ایک حصہ اپنا رکھا اور ایک ایک حصہ دونوں بیٹوںحافظ فضل الٰہی اور (دوسری بیوی سے اپنے صاحبزادے) میاں فتح محمد کو دے دیا جو اُن کے ساتھ رہتے تھے۔ گویا اُس زمانے میں چھوٹے بھائی کے تصرف میں زمین کا دو بٹا تین حصہ تھا۔ پھر یہ بھی کہ نانا جان کے حصے میں زمین کے وہ قطعے آئے جو نسبتاً کمزور تھے۔ ہماری نانی اماں اپنی ذہانت اور کفایت شعاری کے ساتھ اپنے میکے بالخصوص ہمارے دادا جان کی سرپرستی کی بدولت معاشی معاملات کو خوش اسلوبی سے چلا کرگزارا کرتی رہیں۔ مہمانوںکی آمد ایک سعادت اور اچھی بات ہوتی ہے مگر اس کے لیے بڑے وسائل درکار ہوتے ہیں جو ناپید تھے۔
جب ہمارے ماموں جان میاں سخی محمد اور حافظ غلام محمد جوان ہوئے تو حالات بدلنے لگے۔ ایک تو ہمارے ماموں صاحبان بہت محنتی تھے، دوسرے حافظ سلطان علی مرحوم کی وفات کے بعد زمین کی مساوی تقسیم کے نتیجے میں رقبہ بڑھ گیا۔ کوالٹی کے لحاظ سے بھی دونوں بھائیوں، حافظ فضل الٰہی اور میاں فتح محمد کے حصے یکساں ہوگئے۔ زمین کی پیداوار میں اور مویشیوں کی افزائش میں اللہ کی نصرت سے اس عرصے میں خاصا اضافہ ہوگیا۔ نانی اماں کی وفات کے سال اس گھر میں اللہ کا دیا سب کچھ وافر تھا۔ میرے دونوں ماموں صاحبان گائوں میں جماعت اسلامی کی دعوت پہنچتے ہی جماعت کے کارکن اور متفق بن گئے تھے۔ کچھ عرصے بعد میرے والد مرحوم اور دونوں ماموں صاحبان کے علاوہ مستری غلام رسول بھی جماعت کے رکن بن گئے۔ یوں گائوں میں مقامی جماعت کی تنظیم قائم ہوگئی ، جس کے امیر والد محترم منتخب ہوئے۔ دونوں بھائیوں کے حالات میری کتاب ’’عزیمت کے راہی‘‘ جلد چہارم میں از صفحہ200تا 210درج ہیں۔
نانا جان کی اولاد میں تین بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ سب سے بڑی ہماری خالہ فتح بیگم، پھر ہمارے ماموں نور محمد، اور ان کے بعد میری والدہ محترمہ فضل بی بی، ماموں سخی محمد، خالہ نور بی بی اور ماموں غلام محمد۔ ماموں نور محمد نے بچپن میں قرآن پاک حفظ کیا اور تراویح میں سنایا۔ لوگ کہتے تھے کہ حافظ نور محمد بہت خوب صورت بھی تھے، ان کی آواز سے بھی لحنِ دائودی کا تاثر ملتا تھا اور منزل بھی بہت اچھی طرح یاد تھی۔ اللہ کا فیصلہ یہی تھا کہ اس گھرانے کا یہ قابل اور ہونہار سپوت، حافظ قرآن جلد جنت مکین ہوجائے۔ چناںچہ حافظ نور محمد چھوٹی عمر میں چند دن بیمار رہے اور وفات پا گئے۔ ہماری خالہ نور بی بی بھی نوعمری میں وفات پا گئیں۔ باقی دو بہنیں اور دو بھائی اللہ کے فضل سے زندہ رہے اور بھرپور زندگی گزاری، اپنے پیچھے نیک اولاد چھوڑی اور نیک گواہیاں بھی اپنے حق میں چھوڑ گئے۔
ہماری بڑی خالہ بہت ذہین اور دانش مند خاتون تھیں، مگر اللہ کی رضا کہ وہ ایسی بیماری میں مبتلا ہوگئیں جس کا ہر طرح کا علاج کروانے کے باوجود صحت مند نہ ہوسکیں اور 56۔57 سال کی عمر میں اپنے پیچھے دو بیٹوں اور پانچ بیٹیوں کو چھوڑ کر اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ ان کی سب سے چھوٹی بیٹی ان کی وفات کے وقت آٹھ سال کی تھی۔ ہماری والدہ نے 58سال کی عمر میں اکتوبر 1978ء میں بروز عبدالاضحی وفات پائی اور اپنے پیچھے دو بیٹے، چار بیٹیاں چھوڑ گئیں۔ اللہ تعالیٰ دونوں بہنوں کو جنت میں اعلیٰ مقام عطافرمائے۔
ماموں جان سخی محمد اور غلام محمد دونوں رکن جماعت ہونے سے پہلے بھی انتہائی نیک سیرت اور عبادت گزار تھے، بھرپور زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہوئے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے ہم عمر بزرگوں نے ان کی جوانی کے واقعات سنائے تو دل نے کہا وہ دونوں بھائی ’’درجوانی توبہ کردن شیوۂ پیغمبری‘‘ کے مصداق تھے۔ میاں سخی محمد صاحب کے ایک ہی بیٹے میاں عبدالماجد صاحب (رکن جماعت) ان کے جانشین ہیں۔ میاں عبدالماجد صاحب کے چار بیٹے ضیغم، سعد، ذوالکفل اور ذوالنون ہیں اور چاروں حافظِ قرآن ہیں۔ ان میں سے ایک بیٹا حافظ ذوالکفل بالکل نوعمری میں ڈیڑھ سال کا معصوم بچہ اور نوجوان بیوہ اپنے پیچھے چھوڑ کر وفات پا گیا۔اس کے حالات ’’عزیمت کے راہی‘‘ جلد نہم میں لکھے گئے ہیں۔
ماموں جی حافظ غلام محمد کا بھی ایک ہی بیٹا میاں خالد حسین ہے۔ خالد صاحب کا بھی بیٹا ایک ہی ہے۔ اس کا نام حافظ سیف اللہ خالد ہے جو انگلستان میں مقیم ہے۔ میاں خالد کو اللہ نے تین صاحبزادیاں عطا فرمائیں، مگر تینوں پیدائشی معذور تھیں۔ دو یکے بعد دیگرے جنت کو سدھار گئیں۔ تیسری بیٹی ابھی زندہ ہے۔ والدین نے اپنی معذور بچیوں کی جس بہترین انداز میں دیکھ بھال کی ہے، وہ ایک قابلِ تحسین اور منفرد مثال ہے۔ سبھی معذور بچیوں کو ایسی دیکھ بھال نصیب ہوئی کہ ہمیشہ صاف ستھری، نئے اور خوب صورت کپڑوں میں ملبوس نظر آتی تھیں۔ ان کو دیکھ کر ان کے والدین کی تحسین و تعریف ہر شخص کی زبان پر سنی جاتی۔ بیٹیاں تو ہر حال میں جنت کا پروانہ ہوتی ہیں، پھر معذور بچیاں اور ان کی ایسی خدمت! سبحان اللہ!!
(جاری ہے)