غزہ کی مزاحمت: اسرائیل کا آپریشن کاسٹ لیڈ(تیرہویں قسط)

کیا حماس کے کمانڈرز نے ایمبولینس کو لڑائی میں ایک ہتھیار یا جنگی سامان کی حیثیت سے استعمال نہیں کیا؟ کارڈزمین نے اپنی رپورٹ میں الزام لگایا کہ حماس نے اسرائیلی فوجیوں پر حملوں کے لیے ایمبولینس کا بھی سہارا لیا۔ انہوں نے کوئی ثبوت البتہ پیش نہیں کیا۔ اسرائیلی فوج نے اپنی بریفنگز میں الزام لگایا کہ حماس نے حملوں کے لیے انٹرنیشنل ریڈکراس اور ریڈ کریسنٹ کے نشان والی ایمبولینس استعمال کیں۔ ان بریفنگز میں کہا گیا کہ حماس نے اپنے جنگجو اور اسلحہ دونوں ایمبولینس کے ذریعے منتقل کیے۔ محاذ سے جنگجوؤں کو واپس لانے کے لیے بھی ایمبولینس استعمال کی گئیں۔ ایک اطالوی رپورٹر اور ایک ڈرائیور نے بتایا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ایک بار حماس نے ایک گاڑی کو روک کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی مگر ڈرائیور نے انکار کردیا۔ اسرائیل نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اسرائیلی فوج نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایمبولینس اور طبی سہولتوں سے جُڑی ہوئی دوسری گاڑیاں جنگ کے لیے استعمال ہورہی ہیں، کبھی انہیں نشانہ نہیں بنایا۔ اسرائیلی فوج نے ہر بریفنگ میں یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے کبھی ایمبولینس کو نشانہ نہیں بنایا۔ اس حوالے سے اسرائیلی میڈیا میں بھی بلند بانگ دعوے کیے جاتے رہے ہیں۔ اور یہ بات بھی انتہائی دلچسپ ہے کہ ایسے کسی بھی دعوے کا کبھی کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ 2006ء میں اسرائیل نے لبنان کی ایسی ایمبولینس کو بھی نشانہ بنایا تھا جس کے ایمبولینس ہونے کے بارے میں کسی کو شبہ نہیں ہوسکتا تھا۔ ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹس کے مطابق اس بات کا کبھی کوئی ثبوت نہیں ملا کہ حزب اللہ ملیشیا ایمبولینس کو اسرائیلی فوجیوں پر حملوں کے لیے استعمال کررہی ہے۔

آپریشن کاسٹ لیڈ کے حوالے سے جتنے بھی غیر جانب دار تجزیے کیے گئے ہیں اُن میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ حماس نے کسی ایمبولینس کو اسلحے کی ترسیل یا جنگجوؤں کی نقل و حرکت کے لیے استعمال کیا ہو۔ اس حوالے سے اسرائیلی میڈیا اور حکومت نے بہت بڑے پیمانے پر پروپیگنڈا کیا جس کے نتیجے میں عالمی برادری میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ حماس نے لڑائی کے دوران سویلین سیٹ اَپ کو بھی استعمال کیا۔ اسرائیل کی نیشنل ایمرجنسی میڈیکل، ڈیزاسٹر، ایمبولینس اینڈ بلڈ بینک سروس میگن ڈیوڈ ایڈم نے پوری دیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تصدیق کی کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ پیلسٹینین ریڈ کریسنٹ سوسائٹی کی ایمبولینسوں میں ہتھیار یا کوئی اور جنگی سامان منتقل کیا گیا ہو۔

اسرائیل نے یہ پروپیگنڈا بھی کیا کہ حماس نے لڑائی کے دوران اسپتالوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ حماس کے جنگجو اسپتالوں سمیت علاج کے تمام مراکز کو اپنے اہداف کے حصول کے لیے بروئے کار لاتے رہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ اسرائیلی حکومت اور میڈیا نے حماس پر اسپتال اور علاج کے دیگر مراکز کے جنگی استعمال کا الزام تو عائد کیا تاہم اس حوالے سے کوئی ثبوت پیش کرنے کی زحمت گوارا نہ کی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے خود بھی تحقیقات کی اور دیکھا کہ حماس نے کسی بھی مقام پر کسی بھی اسپتال یا کلینک کو جنگ کے لیے استعمال نہیں کیا۔ اسرائیل نے یہ الزام بھی لگایا کہ اسپتالوں کو سیاسی اور عسکری عملے کے لوگوں کو چھپانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ گولڈ اسٹون رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے بھی کوئی ثبوت نہیں ملا، اور جو بھی الزامات اسرائیل نے لگائے وہ محض الزامات ہی تھے۔ کسی بھی فلسطینی گروپ یا تنظیم نے کسی اسپتال یا کلینک وغیرہ کو لڑائی کے دوران حملوں کے لیے چھپنے کے لیے استعمال نہیں کیا۔

یہ حقیقت بہت دلچسپ ہے کہ حماس کے حوالے سے اسرائیل نے جتنے بھی الزامات عائد کیے وہ سب کے سب ایک فلسطینی قیدی کے اقبالی بیان کا حصہ تھے۔ اسرائیلی تاریخ دان بینی مورس نے دعویٰ کیا کہ حماس نے غزہ میں شفا اسپتال کو کسی خوف کے بغیر اپنے ہیڈ کوارٹرز کے طور پر استعمال کیا، کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اسرائیلی فوج کسی اسپتال کو نشانہ نہیں بنائے گی۔

حماس کے خلاف اسرائیل کے بیشتر بیانات انتہائی جھوٹ پر مبنی تھے اور ان میں غیر معمولی تضاد بھی تھا۔ غیر جانب دار مبصرین نے سوال اٹھایا کہ اگر اسرائیل کا یہ دعویٰ درست تسلیم کرلیا جائے کہ اس نے یہ جانتے ہوئے بھی شفا اسپتال کو نشانہ نہیں بنایا کہ وہاں حماس کے قائدین چھپے ہوئے ہیں اور منصوبہ بندی میں مصروف ہیں تو پھر اسرائیل نے غزہ میں دوسرے اسپتالوں اور کلینکس کو نشانہ کیوں بنایا؟ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کے پاس غیر جانب دار مبصرین اور تجزیہ کاروں کے کسی سوال کا کوئی جواب نہ تھا کیونکہ اس نے واضح طور پر زیادتیاں کی تھیں، مظالم ڈھائے تھے۔ اسرائیلی حکومت نے بار بار یہ دعویٰ کیا کہ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ شفا اسپتال کی بیسمنٹ کو حماس کے ہیڈ کوارٹرز اور پلاننگ سینٹر کے طور پر استعمال کیا جارہا تھا، مگر اُس نے اس لیے اسپتال کو نشانہ نہیں بنایا کہ ایسی صورت میں وہاں زیرِ علاج شہری بھی جانی نقصان سے دوچار ہوسکتے تھے۔ دوسری طرف اسرائیل نے غزہ میں دیگر اسپتالوں کو نشانہ بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔ القدس اسپتال کی دو بالائی منزلیں مکمل طور پر تباہ کردی گئیں۔ الوفا اسپتال کو آٹھ گولوں، دو میزائلوں اور ہزاروں گولیوں سے نشانہ بنایا گیا۔ خان یونس میں یورپین اسپتال کو توپ خانے سے نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں اس کا نظام درہم برہم ہوگیا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسپتالوں کو گولے اور میزائل اس لیے لگے کہ اسرائیلی فوج حملوں کا جواب دے رہی تھی، جبکہ اسرائیلی فوج اور حکومت تو خود دعوے کرتی رہی ہیں کہ انہوں نے کسی بھی ایسے اسپتال کو نشانہ نہیں بنایا جس میں حماس کے جنگجوؤں نے پناہ لے رکھی ہو۔

ایسا نہیں ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں صرف سویلین آبادی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر انجام دی جانے والی سرگرمیوں کی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہو۔ اس نے پورے غزہ کے بنیادی ڈھانچے کو بھی بُری طرح نشانہ بنایا۔ اس کے نتیجے میں سڑکیں تباہ ہوگئیں، پُل گرگئے، پانی اور بجلی کا نظام غارت ہوگیا۔ غزہ کی آبادی کو لڑائی ختم ہونے کے بہت دن بعد تک پانی اور بجلی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑا۔ آپریشن کاسٹ لیڈ کے دوران اسرائیلی فوج نے غزہ میں 58 ہزار مکانات کو نقصان پہنچایا جن میں سے 6300 مکمل تباہ ہوگئے۔ ان مکانات کی تباہی یا انہیں پہنچنے والے نقصان کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کو طویل مدت تک مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ 280 اسکولوں کو نقصان پہنچا جن میں 18 مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔ جامعات کی 6 عمارتیں بھی تباہ ہوئیں۔ غزہ میں کنکریٹ بنانے والی 29 میں سے 22 فیکٹریاں تباہی سے دوچار ہوئیں جس کے نتیجے میں تعمیرِ نو کا کام بھی بُری طرح متاثر ہوا۔ مجموعی طور پر غزہ میں 1500 فیکٹریوں کو شدید نقصان پہنچا۔ فلسطینی اور غیر ملکی صحافیوں نے جن عمارتوں میں سکونت اختیار کی ہوئی تھی اُنہیں بھی نشانہ بنایا گیا۔ دو صحافی اور ان کے ساتھ چار دیگر افراد ہلاک ہوئے۔ آپریشن کاسٹ لیڈ کے ذریعے غزہ کے بنیادی ڈھانچے کو جو نقصان پہنچایا گیا اس کے نتیجے میں غزہ کی نصف سے زائد آبادی کو طویل مدت تک بجلی اور پانی کے علاوہ علاج کی سہولتوں سے محرومی کی حالت میں جینا پڑا۔ 190 گرین ہاؤس کمپلیکس، 80 فیصد فصلیں اور 20 فیصد زرعی اراضی تباہ ہوگئی۔ یہ سب کچھ ایسی حالت میں ہوا جب اسرائیلی فوج یہ دعوے کرتے نہیں تھک رہی تھی کہ اس نے کسی بھی عمارت کو نشانہ بنانے سے پہلے کئی بار کراس چیک کیا کہ وہ فوجی مقاصد کے لیے استعمال کی جارہی ہے یا نہیں، اور یہ بھی کہ وہاں سے اسرائیلی فوج کو نشانہ بنایا بھی جارہا ہے یا نہیں۔ یہ بات کئی ذرائع سے ثابت ہوگئی کہ اسرائیل نے جان بوجھ کر غزہ میں ایسی عمارتوں کو نشانہ بنایا جن کے تباہ ہونے سے شہریوں کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا تھا اور ہوا۔ فلور ملز کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔ ان کی تباہی سے پورے غزہ میں آٹے کا بحران پیدا ہوا۔ گولڈاسٹون رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسرائیلی فوج نے دانستہ ایسی عمارتوں کو نشانہ بنایا جن کے نہ ہونے سے معاشی مشکلات بڑھ سکتی تھیں۔ یہی سبب ہے کہ آپریشن کاسٹ لیڈ کے ختم ہونے کے بعد بھی کئی ماہ تک فلسطینیوں کو مجموعی طور پر غیر معمولی مشکلات کے ساتھ جینا پڑا۔ ایک طرف پورے غزہ میں بجلی اور پانی کا نظام تباہ کردیا گیا تھا اور دوسری طرف بنیادی ڈھانچے کی تباہی کے باعث وہاں معاشی سرگرمیاں بھی بالکل ٹھپ ہوکر رہ گئی تھیں۔ بے روزگاری اور افلاس نے غزہ کے شہریوں کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کردیا۔ کارڈزمین نے جتنے بھی دعوے کیے وہ سب جھوٹ نکلے۔ اس نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ اسرائیلی فوج نے خوب کراس چیکنگ کے بعد کسی بھی عمارت کو نشانہ بنایا۔ غزہ کو 10 فیصد کی حد تک انڈے فراہم کرنے والے ایک فارم کو جان بوجھ کو نشانہ بنایا گیا تاکہ خوراک کی قلت سے دوچار افراد کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو۔ جدید ترین سہولتوں سے آراستہ کوئی فوج کسی پولٹری فارم کو پہچاننے میں غلطی کرسکتی ہے؟ ایسا کوئی بھی دعویٰ محض ہدفِ تمسخر ہی بنے گا۔ گولڈاسٹون رپورٹ میں درج ہے کہ جو کچھ بھی سویلین بنیادی ڈھانچے کے ساتھ اسرائیلی فوج نے کیا اُسے کسی بھی طرح کی فوجی ضرورت کے تحت درست ثابت نہیں کیا جاسکتا، کوئی ٹھوس جواز پیش نہیں کیا جاسکتا۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام نے بتایا کہ آپریشن کاسٹ لیڈ کے دوران چار ہزار مویشی، بھیڑیں، بکریاں اور دس لاکھ سے زائد پرندے اور مرغیاں تلف ہوئیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ غزہ میں لائیو اسٹاک اسرائیلی فوجیوں کا ترجیحی نشانہ تھا۔ اس کا بنیادی جواز اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ اسرائیل چاہتا تھا کہ غزہ میں خوراک کا بحران پیدا ہو اور افلاس سے ہارے ہوئے لوگ جنگی تباہی کے بعد بھوک سے مریں؟ ہر سطح کی تحقیقات کے دوران اسرائیلی حکومت اور فوج نے شہریوں پر گولہ باری، بمباری اور لائیو اسٹاک کو نشانہ بنانے کا جواز یہ کہتے ہوئے پیش کیا کہ اس کے سوا چارہ نہ تھا۔

آپریشن کاسٹ لیڈ کے ہاتھوں اسرائیل کے سویلین بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والا براہِ راست نقصان 66 سے 90 کروڑ ڈالر تھا جبکہ پورے غزہ کی معاشی سرگرمیوں میں خلل واقع ہونے سے پہنچنے والا نقصان تقریباً ساڑھے تین ارب ڈالر کے مساوی تھا۔

اسرائیلی فوج نے غزہ کے خلاف فوجی آپریشن کے دوران انتہائی بے شرمی اور سفاکی سے طاقت کا جو مظاہرہ کیا اُس کے نتیجے میں کم و بیش 6 لاکھ میٹرک ٹن ملبہ پڑا رہ گیا۔

اسرائیلی فوجی افسران کے دل کو پھر بھی سکون نہیں ملا۔ حماس کے ہاتھوں اسرائیل کو پہنچنے والا نقصان ڈیڑھ کروڑ ڈالر سے زیادہ نہ تھا۔ اس کے باوجود میٹنگز میں یہ بات زور دے کر کہی گئی کہ فلسطینیوں کو سبق اچھی طرح سکھایا نہیں گیا، تباہی اس سے کہیں زیادہ ہونی چاہیے تھی! میٹنگز کے دوران اسرائیلی فوج کے ایک اعلیٰ افسر نے یہ بھی کہا کہ اب اگر کوئی بھی ملٹری آپریشن ہو تو تباہی ایسی ہونی چاہیے کہ غزہ کی بستی کا وجود ہی مٹ جائے اور یہ پورا علاقہ کسی پارکنگ لاٹ کا منظر پیش کرے۔

آپریشن کاسٹ لیڈ کے حوالے کسی کو اس بات میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ اس کا بنیادی مقصد فلسطینیوں میں زندہ رہنے کی لگن ختم کرنا تھا۔ شدید تباہی اور جانی و مالی نقصان کے ذریعے ان کے اعتماد کو ناقابلِ تلافی انداز سے متزلزل کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔
(جاری ہے)