پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کسی بھی حکومت کی کبھی بھی ترجیح نہیں رہی ہے
معروف کالم نگار نادر علی مغیری نے پیر 4 مارچ 2024ء کو کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر اپنے زیر نظر کالم میں سندھ کے جس اہم مسئلے پر اپنی توجہ مبذول کروائی ہے، اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دل چسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
’’تقریباً دو دہائی پیشتر اعلیٰ تعلیمی پاکستان کی جانب سے جامعات میں اساتذہ کی بھرتی اور ترقی کے لیے ایک نیا نظام متعارف کروایا گیا تھا، جس کے مطابق اساتذہ کو معیاری تحقیق کی بنیاد پر مقالوں کی طے کردہ تعداد کی بنیاد پر بطور استاد بھرتی کیا جائے گا اور ترقی ملا کرے گی۔ یہ فیصلہ دراصل عالمی رجحان کا حصہ تھا۔ ساری دنیا کی یونیورسٹیوں میں اسی طرح سے ہوتا ہے کہ یونیورسٹی کے استاد کا ایک معیار ہو، وہ تحقیقی ذہن کا مالک ہو اور معیاری تحقیق پر مبنی مقالہ لکھے تاکہ اعلیٰ تعلیمی میدان میں مطلوبہ نتائج حاصل ہوسکیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن اسلام آباد کی طرف سے نیا نظام متعارف کروانے کے باوجود تاحال اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے جس کی وجہ سے پاکستانی جامعات بھی اس مقام تک نہیں پہنچ سکی ہیں جس پر انہیں ہونا چاہیے تھا۔ 2007ء میں پرویزمشرف نے بھی کالج اور یونیورسٹی کے اساتذہ میں فرق واضح کرنے کے لیے یونیورسٹی میں بھرتی ہونے والے لیکچرار کو 17 ویں گریڈ سے 18 واں گریڈ دلا یا، اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ یونیورسٹی ٹیچر اپنی میدان میں مالی فکر کے بغیر تحقیق پر اپنی توجہ مرتکز کرے اور شام کو ٹیوشن وغیرہ پڑھاکر پیسے کمانے کے بجائے لیبارٹریز میں بیٹھ کر اپنے امور سرانجام دیا کرے۔ لیکن بدقسمتی سے اس طرح سے نہیں ہوسکا ہے۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد اور ایک آدھ دوسری جامعہ کے سوا ملک میں کوئی بھی ایسی سرکاری یونیورسٹی نہیں ہے جس میں معیاری تحقیق ہورہی ہو۔ اس لیے ہمارے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں کوئی بھی فرق نہیںہے، تو پھر آخر اساتذہ کو اتنے بڑے پیمانے پر مالی فوائد کی ادائیگی کس کام کی؟
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کسی بھی حکومت کی کبھی بھی ترجیح نہیں رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی 143 سرکاری یونیورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کے لیے ہر سال 66.3 ارب روپے مختص کیے جاتے ہیں۔ ان فنڈز کی تقسیم کے بعد دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بڑی یونیورسٹیوں کو کہیں جاکر سالانہ کُل بجٹ کا 20 تا 22 فیصد حصہ بہ مشکل مل پاتا ہے۔ اتنی قلیل رقم سے اتنی بڑی یونیورسٹیاں آخر کیا کرسکتی ہیں؟ ان تعلیمی اداروں میں کون سی معیاری تحقیق ہوگی اور یونیورسٹیاں کس طرح سے خوش حال ہوں گی؟ یہ فہم و ادراک سے بالاتر ہے۔ دیکھا جائے تو مالی سال 2023-24ء کے وفاقی بجٹ میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ میں 110 ارب روپے سے 136 ارب روپے تک معمولی اضافہ کیا گیا۔ مالی سال 2023-24ء کے لیے حکومت نے 138 جاری اور 28 نئی اسکیموں (ترقیاتی) کے لیے 59.7 ارب روپے مختص کیے تھے۔ اس کے علاوہ وزیراعظم کی لیپ ٹاپ اسکیم کے لیے 10 ارب روپے مختص ہوئے تھے۔ اسی طرح سے غیر ترقیاتی بجٹ کے لیے صرف 66.3 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ غیر ترقیاتی بجٹ وہ بجٹ ہے جس سے یونیورسٹیوں کے اسٹاف کو تنخواہوںکی مد میں ہر تیسرے مہینے گرانٹ کا اجرا ہوتا ہے۔ دستاویزات کے مطابق 28 نئی ترقیاتی اسکیموں کے لیے 69 ملین روپے مختص کیے گئے تھے۔ سندھ کی سرکاری یونیورسٹیوںکو دو کام لازماً کرنے چاہئیں، ایک یہ کہ ان اداروں کے وائس چانسلر باہم مل کر وزیراعلیٰ کو یہ باور کرائیں کہ اب صوبائی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ آئندہ مالی سال سے اپنی جامعات کے لیے کچھ فنڈ مختص کروائے۔ ان کے مقاصد کے حصول کے لیے بروقت بجٹ تجاویز تیار کرنے کی خاطر متعلقہ وزارت کو حکم نامہ دیا جانا ضروری ہے۔ دوسرا یہ کہ یونیورسٹیوں کے اساتذہ کی ترقیاں…… سے مختلف پراجیکٹس حاصل کرنے سے مشروط کی جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیچرز کی بھرتی کے لیے متعلقہ شعبوں کے سربراہوں، ڈائریکٹرز یا ڈینز کی مرضی کے بجائے خالصتاً میرٹ کو ہی ملحوظِ خاطر رکھا جائے۔ ماضی میں ملکی جامعات میں پریشر گروپس نے کس طرح سے ٹیچرز کی بھرتیاں کروائیں جس کی وجہ سے سندھ کی یونیورسٹیوں کے اندر تعلیم اور تحقیق کو کس قدر نقصان پہنچا؟ وہ سب کے سامنے ہے۔ حال ہی میں ایک یونیورسٹی کے سٹنگ وائس چانسلر سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ ایک سلیکشن بورڈ کے اجلاس کے دوران انھی کے شعبے کا ایک امیدوار انٹرویو دینے آیا جو غیر معمولی ذہین تھا، لیکن جب سلیکشن کا وقت آیا تو بیان کردہ شعبے کے سربراہ نے ایک لڑکی کو منتخب کرنے پر زور دیا جس کا انٹرویو ایوریج سے بھی کم ہوا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اس شعبے کے سربراہ نے پہلے ہی سے سلیکشن بورڈ میں آنے والے ایکسپرٹ اور دیگر ممبرز سے بھی سفارش کردی تھی۔ وی سی نے اعتراف کیا کہ سلیکشن بورڈ میں مذکورہ لڑکی کے نشانات (مارکس) تعداد میں زیادہ ہوجانے کی وجہ سے آخرکار اسی کا انتخاب ہوگیا، جب کہ بے حد ذہین نوجوان رہ گیا۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مالی چیلنج سمیت دورِ جدید کے تقاضوں اور مسابقت کے اس دور میں جامعات میں بھرتیوں اور ترقیوں کے عمل میں مذاق کرنے سے آخر نقصان کس کا ہوگا؟ یہ بات وائس چانسلرز کی سمجھ میں نہیں آتی۔ ایسے چیلنجز کی موجودگی میں یونیورسٹیوں کے ریسرچ کلچر پر حقیقی معنوں میں دھیان دینا پڑے گا۔ حکومتِ سندھ نے کئی چھوٹی چھوٹی یونیورسٹیاں قائم تو کیں اور ان میں سیاسی بنیادوں پر نوکریاں بھی دی گئیں، لیکن ان چھوٹی یونیورسٹیوں کے قیام کا ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ سندھ یونیورسٹی جامشورو، شاہ لطیف یونیورسٹی خیرپور، مہران انجینئرنگ یونیورسٹی نواب شاہ جیسی بڑی یونیورسٹیوں کو اب کم فنڈز مل رہے ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں بڑی جامعات کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے لیے تحقیقی میدان میں اچھے نتائج دینے والی فیکلٹی کو پروموٹ کرنا چاہیے۔ سیاست کے ذریعے انتظامی عہدوں پر آنے والے ذمہ داروں کو روکنے کے لیے اپنے اپنے شعبوں میں تحقیق پر دھیان دینا پڑے گا۔ وائس چانسلرز کو اپنے افسران پر اعتماد کرکے اہلیت کی بنیاد پر ان کی تقرری کرنی پڑے گی۔ سندھ کی تقریباً تمام جامعات میں افسران زیادہ متاثر طبقہ ہے جن کی نہ تو وقت پر ترقی ہوتی ہے اور نہ ہی انہیں میرٹ پر پوسٹنگ ہی ملتی ہیں۔ پروفیسر وی سیز سمجھتے ہیں کہ یونیورسٹیاں محض اساتذہ اور طلبہ و طالبات ہی کی وجہ سے ہیں، جب کہ یونیورسٹیوں کو چلانے والے افسران اور ملازمین کو صرف سپورٹنگ اسٹاف ہی سمجھا جارہا ہے۔ سندھ کی جامعات کو اپنی ترقی اور آگے بڑھنے کے لیے اپنے مالی ذرائع پیدا کرنے پڑیں گے۔ اس بارے میں محقق پروفیسرز کے ذریعے سندھ اور وفاق سے مختلف پراجیکٹس حاصل کرنے پڑیں گے۔ صوبائی حکومت سے بہترین ورکنگ کوآرڈینیشن تشکیل دے کر جامعات کے مالی حالات سے وزیراعلیٰ کو بروقت مطلع کرکے مزید فنڈز کے حصول کی سعی کرنی پڑے گی۔ مقابلے کے امتحان اور اس چیلنجنگ دور میں جامعات کو اپنا کلچر تبدیل کرنا پڑے گا۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں وی سیز کی تقرری کی سرچ کمیٹی میں چیف سیکرٹری اور تعلیم کے صوبائی سیکرٹری کو بھی شامل کرنا پڑے گا تاکہ مذکورہ کمیٹی اپنی من مانی کرکے وی سی کی تقرری نہ کرسکے۔ وی سیز کے لیے پی ایچ ڈی کی شرط فضول، غیر منطقی اور صرف پروفیسرز ہی کو موقع فراہم کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ وی سیز کے لیے قابلیت کا حامل ہونا، مالی معاملات کو سمجھنا، ادارے کو آگے لے کر چلنا، اساتذہ کی سیاست کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکنا، ادارے کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنا اور خود دور اندیش ہونا ضروری ہے۔آئندہ پندرہ برس کے لیے مؤثر پلاننگ کے حامل اور حکومت سے فنڈز لے کر جفاکشی کا مظاہرہ کرنے والے افراد کو جامعات میں وی سی رکھنا چاہیے تاکہ جامعات میں وہ چیلنجز کا باآسانی مقابلہ کرسکیں۔ دو سال قبل وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ جب جامشورو میں واقع اہم ایچ پنہور ٹرسٹ میں ایک تقریب میں آئے تھے تو اُس وقت کئی جامعات کے وائس چانسلرز بھی موجود تھے۔ اس موقع پر انہوں نے اپنی تقریر میں واضح الفاظ میں کہا تھا کہ سرچ کمیٹیاں صحیح کام کرنے کے بجائے انٹرویوز کرکے تین نام انہیں بھیجتی ہیں جنہیں دیکھ کر ان کا جی جل جاتا ہے، کیوں کہ ان میں انہیں کوئی بھی فرد اہل دکھائی نہیں دیتا، لیکن وہ اس کے باوجود کسی ایک کے نام کی منظوری دے دیتے ہیں۔ امید ہے کہ ایک مرتبہ پھر سے الیکشن میں منتخب شدہ وزیراعلیٰ سرچ کمیٹی اور وی سیز کی تقرری کے طریقہ کار کو بہتر بنانے کے لیے عملی قدم اٹھائیں گے۔ جامعات خاص طور پر بڑے تعلیمی اداروں کو معقول فنڈز فراہم کریں گے تاکہ ایک تو ریسرچ کلچر کو ترقی دی جاسکے اور پروان چڑھایا جاسکے، اور دوسرا یہ کہ داخلہ سمیت دوسری مختلف فیسوں میں اضافے کو روکا جاسکے۔ فیسیں اگر بہت زیادہ ہوں گی تو سندھ (دیہی) کے غریب شاگرد خصوصاً طالبات یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کرسکیں گی۔