اہلِ غزہ کا جہاد فی سبیل اللہ سے رمضان کا استقبال

ماہِ رمضان اسلام کی مکمل تعلیم کا عکس پیش کرتا ہے، جس کا مظہر مسلم معاشرے میں بسنے والے افراد کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں نظر آتا ہے۔ رمضان تربیت، تزکیہ، اصلاحِ معاملات کے ساتھ ساتھ جہاد فی سبیل اللہ کا مہینہ ہے جس کے ذریعے اس فکر کو زندہ رکھا جاتا ہے کہ جہاں اسلام نے اس ماہِ مبارک میں احسن انداز میں عبادات کی ادائیگی اور اپنے معاملات کو بہتر کرنے کا موقع فراہم کیا ہے، وہیں اس امر کی تربیت مقصود ہے کہ اس کے نظام کو غالب کرنے اور کفر کے نظام کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننے کے لیے اپنے آپ کو چاق چوبند رکھتے ہوئے عملاً اقدامات کرنےہیں۔ اس حوالے سے رسول اللہ ﷺ کا اسوہ اہلِ ایمان کے لیے قابلِ تقلید ہے کہ اس مقدس مہینے میں بھی اسلام کو غالب کرنے کے لیے غزوہ بدر،فتح مکہ، غزوہ حنین وغیرہ کے واقعات پیش آئے۔

عصرِ حاضر میں اس سنت کو زندہ کرنے کے لیے اہلِ غزہ پیش پیش ہیں، جو اِس سال کے رمضان کا استقبال جہاد فی سبیل اللہ سے کرتے ہوئے ہزاروں شہادتیں پیش کرچکے ہیں اور یہ سلسلہ تا دم تحریر جاری ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل وامریکہ کی بدمعاشی، کٹھور دلی اور مذہبی و سیاسی تعصب پورا عالم دیکھ چکا ہے۔ لیکن افسوس کہ 58 مسلم ممالک اور 88 لاکھ فوج ہونے کے باوجود غزہ کے بچے، خواتین، نوجوان اور بزرگ بھوک وپیاس میں اپنے رب کے حضور پیش ہورہے ہیں!

اس کرب کے عالم میں مجاہدین صبر و ثبات کی اعلیٰ مثال بنے ہوئے ہیں اور ظالم و جابر صہیونیوں کو آنکھیں دکھاتے ہوئے ان کی عسکری قوت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کررہے ہیں۔ مجاہدین کی عسکری کارروائیوں کے نتیجے میں ان کے ٹینک، میزائل، فوجی افسران تباہ و برباد ہورہے ہیں۔ اور وہ اس سلسلے کو اُس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک اسرائیل اپنا بوریا بستر نہ لپیٹ لے۔

معرکہ طوفانِ اقصیٰ کے چھٹے ماہ میں داخل ہونے پر 8مارچ 2024ء کو کتائب القسام کے ترجمان ابوعبیدہ نے خطاب کیا جس میں انہوں نے اپنے عوام اور مجاہدین کو سلامِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے خاتمے تک قتال جاری رہے گا۔ ان کی گفتگو کے مزید نکات درج ذیل ہیں :

”آج معرکہ طوفانِ اقصیٰ چھٹے مہینے میں داخل ہورہا ہے۔ دشمن ظلم وستم اور انسانیت کا قتل ِعام کرتے ہوئے بین الاقوامی قراردادوں کو روندتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے، جس کی پشت پر امریکی حکومت ہے۔ لیکن ہمارے عوام نے بزدل دشمن کے سامنے جس بہادری وجرات کا مظاہرہ کیا ہے تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔

بین الاقوامی قانونی ادارے جن کی ڈوریں امریکہ کے ہاتھ میں ہیں، مسلسل قابض اسرائیل کے جرائم پر پردہ ڈالتے ہوئے اس کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔ ان کے اسی ظالمانہ ومنافقانہ رویّے کی بنا پر معرکہ طوفانِ اقصیٰ کا آغاز کیا، اس لیے کہ فلسطین کی مزاحمتی تحریکوں نے یہ بھانپ لیا تھا کہ دشمن طاقت کی زبان ہی سے سمجھ سکتا ہے۔

اللہ رب العزت کی قوت اور اس کی مدد سے ہم دشمن سے قتال کرتے رہیں گے، اُن کو ہم اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھنے دیں گے، جب تک ہم اُن سے اپنا حق حاصل کرتے ہوئے اپنے مقدسات کو آزاد نہ کروالیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پورے عالم میں مسلمان رمضان المبارک کا استقبال کررہے ہیں، جبکہ اہلِ غزہ بے گناہ لوگوں کی شہادتیں پیش کرتے ہوئے اسلام کی چوٹی جہاد فی سبیل اللہ اور دشمن سے قتال کرتے ہوئے ماہِ مبارک کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔

پوری امتِ مسلمہ کے سامنے قابض اسرائیل مسجد اقصیٰ کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے نمازیوں پر ظلم وستم ڈھا رہا ہے، وہ اپنے عقیدے کے مطابق کہ ”مسجد اقصیٰ پر ہمارا حق ہے“ جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہم اس کے اسی ظلم کے خاتمے کے لیے میدانِ جہاد میں موجود ہیں اور اس کا مقابلہ کررہے ہیں، اس لیے کہ مسجد اقصیٰ کو آزاد کروانا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ اسی مقصد کے لیے ہمارے ہر گھر میں سے کوئی فرد شہادت کا مرتبہ حاصل کرچکا ہے، کوئی زخمی ہے اور کچھ دشمن کی قید میں ہیں۔

ہر مسلم کے لیے ناگزیر ہے کہ مسجد اقصیٰ آزاد کروانے میںاپنا مؤثر کردار اداکرے، بالخصوص ماہِ مبارک میں اس فریضے کو احسن انداز میں ادا کرنے کے لیے قومی وبین الاقوامی سطح پر مظاہرے کیے جائیں، مسجد اقصیٰ کے سلسلے میں یہود کے باطل عقید ے کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے ان کے منصوبے کو کامیاب نہ ہونے دیا جائے۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان صلح کے لیے کوششیں جاری ہیں، ہماری جانب سے درج ذیل شرائط پیش کی گئیں:

٭اسرائیل کلیتاً ہمارے علاقوں سے نکل جائے۔
٭مستقل طور پر جنگ بندی کا معاہدہ کیا جائے۔
٭ہمارے قیدیوں کو آزاد کیا جائے۔
٭ غزہ کی مسمار عمارتوں کو ازسرنو تعمیر کیا جائے۔

یہ شرائط ایسی ہیں جن کا تعلق انسانی حقوق سے ہے۔ دوسری جانب امریکی ادارے اس امر پر زور دے رہے ہیں کہ اسرائیل کے قیدیوں کو آزاد کردیا جائے، اُن کو اسرائیلی قیدی غزہ میں ہونے والی نسل کُشی سے زیادہ عزیز ہیں، جبکہ ہمارے ہزاروں قیدی دشمن کی قید میں ہیں۔ ہم کسی بھی صورت میں اپنے عوام کا خون رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔

دوسری جانب بیمار اور عقل سے پیدل اسرائیل نے اہلِ غزہ پر بھوک وپیاس کا سماں بپا کیا ہوا ہے، یہ سمجھتے ہوئے کہ اس کے نتیجے میں وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوجائے گا۔ ہم یہ بات واضح کردینا چاہتے ہیں کہ جس طرح ہمارے عوام بھوک وپیاس کی وجہ سے موت کے عالم میں ہیں اسی طرح دشمن کے قیدی بھی اسی کشمکش میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ ہم اسرائیلی قیدیوں کے سرپرستوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ تمہاری حکومت نے تمہیں دھوکے میں رکھا ہوا ہے کہ وہ صحیح سالم ہیں، ہم ان کو آزاد کروا لیں گے۔ ہم نے گیند تمہاری جھولی میں ڈال دی ہے، جو ان کو نجات دلوانا چاہتا ہے وہ ان کو بچالے۔“
ان کے خطاب سے اس امر کا یقین پختہ ہوتا ہے کہ مجاہدین اپنے مقصد کے حصول کے لیے ثابت قدم ہیں، اور اُس وقت تک وہ میدان سجائے رکھیں گے جب تک اسرائیل اپنا بوریا بستر نہیں لپیٹ لیتا۔ ان کی استقامت اور ثابت قدمی امت ِمسلمہ کے ہر فرد کے لیے نمونہ ہے کہ انہوں نے صرف اپنی مسجد اقصیٰ کی خاطر دنیا کی ہر شے کو قربان کردیا ہے، لیکن مجموعی طور پر مسلمان اپنے دین کی حفاظت اور اس پر عمل کرنے کے حوالے سے کمزور ہوئے جارہے ہیں۔

رمضان المبارک اسی کمزوری کو دور کرنے، ایمانی قوت کو بڑھانے، اور اللہ رب العزت کے راستے میں ہرقسم کی قربانی پیش کرنے کا داعیہ پیدا کرتا ہے۔ بحیثیت مسلم ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اس ماہ کے توسط سے اپنے تزکیے وتربیت کے ساتھ ساتھ اقامتِ دین کے لیے جدوجہد تیز کریں۔ اسی طرح مسجد اقصیٰ، کشمیر اور جہاں بھی مسلمان مظلوم ہیں، ان کی آزادی کے لیے کوشش کی جائے۔ nn