مارچ سے امیر جماعت اسلامی پاکستان اور دیگر راہنمائوں کا خطاب
جب سے اسرائیل نے حماس اور غزہ کے مسلمانوں کو اپنے نشانے پر رکھا ہوا ہے، اُس وقت سے پاکستان اور دنیا بھر کے مسلم ممالک کے سامنے غزہ کے بچوں، بوڑھوں، خواتین اور جوانوں کے بچائو کے لیے جماعت اسلامی پاکستان ایک متحرک آواز بنی ہوئی ہے۔ کراچی، لاہور، اسلام آباد اور ملک کے دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں اب تک سیکڑوں مظاہرے کیے جا چکے ہیں، اور غزہ کے عوام کے لیے خوراک، ادویہ اور ضروری سامان کی فراہمی کے لیے الخدمت فائونڈیشن دن رات ایک کیے ہوئے ہے۔ بلاشبہ اس وقت فلسطینی عوام پر اسرائیلی ظلم و سفاکی پر پوری دنیا کے حکمران خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، اور ان کی خاموشی ناجائز ریاست کے مظالم کو سپورٹ کررہی ہے۔
گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی اپیل پر غزہ مارچ ہوا۔ اس مارچ میں اسلام آباد اسمال چیمبر آف ٹریڈرز اینڈ انڈسٹریز کے صدر سجاد سرور، سابق سینئر نائب صدر طاہر آرائیں، سابق سینیئر نائب صدر عمعان شبیر عباسی، سابق صدر رانا محمد ایاز اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (ڈیموکریٹس) کوئٹہ کے صدر نعمت اللہ خان اور اسلام آباد کے صدر محمد طارق، راولپنڈی کے صدر محمد لطیف اور کھیوڑہ کے ملک فخر عباس نے اپنے وفود کے ہمراہ شرکت کی۔ ریلی میں اعلامیہ جماعت اسلامی شعبہ امورِ خارجہ کے ڈائریکٹر آصف لقمان قاضی نے پیش کیا۔ غزہ مارچ میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا کلیدی خطاب ہوا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ 27 رمضان المبارک کو ملک بھر سے امریکی سفارت خانے کی طرف ملین مارچ کریں گے۔ غزہ مارچ سے جماعت اسلامی کے مرکزی راہنمائوں میاںمحمد اسلم، سینیٹر مشتاق احمد، ڈاکٹر طارق سلیم، صوبائی سیکرٹری جنرل اقبال خان، مولانا عبدالواسع، امرائے اضلاع سید عارف شیرازی، نصراللہ رندھاوا، صدر جے آئی یوتھ پاکستان رسل خان بابر، صوبائی ناظم اسلامی جمعیت طلبہ شمالی پنجاب تصوّرحسین کاظمی، زبیرصفدرسمیت دیگر نے بھی اظہارِخیال کیا۔ مرد و خواتین، بچوں، بزرگوں اور نوجوانوں کی بڑی تعداد اس موقع پرشریک ہوئی اور اسرائیلی مظالم کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی۔غزہ مارچ ایمبیسی روڈ پر امریکی سفارت خانے کے قریب پہنچ کر ایک بڑے جلسہ عام کی شکل اختیار کرگیا۔ بڑی تعداد میں خواتین بچوں سمیت غزہ آزادی مارچ میں شریک ہوئیں۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے غزہ مارچ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’چاروں طرف ملک لوٹنے والے بیٹھے ہیں، اسمبلی اجلاسوں میں غزہ کا کوئی ذکر نہیں ہوتا، پارلیمنٹ میں بے جان قراردادیں پاس کی جاتی ہیں۔ جمعۃ الوداع کو امریکی سفارت خانے کی طرف مارچ کریں گے۔‘‘ فلسطین میں جاری اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاجی ریلی سے خطاب میں سراج الحق نے کہا کہ ’’25 لاکھ کی آبادی ایک بہت بڑی طاقت کے سامنے موجود ہے، فلسطینیوں نے ثابت کیا کہ ایمان کی طاقت اُس سے زیادہ ہے۔‘‘ غزہ مارچ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’او آئی سی صرف بیانات تک محدود ہے، پاکستانی قوم کے ذریعے جماعت اسلامی غزہ کے مظلوم مسلمانوں تک امدادی سامان کی ترسیل کی صورت میں عملی مدد کررہی ہے، پاکستان سے ایک ہزار ٹن خوراک، ادویہ، بستر و دیگرسامان فراہم کیا جاچکا ہے، مظلوم مسلمان بھائیوں اوربہنوں کی امداد اور اخلاقی وسیاسی مدد جاری رکھیں گے۔‘‘ سراج الحق نے کہا کہ ’’ایک طرف ایوانِ صدر میں حلف اٹھانے کی تقریب ہوئی، اور یہاں بھی ایک جلسے میں حلف ہورہا ہے جس میں فلسطین کی آزادی کا عہد کیا جارہا ہے، حکمرانوں سے پوچھنے آیا ہوں کہ نئی حکومت نے آزادیِ فلسطین کے لیے کوئی لائحہ عمل کیوں نہیں دیا؟ آصف علی زرداری، نوازشریف، شہبازشریف سب حلف اٹھاتے ہیں مگر اہلِ غزہ کو تباہی و بربادی سے بچانے کے لیے حکومت نے کسی عملی اقدام کا اعلان نہیں کیا۔ کور کمانڈرز کے بھی اجلاس ہوئے، ان میں بھی غزہ کو بچانے کے لیے کوئی لائحہ عمل نہیں ہوتا۔ خبردار کرتا ہوں کہ فلسطینیوں کی حمایت میں واشنگٹن میں ہونے والے احتجاج کے مظاہرین وائٹ ہاؤس میں داخل ہوگئے تھے۔ اب یہ ہماری مرضی ہوگی کہ غزہ ملین مارچ کے شرکاء ایوانِ صدر میں داخل ہوتے ہیں یا امریکی سفارت خانے میں۔ غزہ کو بچانے کے لیے فلسطینیوں نے غلیلوں اور پتھروں سے جہاد کا آغاز کیا تھا اور بڑی طاقت کو ناکام بنایا۔ اسرائیل غزہ پر ہیروشیما، ناگاساکی اور افغانستان سے زیادہ بارود برسا چکا ہے، تیس ہزار فلسطینی جن میں گیارہ ہزار بچے شامل ہیں، شہید ہوچکے ہیں، مگر ثابت قدم ہیں کہ ایمان کی طاقت لوہے کی طاقت سے زیادہ ہے۔ جہاد و شہادت ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم سے زیادہ طاقتور ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی سب نے تل ابیب جاکر اسرائیل کو دہشت گردی کے حوالے سے تھپکی دی مگر ہمارے بزدل حکمرانوں کو یہ توفیق نہیں ملی، مسلم ممالک کا ایک وزیراعظم، ایک صدر بھی غزہ نہ جاسکا۔ مسلم حکمران بھی اس انتظار میں ہیں کہ غزہ کی جدوجہد کب دم توڑتی ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ’’58 مسلم ممالک ہیں، پونے 2 ارب مسلمان ہیں، 74 لاکھ فوج ہے مگر غزہ کو ڈسپرین، بسکٹ، پیناڈول بھجوا کر سمجھتے ہیں کہ ذمہ داری ادا کردی۔ غزہ کے مظلوموں کو ان چیزوں کی نہیں بلکہ ہتھیاروں کی ضرورت ہے۔ فلسطین فنڈ اور مشترکہ فوج قائم کیوں نہیں کرتے؟ اسرائیل کا اقتصادی بائیکاٹ اور معاشی محاصرہ کیا جائے، مگر یہ دوستی اور تجارت کے لیے بے چین ہیں اور امریکہ سے مسئلے کے حل کا مطالبہ کررہے ہیں۔ امریکہ نے تو غزہ میں آگ لگائی ہے۔ یہی قاتل، یہی دہشت گرد اور یہی انسانیت کے دشمن ہیں۔ اسلامی ممالک کی افواج سے پوچھنا چاہتا ہوں نہ کشمیر کو بچا سکے، نہ فلسطین کے لیے کچھ کرتے ہیں، بار بار اپنے ممالک اور اپنے عوام کو ضرور فتح کرتے ہیں۔ اگر کٹتے مسلمانوں کے لیے میزائل، بم دفاعی قوت نہیں ہے تو ہم بھی اس دفاعی قوت کو اپنا نہیں سمجھتے۔ اسلامی فوجو! غزہ کا ساتھ دو، یہی غیرت کا راستہ ہے۔ امت کا ساتھ نہ دیا تو کوئی محفوظ نہیں رہے گا۔ چوروں کی موجودگی میں کس سے فلسطین اور کشمیر کی بات کریں! ایوانوں میں یہی چور بیٹھے ہیں، دو خاندان پاکستان پر مسلط ہیں جن کی موجودگی میں معیشت مضبوط ہوسکتی ہے نہ جغرافیہ، اقدار، ثقافت اور خزانہ محفوظ رہ سکتا ہے۔ ہر بار ان خاندانوں نے پاکستان کو لوٹا۔ یہ پیسے کی بنیاد پر سیاست کرتے ہیں، پولنگ اسٹیشن اور پولنگ عملہ خریدتے ہیں، لیکن اب ان خاندانوں کی یہ آخری باری ہے، پھر ان کی حکومت نہیں آئے گی، اسٹیبلشمنٹ کے تعاون سے یہ آخری وار کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ مارچ گزر رہا ہے، دونوں جماعتوں نے حکومت ملنے پر تین سو اور دو سو بجلی کے یونٹ مفت دینے کا اعلان کیا تھا، اب اگر یہ عملی اقدام نہیں کرتے تو صارفین تین سو اور دو سو یونٹ کے بل ادا نہ کریں۔ ان حکمرانوں کے خلاف کھڑے ہوجائیں، ان کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالیں۔ جھوٹ کی سیاست نہیں چلے گی، ہم گلیوں، کوچوں، چوکوں، چوراہوں میں رہ کر حقیقی حزبِ اختلاف کا کردار ادا کریں گے۔ ہماری جدوجہد پورے عزم کے ساتھ جاری رہے گی۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے غلام حکمران عالمی اسٹیبلشمنٹ کے سہارے چلنے والے لوگ ہیں۔‘‘
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ امریکہ اور یورپ کے عوام نے غزہ اور فلسطین کے عوام کا مسلمانوں سے زیادہ ساتھ دیا۔جماعت اسلامی نے غزہ میں اسرائیلی ظلم و سفاکی کے خلاف اسلام آباد میں احتجاجی مارچ کا انعقاد کیا۔ واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے خودسوزی نے امریکہ کا چہرہ بے نقاب کردیا ہے۔ غزہ کے لیے مسلم ممالک کیوں عالمی عدالتِ انصاف نہیں جا رہے؟انہوں نے کہا کہ امریکہ اور یورپ کی مذمت مگر اُن کے عوام کی تعریف کرتا ہوں۔امریکی و اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے۔ سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور نون لیگ اپنے راہنماؤں کے لیے جلسہ کرتی ہیں مگر اسرائیل کے خلاف نہیں۔