تعلیم کی اہمیت سے ہمارے اساتذہ اور ماہرینِ تعلیم کے سوا شاید ہی کوئی ناواقف ہو۔ اداکارہ ماہرہ خان سے لے کر ریڑھی والے تک سب تعلیم کی اہمیت سے بہ خوبی واقف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خدا کے فضل سے ہمارے یہاں ناخواندگی کی شرح میں سال بہ سال حوصلہ افزا اضافہ ہورہا ہے اور ریڑھی والے کی آمدنی اور ماہرہ خان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آرہی۔
تعلیم کے سلسلے میں موجود اسی عوامی شعور کا نتیجہ ہے کہ ہمارے یہاں تعلیم کے ساتھ بے شمار مقاصد وابستہ کیے جاتے ہیں جن کی فہرست اتنی طویل ہے کہ تعلیم پر خوامخواہ عورت ہونے کا گمان ہونے لگتا ہے ۔ تعلیم کے ساتھ وابستہ مقاصد کی فہرست دیکھ کر مجھ جیسا انسان بھی تعلیم کی اہمیت کا قائل ہوجاتا ہے اور سوچتا ہے کہ تعلیم حاصل نہ کی تو کیا، فلسفۂ تعلیم اور تعلیم کے مقاصد پر دوچار کالم تو گھسیٹ سکتا ہے۔ تو آیئے دیکھتے ہیں کہ ہمارے یہاں تعلیم کے ساتھ وابستہ چند اہم مقاصد کیا ہیں:
-1 مہذب انسان اور اچھے مسلمان بنانا
-2 اچھے پاکستانی پیدا کرنا
-3 اچھے شہری تیار کرنا
-4 ایمان دار تاجر و صنعت کار وغیرہ بنانا
اس فہرست میں آپ اس طرح کی جتنی سطور چاہیں بڑھا لیں، کیوں کہ ہماری زندگی کا ہر مقصد تعلیم کا مقصد ہے۔ یعنی ہر شے تعلیم کے حصول کی زد میں ہے۔ اب ذرا دیکھتے ہیں کہ ہماری تعلیم نے ان مقاصد کو کس طرح اور کہاں تک پورا کیا ہے۔
-1 ہماری تعلیم نے ایسے مسلمان پیدا کیے ہیں کہ جن کے ایمان پر حملہ کرنا ابلیس اپنی توہین سمجھتا ہے، اور ہماری تعلیم نے ایسے کافر پیدا کیے ہیں کہ ان سے فسادی مسلمان ہونا لاکھ درجہ بہتر ہے۔
-2 ہماری تعلیم نے ایسے مہذب لوگ پیدا کیے ہیں کہ جو فنونِ لطیفہ کو حرام اور انسانی لاشوں کے کاروبار کو کامیاب سیاست سمجھتے ہیں۔
-3 ایسے اچھے پاکستانی تیار کیے ہیں کہ اگر امریکہ ویزا عام کردے تو پاکستان کی آبادی چند ماہ میں ویٹی کن سٹی کے برابر رہ جائے۔
-4 ایسے ایمان دار تاجر و صنعت کار پیدا کیے ہیں کہ دوسرے ممالک جن کی مصنوعات کو دوبارہ درآمد کرنے کی ہمت نہیں کرتے۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اس کا میرے پاس ایک ہی جواب ہے، اور وہ یہ کہ ہمارے یہاں تعلیم کے جتنے مقاصد متعین کیے گئے ہیں ان میں تعلیم کا اہم ترین مقصد موجود نہیں۔ سوال یہ ہے کہ تعلیم کا یہ مقصد کیا ہے؟ یہ مقصد ہے طلبہ میں سوچنے کے عمل (Thinking Porcess) کا آغاز کرنا اور اسے درجہ بہ درجہ ترقی دینا۔ جب تک ہم اپنے تعلیم یافتہ افراد میں سوچنے کا عمل بیدار نہیں کریں گے تب تک نہ وہ اچھے انسان بنیں گے، نہ اچھے مسلمان… نہ اچھے پاکستانی بنیں گے، نہ اچھے تاجر۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سوچ کے عمل سے محروم افراد ترغیباتِ دنیا سے لڑنے کی سکت سے محروم ہوتے ہیں، اور دنیا انہیں اپنے جیسا بنانے میں بہت جلد کامیاب ہوجاتی ہے۔
عام ذہنی سطح کے حامل افراد میں سوچنے کے عمل کا آغاز بہت کم عمری سے ہونا چاہیے۔ اس کی دو وجوہات ہیں، ایک تو یہ کہ اوسط درجے یا اوسط درجے سے کم ذہنی صلاحیت رکھنے والے اذہان کے لیے مرحلہ بہ مرحلہ ذہنی ترقی سودمند رہتی ہے، ورنہ بصورتِ دیگر یا تو وہ ٹھس ہوکر رہ جاتے ہیں یا ترقی کے سلسلے میں ان کی قبولیت کی صلاحیت کند ہوکر رہ جاتی ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے بعض موٹر سائیکلیں اسٹارٹ ہونے کے بعد مرحلہ بہ مرحلہ مختلف گیئرز کا لگنا قبول کرسکتی ہے۔ یعنی ایک کے بعد دوسرا، دوسرے کے بعد تیسرا، اور تیسرے کے بعد ٹاپ۔ اگر آپ ایسی موٹر سائیکلوں کو اسٹارٹ کرتے ہی دوسرے یا تیسرے گیئر میں ڈالیں گے تو یا تو وہ فوراً بند ہوجائیں گی یا پھر شور مچائیں گی اور بے پناہ دھواں چھوڑیں گی، یا ممکن ہے اگر آپ کلچ کا مناسب استعمال نہ کریں تو آپ کو زمیں بوس کردیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اوسط درجے کے اذہان ایک مخصوص نظام کے تحت کام کرتے ہیں، اسی لیے وہ مرحلہ بہ مرحلہ ترقی کے محتاج ہوتے ہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر ایسے اذہان کو ابتدا میں سوچ کے بیج سے محروم رکھا جائے اور پھر خاصی عمر گزرنے کے بعد انہیں سوچ کا بیج فراہم کیا جائے تو اوّل تو وہ جڑ ہی نہیں پکڑے گا، اور اگر اس نے جڑ پکڑ لی تو وہ کسی اصولِ نمو کا پابند نہیں ہوگا۔ پیڑ ہوگا آم کا اور لگیں گے اس پر کریلے۔
اس کے علاوہ ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس کی سوچ میکانکی ہوکر رہ جائے۔ میکانکی سوچ کا مطلب یہ ہے کہ وہ تخلیقی نہیں ہوگی، اور جو سوچ تخلیقی نہ ہو وہ شیطان، کم ہمتوں، بے ایمانوں، احساسِ کمتری کے ماروں اور آمروں کے لیے ہی کارآمد ہوگی۔
سوال یہ ہے کہ سوچ یا فکر کی اس کے علاوہ اور کتنی قسمیں ہوسکتی ہیں اور ہمیں کس طرح کی سوچ کی ضرورت ہے؟ عرض ہے کہ سوچ کی دو بنیادی اقسام ہوتی ہیں۔ ایک وہ سوچ یا فکر جو اشیا، خیالات اور تصورات کو ذخیرہ کرنے کا کام انجام دیتی ہے، یا زیادہ سے زیادہ ان کے وقوع کا علم رکھتی ہے۔ جیسے کیا واقعہ ہوا؟ کس نے کیا کہا؟ یعنی یہ فکر بنیادی طور پر علم نہیں بلکہ معلومات فراہم کرنے کا کام انجام دیتی ہے۔ یہ ذہانت کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں ذہانت کے اسی درجے کو پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہمیں ایسی فکر (بے فکری) کی ضرورت نہیں ہے۔
فکر کی دوسری صورت وہ ہے جو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ مختلف اشیا و خیالات اور تصورات کی ماہیت کیا ہے؟ ان کے درمیان کیا رشتہ ہے؟ علاوہ ازیں یہ فکر ہمیں اشیا یا تصورات کے درمیان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کی صلاحیت بھی عطا کرتی ہے۔ اسے ہم تجزیاتی فکر کہہ سکتے ہیں۔ یہ فکر تخلیقی فکر کا حصہ ہوتی ہے، تاہم ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض لوگ تخلیقی فکر کے حامل نہیں ہوتے لیکن ان میں تجزیاتی فکر موجود ہوتی ہے۔ ہمیں ایسی ہی فکر کی ضرورت ہے۔ یہی وہ فکر ہے جسے ہمارے تعلیمی ادارے پرورش نہیں دے رہے۔ کیوں نہیں دے رہے؟ یہ ایک الگ کہانی ہے جسے ہم پھر کبھی سنائیں گے۔
مجھے اکثر اس بات پر غصہ آتا ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت علیؓ جیسے صحابہ کا تذکرہ ہوتا ہے تو ان کے زہد و تقویٰ کا، اُن کی راست بازی کا، اور اُن کی استقامت کا تذکرہ تو ہوتا ہے مگر اس بات کو نظرانداز کردیا جاتا ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت علیؓ ان خصوصیات کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے عہد کے سب سے بڑے دانش ور بھی تھے۔ یعنی صرف عظیم انسان ہی نہیں، عظیم سوچنے والے بھی تھے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ عمل فکر کا تابع ہوتا ہے۔ فکر جتنی بڑی ہوگی، عمل بھی اتنا ہی بڑا ہوگا۔ فکر جتنی صالح ہوگی عمل بھی اتنا ہی صالح ہوگا۔ خیال کی قوت ہی سب سے بڑی قوت ہے، اس کی اہمیت یہاں تک ہے کہ ہم سب گوشت پوست کے انسان ہونے کے علاوہ مختلف خیالات کی علامتیں ہیں۔ سچ پوچھیے تو آپ کی اور میری کوئی اہمیت نہیں۔ اہمیت اُس خیال کی ہے جو آپ کے اور میرے پاس ہے۔ چنانچہ ہمیں پرورشِ خیال پر توجہ دینی چاہیے۔ افسوس ہمارے تعلیمی ادارے پرورشِ خیال کے بجائے پرورشِ بے خیالی میں مصروف ہیں۔ ہمیں بھولنا نہیں چاہیے کہ جہالت شیطان کی سب سے بڑی ایجنٹ ہے۔ جاہل کا ایمان ہی نہیں کفر بھی خطرے میں رہتا ہے۔ آدمی اگر صاحبِ ایمان نہ ہو تو صاحبِ کفر ہی ہو۔ ایمان اور کفر کے بغیر بھی بھلا کوئی انسان ہوسکتا ہے؟