کشمیر… نریندر مودی کا نیا انتخابی تختۂ مشق؟

کشمیر میں بی جے پی کی حکومت قائم کرنے کے لیے اس قدر بے چینی بے سبب نہیں

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے مقبوضہ جموں وکشمیر کی شناخت چھینے جانے کے پانچویں برس سری نگر کا دورہ کیا ہے۔ اس دورے میں نریندر مودی ایک بدلے ہوئے انداز اور لہجے کے ساتھ سامنے آنے کی ایکٹنگ کررہے تھے۔ چھڑی کا بھرپور استعمال کرنے کے بعد اب اُن کے ہاتھ میں اسی چھڑی کے استعمال سے مضمحل اور گھائل کشمیری عوام کے لیے مراعات کی گاجر تھی۔ ان پانچ برسوں میں نریندرمودی نے کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے اور سیاسی طاقت کا توازن خراب کرنے کے لیے، اور آزادیِ اظہار، حریتِ فکر اور انسانی حقوق کی حمایت میں جلنے والی ہر شمع کو بجھادیا، اور اب وہ کشمیریوں کو اس تاریک ماحول میں ایک نئی صبح کا فریب دے رہے تھے۔

نریندر مودی نے کشمیریوں سے مکالمے کے لیے بخشی اسٹیڈیم کے ساتھ ساتھ درگاہ حضرت بل کو موضوعِ بحث بنانے کا انتخاب کیا تو اس سے اندازہ ہورہا ہے کہ بھارت کشمیری عوام کے عزم و حوصلے کو طاقت کے ذریعے توڑنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ اب نریندرمودی انہیں رام کرنے کے لیے نارنجی لباس کی جگہ سبز لباس پہننے پر مجبور ہوئے۔ نریندر مودی نے کشمیریوں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ وہ اُن کی نظریاتی، مذہبی اور ثقافتی شناخت کا احترام کرتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ نریندرمودی اور ان کے ساتھیوں کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگیا ہے کہ وہ بھارت کے ماضی کے حکمرانوں کی طرح کشمیریوں کو دھونس اور طاقت سے دبا نہیں سکتے، ان کے اندر ڈوب کر اُبھرنے کا جذبہ ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے انہوں نے اب کشمیریوں سے مکالمے کے لیے جامع مسجد سری نگر کے بعد کشمیر میں مسلم شناخت کی دوسری بڑی علامت حضرت بل میں آکر کشمیریوں کے جذبے اور جذبات کے آگے سرینڈر کا پیغام دیا۔ پنڈت نہرو سے اندراگاندھی تک بھارتی حکمرانوں کا کشمیرکی سرزمین پر کھڑے ہوکر کشمیریوں سے خوشنما وعدوں کا طویل ریکارڈ ہے، مگر یہ وعدے اور دعوے وقت کے ترازو پر تُلنے کا وقت آیا تو فریب ثابت ہوئے۔

نریندر مودی کو سری نگر کا دورہ کرنے میں پانچ برس کیوں لگے؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ شاید انہیں اندازہ تھا کہ کشمیر کا ماحول اُن کے دورے اور مکالمے کے لیے سازگار نہیں۔ کشمیریوں کے اصل موڈ کا اندازہ میڈیا پر پابندیوں کے باوجود سامنے آنے والی کچھ ویڈیوز سے ہوتا ہے۔ ایسے ہی ایک عوامی سروے میں دوکشمیریوں سے یہ سوال پوچھا جارہا ہے کہ کیا بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے کشمیر میں اسپیس بن گئی ہے جس کے بعد مودی نے کشمیریوں سے مخاطب ہونے کا فیصلہ کیا؟ تو ایک کشمیری نے طنزیہ ہنسی ہنستے ہوئے کہا ’’ایسا ہرگز نہیں، بی جے پی کا کشمیریوں سے کیا تعلق! اس کا ایجنڈا تو فرقہ واریت ہے‘‘۔ دوسرے کشمیری نے بھی انھی خیالات کا اظہارکرنے کے بعد کہا کہ ’’کشمیر کو دونوں ملک آزاد چھوڑ دیں۔ بھارت نے کشمیریوں کی زندگی عذاب بنادی، اُدھر جائیں گے تو بھی یہی حال ہوگا‘‘۔ کشمیر میں یہ سوچ نئی نہیں مگر پاکستان کے موجودہ حالات نے کشمیریوں کی سوچ کو کسی حد تک بدلنے کے عمل کا آغاز کیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کشمیریوں کا موڈ اور حالات آج بھی وہی ہیں، صرف اب انتخابی ضرورت کے تحت مودی ہندو ووٹر کے آگے خود کو فاتحِ کشمیر بناکر ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ نریندرمودی جس کشمیر کو سبز باغ دکھا رہے تھے یہ وہی کشمیر تھا جسے انہوں نے 5 اگست2019ء سے ایک جیل میں بدل ڈالا تھا۔ جس میں آج بھی آزاد ضمیر انسانوں کو پابہ زنجیر رکھا گیا ہے اور ایک بدترین آمریت کشمیریوں پر مسلط ہے۔ اس ریاست کو انہوں نے جھنڈے، دستور اور شناخت سے محروم کرکے تین حصوں میں بانٹ دیا ہے، اور ایک عشرے سے کشمیریوں کو نمائشی طور پر ہی سہی، ووٹ کا حق بھی حاصل نہیں۔ نریندرمودی جب کشمیریوں سے خطاب کررہے تھے تو اُن کے دائیں بائیں ہندو لیڈر دیوندر رینا اور گورنر منوج سنہا تھے۔ اس میں مسلمانوں کے لیے یہ پیغام تھا کہ اب جموں وکشمیر کی ڈرائیونگ سیٹ پر ہندو کا ہی حق ہوگا۔ نریندر مودی جس تصوراتی ترقی پذیر کشمیر کی بات کررہے تھے اُس میں علاقے اور اُس کے راستے کے تمام اسکول سیکورٹی کے نام پر بند کردیے گئے تھے، یہی نہیں بلکہ بورڈز کے امتحانات کو اگلے ماہ تک ملتوی کردیا گیا تھا۔ مخالف آواز تو درکنار… آزادانہ اور متوازن آواز بھی دبادی گئی ہے، اور اس ماحول میں ’سب اچھا‘ کا راگ الاپا جارہا تھا۔ نریندرمودی نے کشمیرکے لیے 64 سو کروڑ روپے کے ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کیا۔ ترغیب کا یہ عمل تو 75 برس سے جاری ہے، کیا انہیں اندازہ نہیں ہورہا کہ کشمیریوں کا مسئلہ اقتصادی نہیں ہے؟ بخشی غلام محمد کے دور میں پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا تھا، اب تو شعور وآگہی سے زیادہ لیس نسل سے ان کا واسطہ ہے۔ درگاہ حضرت بل میں آکر کشمیریوں سے مخاطب ہونا اس لیے ضروری سمجھا گیا کہ یہ کشمیری مسلمانوں کا تاریخی اور تہذیبی سیاسی پلیٹ فارم ہے۔ یہاں موئے مقدس اور اورنگزیب دور کی خانقاہ ہے۔ عمومی طور پر لال چوک یا بخشی اسٹیڈیم میں بھی اس طرح کی سرگرمیاں کی جاتی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ کشمیریوں نے مودی جیسے رام بھگت اور سخت گیر ہندو کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ ان کی تہذیب کے احترام کا تاثر دے… مگر یہاں بھی نریندر مودی نے اپنا اصل رنگ پھیکا نہیں پڑنے دیا۔ انہوں نے سری نگر کے فوجی ہیلی پیڈ سے سامنے پہاڑ کی چوٹی پر قائم شنکر اچاریہ کے مندر کی جانب رخ کرکے نمستے کہا۔ اس موقع پر اپنی تقریر میں آزادکشمیر کو بھی موضوعِ بحث بنایا، حالانکہ آزادکشمیر میں انسانی حقوق کی صورتِ حال کو بہتر بنانے کی بات کی کیا حیثیت؟ جبکہ مقبوضہ کشمیر کو مقتل بنادیا گیا ہے اور کشمیر اور بھارت کی جیلیں سیاسی قیدیوں سے بھری پڑی ہیں، اور سرن کوٹ کا حالیہ انسانیت سوز واقعہ بھارت کے دعووں کا ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ اس دورے کا اصل مقصد انتخابات ہی معلوم ہوتے ہیں، اور نریندرمودی پہلے توکشمیر کارڈ استعمال کرکے بھارت کے انتخابات جیتنا چاہتے ہیں، اور اس کے بعد اسی طاقت سے کشمیر میں جیسے تیسے انتخابات منعقد کرکے بی جے پی کا ہندو وزیراعلیٰ لانے کی کوشش کررہے ہیں۔کشمیر میں بی جے پی کی حکومت قائم کرنے کے لیے اس قدر بے چینی بے سبب نہیں، کیونکہ بھارت اس کے بعد کشمیر کے لیے اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد کرے گا…وہ ایجنڈاجس کے لیے ہندو انتہا پسندوں نے برسوں انتظار کیا تھا اور جس کا وہ مدتوں سے خواب دیکھتے چلے آئے ہیں۔