اسٹیبلشمنٹ کے سہارے کھڑا نیا سیاسی و حکومتی بندوبست

حکومت کی ناکامی محض حکومت کی ناکامی نہیں، بلکہ عملاً اسٹیبلشمنٹ کی بڑی ناکامی ہوگی،

وفاق سمیت چاروں صوبوں میں حکومتی نظام تشکیل دیا جاچکا ہے۔ آصف علی زرداری بھی ایک مفاہمتی یا بندوبستی نظام کے تحت نئے صدر بن گئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے پاس وفاق اور تین صوبوں کی حکمرانی ہے، اور مخلوط حکومت کا یہ نظام ایک خاص منصوبہ بندی اور حکمتِ عملی کے تحت ترتیب دیا گیا ہے، کیونکہ یہ عوامی مینڈیٹ سے زیادہ پہلے سے طے شدہ سیاسی بندوبست کا حامل نظام ہے، اور اس کا اوّلین مقصد ایک قوت یعنی پی ٹی آئی کو اقتدار کی سیاست سے دور رکھنا تھا، اور اس کھیل میں جو بھی کردار ہیں وہ مطمئن ہیں کہ ہم نے اپنی مرضی اورمنشا کے مطابق حکومتی نظام تشکیل دے دیا ہے۔ یہ سوچ بھی غالب ہے یا پیش کی جارہی ہے کہ ہر قیمت پر فیصلہ ساز سیاسی اور معاشی استحکام کو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ یعنی نظام یا حکومت کو چلانے کی خواہش حکومت سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کی ہے، کیونکہ حکومت کی ناکامی محض حکومت کی ناکامی نہیں، بلکہ عملاً اسٹیبلشمنٹ کی بڑی ناکامی ہوگی،کیونکہ جو سیاسی بندوبست انہوں نے ایک خاص سوچ کے ساتھ کیا ہے اگر وہ سیاسی اور معاشی طور پر آگے نہیں بڑھتا تو پھر ان کے لیے بھی مشکلات پیدا ہوں گی۔ اس وقت سب کے سامنے ایک بڑا چیلنج موجودہ سیاسی حکومتی نظام کے خلاف مزاحمت کار ہیں۔ یہ مزاحمت کار محض پی ٹی آئی تک محدود نہیں ہیں، بلکہ ان میں اب دیگر سیاسی قوتیں بھی شامل ہوگئی ہیں۔ ان قوتوں میں سردار اختر مینگل، محمود خان اچکزئی، مولانا فضل الرحمٰن، اسفند یار ولی خان اور جماعت اسلامی شامل ہیں۔ یہ قوتیں ایک طرف پارلیمان میں مضبوط اپوزیشن رکھتی ہیں، تو دوسری طرف ان جماعتوں کی پارلیمنٹ سے باہر بھی قوت موجود ہے، اور یہ اسٹریٹ پاور بھی رکھتی ہیں۔ ایک طرف دہائی یہ دی جارہی ہے کہ جو بھی سیاسی نظام تشکیل دیا گیا ہے اسے سب فریق یعنی حکومت اور حزبِ اختلاف مل کر قبول کرلیں اور متنازع امور میں الجھنے یا رکاوٹیں پیدا کرنے کے بجائے آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کیا جائے۔ لیکن دوسری طرف حکومت مخالف قوتیں کسی بھی صورت میں اس سیاسی نظام یا اس سیاسی بندوبست کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، اور ان کے بقول یہ حکومتی مینڈیٹ عوامی نہیں بلکہ مخصوص طاقت کا ہے جو عوام پر جبر کی بنیاد پر مسلط کیا گیا ہے۔ یہ وہ ٹکرائو ہے جو اس وقت حکومتی نظام کو درپیش ہے۔ حکومتی اراکین کا اپنا اعتماد بھی کمزور ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ہمیں کس بندوبست کی بنیاد پر لایا گیا ہے اورکیوں ہمیں اقتدار پر ہمارے نہ چاہتے ہوئے بھی بٹھایا جارہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے اس نظام میں اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے۔ ایک طرف سابق نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کو بلوچستان کا وزیراعلیٰ اور نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کو وفاقی سطح پر مشیر داخلہ بنایا جارہا ہے، جبکہ انعام کے طور پر وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی کی سینیٹ میں شمولیت یقینی بنائی گئی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی قوتوں کے مقابلے میں غیر سیاسی قوتیں زیادہ طاقت ور ہیں اور فیصلوں کا اصل اختیار بھی ان ہی کے پاس ہے۔ پیپلزپارٹی بظاہر خوش ہے کہ وہ سندھ کے ساتھ اپنے اقتدار کا دائرۂ کار بلوچستان تک بڑھاچکی ہے۔ آصف زرداری کو خاص اہمیت دی جارہی ہے کہ اُن کی قیادت میں پیپلزپارٹی اقتدار کے کھیل میں بڑے فریق کے طور پر شریک ہے۔پیپلز پارٹی ایک طرف سندھ اور دوسری طرف بلوچستان میں وزارتِ اعلیٰ، پنجاب اور کے پی کے میں گورنر، اور ایوانِ صدر میں آصف زرداری سمیت پنجاب اور مرکز میں مخلوط حکومتوں کا حصہ ہے۔لیکن اب کہا جارہا ہے کہ اس کھیل میں پیپلزپارٹی کو آگے جاکر سیاسی قیمت بھی ادا کرنی ہے۔ پہلی بارپیپلزپارٹی اور آصف زرداری کو کہنا پڑا کہ 18ویں ترمیم پیپلزپارٹی کا نہیں بلکہ پارلیمنٹ کا کارنامہ ہے۔ یعنی کچھ لوگوں کے بقول پیپلزپارٹی کو اس بات کا اندازہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ موجودہ شکل میں 18ویں ترمیم کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، اور آنے والے دنوں میں اس میں ترمیم کا پہلو بھی سامنے آسکتا ہے۔ دوسری طرف وفاقی حکومت کو ہر صورت نج کاری کی طرف بڑھنا ہے جبکہ پیپلزپارٹی ہمیشہ نج کاری کی مخالفت کرتی رہی ہے۔ اب اگر نج کاری کا عمل آگے بڑھتا ہے تو اس میں سہولت کاری پیپلزپارٹی کو بھی کرنی ہوگی جو یقینی طور پر اس کی پالیسی کے خلاف ہوگی۔اسی طرح پیپلزپارٹی کہہ رہی ہے کہ وہ فوری طور پر وفاقی حکومت کا حصہ نہیں بنے گی اورنہ ہی حکومت کی معاشی پالیسیوں کی ذمہ داری لے گی،لیکن جن لوگوں نے یہ اسٹیج سجایا ہے وہی پیپلزپارٹی کی وفاقی کابینہ میں شمولیت سمیت معاشی معاملات میں بھی اس کو ذمہ دار بنائیں گے۔ کیونکہ مسلم لیگ (ن) واضح طور پر یہ پیغام دے چکی ہے کہ پیپلزپارٹی کو اگر اقتدار کے اس کھیل میں ہمارے ساتھ شریک رہنا ہے تو پھر حکومت کی کامیابی کے ساتھ ساتھ ناکامی کی بھی ذمہ داری لینی ہوگی۔ جبکہ پیپلزپارٹی میں یہ سوچ بھی موجود ہے کہ جب ہم فوری طور پر حکومت کا حصہ نہیں بن رہے تو ہمیں آئی ایم ایف سے مذاکرات کی ٹیم کا بھی حصہ نہیں بننا چاہیے اور اس عمل میں مسلم لیگ (ن) کو ہی سیاسی لیڈ دی جائے تاکہ ہم پر اس معاہدے کا سیاسی اور معاشی بوجھ نہ پڑے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف حکومتی نظام مفاہمت کی پالیسی چاہتا ہے، اور چاہتا ہے کہ اس کے خلاف مزاحمت کی جتنی بھی سیاست ہے اس کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی بھی حزبِ اختلاف کو دعوت دے رہی ہے کہ وہ حالات کو بند گلی میں لے جانے کے بجائے مفاہمت کا راستہ اختیا ر کریں۔ حکومت میں کچھ لوگ میثاقِ جمہوریت اورکچھ لوگ بڑی شدت کے ساتھ میثاقِ معیشت کی بات کررہے ہیں۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف مفاہمت کی دعوت اور دوسری طرف سیاسی مخالفین کے خلاف منفی اقدامات کیے جارہے ہیں اور اُن کو سیاسی راستہ نہ دینے کا کھیل بھی جاری ہے۔ انتخابات اور حکومت کی تشکیل کے باوجود ابھی تک پی ٹی آئی کے بارے میں سخت گیر پالیسی میں نرمی دیکھنے کو نہیں مل رہی۔ نہ تو انتخابات میں دھاندلی کی بات تسلیم کی جارہی ہے اور نہ ہی پی ٹی آئی کے لوگوں کی جو گرفتاریاں ہیں اس میں ریلیف دیا جارہا ہے۔ جب بھی پی ٹی آئی احتجاج کا راستہ اختیار کرتی ہے تو اس کے خلاف قانون حرکت میں آتا ہے اور لوگوں کو وقتی طور پر گرفتار کرلیاجاتا ہے۔ عورتوں اوراقلیتوں کی مخصوص نشستیں بھی اس سے چھین لی گئی ہیں اورجو لوگ گرفتار ہیں ان کو بھی کوئی نیا ریلیف نہیں مل رہا۔ آئی ایس پی آر کے بقول جو لوگ بھی 9مئی میں ملوث ہیں ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا اور ان کوہر صورت کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔یہ صورتِ حال ظاہر کرتی ہے کہ حالات مفاہمت کے بجائے بگاڑ یاٹکرائو کی طرف گامزن ہیں، کوئی بھی سمجھوتے یا مفاہمت کا راستہ عملی بنیادو ں پر اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں۔یہ سوال بھی زیر بحث ہے کہ پی ٹی آئی کے بارے میں جو نرم پالیسی اختیار کرنی ہے کیا اس کا اختیار حکومت کے پاس ہے؟ یا وہ یہاں بھی بے اختیار ہے؟ کیونکہ اگر ریلیف کا اختیار حکومتی لوگوں کے پاس نہیں تو پھر یہ معاملات براہِ راست پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہی کھڑے رہیں گے۔ اِس بار حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو خاصا سخت ٹائم پی ٹی آئی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مل رہا ہے جو ٹکرائو کے نئے حالات بھی پیدا کررہا ہے۔ اصل مسئلہ یقینی طور پر معیشت کی بحالی کا ہے، لیکن معیشت کی بحالی کی ذمہ داری کوئی بھی براہِ راست لینے کے لیے تیار نہیں، اور اگر آئی ایم ایف سے ہونے والے نئے معاہدے کے باوجود بھی ہم مجموعی طور پر معاشی گرداب سے باہر نہ نکل سکے تو حالات میں مزید بگاڑ پیدا ہونا یقینی ہوگا، اور اس کا براہِ راست فائدہ حزبِ اختلاف کی سیاست کو ہوگا۔ کچھ لوگوں کے بقول جو حالات ہیں اُن میں حکومت کے لیے اچھی خبریں کم اور اپوزیشن کے لیے ان حالات میں دبائو بڑھانے کے زیادہ مواقع ہیں۔ یہی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے موجودہ سیاسی بندوبست کا اصل امتحان ہے کہ وہ معاشی معاملات پر کیسے کنٹرول کرتے ہیں۔ کیونکہ جب تک سیاسی معاملات میں کوئی بہتری یا ٹھیرائو نہیں آتا اُس وقت تک معاشی حالات کی درستی اتنی آسان نہیں ہوگی۔ حکومت کے اندر ایک بحث یہ چل رہی ہے کہ اگر سارے اختیارات حکومت کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہی رہنے ہیں تو ہمیں اس سارے سیاسی یا معاشی نظام کی ذمہ داری کیوں لینی پڑی ہے؟ خاص طور پر مسلم لیگ(ن) کا خیال ہے کہ پہلے سے ہی ہماری سیاسی اورجماعتی حالت خراب ہے اور موجودہ حکومت میں رہتے ہوئے جہاں ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں وہاں ہماری پوزیشن پہلے سے اور زیادہ خراب ہوگی۔اسی طرح یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ آئی ایم ایف سمیت دیگر مالیاتی ادارے اوربڑے عالمی یا برادر اسلامی ممالک سمیت امریکہ اور چین اس معاشی بحران سے باہر نکلنے کے لیے ہمیں کس حد تک بیل آئوٹ کریں گے۔کیونکہ اس وقت جو ہمارا سیاسی وحکومتی نظام ہے اس کا مکمل انحصار عالمی امداد پر ہے۔ اس صورت میں جب عالمی برادری یا مالیات سے جڑے ادار ے ہماری مالی مدد کریں گے تو اُن کا ایجنڈا ہی غالب ہوگا۔جبکہ ہم نہ سخت گیر پالیسی کے تحت بڑی اصلاحات کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی اس کمزور حکومتی ڈھانچے میں ہماری سیاسی پوزیشن اتنی مضبوط ہے کہ ہم کچھ غیر معمولی فیصلے کرسکیں۔ اس لیے حقیقت تو یہی ہے کہ حکومت خود بھی ایک بڑی مشکل کا شکار ہے، اس صورتِ حال میں عالمی برادری ہم پر دبائو ڈال کر اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوشش کرے گی جس سے ہماری مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ اسٹیبلشمنٹ کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ جو حکومت ہے اگر اُس نے حالات کی درستی اُن کی خواہش کے مطابق نہ کی اور ناکامی سے دوچار ہوئی تو وہ آگے جاکر اس ناکامی کو قبول کرنے کے بجائے اس کا ملبہ اسٹیبلشمنٹ پر ہی ڈالے گی کہ ہمیں حکومت تو دے دی گئی مگر اختیارات نہیں دیے گئے، اس لیے ناکامی کی ذمہ داری صرف ہم پر نہیں بلکہ فیصلہ سازوں پر بھی ہوگی۔ ان حالات میں ہمیں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بھی نیا ٹکرائو دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ دوسری طرف جو نئی حکومت بنی ہے اُسے وفاقی اور صوبائی سطح پر رمضان سے قبل مہنگائی کا ایک نیا طوفان جہیز میں ملا ہے۔ منافع خور اور ذخیرہ اندوز سرگرم ہوگئے ہیں اور روزمرہ کی اشیا کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے اورمنافع خوری کا کھیل غالب نظر آرہا ہے۔ بظاہر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ نظام کی تبدیلی کے ساتھ نئی حکومت کو لایا تو گیا ہے مگر حالات پہلے سے بھی زیادہ بگاڑ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ نظام کیسے چلے گا، یا کیسے آگے بڑھ سکے گا یہ بنیادی نوعیت کا سوال ہے، اور اس کے جواب کی تلاش میں حکومت ہو یا اپوزیشن یا فیصلہ ساز… سبھی سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں، مگر کوئی فوری معقول جواب نہیں مل رہا، اور بدقسمتی سے ہم ابھی بھی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ یہی ہماری سیاست کا المیہ بھی ہے۔