مارچ وطنِ عزیز میں بہار کی نوید لے کر آتا ہے۔ امسال یہ خوب حُسنِ اتفاق ہے کہ نیکیوںکا موسمِ بہار، رب رحمن و رحیم کی بے پایاں نعمتوں، رحمتوں اور برکتوں کا ماہِ مبارک ’رمضان المبارک‘ بھی اسی ماہ مارچ میں ہم پر سایہ فگن ہوچکا ہے۔ یہ انسانیت کے لیے عظیم ترین نعمت و رحمت، اللہ تعالیٰ کی آخری کتابِ ہدایت قرآن حکیم کے نزول کا مہینہ ہے۔ خود قرآن مجید میں خالقِ کائنات کا ارشاد ہے:
’’رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔ لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے اُس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے، اور جو کوئی مریض یا سفر پر ہو، تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا، اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جارہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔‘‘ (سورہ البقرہ: آیت 185)
اس فرمانِ خداوندی میں قرآن اور رمضان کا باہمی تعلق تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، اور یہ حقیقت نمایاں کی گئی ہے کہ قرآن حکیم حق وباطل کا فرق کھول کر بیان کرنے والی اور انسانوں کی راہِ راست کی طرف رہنمائی کرنے والی واضح تعلیمات پر مشتمل کتاب ہے۔ اسی کتابِ ہدایت میں روزوں کا مقصد پرہیزگاری یا تقوے کا حصول بتایا گیا۔ ہادیِ برحق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی وضاحت فرمائی ہے کہ ’’روزہ صرف کھانا پینا چھوڑ دینے کا نام نہیں، اصل روزہ تو یہ ہے کہ انسان بے ہودہ اور بے کار باتوں اور شہوانی گفتگو سے بچے، پس اے روزہ دار! اگر تجھے کوئی گالی دے یا جہالت پر اتر آئے تو (مشتعل ہوکر جوابی کارروائی کرنے کے بجائے) تُو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔‘‘ رسولِ رحمتؐ کے اس فرمان سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ روزہ انسان سے کس اعلیٰ درجے کے اخلاق، صبر اور تحمل کا تقاضا کرتا ہے۔ ضرورت ہے کہ رمضان المبارک میں ہم روزے رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کے دیگر تقاضوں پر بھی شعوری طور پر توجہ مبذول رکھیں، تاکہ روزے کا حقیقی مقصد یعنی تقوے کا حصول ہمارا مقدر بن سکے۔
رمضان المبارک نزولِ قرآن کا مہینہ ہے جس کا تقاضا ہے کہ کتابِ ہدایت سے تعلق مضبوط سے مضبوط تر بنایا جائے۔ رمضان المبارک میں قرآن حکیم کو صرف پڑھا ہی نہ جائے بلکہ اسے سمجھنے کا اہتمام بھی لازم ہے۔ اسے سمجھ کر اس پر عمل اور معاشرے میں اس کے نفاذ کی جدوجہد کا حصہ بنا جائے۔ اس کی تعلیمات کو جس قدر ہوسکے عام کیا جائے۔ رمضان المبارک، ہزار مہینوں سے افضل لیلۃ القدر کا مہینہ ہے۔ مخبرِ صادق، ہادیِ برحق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں اس شبِ قدر کی تلاش کی تلقین فرمائی ہے۔ رمضان المبارک ذاتی کردار نکھارنے اور تعمیر سیرت کا بہترین موقع ہے، انسان کوشش کرے تو سازگار ماحول اس کا معاون و مددگار ہوتا ہے۔ رمضان کریم ادائیگیِ زکوٰۃ کا مہینہ ہے۔ فطرانہ و صدقات کا مہینہ ہے۔ غریبوں، مسکینوں اور یتیموں سے ہمدردی و غم گساری کا مہینہ ہے، اس ماہِ مبارک میں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں تیز بارش کی طرح نازل ہوتی ہیں،ہر نیکی کا اجر دس سے ستّر بلکہ سات سو گنا تک بڑھا کر عطا کیا جاتا ہے۔یہ رحمتیں اور اجر سمیٹنے کا نہایت شاندار موقع ہے مگر محسنِ انسانیتؐ کا یہ ارشاد بھی فراموش نہیں کیا جانا چاہیے: ’’کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں جنہیں روزہ رکھنے سے سوائے پیاس اور بھوک کے کچھ حاصل نہیں ہوتا، اور کتنے ہی شب بیدار ایسے ہیں جنہیں بے خوابی کے سوا شب بیداری سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘ اللہ تعالیٰ ہمیں اس انجام سے محفوظ رکھے۔
رمضان المبارک مشقت اور تربیت کا مہینہ ہے، یہ آرام نہیں کام کا مہینہ ہے۔ روزہ رکھ کر آرام طلب ہو جانا ہمارے دین کی تعلیم نہیں۔ ہماری شاندار تاریخ گواہ ہے کہ اسلام اور کفر کا پہلا معرکہ ’جنگِ بدر‘ رمضان المبارک ہی میں پیش آیا جس میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے مومنوں کی مدد فرمائی اور فتح عظیم اس اوّلین معرکے میں مسلمانوں کا مقدر بنی۔ فتح ِمکہ کا ناقابلِ یقین واقعہ بھی رمضان المبارک ہی میں رونما ہوا… اور پھر ایک بہن کی پکار پر محمد بن قاسم نے دیبل کے راجا داہر کو رمضان المبارک ہی میں شکستِ فاش سے دوچار کیا۔ اسلام کی تاریخ رمضان المبارک میں معرکہ آرائیوں سے بھری ہوئی ہے۔ آج غزہ کی مائیں، بہنیں، بیٹیاں، معصوم بچے، محصور زخمی و بیمار اور کشمیر کے مظلوم مسلمان امتِ مسلمہ کی بے حسی پر نوحہ کناں ہیں، حالات کا تقاضا ہے کہ:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
مگر صورتِ احوال واقعی کچھ یوں ہے کہ:
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
(حامد ریاض ڈوگر)