روزہ اور ایمان و احتساب

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
” جو شخص رمضان کے روزے ایمان رکھ کر اور ثواب کی نیت سے رکھے
اس کے اگلے گناہ بخش دیئے جائیں گے“۔
(بخاری، جلد اوّل، کتاب ایمان، حدیث نمبر 37 )

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور احتساب کے ساتھ، تو اُس کے وہ سب گناہ معاف کردیے جائیں گے جو اس سے پہلے سرزد ہوئے ہوں گے۔ اور جس شخص نے رمضان میں قیام کیا (یعنی راتوں کو کھڑے ہوکر عبادت کی) ایمان اور احتساب کے ساتھ، تو معاف کردیے جائیں گے اُس کے وہ قصور جو اس نے پہلے کیے ہوں گے۔ اور جس شخص نے لیلۃ القدر میں قیام کیا، ایمان اور احتساب کے ساتھ، تو معاف کردیے جائیں گے اُس کے وہ سب گناہ جو اس نے پہلے کیے ہوں گے۔“(متفق علیہ)

’احتساب‘ اس چیز کا نام ہے کہ آدمی اپنے تمام نیک اعمال پر صرف اللہ تعالیٰ ہی کے اجر کا اُمیدوار ہو اور خالصتاً اسی کی رضاجوئی کے لیے کام کرے۔

اس حدیث میں گناہوں سے معافی کی جو خوش خبری سنائی گئی ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کرنے والے اور آخرت کی بازپُرس سے بے خوف ہیں ان کو اس بات کا لائسنس دیا جارہا ہے کہ میاں! رمضان کے روزے رکھ لو، تراویح پڑھ لو اور لیلۃ القدر میں کھڑے ہوکر عبادت کرلو، تو پچھلا حساب صاف، اور آگے پھر گیارہ مہینے تمھیں جو کچھ کرنا ہے کرتے رہنا۔ رشوتیں کھائو، لوگوں کے حق مارو، جو ظلم و ستم چاہو کرو، رمضان میں آگے پھر عبادت کے لیے کھڑے ہوجانا، روزے رکھ لینا اور نمازیں پڑھ لینا، اور پھر پہلے کا کیا ہوا سب معاف ہوجائے گا۔

اس طرح کی احادیث کا مطالعہ کرتے ہوئے اس بات کو کبھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ ان کے مخاطب کون لوگ ہیں؟ ان کے مخاطب وہ صلحاء و ابرار ہیں جو اپنی زندگیاں ہر وقت اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے مطابق بسر کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اُن سے اگر کوئی لغزش یا گناہ سرزد ہوجاتا تھا، تو ان کی نوعیت ایسی ہرگز نہیں ہوتی تھی کہ جیسے ایک آدمی پوری ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ گناہ کا ارتکاب کرے اور پھر اس پر ڈٹا رہے، بلکہ وہاں صورت اس سے یکسر مختلف تھی۔ ان راست باز لوگوں سے اگر کوئی قصور سرزد ہو بھی جاتا تھا تو وہ بشری کمزوری کی وجہ سے ہوتا تھا، اور وہ ہروقت اس پر توبہ کے لیے مستعد رہتے تھے۔ بشری کمزوری سے اگر کسی سے کوئی قصور سرزد ہوجائے اور وہ اس کے بعد نیکی اختیار کرے اور اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کو اپنا شعار بنائے رکھے تو وہ بجائے خود ایک توبہ ہے۔

’توبہ‘ کی ایک صورت تو یہ ہے کہ ایک آدمی سے کوئی گناہ سرزد ہوا اور اُس نے اس سے توبہ کرلی، تو یہ بات بھی گناہ کی معافی کا ایک ذریعہ ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ایک آدمی سے قصور سرزد ہوا اور پھر وہ دوسرے کاموں میں ایسا مشغول ہوا کہ توبہ کرنا بھول گیا، تو اس کے بعد اُس نے جو نماز پڑھی وہ نماز اُس کے لیے پہلے کی لغزش کو اس کے حساب سے صاف کردے گی۔ اسی طرح اگر اس نے روزہ رکھا تو وہ بھی اس کے گناہ کو صاف کردے گا۔ دراصل ’توبہ‘ اسی چیز کا نام تو ہے کہ ایک شخص ایک وقت میں ایک قصور کا مرتکب ہوا تھا، لیکن اس کے بعد وہ پھر اپنے ربّ کی طرف پلٹ آیا۔ جیسے ایک نوکر اگر اپنی کسی غلطی کی وجہ سے اپنے مالک کی اطاعت سے نکل جائے، لیکن پھر معافی مانگ لے اور خدمت پر حاضر ہوجائے، تو اس سے ایک دفعہ قصور سرزد ہوجانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مالک اُسے ہمیشہ کے لیے اپنی نوکری سے نکال دے گا، بلکہ جس وقت وہ آکر معافی مانگتا ہے اور پہلے کی طرح خدمت کرنے لگتا ہے، تو مالک اس سے درگزر کرے گا اور اس کی گزشتہ وفاداری کی وجہ سے اس پر پہلے کی طرح مہربان ہوجائے گا۔

ایسا ہی معاملہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے ساتھ ہے۔ بندہ اگر بنیادی طور پر اللہ تعالیٰ کا وفادار ہے اور جان بوجھ کر اس کے مقابلے میں استکبار اور سرکشی کرنے والا نہیں ہے، تو اگر اس سے کسی وقت کوئی قصور سرزد ہوجاتا ہے اور اس قصور کے بعد وہ پھر خدا کے دربار میں نماز کے لیے حاضر ہوجاتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اُس کو اپنی مغفرت سے محروم نہیں رکھے گا۔ کیونکہ اس کا طرزِعمل یہ بتاتا ہے کہ وہ ٹھوکر تو کھا گیا تھا، لیکن اپنے ربّ سے بھاگا نہیں تھا۔ اس کا باغی نہیں ہوگیا تھا۔ اسی بنا پر فرمایا گیا کہ اگر ایک شخص نے ایمان اور احتساب کے ساتھ روزے رکھے تو اس کے پچھلے گناہ معاف ہوگئے۔ رمضان میں راتوں کو کھڑے ہوکر عبادت کی تو وہ بھی پچھلے قصوروں کی معافی کا ذریعہ بن گئی۔ اسی طرح اگر وہ لیلۃ القدر میں عبادت کے لیے کھڑا ہوا تو اُس کا یہ عمل بھی اس کے پچھلے قصوروں کی معافی کا سبب بن گیا۔

روزے کی جزا
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابن آدم کا ہر عمل اس کے لیے کئی گنا بڑھایا جاتا ہے یہاں تک کہ ایک نیکی دس گنی تک اور دس گنی سے سات سو گنی تک بڑھائی جاتی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزے کا معاملہ اس سے جدا ہے، کیونکہ وہ میرے لیے ہے اور مَیں ہی اس کی جزا دوں گا۔ روزہ دار اپنی شہواتِ نفس اور اپنے کھانے پینے کو میرے لیے چھوڑتا ہے۔ روزہ دار کے لیے دو فرحتیں ہیں: ایک فرحت افطار کے وقت کی، اور دوسری فرحت اپنے ربّ سے ملاقات کے وقت کی…. اور روزے ڈھال ہیں، پس جب کوئی شخص تم میں سے روزے سے ہو تو اُسے چاہیے کہ نہ اُس میں بدکلامی کرے اور نہ دنگا فساد کرے۔ اگر کوئی شخص اس سے گالی گلوچ کرے یا لڑے تو وہ اس سے کہہ دے کہ بھائی مَیں روزے سے ہوں۔“ (متفق علیہ)

یہ جو فرمایا کہ دوسری نیکیاں تو دس گنی سے لے کر سات سو گنی تک بڑھائی جاتی ہیں لیکن روزے کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وہ میرے لیے ہے اور میں اُس کی جزا دوں گا، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسری نیکیاں اللہ کے لیے نہیں ہیں اور اللہ ان کی جزا نہیں دے گا، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق روزہ اس کے لیے خاص ہے اور وہ اس کی جتنی چاہے گا، جزا دے گا۔ جب یہ فرمایا کہ دوسری نیکیاں سات سو گنی تک بڑھائی جاتی ہیں اور اس کے مقابلے میں استثنیٰ کے ساتھ روزے کے متعلق فرمایا کہ مَیں ہی اس کی جزا دوں گا، تو اس سے مراد یہ ہے کہ روزے کے اجر کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ اور اللہ تعالیٰ جس قدر چاہے گا روزہ دار کو اس کا اجر دے گا۔