کشمیر کی آزادی پسند سیاست پر پابندی

انسداد دہشت گردی قانون کا اطلاق سیاسی کارکنوں پر کیا جارہا ہے

بھارت کشمیری عوام کے اعصاب توڑنے اور کشمیرکے تنازعے کو عوام میں زندہ رکھنے کی علَم بردار جماعتوں کو ایک ایک کرکے ممنوع قرار دینے کی حکمتِ عملی اپنائے ہوئے ہے۔ اس منصوبے کا مقصد کشمیری نوجوانوں کو آزاد ی اور حقِ خودارادیت کے مقصد سے مایوس کرنا ہے۔ اس نظریے کو آگے بڑھانے کا کام چونکہ حریت پسند سیاسی جماعتیں انجام دیتی رہی ہیں اس لیے بھارت کشمیر میں حریت پسند سیاست کے لیے اسپیس بتدریج تنگ اور آخر میں مکمل ختم کرنے پر عمل پیرا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے حریت کانفرنس اور اس کے دونوں دھڑوں کی اکائیوں کو مرحلہ وار پابندیوں کا شکار کیا جارہا ہے۔ اس کا ایک ثبوت بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کا ٹویٹر پر کیا جانے والا یہ اعلان ہے کہ مسلم کانفرنس کے دونوں دھڑوں پر پانچ سال کے لیے پابندی ہے۔

مسلم کانفرنس کے دودھڑے برسہا برس سے سیاست میں سرگرم ہیں جن میں سے ایک کی قیادت پروفیسر عبدالغنی بھٹ کے پاس تھی جو ریاست کے معروف دانشور اور ماہرِ تعلیم رہ چکے ہیں۔پروفیسر عبدالغنی بھٹ جنرل پرویزمشرف کے دور میں شروع ہونے والے پیس پروسیس کے سرگرم حامی تھے اور اس دوران کئی بار اسلام آباد اور دہلی کے اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کرچکے ہیں جن میں بھارت کے دووزرائے اعظم اٹل بہاری واجپائی اورمن موہن سنگھ شامل ہیں۔ اسی طرح حریت کانفرنس میرواعظ کے دوسرے راہنما اور محمد یاسین ملک بھی انھی دو وزرائے اعظم سے دہلی کے راشٹرپتی بھون میں مل چکے ہیں۔ اس پس منظر میں یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر یہ کشمیری لیڈر دہشت گرد تھے تو ان سے ملاقات کرنے والے بھارتی وزرائے اعظم کس سزا کے حق دار ہیں؟

پروفیسر عبدالغنی بھٹ اب پیرانہ سالی کا شکار ہیں اور عملی سرگرمیوں سے لاتعلق ہوچکے ہیں مگر بطور دانشور اور اسکالر اُن کا کشمیری سماج میں اپنا ایک مقام اب بھی قائم ہے۔ مسلم کانفرنس کے دوسرے دھڑے کی قیادت سابق رکن اسمبلی غلام نبی سمجھی کے پاس تھی۔ ان میں پروفیسر عبدالغنی بھٹ کو معتدل دھڑا سمجھا جاتا تھا جو حریت کانفرنس میر واعظ کے ساتھ وابستہ تھے، جبکہ غلام نبی سمجھی کو سخت گیر دھڑا سمجھا جاتا تھا اور وہ حریت کانفرنس سید علی گیلانی کا حصہ تھے۔ غلام نبی سمجھی 1987ء میں بھارت کی بدترین دھاندلی کے باوجود جیتنے والے مسلم متحدہ محاذ کے 4 ارکانِ اسمبلی میں شامل تھے۔ ان چار ارکان میں سید علی گیلانی، غلام نبی سمجھی، سعید شاہ (شبیر شاہ کے برادرِ اکبر) اور عبدالرزاق میر شامل تھے۔ ان انتخابات میں دھاندلی کے بعد کشمیری نوجوانوں نے بندوق اُٹھانے کا فیصلہ کیا تھا۔ کشمیر میں مسلح جدوجہد شروع ہوتے ہی مسلم متحدہ محاذ کے تین ارکانِ اسمبلی سید علی گیلانی، غلام نبی سمجھی اور محمد سعید شاہ نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔

اب بھارتی حکومت نے مسلم کانفرنس کے دونوں دھڑوں پر پانچ سال کے لیے پابندی کا اعلان کردیا۔ اس فیصلے کے لیے بھی غیر قانونی سرگرمیوں سے متعلق بھارت کے کالے قانونUnlawful activities prevention act(یو اے پی اے)کا سہارا لیا گیا۔ یہ انسداد دہشت گردی کا قانون ہے جس کا اطلاق سیاسی کارکنوں اور سیاسی جماعتوں پر کیا جارہا ہے۔ بھارتی حکومت کے اس فیصلے کی کشمیری حلقوں کی جانب سے مذمت کی جارہی ہے۔اس سے پہلے بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کے اسیر راہنما شبیر احمد شاہ کی جماعت ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی پر پانچ سال کے لیے پابندی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ پارٹی کے منقولہ وغیر منقولہ اثاثہ جات کو قبضے میں لینے کا فیصلہ کیا تھا۔بھارت کی وزارتِ داخلہ نے یہ پابندی عائد کرتے ہوئے جماعت پر پاکستان حمایت اور بھارت مخالف سرگرمیوں کا الزام عائد کیا تھا۔ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی کا قیام 1998ء میں شبیر احمد شاہ کی سربراہی میں عمل میں آیا تھا، اور اُس وقت سے یہ تنظیم حریت کانفرنس کی ایک سرگرم اکائی ہے۔پابندی کے اس آرڈر میں شبیر احمد شاہ پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ بار بار یہ کہتے ہیں کہ کشمیر ایک متنازع مسئلہ ہے اور اس کا حل دستورِ ہند کے دائرے میں نہیں نکالا جا سکتا۔اس طرح وہ دستورِ ہند کو تسلیم نہیں کرتے اور اس کے علاوہ بھی وہ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں جو بغاوت کے زمرے میں آتی ہیں۔اس جماعت کے کارکن بھی بھارت مخالف تحریک میں پیش پیش ہوتے ہیں۔

شبیر احمد شاہ کو انسانی حقوق کے عالمی ادارے ضمیر کا قیدی قرار دے چکے ہیں ا ور وہ 2017ء سے مقید ہیں۔شبیر احمد شاہ کشمیر میں طویل ترین قید کاٹنے والے راہنما ہیں اور اُن قیدیوں میں شامل ہیں جن کے ساتھ جیلوں میں ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔زندگی کا زیادہ تر حصہ جیلوں میں گزارنے والے شبیر احمد شاہ 1990ء کی دہائی کے آغاز میں کشمیر کے مقبول ترین راہنما تھے، بعد میں بھارتی حکومت نے انہیں جیل میں بند کردیا۔شبیر احمد شاہ کے اہلِ خانہ ان کی صحت کے حوالے سے اکثر خدشات اور خطرات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ ٖ

ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی سے پہلے جماعت اسلامی، پیپلزلیگ، جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ سمیت آزادی اور حریت کی بات کرنے والی کئی تنظیموں کو ممنوع قرار دیا جا چکا ہے اور ان سب جماعتوں کے قائدین اور کارکن جیلوں میں بند ہیں۔ جماعت اسلامی پر پابندی کی مدت میں مزید پانچ سال کی توسیع بھی حال ہی میں کی گئی ہے، اور اس کی تمام منقولہ و غیر منقولہ جائدادوں اور اثاثوں کو بھی حکومت نے اپنی تحویل میں لے رکھا ہے۔ جماعت اسلامی کشمیر میں تعلیمی اور فلاحی پروجیکٹس کا ایک بڑا نیٹ ورک چلارہی تھی جس سے سیکڑوں افراد وابستہ تھے۔یہ زیر زمین کے بجائے تعلیمی اداروں،صحت مراکز اور امدادی تنظیموں کی صورت میں برسرِ زمین نظام تھا جسے غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ یاسین ملک بھی تہاڑ جیل میں پابندِ سلاسل ہیں اور ان کی صحت بھی گر چکی ہے۔ یاسین ملک مسلح جدوجہد کے بانی ضرور ہیں مگر وہ 1990ء کی دہائی کے وسط میں ہی اعلانیہ طور پر بھارت کے معروف صحافی اورسفارت کار آنجہانی کلدیپ نیر کی موجودگی میں مسلح جدوجہد ترک کرچکے تھے۔ اسی طرح جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ ایک مکمل سیاسی اور پُرامن مزاحمت کی علَم بردار سیاسی جماعت کے طور پر اپنا وجود منواچکی ہے۔

حریت پسند سیاسی جماعتوں پرپابندی کا سلسلہ اب دراز ہورہا ہے اور ان جماعتوں پر غیر قانونی سرگرمیوں کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیرکی تمام حریت پسند جماعتیں عسکریت سے دور ہیں اور ان میں کسی سیاسی جماعت کا کوئی عسکری بازو بھی نہیں، اس کے باوجود کشمیریوں کی پُرامن آوازوں کو دبانا سوسائٹی میں خوف پیدا کرنے کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ کشمیری عوام کو آزادی پسندانہ جذبات اور جماعتوں سے مایوس کرکے بھارتی قبضے کی حقیقت کو تسلیم کرنے پر آمادہ کرنے کی یہ سوچی سمجھی اسکیم ہے۔ عملی طور پر کشمیرمیں آزادی پسند جماعتوں پر پابندی ہے کیونکہ نہ تو کشمیر کے حوالے سے انہیں کوئی سرگرمی کرنے دی جا رہی ہے اور نہ ہی وہ اپنا کوئی اجتماع منعقد کر سکتی ہیں۔اس کے باوجود ان جماعتوں پر پابندی کے اعلانات کشمیریوں کے آزادی پسند ذہن کو حالات اور مستقبل کے منظرنامے سے مایوس کرنے کی خاطر کیے جا رہے ہیں۔ یوں بھی کشمیرمیں سیاسی جماعتوں پر پابندی کوئی نئی بات نہیں۔مسلم کانفرنس، نیشنل کانفرنس اور جماعت اسلامی سمیت کئی سیاسی جماعتوں کو 1947ء کے بعد مختلف ادوار میں پابندیوں کے عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ شیخ محمد عبداللہ کی اسیری کے دوران دہائیوں تک نیشنل کانفرنس نے محاذِ رائے شماری کے پلیٹ فارم سے مزاحمتی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ اس طرح بھارت کشمیری عوام کو جھکانے اور دبانے کے لیے ماضی کی غلطیوں اور تجربات پر اصرار جاری رکھے ہوئے ہے۔